امریکہ اور بھوت

بھوت نے نیم کے شجرپربیٹھے بیٹھے گھر کے مالکان سے کہا اگرآج مجھے کسی جوان بچھڑے کاگوشت نہ دیا تومیں نیچے اترآﺅں گا،اہل خانہ ایک بار پھرسہم گئے اورانہوں نے کسی نہ کسی طرح اس کی یہ فرمائش بھی پوری کردی ۔اگلے روزبھوت نے کہا کہ آج میں بیل کاگوشت کھاناپسندکروں گا۔اگرتم لوگوںنے میراحکم نہ ماناتومیںنیچے اترآﺅں گااورتمہاری ہڈیاں تک چباجاﺅں گا۔گھر والے اس کی روزروز کی فرمائشوں سے بیحدبیزاراورپریشان تھے مگر ان کے پاس اس بھوت کی خواہش پوری کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیںتھاکیونکہ وہ بھوت کاسامنااوراس کامقابلہ کرنے سے ڈرتے تھے۔کچھ دنوں تک توانہوں نے اس بھوت کی ہرفرمائش پوری کی مگر جب ان کے گھرمیںفاقوں کی نوبت آگئی اوران کے صبر کاپیمانہ لبریز ہوگیاتوانہوں نے وہ فیصلہ کرلیا جو اگرشروع میں کرلیا جاتا توزیادہ اچھاہوتا۔ایک شام اس آدم خور بھوت نے انسانی خون اور گوشت پیش کرنے کی فرمائش کردی ،گھروالوں نے کہا ہم تمہاری بھوک مٹانے اورپیاس بجھانے کیلئے کسی بیگناہ انسان کے خون اور گوشت کابندوبست نہیں کرسکتے۔انکارسن کربھوت مشتعل ہوگیااوراس نے نیم کے شجرسے نیچے اترنے کاعندیہ ظاہر کیا جس پرگھروالوں نے کہاآج تم نیچے اتر آﺅجوہوگادیکھا جائے گا۔بھوت کوان سے اس جواب کی ہرگزامیدنہیں تھی لہٰذااس نے فوراً کہا چلو چھوڑو جھگڑنے میں کوئی فائدہ نہیں،تم لوگوں نے آج گھرمیں جو سبزی پکائی ہے اس میں سے کچھ دے دو۔ مگر جب اہل خانہ کلہاڑیاں اورڈنڈے اٹھاکر درخت کے گردجمع ہوناشروع ہوگئے توبھوت وہاں سے بھاگ کھڑاہوااوراس کے بعدبھوت نے کبھی ان کے گھرکارخ نہیں کیا۔

امریکہ بھی کسی بھوت کی طرح ہمارے پڑوس ملک افغانستان کے پہاڑوں پر بیٹھاہمیں ڈراتادھمکا تارہتا ہے اورابھی تک اس نے اپنی ڈراﺅدھمکاﺅ پالیسی کی بدولت ہمارے مصلحت پسند حکمرانوں کی کمزوریوں اورمجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے بہت کچھ منوالیا ہے مگراب کسی بھی وقت پاکستانیوں کے صبر کاپیمانہ لبریز ہو سکتاہے۔امریکہ بظاہر پاکستان کادوست اوراتحادی ہے مگراس کے ساتھ ساتھ اس کی دوستی ہمارے دشمن ملک بھارت کے ساتھ بھی ہے۔امریکہ سے زیادہ کوئی دوسرا ملک پاکستان اوربھارت کے درمیان تنازعات کی شدت ،تناﺅ کی حدت اورتصادم کے امکانات سے آگاہ نہیں ہے۔کسی داناکاکہنا ہے ''جوسب کادوست ہووہ کسی کادوست نہیں ہوتا'' ۔اگرامریکہ ہمارے دشمن ملک بھارت کادوست ہے توپھروہ ہمارادوست نہیں ہوسکتا ۔امریکہ اپنے قومی مفادات کے سوا کسی کادوست نہیں ہے ۔امریکہ کی بھارت کے ساتھ دوستی محض پاکستان کواپنے قابومیں رکھنے کیلئے ہے۔امریکہ اوربھارت کی دوستی میں اسرائیل کا کلیدی کردار ہے ،اوراب یہ تینوں دوست ایک ٹرائیکا کی صورت میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے درپے ہیں۔امریکہ کی فطرت کوسمجھناہوگا،وہ دوسروں کوکمزورسمجھ کر دباتا ہے لیکن اگر اس کامدمقابل دباﺅمیں نہ آئے توامریکہ خودوہاںسے دم دباکربھاگ جاتا ہے۔امریکہ کوگرگٹ کی طرح رنگ بدلنا خوب آتا ہے ۔اس نے وقتی طورپراپنے جوائنٹ چیف آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن کے اشتعال انگیز بیانات کامنفی تاثرزائل کرنے کیلئے پینترا بدل لیا ہے مگرامریکہ نے اپنے ایک چہرے پرکئی چہرے سجائے ہوئے ہیں۔اس کے پاس ایک نہیں کئی مائیک مولن ہیں وہ ایک کی قربانی دے کردس کوآگے کردے گا۔پاکستان اوربالخصوص عراق کی طرح جوملک امریکہ کواپنادوست اوراتحادی سمجھتے رہے ہیں انہیں اس غلطی کی بھاری قیمت چکاناپڑی جبکہ ایران اورشمالی کوریا سمیت بعض ایسے ملک جوامریکہ کواپنا نمبرون دشمن قراردے کراس کیخلاف ڈٹ گئے اوراپنے موقف پرثابت قدم رہے وہ آج فائدے میں ہیں۔پاکستان کے پاس منجھے ہوئے جرنیل اورایک منظم فوج ہے ،امریکہ ہمارے ملک عزیزکو عراق یاافغانستان سمجھنے کی غلطی نہیں کرے گا۔پاکستان دوستی کی آڑ میں ایبٹ آبادآپریشن کی طرح بڑے سے بڑازخم یاگھاﺅ توبرداشت کرسکتا ہے مگر دشمن کے وارکادفاع کرنااوراینٹ کاجواب پتھر سے دینااسے خوب آتا ہے۔امریکہ نے اب تک ایک دوست کے روپ میںپاکستان کاکندھا استعمال کیا لیکن اگر وہ دشمن بن کرہمارے شوق شہادت سے سرشار فوجیوں کے مقابلے پرآیاتواس کاغرورخاک میں مل جائے گا۔عراق اورافغانستان پرحملے اور انسانیت سوز ظلم وتشدد نے امریکہ کوبے نقاب اورتنہاکردیا ہے ۔امریکہ کے اپنے سنجیدہ حلقے وہائٹ ہاﺅس کی جارحانہ سوچ کوسخت ناپسندکرتے ہیں۔دوسری طرف دوست ملک چین کاپاکستان کے ساتھ اظہاریکجہتی امریکہ کیلئے ایک پیغام ہے۔پاکستان اورچین کی دوستی سودوزیاں سے بے نیازہے ،دونوں ملکوں کومصیبت یاآفت کی صورت میں ایک دوسرے کومدد کیلئے پکارنانہیں پڑتا۔

آئی ایس آئی کیخلاف امریکہ کے حالیہ پروپیگنڈے کاواحدمقصد پاکستان اوراس کی نڈر افواج پردباﺅڈالنا ہے ۔آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل شجاع پاشا نے دوٹوک الفاظ میں وضاحت کی ہے کہ ان کاادارہ دہشت گردی ایکسپورٹ اوراسے سپورٹ نہیں کرتا ،ا س کے باوجودمیاں نوازشریف کایہ بیان '' کچھ توہے جس کی وجہ سے دنیا شورکررہی ہے '' ان کے شایان شان نہیںہے۔لوگ تومیاںنوازشریف اورمیاں شہبازشریف کے بارے میں بھی بہت شورمچا تے ہیں توپھراس کے بارے میں ان کاکیاخیال ہے ۔میاںنوازشریف دوبار پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے اورتیسری باروزیراعظم منتخب ہونے کے خواہشمند ہیں۔اسلامی تعلیمات کی روسے جوفردکسی عہدے یامنصب کاخواہاں ہووہ اس کے اہل نہیں ہوسکتا ۔ میاںنوازشریف کو دونوںبار غلطیاں کرنے پراقتدارسے ہاتھ دھوناپڑے۔ میاں نوازشریف تیسر ی بار وزیراعظم منتخب ہونے کیلئے پاکستان میں بیٹھ کرپاکستان کے قومی اداروں کیخلاف بھارت اورامریکہ کی زبان استعمال نہ کریں۔میاںنوازشریف کوپاکستان کی سا لمیت سے زیادہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کیوں عزیزہیں۔کسی کواپنے اقتدار کیلئے پاکستان کی سلامتی اورقومی حمیت کامذاق اڑانے یاداﺅپر لگانے کاحق نہیں ہے۔امریکہ اوربھارت کی آئی ایس آئی پرتنقید درحقیقت اس ادارے کی توصیف اورتحسین ہے۔امریکہ کے موجودہ دشمن کل تک اس کے معتمد دوست اوراتحادی تھے،پاکستان کو اپنی سرزمین پرجوجنگ شروع کرناپڑی وہ اس کی نہیں امریکہ کی ہے۔پاکستان کیوں امریکہ کی ناکامیوں کابوجھ اپنے کندھوں پراٹھائے۔یہ وہی آئی ایس آئی ہے جس نے امریکہ کے دشمن نمبرون روس کوافغانستان میں شکست فاش سے دوچار کیا اوروہاں سے فرارپرمجبورکردیا۔روس کی شکست کیلئے قربانیاں پاکستانیوں اورافغانیوں نے دیں مگراس کاکریڈٹ امریکہ نے تنہا لیا اور دونوں ملکوں کوبے شمارمسائل کے سپرد کرکے وہاں سے چلتا بنااوراب بھی پاکستان اور افغانستان کوآگ میں جھونک کروہ اپنے فرارکیلئے محفوظ راستہ ڈھونڈرہا ہے مگراس باروہ پاکستان کی مدد کے بغیروہاں سے نہیںنکل سکتا ۔

امریکہ یابھارت ہمارے جس سیاستدان اورقومی ادارے کواپنا دشمن سمجھتا ہے میرے نزدیک اس سے بڑاکوئی محب وطن نہیں۔اگرامریکہ اوربھارت آئی ایس آئی پرتنقید نہیں کریں گے توکیا اس کی قابلیت اورافادیت کے گیت گائیں گے۔اے پی سی کے دوران جماعت اسلامی کے امیرسیّدمنورحسن نے میاں نوازشریف کو سمجھا ناچاہامگرجوسمجھنانہ چاہے اسے کوئی نہیں سمجھاسکتا ۔آئی ایس آئی محض ایک ادارہ نہیں بلکہ ہمارابیش قیمت اثاثہ ہے اوراس کے اہلکار پاکستان کیلئے سماعت اوربصارت کاکام کرتے ہیں۔اس کیخلاف ہونیوالے منفی پروپیگنڈے کاجواب دیناہمارے سیاستدانوں اوردانشوروں کاقومی فرض ہے جبکہ میاںنوازشریف امریکہ کی ہاں میں ہاںملارہے ہیں۔اے پی سی کااعلامیہ ایک مثبت پیشرفت ہے مگرزیادہ اچھاہوتااگروزیراعظم یوسف رضا الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ تمام سیاسی جماعتو ں کے سربراہان کواے پی سی میںمدعوکرتے۔محض پسندناپسند کے تحت فیصلے کرنے سے تلخیاں اوردوریاں پیداہوتی ہیں اوراس نازک وقت میں ملک عزیز اس کامتحمل نہیں ہوسکتا۔

پاکستان کے حکمرانوں اورسیاستدانوں سمیت عام لوگ آپس میں جوکچھ مرضی کریںمگر ملک دشمن قوتوں کودندان شکن جواب دینے کیلئے وہ متحد ہوجاتے ہیں۔ ایڈمرل مائیک مولن کے حالیہ گستاخانہ اورجارحانہ بیانات کے تناظر میں اسلام آبادمیں اے پی سی کا انعقاد مایوس اورمنتشر پاکستانیوں کیلئے ایک ٹھنڈی ہواکاجھونکا ہے ۔یہ سیاسی اورفوجی قیادت کے ہم رازاور ہم آوازہونے کاوقت ہے۔سیاسی قیادت کے درمیان اتحاد کے بغیر ہجوم ایک قوم کی طرح متحداورمنظم نہیں ہوگا ۔اب امریکہ کودوٹوک جواب دینے اوراس کاسامنا کرنے کاوقت آگیا ہے ،وہ بھی یقینا نیم کے شجرپربیٹھے آدم خور بھوت کی طرح منت سماجت پراترآئے گا۔امریکہ بری طرح تھک گیاہے ،وہ پاکستان کی پیشہ وراورانتھک فوج کامقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ابھی تک اس نے ویتنام ،عراق اورافغانستان جیسے ملکوں کیخلاف فوج کشی کی ہے ،ایٹمی پاکستان کیخلاف مہم جوئی اس کی خودکشی ثابت ہوگی۔امریکہ نے افغانستان سے واپسی کیلئے اپنا سامان باندھ لیاہے وہ پاکستان کے ساتھ کسی قسم کے تناﺅیاتصادم کامتحمل نہیں ہوسکتا۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126882 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.