ابھی حال ہی میں چین میں منعقدہ بوآؤ ایشیائی فورم کے دوران شرکاء نے یکساں موقف اپنایا کہ کمزور معاشی بحالی، جاری بین الاقوامی عدم استحکام، مسلسل شدید موسمی واقعات اور قدرتی آفات کے ساتھ ساتھ دیگر سنگین چیلنجوں کے پیش نظر، دنیا کو عالمی تعاون کو مضبوط کرنے کی فوری ضرورت ہے۔اس فورم کے دوران جاری کردہ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ عالمی معیشت کو 2024 میں غیر یقینی صورتحال اور اختلافات کا سامنا رہے گا۔ اس کے باوجود، ایشیائی اقتصادی ترقی اور علاقائی اقتصادی انضمام کی رفتار مضبوط رہے گی، اور ایک امید افزا مجموعی معاشی کارکردگی افق پر ہے.
شرکاء کا ماننا ہے کہ چینی معیشت کی اعلیٰ معیار کی ترقی اور ایشیائی ترقی اور تعاون کی ہم آہنگی نے مختلف فریقین کو خطے میں اقتصادی ترقی کے امکانات کے بارے میں پرامید بنا دیا ہے اور وہ علاقائی تعاون کو مضبوط بنانے
اور ترقی کے مواقع کو بانٹنے پر یقین رکھتے ہیں۔ایشین اکنامک آؤٹ لک اینڈ انٹیگریشن پروگریس سالانہ رپورٹ 2024 کے مطابق ایشیائی معیشت اس سال بھی نسبتاً بلند شرح نمو برقرار رکھے گی، جس کے 2023 کے مقابلے میں 4.5 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔
ایشیا میں علاقائی انضمام کا عمل مسلسل آگے بڑھ رہا ہے، جو ایک مساوی اور منظم کثیر قطبی دنیا اور عالمی سطح پر فائدہ مند اور جامع اقتصادی عالمگیریت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، آسیان کنیکٹیوٹی 2025 پر ماسٹر پلان اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان باہمی رابطے کی ترقی اور موثر ٹرانسپورٹ کوریڈور کی تخلیق میں تعاون کے تصور پر دنیا کی گہری نظریں ہیں۔اس وقت ،چین یورپ مال بردار ٹرین سروس ایشیا اور یورپ کو جوڑنے والی ایک اہم بین الاقوامی نقل و حمل کی شریان بن گئی ہے، پاکستان میں سی پیک کی تعمیر ملک کے لیے نمایاں معاشی سماجی ثمرات کا موجب ہے، چائنا۔لاؤس ریلوے نے مسافروں اور سامان کا پھلتا پھولتا بہاؤ دیکھا ہے۔ جکارتہ۔بانڈونگ ہائی اسپیڈ ریلوے نے مسافروں کی آمدورفت کی اعلیٰ سطح کو برقرار رکھا ہے۔اس کے علاوہ علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری اور دیگر تجارتی معاہدوں پر کامیابی سے عمل درآمد کیا گیا ہے۔
حقائق کے تناظر میں بڑھتی ہوئی تجارتی تحفظ پسندی اور معاشی تقسیم کے پیش نظر ایشیائی معیشتوں نے علاقائی اقتصادی انضمام کو عملی طور پر فروغ دینے، اقتصادی گلوبلائزیشن کی حمایت کرنے اور علاقائی ممالک کی مشترکہ ترقی میں نئی تحریک داخل کرنے کے لئے بنیادی ڈھانچے کے "مضبوط رابطے" اور قوانین کے "نرم رابطے" کو کلیدی نقطہ نظر کے طور پر لیا ہے۔موسمیاتی تبدیلی ان بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے جس کا آج پوری دنیا کو سامنا ہے ، اور توانائی کی منتقلی کو فروغ دینا اور کم کاربن ترقی کا حصول ایک عالمی رجحان بن گیا ہے۔ پائیدار ترقی: ایشیا اور عالمی سالانہ رپورٹ 2024 کے مطابق، توانائی کی منتقلی سبز صنعتی انقلاب کو اپنانے اور ایشیا میں سبز ترقی کے حصول کی کلید ہے.ماہرین کے خیال میں ایشیا میں شفاف پیداوار کے لیے دنیا کی بنیادی ٹیکنالوجیز موجود ہیں اورچین کی صاف توانائی میں بڑی سرمایہ کاری ایک کھلی مثال ہے۔چین اس وقت بھی ماحول دوست پیداوار، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، اور مالیات اور ٹیکنالوجی تعاون میں فعال طور پر مصروف ہے.چین نے دیگر ممالک خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کو صاف توانائی ٹیکنالوجی، فنانسنگ اور بنیادی ڈھانچے کے معاملے میں نمایاں مدد اور حمایت فراہم کی ہے۔
دوسری جانب ،ممتاز عالمی معاشی ماہرین کے خیال میں تقریباً 5 فیصد سالانہ کی معتدل تیز رفتار شرح نمو ، چین کی ترقی کو دیکھتے ہوئے قابل حصول اور مناسب ہے۔ماہرین سمجھتے ہیں کہ چین نئی معیار کی پیداواری قوتوں کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے جس کا مطلب جدید ترین ٹیکنالوجیز ہیں جو پائیدار سرمایہ کاری کو فروغ دیتی ہیں۔ان میں 5.5 جی ، جلد ہی 6 جی ، صحت ، تعلیم ، ادائیگیوں ، صنعت اور زمین کے انتظام کے لئے ڈیجیٹل پلیٹ فارم ، نقل و حمل کے بجلی پر مبنی ذرائع ، ہائیڈروجن معیشت اور جدید روبوٹکس وغیرہ شامل ہیں۔ چین تکنیکی ترقی میں قدرے نمایاں ہے اور اپنی ٹیکنالوجیوں کو آگے بڑھانے کے لئے دیگر دنیا کے ساتھ بھی مسلسل تعاون کر رہا ہے۔
|