اس وقت دنیا بھر میں امریکی عوام
کی جانب سےایک سیاہ فام شخص ’’اوباما ‘‘کو صدر منتخب کرنے کے فیصلے کو نہ صرف
زبر دست خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے بلکہ اسے ایک انقلابی تبدیلی کے لیے سنگ
میل قرار دیا جارہا ہے ۔ ایسے حالات میں وہ لمحہ کس قدر قابل رشک ہوگا،جب ہاورڈ
یونیورسٹی کی 360 سالہ تاریخ میں تیسری بار کسی شخصیت کو ’’میڈل آف فریڈم‘‘سے
نوازا جارہا ہوگا۔ اور وہ وقت کتنا قابل رشک ہوگا، پاکستان اور پاکستانی قوم کے
لیے جب یہ ’’میڈل آف فریڈم‘‘پاکستان کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری وصول
کریں گے ۔ یاد رہے کہ اس ’’میڈل آف فریڈم‘‘ کے ساتھ ساتھ انہیں دنیا کی سب سے
بڑی بار ’’نیویارک بار ‘‘ کی جانب سے تاحیات رکنیت بھی دی جائے گی۔ لیکن یہ
تمام باعث صد افتخار لمحات پاکستان میں کچھ لوگوں کے دلوں میں حسد اور نفرت کی
آگ کے ’’بھانبڑ‘‘ مچارہے ہوں گے ۔ وہ ٹی اسکرین کے سامنے بیٹھ کر جب یہ مناظر
اپنی آنکھوں سے دیکھنے پر مجبور ہوں گے تو ان کے بگڑے ہوئے دماغوں میں سوچوں کے
یہ کیڑے کلبلا رہے ہوں گے کہ حد سے بڑھ کر امریکہ کی غلامی تو ہم نے کی لیکن
عزت کسی اور کو دی جارہی ہے ۔ امریکہ کے کہنے پر ہم نےاپنے ’’محسن‘‘ طالبان پر
پاکستان کی زمین تنگ کردی ، لیکن نوازا کسی اور کو جارہا ہے ۔انہیں کون سمجھائے
یا بتائے کہ تاریخ میں عزت اور مقام اُسے ملتا ہے، جوسچ کی خاطر زہر کا پیالہ
پیتا ہے، جو سولی پر چڑھ کر بھی ’’اناالحق‘‘ کی صدائیں بلند کرتا رہتا ہے۔’’میر
جعفراور میر صادق‘‘ کے نقش قدم پر چلنے والوں کو اسی انجام سے دوچار ہونا پڑتا
ہے ،جس انجام سے پاکستان کی تاریخ کے بدترین آمر ہوئے ہیں یعنی پھرتے ہیں میر
خوار کوئی پوچھتا نہیں
دکھ اور افسوس تو یہ ہے کہ وہ لوگ جو آج بھی اس بات کے دعویدار ہیں کہ عدلیہ
بحالی تحریک میں ان کی جماعت’’پیپلز پارٹی‘‘ نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں،
اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر انہی پالیسیوں پر چل رہے ہیں، جن پالیسیوں سے
نجات پانے کے لیے 18فروری کوعوام نے انہیں بھاری مینیڈیٹ دیا۔ آج ’’پیپلز
پارٹی‘‘وزراء، مشیر اور رہنما معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے
حوالے سے وہی باتیں اور دلیلیں پیش کر رہے ہیں ،جو اس قبل ’’مشرف حکومت‘‘ کے
وزراء اور مشیر کہا کرتے تھے۔ اگر ’’پیپلز پارٹی‘‘وزراء، مشیر اور رہنما سمجھتے
ہیں عوام ان کی جماعت کی قربانیوں اور جدوجہد کو دیکھتے ہوئے ان کی دلیلوں کو
من وعن تسلیم کر کے پاکستان کی 60سالہ تاریخ پہلی مرتبہ آمر کی آنکھوں میں
آنکھیں ڈال ’’حرف انکار ‘‘ کہنے والے ’’ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری
‘‘کی بحالی کو بھول جائیں گے تو یقیناً وہ لوگ’’ احمقوں کی جنت ‘‘کے مکین
کہلائے جانے کے مستحق ہیں کیونکہ وکلاء، سول سوسائٹی اورعوام کی جانب سے ان کی
احمقانہ دلیلوں کا جواب کراچی سے حیدرآباد اور پنڈی سے سیالکوٹ جاتے ہوئے’’
معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ‘‘کا شاندار استقبال کر کے دیا جاچکا ہے۔
بہتر ہوگا کہ حکومتی وزراءو مشیر اور پارٹی عہدیداران ’’صدر زرداری ‘‘کو عوامی
جذبات سے آگاہ کریں اور آنیوالے دنوں میں اس سے ہونے والے فائدے اور نقصان کا
بتائیں ۔ ورنہ عوام کل کو ان کی یہ بات ہر گز ہرگز نہیں سنے گی کہ ہم مجبور اور
بے بس تھے ۔ |