ابھی حال ہی میں چین کے دارالحکومت بیجنگ میں جمہوریت سے متعلق تیسرے بین الاقوامی فورم کا انعقاد کیا گیا جس میں اندرون و بیرون ملک کی ممتاز شخصیات جمہوریت کے بارے میں اپنی قیمتی بصیرت کا تبادلہ کرنے کے لیے جمع ہوئیں۔ فورم میں پاکستان سمیت70 ممالک اور خطوں کے تقریباً 300 عہدیداروں اور ماہرین نے جدید اور ڈیجیٹل دور میں جمہوریت کو سمجھنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔شرکاء نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ چینی طرز کی جمہوریت نے چینی عوام کو ٹھوس فوائد فراہم کیے ہیں۔چین نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ اس کے عوام کے پاس اہم قومی حکمت عملیوں اور پالیسیوں سے لے کر سماجی حکمرانی اور زندگی کی بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ تعلیم، روزگار، طبی دیکھ بھال اور بزرگوں کی دیکھ بھال جیسے معاملات پر اپنی خواہشات اور مطالبات کا اظہار کرنے کے ذرائع موجود ہیں، تاکہ ان کی آواز سنی جا سکے اور ان کے مطالبات کا جواب دیا جا سکے۔ان کوششوں نے جمہوری افادیت کو جمہوری اقدار کے ساتھ کامیابی سے ہم آہنگ کیا ہے۔
پاکستانی اسکالر محمد آصف نور نے کہا کہ چین کا طرز جمہوریت عوام پر مرکوز ہے جس نے چینی عوام کو وسیع ثمرات پہنچائے ہیں۔ دنیا کو چینی طرز جمہوریت کو سمجھتے ہوئے اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ فورم کے شرکا ء نے اس بات پر زور دیا کہ جمہوریت کو ایک انتخاب تک محدود نہیں ہونا چاہئے جبکہ کثیر قطبی دنیا میں مشترکہ اقدار تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے معروف اسکالرز اور سینئر عہدیداروں نے اس موقع پر جمہوریت کو انسانیت کے لئے مشترکہ قدر قرار دیا اور اس کی متنوع شکلوں اور عالمی حکمرانی کو بہتر بنانے میں اس کے کردار پر بھی جامع تبادلہ خیال کیا۔فورم میں مقررین نے کہا کہ جمہوریت کے ایک سائز کے ماڈل جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور جمہوریت کے لئے متنوع نقطہ نظر کا احترام کیا جانا چاہئے۔
چین کا نقطہ نظر
شرکاء کے نزدیک چین ، ہمہ گیر عوامی طرز جمہوریت پر عمل پیرا ہے، جو قانون پر مبنی جمہوری انتخابات، مشاورت، فیصلہ سازی، نظم و نسق اور نگرانی کو قوانین اور ادارہ جاتی انتظامات کے ایک سلسلے کے طور پر آگے بڑھاتا ہے۔ چین جمہوری طرز عمل کے تنوع کی حمایت کرتا ہے اور لوگوں کی امنگوں کے حصول اور سماجی ترقی کی سطح کے درمیان ربط کو اہمیت دیتا ہے۔چینی نقطہ نظر میں "عوام اور عوام سے" کے اصول کی اہمیت سب سے نمایاں ہے۔چین کے عوام پر مبنی حکمرانی کے فلسفے کو دیکھا جائے تو یہ عیاں ہوتا ہے کہ ، "عوام کے نمائندے عوام اور عوام سے ہوتے ہیں"۔چینی قیادت کو ہمیشہ اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں، کیا محسوس کر رہے ہیں، کیا تجربہ کر رہے ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔چین ہمیشہ اپنے لوگوں کو سنتا ہے، اور وہی کرتا ہے جو اس کے لوگ چاہتے ہیں۔
جمہوریت کے لیے کوئی ایک ماڈل موزوں نہیں
فورم کے دوران کچھ کلیدی مقررین نے دوسرے ممالک پر جمہوریت کا ایک مخصوص ماڈل مسلط کرنے کے خطرے اور آج کی مغربی طرز کی جمہوریت کی خامیوں کے بارے میں متنبہ کیا۔اٹلی کے سابق وزیر اعظم میسیمو ڈی علیما نے کہا کہ مغربی ممالک کو اپنی جمہوریت پر فخر ہے کیونکہ ان کی جمہوریت فاشزم اور نازی ازم کے خلاف جدوجہد کے ذریعے حاصل کی گئی تھی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران قربانیوں کی بھاری قیمت ادا کی گئی تھی۔انہوں نے افغانستان، عراق اور مشرق وسطیٰ کے تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ "لیکن یہ جائز فخر ہمیں یہ دیکھنے سے نہیں روک سکتا کہ ہمارا ماڈل، کیونکہ یہ ایک طویل اور عجیب تاریخی عمل کا نتیجہ ہے، دنیا کے دیگر حصوں میں برآمد اور مسلط نہیں کیا جا سکتا ہے"۔انہوں نے کہا کہ مغربی جمہوریت کا ماڈل اپنی ساکھ اور کشش کھو چکا ہے اور مغربی معاشروں میں جمہوری سمجھوتے کی بنیاد کے طور پر اتفاق رائے زوال پزیر ہے۔شرکاء نے مزید کہا کہ جمہوریت کے مختلف طریقے مختلف ممالک اور ثقافتوں میں دیکھے جا سکتے ہیں اور جمہوریت کا کوئی بہتر ماڈل یا ایک سائز کا سیاسی نظام نہیں ہے۔
عالمی گورننس اور کثیر قطبی دنیا
فورم کے دیگر مقررین نے موجودہ عالمی گورننس میں موجود خامیوں پر روشنی ڈالی اور کثیر قطبی دنیا کی تعمیر پر زور دیا۔شرکاء کے نزدیک گزشتہ تین دہائیوں میں ممالک بین الاقوامی تنظیموں میں اصلاحات کرنے میں ناکام رہے
ہیں جو عالمی گورننس کا نظام تشکیل دیتے ہیں۔اس وقت دنیا میں متعدد ابھرتے ہوئے ممالک اور معیشتیں ہیں جو کافی بااثر اور عالمی معاملات سے قریبی وابستہ ہیں، پھر بھی ان کی بین الاقوامی تنظیموں میں نمائندگی کم ہے۔اب وقت آ چکا ہے کہ اس عدم توازن کو درست کیا جائے اور اسے مزید منصفانہ اور زیادہ جمہوری بنایا جائے۔آج کی انتہائی باہم مربوط دنیا کو حقیقی معنوں میں ایک کثیر قطبی دنیا میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
|