“ اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل نہ کریں”

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور کے بیشتر بچے از خود بے حد ہوشیار، ذمہ دار اور باصلاحیت ہیں۔ لہذا انہیں بے جا روک ٹوک اور ذہنی و جذباتی دباؤ کی بھٹی میں ڈال کے اعلیٰ نتائج کے حصول کی کوشش، والدین کی سب سے بڑی بھول ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ ریس کے گھوڑوں کی طرح سرپٹ دوڑتے یہ بچے، والدین کو تعلیم اور کھیل کے میدان میں کامیابی کے کچھ تمغے تو جتوا دیں، لیکن زندگی کے عملی میدان میں اکثر اپنا آپ، اپنی پہچان اور اپنا مقصد حیات گنوا بیٹھتے ہیں۔

’اعلیٰ گریڈز ایک سزا ہیں جن کے حصول کے لیے بیشتر والدین خود کو اور بچوں کو مستقل اذیت میں مبتلا رکھتے ہیں۔‘ بظاہر یہ منطق عجیب معلوم ہوتی ہے تاہم غور کیا جائے تو موجودہ دور کے تعلیمی نظام کا قبلہ و کعبہ امتحان اور معراج، حصول نمبر اور گریڈز ہیں۔

آخر یہ A اور A+ گریڈز کی چمک اور پرسنٹیج کی سیڑھی ہی تو ہوتی ہے جو نئی نسل کو اچھے اسکول سے بہتر کالج، بہترین یونیورسٹی، من چاہی نوکری، کاروبار اور قابلِ رشک معیارِ زندگی کی بلندیوں تک پہنچا دیتی ہے۔ اکثر والدین کا قیاس ہے کہ اس میں اگر بے مول بچپن، لڑکپن، جوانی اور بے کار کے شوق اور رجحانات کی معمولی قربانی دینی پڑے تو سودا کچھ اتنا بُرا بھی نہیں ہے۔

روایتی طرزِ تعلیم، خواہ وہ عوامی میٹرک و انٹر سسٹم نظام ہو یا امپورٹڈ کیمبرج (او اور اے لیول) سسٹم، بچوں کی طبعی ذکاوت اور تخلیقی صلاحیتوں کے قطعی منافی ہے۔ اس پر امتحانات کا تازیانہ اور ناکامی کا خوف بیشتر بچوں کے سوچنے، سمجھنے اور سیکھنے کی صلاحیت کو مفلوج کردیتا ہے۔

جو بچے امتحانی میدان کے شہ سوار ہوتے ہیں، ضروری نہیں کہ عملی میدان میں بھی غیر معمولی کامیابی ان کا مقدر بنے. نئے معاشی نظام میں پُراعتماد ٹیم ورکرز اور تخلیقی سوچ رکھنے والے نڈر اور بے لوث افراد کی مانگ ہے جو مشکل اور فوری فیصلے کرنے کی صلاحیت اور نقصان اٹھانے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔

ہمارا فرسودہ تعلیمی نظام اس وقت بھی ایسے روبوٹ تیار کرنے میں جتا ہے جن کی زندگی کا مقصد اولین، وائٹ کالر جاب، منزل ملٹی نیشنل ادارے میں سی ای او کی کرسی اور انتہا، بیرون ملک نوکری اور شہریت کا حصول ہے، تاکہ اپنی آئندہ نسلوں کا مستقبل دیارِ غیر میں محفوظ کیا جا سکے۔

زندگی کی تمام تر مادی آسائشیں تو مل جائیں لیکن سچی خوشی، سکونِ قلب، مخلص دوستیاں اور اپنوں کی صحبت نصیب نہ ہوسکے۔ کیونکہ معاشی ہوس کی اندھا دھند دوڑ میں ساتھ چلنے والوں کو روندنا عام رواج ہے۔ یہ موجودہ مسابقتی دور کا ہی شاخسانہ ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کا آن لائن نیٹ ورک تو بہت بڑا ہوتا ہے لیکن حقیقی زندگی میں نہ تو انہیں رشتے بنانے آتے ہیں، نہ دوستیاں نبھانا۔

اکثر امتحانات کے دنوں میں ہونہار طلباء والدین سے زچ نظر آتے ہیں۔ ایسے میں کئی بچوں کو کہتے سنا ہے کہ امی جلدی بولیں جو کہنا ہے، میرے پاس وقت نہیں ہے۔ بابا لمبی بات کرنی ہے تو میسیج کردیں، میں بعد میں دیکھ لوں گا، ابھی کوچنگ کو دیر ہو رہی ہے۔

اگر اپنے بچوں کو ایک فعال اور کامیاب انسان دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں غیر مشروط احترام، محبت اور توجہ دیں اور ان کی ذات پر مکمل بھروسہ رکھیں۔ بُرے سے بُرے نتائج کی صورت میں بھی والدین کی مثبت سوچ اور متوازن ردِعمل، بچے کو مایوسی اور گمراہی سے بچا سکتا ہے.

اگر گریڈز خراب آجایں تو ان میں میں سب سے زیادہ دل برداشتہ خود بچہ بچی ہی ہوتا ہے، ایسے میں والدین کی ڈانٹ ڈپٹ، مار پیٹ اور جذباتی ردِعمل اسے توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ نتیجتاً ایسے بچے اکثر جذباتی، زود رنج اور متزلزل شخصیت کے ساتھ پروان چڑھتے ہیں جنہیں نہ خود پر اعتماد ہوتا ہے، نہ دنیا پر۔ طلباء کی یادداشت اور امتحانی تکنیک کی سمجھ بوجھ کا۔ اس سے نہ تو کسی فرد کی قابلیت جانچی جاسکتی ہے، نہ ہی اس کا علم اور شوق، لہٰذا والدین اسے زندگی اور موت کا مسئلہ نہ بنائیں۔ محض اپنی انا کی تسکین کی خاطر، ایک بچے کا کسی بھی دوسرے بچے سے موازنہ کرنا حماقت ہے۔

ہر بچہ اپنی ذات میں منفرد صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔اسے اپنی رفتار اور رجحان کے مطابق پھلنے پھولنے دیں، خود کی ناتمام خواہشات اور حسرتوں کا بوجھ اس پر نہ ڈالیں، وہ ایک تناور درخت بننے کے بجائے آپ کے خوف اور امید کی گھٹن میں محض ایک کھوکھلے وجود کی صورت پروان چڑھے جو نہ پھل دیتا ہے نہ پھول اور نہ ہی سایہ، محض معاشی الاؤ کا ایندھن بن کر رہ جاتا ہے۔

اکثر اوقات اوّل پوزیشن کی ریس میں بعض اوقات بچے بہت پیچھے رہے جاتے ہیں جبکہ کئی بچے اہنی جانوں کو بھی داؤ پر لگالیتے ہیں. بیشتر بچے جنہیں اپنے والدین کی جانب سے زیادہ نمبر لینے اور صرف جیتنے جی تربیت ملتی ہے. جن کی شکست اور ناکامیوں کو قبول نہیں کیا جاتا وہ بچے جب بڑی کلاسوں میں پہنچتے ہیں ہیں تو نفسیاتی کیفیت انتہائی پیچیدہ ہوجاتی ہے.

زیادہ نمبر لینے یا پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے لیے بچوں پر جو دباؤ ڈالا جاتا ہےاس کے باعث ان بچوں کی طبعیت میں چڑ چڑاپن اور ہٹ دہرمی آجاتی ہے.ُ

Shahid Siddique Khanzada
About the Author: Shahid Siddique Khanzada Read More Articles by Shahid Siddique Khanzada: 392 Articles with 192186 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.