“ کیا اسلام آباد اور کابل کی کشیدہ صورتحال سے افغانیوں نے اب متبادل راستے اپنا لیے ہیں؟

طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان نے کچھ عرصے کے بعد پاکستان کے ساتھ کشیدہ سیاسی صورتحال ہونے کہ وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا شعبہ پر بھی اس کا گہرا اثر ہوا ہے اور یہ شعبہ ان صورتحال کی وجہ سے کافی متاثر ہوا ہے. ان حالت کی وجہ سے اکثریت افغان تاجروں کی اب وہ تجارت کے لیے دوسرے زرائع آمدورفت کے لیے ایران اور وسطی ایشیا کے متبادل راستوں کا رُخ کر رہے ہیں۔

پاکستان کی جانب سے عائد پابندیوں، افغانستان کے ساتھ اس ملک کی سرحدی گزرگاہوں کی وقفوں وقفوں کی بندشوں اور راہداری ٹیکس میں متواتر اضافے کے بعد افغانیوں نے اب متبادل راستے اپنا لیے ہیں۔

حال ہی میں پاکستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اور کابل میں افغانستان چیمبر آف کامرس اینڈ انویسٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق حالیہ دنوں میں بڑے ٹرانزٹ اور تجارتی راستے پاکستان سے ایران منتقل ہوئے ہیں۔

اس وقت افغان تاجر ایران اور وسط ایشیائی ممالک میں مزید متبادل راستوں کی تلاش میں ہیں۔

افغان صوبے قندھار سے کئی تاجر حضرات جو خشک میوہ جات برآمدات کرتے ہیں. انھوں نے اپنا سامانِ تجارت اب پاکستان کی بجائے ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کی بندرگاہوں کے ذریعے برآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

جبکہ ’سپن بولدک، چمن کراسنگ بند ہونے کے بعد افغانیوں نے اپنا سامان ایران کے راستے برآمد کرنا شروع کردیا ہے۔ جبکہ کچھ اور زرائع آمدورفت کے لیے استعمال کیے جڑہے ہوئے ہیں. جیسے ازبکستان اور قازقستان کے راستوں سے بھی کچھ مال برآمد کیا۔ جبکہ گزشتہ دنوں بڑے بڑے تاجروں نے ایران میں نمروز اور بندر عباس کے ذریعے ایک بڑا تاجر نے 156 ٹن میوہ جات ازبکستان، قازقستان جبکہ چین کے ذریعے 50 ٹن پھل برآمد کیے ہیں۔‘

کئی افغان تاجروں نے دعویٰ کیا کہ تجارت اور سکیورٹی سے متعلق پاکستان کے حالیہ اقدامات نے افغان تاجروں کو ’غریب‘ بنا دیا تھا اور افغان تاجروں کے لیے ٹرانزٹ روٹ کو تبدیل کرنا ہی بہترین آپشن تھا۔ اس کے بغیر اب کوئی راستہ بھی نظر نہیں آرہا تھا.

جبکہ ’پاکستان نے افغانستان کے ٹرانزٹ سامان کی 200 سے زائد اشیا پر 10 فیصد اضافی ٹیکس عائد کیا ہے۔ یہ ٹرانزٹ گڈز ہیں اور ٹرانزٹ گڈز پر ٹیکس لگانے کا کسی ملک میں ایسا کوئی ٹیکس نہیں لگایا جاتا یہ کوئی لگانے کا حق بھی نہیں اور ایسی چیز کی کوئی اصولی بنیاد بھی نہیں ہے۔‘

جبکہ پاکستان میں سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور پاک افغان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر کا یہی کہنا ہے کہ ’پاکستان کے حالات اور پاکستان افغانستان سرحد کی بار بار بندش سے تجارت پر منفی اثرات ضرور پڑے ہیں لیکن اب بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت تقریبا جاری و ساری ہے اور روزانہ لگ بھگ سات سو سے ساڑھے سات سو کنٹینر دونوں ممالک کے درمیان درآمدات اور برآمدات کے لیے گزرتے ہیں۔‘

جبکہ افغانستان چیمبر آف کامرس اینڈ انویسٹمنٹ کا اعتراض یہی تھا کہ پاکستان سے ایران تک ٹرانزٹ روٹ میں تبدیلی کی وجہ یہ ہے کہ اسلام آباد نے ’تقریباً پانچ ماہ قبل‘ ایک نیا ٹیکس لگایا تھا جو افغان تاجروں کی آمد و رفت پر تھا۔

افغانستان کے لیے اس وقت ’کراچی کی بندرگاہ افغانستان کے لیے سب سے قریبی اور سستا ٹرانزٹ روٹ ہمیشہ رہی ہے لیکن پاکستان کی طرف سے سامنے آنے والے مسائل نے افغان تاجروں کو راستے تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔‘

کچھ افغان تاجروں کے سامان کے تقریباً چار ہزار کنٹینرز کراچی کی بندرگاہ پر تاخیر کا شکار ہوئے۔

حالیہ دنوں میں طالبان کی وزارت تجارت کے اعلیٰ اہلکار نے بھی تصدیق کرتے ہیں کہ حالیہ مہینوں میں پاکستان کے ساتھ تجارت اور ٹرانزٹ کی مقدار میں کمی آئی ہے اور یہ رجحان ایران کے ذریعے بڑھ رہا ہے۔

حالانکہ طالبان کی وزارت تجارت نے پاکستان سے ایران کے تجارتی راستے کی بڑی تبدیلی کے اس عمل پر کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا،

بیشتر افغان تاجروں کا یہی خیال ہے کہ طالبان حکومت اور پاکستان کی سابق عبوری اور پھر نگراں حکومت کے ادوار میں پیدا ہونے والے کشیدگی کے واقعات نے تاجروں کو متبادل راستے ڈھونڈنے پر مجبور کیا اور بیشتر تاجر اب خود کو اس سیاسی کشیدگی کا ’شکار‘ ہی سمجھتے ہیں۔

جبکہ صوبہ خیبرپختونخوا میں افغانستان، پاکستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے کوآرڈینیٹر کا کہنا یہ ہے کہ صرف افغان تاجروں نے ایران اور وسط ایشیائی ممالک کو ’تقریباً 70 فیصد‘ ٹرانزٹ منتقل کیا بلکہ پاکستان سے افغانستان کو برآمدات کی مقدار میں بھی بہت کمی آئی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ اس دوران بیروزگار ہو گئے اور اس صورتحال کے باعث کچھ کارخانے یا پیداوری یونٹ بھی بند کرئیے گے ہیں۔

اس طرح کی صورتحال سے ’بہت زیادہ افغانی تاجر بہت متاثر‘ ہوئے ہیں جن کا کہنا یہی ہے کہ ماضی قریب میں کراچی میں اپنا پھنسا ہوا سامان ایران کے بندر عباس منتقل کیا اور کچھ تاجروں نے کراچی کی بندرگاہ سے بندر عباس تک اپنا سامان لے جانے والے بحری جہازوں کی منزل بھی تبدیل کر دی۔

حالانکہ یہ صرف افغان تاجروں کو ہی نہیں بلکہ پاکستان کو بھی اس صورتحال میں خاصا نقصان اٹھانا پڑا اور ابھی تک پڑ رہا ہے.

پاکستان جو ’افغانستان کو سامان کی ترسیل کے علاوہ پاکستان کی ملکی مصنوعات جن میں سیمنٹ، خوراک، پھلوں کا جوس، دودھ اور درجنوں دیگر اشیا جو افغانستان بھیجی جاتی تھیں، اُن کی برآمد کا عمل بھی متاثر ہوا ہے اور ابھی تک متاثر ہورہا ہے. ‘

یہ ممالک ’افغانستان، پاکستان اور وسطی ایشیا کے ممالک کے درمیان تجارت کے لیے ایک ’سنہری‘ راستہ ہے لیکن طورخم اور سپین بولدک کراسنگ کی بندش اور طورخم کے دونوں جانب تجارتی سامان سے بھرے ہزاروں ٹرکوں کے بارہا رُکنے سے تجارت میں خلل پڑا۔‘

جبکہ پاکستان میں جو افغانستان سے درآمد کیے جانے والے تازہ پھل اور کپاس، جو پاکستان میں کپڑے کے کارخانوں کی بنیادی ضروریات ہیں، بھی متاثر ہوئے ہیں، دونوں طرف کے تاجران حضرات کو ابھی تک لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔

حالانکہ گذشتہ برسوں میں بھی ایسا ہوتا رہا لیکن مشترکہ چیمبر آف کامرس کی کوششوں کے بعد ’کراچی کی بندرگاہ کے ذریعے تجارت اور آمدورفت‘ دوبارہ شروع ہو جاتی مگر اب کی بار صورتحال کافی مختلف اور گھمبیر ہے۔

اس طرح کی زیادہ دیر صورتحال کے جاری رہنے سے صوبہ خیبر پختونخوا میں معاشی بحران مزید بڑھ جائے گا، کیونکہ اس صوبے میں بیشتر کاروبار اور تجارت کا ایک بڑا حصہ افغانستان کے ساتھ تجارت پر منحصر ہے۔

جبکہ گذشتہ مہینہ پہلے طالبان کے ایک تکنیکی اقتصادی وفد نے کابل میں ایران کے نمائندے کے ساتھ مل کر ایران کے جنوب میں چابہار کی بندرگاہ میں ایک سہولت کی تعمیر کا آغاز کیا تھا۔

ایران کے نمائندے کے مطابق طالبان کی حکومت چابہار میں 35 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔

اس ہی دوران ایران کے آزاد تجارتی، صنعتی اور خصوصی اقتصادی زونز کی سپریم کونسل کے صدرو مُشیر کے ساتھ ملاقات میں اس وفد نے چابہار آزاد تجارتی زون میں طالبان کی نمائندگی کے قیام کا مطالبہ کیا۔
طالبان کی وزارت تجارت نے اس دورے کا مقصد پر روشنی ڈالی کہ ایرانی حکام کے ساتھ ’سیستان بلوچستان میں چابہار فری پورٹ کی صلاحیتوں اور سہولیات کو استعمال کرنے اور ٹرانزٹ اور برآمدات کو بڑھانے کے بارے میں بات کرنا ہے۔‘

جبکہ گذشتہ سال طالبان کے صنعت و تجارت کے وزیر نے ایرانی تاجروں کے ساتھ ایک ملاقات یہی کہا تھا کہ ’ہماری ایران کے ساتھ دو ارب ڈالر کی تجارت ہے اور ہم تجارت کے اس حجم کو 10 ارب ڈالر سالانہ تک کے جانا چاہتے ہیں اور یہ صلاحیت دونوں ممالک میں موجود ہے۔‘

جبکہ ’افغانستان میں طالبان کے آنے سے پہلے جب تجارت عروج پر تھی اور بینکنگ سیکٹر فعال تھا تو اس وقت روزانہ ایک ہزار سے زیادہ کنٹینر دونوں ممالک کے درمیان درآمدات اور برآمدات کے لیے سرحد عبور کیا کرتے تھے۔‘

تاہم پاکستان کی جانب سے بعض اشیا پر کچھ ٹیکسز اور سرحد کی بندش کی وجہ سے افغان تاجران کافی دلبرداشتہ ہوئے ہیں اور اس لیے وہ متبادل ذرائع پر بھی غور کر رہے ہیں جس میں افغانستان کے صوبہ ہرات کے ساتھ ایران کی سرحد سے بھی تجارت کی شروعات کی جا رہی ہیں۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ حکومت نے ’افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں شامل اشیا پر کچھ ٹیکس اس لیے بڑھائے ہیں کہ کیونکہ کچھ مقامات پر کسٹم حکام تعینات نہیں تھے اس لیے وہ کنٹینر مبینہ طور پر سرحد عبور کرنے کے بعد واپس وہ اشیا پاکستان آجاتی تھیں جس سے یہاں تجارت کو کافی نقصان پہنچتا تھا۔‘

اصولا ’تجارت دونوں ممالک کی ضروریات کے مطابق ہوتی ہے اور مقامی سطح پر قیمتوں پر بھی انحصار ہوتا ہے۔ پاکستان میں گندم اور آٹے کی قیمت میں بے شمار اضافے کے بعد افغانستان شائد گندم یا آٹا ایران سے درآمد کر سکتا ہے جہاں آٹا قدرے کم نرخ پر مل جاتا ہے لیکن مُرغی، تازہ پھل اور سبزیوں کے لیے پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے پر انحصار کرنا پڑتا ہے.‘

حالیہ دنوں میں پاکستان کی جانب سے سرحد کی بندش کی وجہ سے بڑی تعداد میں پھلوں، سبزیوں اور مُرغی کے کنٹینر کھڑے کھڑے خراب ہو گئے تھے جس سے دونوں جانب کے تاجروں کو بے حد نقصان اُٹھانا پڑا تھا۔ اس ہی وجہ سے افغان تاجر اب متبادل ذرائع استعمال کر رہے ہیں یا ان کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

پاکستانی حکمرانوں کو یہ مسئلہ جتنی جلد از جلد اس کو حل کرنا ہوئیگا کے ’پاکستان کو افغانستان کے ساتھ تجارت کو بہتر کرنا ہو گا کیونکہ پاکستان افغانستان سے 20 فیصد سے زیادہ درآمد کرتا ہے اور 80 فیصد سے زیادہ برآمد کرتا ہے اس لیے افغانستان کو یا توموسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ دینا ہو گا یا ایسے ملک کا درجہ دینا ہو گا جس کے ساتھ تجارت ترجیحی بنیادوں پر ہوتی ہے تاکہ دونوں ممالک اور اس کے لوگ اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔‘

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 380 Articles with 162654 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.