" مرکزی مجلس رضا"لاہور،ماضی حال اور مستقبل عروج و زوال کی المناک کہانی
(Muhammad Ahmed Tarazi, karachi)
" مرکزی مجلس رضا"لاہور،ماضی حال اور مستقبل عروج و زوال کی المناک کہانی
|
|
|
" مرکزی مجلس رضا"لاہور،ماضی حال اور مستقبل |
|
" مرکزی مجلس رضا"لاہور،ماضی حال اور مستقبل عروج و زوال کی المناک کہانی ---------------------------- اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد اہل سنت پر ایک جمودی کیفت رہی اور انہیں اس بات کی مہلت نہ ملی کہ تصانیف رضا کی اشاعت کی جائے۔جب کہ دوسری طرف مخالفینِ رضا نے تمام تر مادی وسائل سے لیس ہوکرامام احمد رضا کی شخصیت،حیات اور علمی کارناموں کو مسخ کر کے دنیا کے سامنے پیش کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ایسے ماحول میں لاہور کی سرزمین سے ایک مردِ حق آگاہ حکیمِ اہلِ سنت حکیم محمدموسیٰ امرتسری نے 1968ءمیں ”مرکزی مجلسِ رضا لاہور“ کی بنیاد رکھی۔اور قافلہ رضا کی حُدی خوانی کی۔ حکیم صاحب نے چند مخلص افراد کو ساتھ لے کر امامِ سنت کو علمی حلقے میں اپنا جائز مقام دلوانے کا عزم کیا۔اس سلسلے میں سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا گیا کہ"یومِ رضا"کا انعقاد عمل میں لایا جانے لگا۔مساجد و مدارس سے ہٹ کر لاہور کے مرکزی ہال"برکت علی محمڈن ہال"میں اس غرض سے یوم رضا کااہتمام کیا جاتا کہ جو افراد اہلِ سنت کی مساجد اور مدارس میں آنے سے کتراتے ہیں وہ بھی بلاجھجک اور بے تکلف آسکیں۔دینی و عصری دانش گاہوں کے ماہرین امام احمد رضا کی ذات، علمی و ادبی اور دینی کارناموں پر خطاب کرتے پھر مجلس کے تحت ان مقالات و تقاریرکو مرتب کر کے اہلِ علم اور دانش وروں تک پہنچایا جاتا۔نیز"رضا شناسی"کے لیے مستعد رہنے والوں تک بھی ترسیل کی جاتی،حقایق جانے والوں کو حقایق سے آگاہ کیا جاتا۔یوں اپنوں اور بے گانوں میں سنجیدہ اور علمی طور پر امام احمد رضا کا تعارف کروانے کی ابتدا ہوئی۔اسی طرح باقائدہ یوم رضا کا انعقاد اور ”مقالاتِ یومِ رضا“کی اشاعت نے رضا شناسی کے لیے راہ ہموار بھی کی بعد میں آنے والوں کو کام کی راہ دکھائی۔ مجلس رضا کے قیام کا ایک اہم مقصد جہاں امام احمد رضا پر علماو اسکالرز سے تحقیقی و علمی مقالات لکھوا کرشایع کرنا تھا،وہیں تصانیفِ رضا کی اشاعت کو بھی فوقیت دی گئی۔ایسے دور میں جب کہ میڈیا اور عصری درس گاہوں پر مخالفینِ رضا اپنے قدم جمائے بیٹھے تھے،اور موقع بہ موقع امام اہلسنت کی شخصیت کو مجروح کرنے کی ناپاک کوششیں کررہے تھے ،تعلیمی اداروں،اور صحافتی شعبوں میں امام اہلسنت کا ذکر کرنا بلکہ ان کے دفاع میں کچھ بولنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔مجلس رضا کے تحت کتب وتصانیفِ رضا کو شایع کرکے عوم و خواص تک پہنچایاگیاتو بغض و عناد کے اندھیرے چھٹنے لگے اور فکرِ رضا کی تاب ناک کرنوں سے حق پسند قلوب منور و مجلیٰ ہونے لگے۔ مجلسِ رضا کی کامیاب اشاعتی تحریک نے جماعتی سطح پر بیداری پیدا کی۔اور دیکھتے ہی دیکھتے فروغِ رضویات کا جذبہ صالح لیے متعدد اشاعتی اور تحقیقی ادارے وجود میں آنے لگے اور کام کی رفتار بڑھ گئی۔بلا شبہہ یہ حکیمِ اہلِ سنت کا احسان ہے کہ انہوں نے علامہ عبدالحکیم شاہ جہاں پوری،علامہ عبدالحکیم شرف قادری اور پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقش بندی علیہم الرحمہ جیسے اصحابِ لوح و قلم عطاکیے۔جنہوں نے مجلس کے پلیٹ فارم سے اور حکیمِ اہلِ سنت کی تحریک پر رضویات پر علمی و تحقیقی کام کا آغاز کیااور اس میدان میں وہ عظیم کارنامے انجام دیے جن کے احسانات سے رضویات کا کوئی بھی طالبِ علم انکار نہیں کر سکتا۔ مجلسِ رضا کے اہم کارناموں ایک یہ بھی ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی کی حیات و شخصیات اور علمی خدمات کے کسی بھی پہلوپر کوئی بھی تحریر ہندو پاک میں منظرِ عام پر آتی،مجلس کے ارکان کی اولین کوشش ہوتی کہ اسے مجلس کے تحت بھی شایع کیا جائے تاکہ اسی بہانے فکر رضا کی تریج کی جاسکے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق مجلس کی طرف سے بائیس لاکھ سے زاید کتب و رسائل شایع کر کے عوام و خواص تک قیمتاً و بلا قیمت پہنچائے گئے۔ مگر ستم ظریفی دیکھئے کہ وہ ادارہ جو اہلسنت کاایک معتبر مشنری ادارے میں شمار ہوتا تھا دسمبر 1986ء میں اس وقت انحطاط کا شکار ہوگیا جب اس کی مقبولیت بام عروج پر تھی۔یوں کرم فرماؤں کی مہربانی سے مجلس کی بساط لپیٹ دی گئی اور حکیم محمد موسیٰ امرتسری صاحب باپسندیدہ عناصر کو نکال باہر کرنے کے بجائے دل برداشتہ ہوکر خود مجلس سے لاتعلق ور الگ ہوگئے۔ زیر نظر کتاب " مرکزی مجلس رضا"لاہور،ماضی حال اور مستقبل کے عنوان سے مجلس کے اسی عروج و زوال کی کہانی ہے جسے ہمارے کرم فرما جناب ظہور الدین امرتسری صاحب نے مرتب کیا ہے ۔آپ کتاب کے ابتدائیے میں "مرکزی مجلس رضا کی کہانی…….. قيام وانہدام کا اجمالی جائزہ" کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ : قیام پاکستان کے بعد وجود ملت اسلامی کا شیرازہ بگھر گیا، لگ بھگ سبھی مسالک میں چند نام نہاد دینی قائدین کی منفی روش اور یلغار نے ایسے ماحول کو جنم دیا جس سے مذہبی و ملی فرقہ واریت نے مسلم امہ کو منتشر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔نفرت بغض اور تعصب کی فضا نے عالم اسلام کی یکجہتی کویکدم تباہی کی سمت دھکیل دیا۔ نام نہاد راہنمایاں اکابر دین و ملت نے اپنے اپنے مسلک کے مطابق نئی جماعتیں اورتنظیمیں بنانے کے بعد نفرت انگیز لٹریچر کی ترویج و اشاعت کی بھر مار کر دی نتیجتاً عوامی سطح پر برسر پیکار ہونے کاچلن فروغ پا گیا۔ اسلام کے خلاف یہود و نصاریٰ اور اسلام دشمن لابی کی سازشیں کامیاب بنانے میں اپنوں کا حصہ نمایاں ہے۔ اس پرفتن دور میں سواد اعظم کا کردار بڑی حد تک مثبت رہا۔بعض جید علماء و مشائخ کی کاوشیں باطل تحریکوں کے راستے میں حائل رہیں اور تحفظ ناموس رسالت کے علم برداروں اور عاشقان رسول ﷺ کے لیے مد و معاون ثابت ہو ہیں ۔عا شقان رسول انام ﷺ نے ان تمام مشکل حالات کا تندہی سے مقابلہ کیا۔ اسی دور میں ایک فعال اور عظیم مقاصد کا حامل دینی اداره" مرکزی مجلس رضا " کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس ادارہ کے اغراض و مقاصد نسل تک پہنچانا میرے نزدیک دینی و ملی فریضہ اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ محقق عصر حضرت حکیم موسیٰ امرتسری رحمة الله علیہ کا نام نامی محتاج تعارف نہیں۔ آپ عظیم دانشور،سچے مورخ اور علم و حکمت کا انسائیکلو پیڈیا تھے۔ آپ نے قومی امانت جانتے ہوئے اپناذاتی کتب خانہ جو دس ہزار کتب پر مشتمل تھا پنجاب یونیورسٹی کو وریعت کر دیا۔ حکیم صاحب نے مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمة الله علیہ کی فکر اور ان کے علوم وفنون کو پوری دنیا میں روشناس کرانے کا مصمم ارادہ کیا اور1968ء میں "مرکزی مجلس رضا" کے قیام کا باقاعدہ اعلان کردیا۔ مرکزی مجلس رضا کی مخلص کارکنوں پرمشتمل تنظیم سازی کی گئی اور مشاورت کے عمل سے عہد یداران اور ایگزیکٹو باڈی کا چناؤعمل میں لایا گیا۔ مجلس ہذا کے منتخب عہدیداران نے مشاورت سے اس ادارہ کے اغراض و مقاصد کوحتمی شکل دی اور باقاعدہ دستور مرتب کر کے شائع کر دیا گیا۔ اس دستور میں صدر کے اختیارات کو خصوصی اہمیت دی گئی کہ وہ تمام انتظامی امور کی مکمل نگرانی کرے گا مگر افسوس یہ مرحلہ بھی چشم فلک نے دیکھا کہ ایک ایسے صاحب صدر نشین بن گئے جو بالفعل اس کے اہل ہی نہ تھے۔ انھوں نے اپنی ذمہ داری کو پس پشت ڈال دیا اور انصاف کے تقاضوں کو پورا نہ کیا۔ صدر کے اس غیر مناسب رویہ نے گویامجلس کے انہدام کی بنیاد رکھ دی۔ قارئین کرام کی مکمل آگاہی کے لیے زیر نظر مقالہ حالات و واقعات کی عکاسی کا فریضہ انجام دینے کے لیے پوری ذمہ داری کے ساتھ پر قلم کیا گیا ہے۔ ظہورالدین امرتسری (سابق سیکریٹری مرکزی مجلس رضا) " مرکزی مجلس رضا"لاہور،ماضی حال اور مستقبل،ایک ایسے ادارے کی تباہی و بربادی کی کہانی ہے جس کے مرکزی کردار کوئی غیر نہیں ہمارے اپنے ہی تھے۔ جناب ظہور الدین امرتسری صاحب نہایت جرات کے ساتھ ان کرداروں کی نقاب کشائی کرتے ہوئے انتہائی تلخ حقائق ہمارے سامنے رکھتے ہوئے جز اول پیش کیا ہے جبکہ جز دوم ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے جس کی اشاعت کے بعد مرکزی مجلس رضا لاہور کی تباہی و بربادی میں شامل اصل کردار صحیح معنوں میں ہمارے سامنے عیاں ہوسکے گیں ۔
|