افتخار عارف کے بقول لفظ خالقِ ِ کائنات کی عظیم نعمت اور مخلوقِ
خدا کی امانت ہوتے ہیں۔خدا انسان اور کائنات کے تکون میں یہ لفظ ایسے ترجمان ہیں جو
حدودِ زمان ومکان میں پھیلے ہوئے تمام تر پوشیدہ اور عیاں قصے جانتے ہیں۔یہی لفظ جب
ادب کا لبادہ اوڑھ کر سامنے آتے ہیں تو انسان کے داخل میں ایسی ایسی پرتیں کھول
دیتے ہیں کہ جہانِ فکر میں غیر محسوس طور پرکئی در وا ہوجاتے ہیں ،جہاں سے دنیاکی
نیرنگیوں کا تماشا کیا جاسکتا ہے۔کس دور کے کس شاعر نے کس لفظ کو کیسے برتا، خیالات
کی پہنائیوں سے کیا کیا کچھ سمیٹ کر سامنے لایا یہ ایک طویل بحث ہے ، فی الوقت
ہمارے ہمدمِ دیرینہ اسحاق وردگ کا مجموعہ‘ شہر میں گاؤں کے پرندے’ کو مدِ نظر رکھ
کربات کرتے ہیں۔
کتاب کا نام پڑھ کر پہلے پہل ذہن میں زندگی کے ایک محدود تجربے کا وہ تصور بیٹھ
جاتا ہے جس کے تحت بیان ہونے والے بیشتر موضوعات تقریبا کلیشے کی حیثیت اختیار کر
چکے ہیں مگر ڈاکٹر موصوف کی شاعری بارے میرا ذاتی دعویٰ یہ ہے کہ ِاسے محض مقامی
تناظر میں دیکھنے سے پورا منظر نامہ نہیں کھلتا ۔ یہ درونِ ذات پھیلی کائنات کا
اظہاریہ بھی ہے اور بیرونِ ذات لہر در لہر نیرنگیوں کا بیان بھی۔چونکہ اسحاق وردگ
نے آغاز میں افسانے بھی لکھے ہیں اس لیے یہ بات میں یقین سے کہتا ہوں کہ ان کے اندر
موجود پرانا کہانی کار اس کتاب کے ذریعے شعری قالب میں نئے انداز کے افسانے تراش کر
سامنے لایا ہے۔ ان کے اس شعری کینوس پر سماجی رویوں کی عکاسی بھی نظر آتی ہے اور
رومان پرور تمتماتے چہروں کے محبت سے لبریز دل بھی اپنا احساس دلاتے ہیں۔ اس میں
عشق و حیات کی بند گلی کی کہانیاں بھی ہیں اورتاریک خاموشی میں پرندوں کے دکھ
دیکھنے والی بصیرت کے جلوے بھی ،اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے کہ یہ شاعر خواب کے
راستوں میں کھڑی دیوار کے پارموجود کرداروں کی خبر بھی لاتا ہے۔ ایک نئے شاعر کے
پہلے مجموعے میں وحشتوں اور دہشتوں کے یہ عفریت دیکھ کر دکھ بھی ہوتا ہے اور خوشی
بھی۔ دکھ اس لیے کہ خیال و خواب کی سنہری تعبیریں ڈھونڈنے والا میر کے رنج و الم
جمع کرکے دیوان جوڑنے پر مجبورکیوں ہو گیا ہے ، خوشی اس لیے کہ ہمارے آج کا شاعر
اپنے ماحول کامکمل ادراک رکھتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ محض شعر نہیں کہتا بلکہ تاریخی
دستاویز محفوظ کر رہا ہے۔
یہ شعر ملاحظہ کریں:
مشکل ہے تجھے آگ کے دریا سے بچا لوں اے شہرِ پشاور ! میں تجھے ہار گیا ہوں
َِّیہ فقط ایک شعر نہیں بلکہ ان لفظوں کی تہ میں درد و کرب سے بے حال ایک بے بس دل
کی فریاد ہے ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ حالات کی تلخیاں کتنی سنگین ہوں گی جس نے ایک
قلم کار کو لڑتے لڑتے یہ صدا لگانے پر مجبور کر دیا ہو گا ۔ ایک ایسا فردجو دروازے
کو اوقات میں لانے کے لیے دیوار کے اندر سے جانے کا ہنر جانتا ہے ، جو دنیا داری
اور رسوم و قیود سے بے نیاز خوشی خوشی جیتی ہوئی بازی ہارنے کا حوصلہ رکھتا ہے اس
کے لہجے پر یاس کا غلبہ کیوں نظر آنے لگتا ہے؟
اسحاق وردگ کی اسی حساسیت نے اسے بچپن ہی میں بوڑھا کر دیا ۔ شاعری اگر محسوسات کی
دنیا ہے تو حالات کے جبر کو اس نے روزِ اول سے محسوس کیا ۔ جہاں موسمِ گل پر خزاں
کے پہرے بٹھائے گئے ہوں اور ہر خواب کو بے تعبیر رکھنے کے منصوبے عروج پر ہوں وہاں
ایک کومل دل اور معصوم دماغ کی نمو زہر پی پی کر ہی ہوتی ہے۔انسان سے بچپن اور
جوانی کے موسم غیر محسوس انداز میں لے لینا بڑا ستم ہے ، اس محرومی کا ازالہ ممکن
نہیں مگر اسحاق نے اپنے اندر موجود شاعر کی ذات اسی ادھورے پن سے مکمل کی ہے۔ یہ
تخلیقی کرب ناقابلِ برداشت سہی مگر یہ ایک شاعر کے ہونے کا حوالہ بن جاتا ہے۔
چہرے پہ صرف رنگِ خزاں دیکھتا تھا میں جب آئنے میں خود کو جواں دیکھتا تھا میں
مجھ کو مرے مزاج کی عینک نہ مل سکی ایقان میں بھی رنگِ گماں دیکھتا تھا میں
بچپن سے میری آنکھ حقیقت شناس تھی ہر وقت صرف عہدِ خزاں دیکھتا تھا میں
شخصی تضادات ، مفادات کی دوڑ میں منافقانہ چالیں ، تعلقات کی ناپائیداری چاہے مقامی
سطح پر ہوں یا عالمی سطح پر، یہ عہدِ حاضر کے المیے ہیں جن سے آج کا انسان دوچار
ہے۔ موجودہ دور میں بے چہرگی کا عذاب کہیں تو جبری ہے مگر کہیں یہ خود ساختہ رویے
کی صورت میں بھی سامنے آتا ہے جس پر افسوس کا اظہار اس مجموعے میں جگہ جگہ ملتا ہے:
ہونے کا اعتبار نہیں کر رہے ہیں لوگ اب خود کو اختیار نہیں کر رہے ہیں لوگ
فی زمانہ یہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے کہ موجود سے بے اعتنائی اور لاموجود کی ہوس
میں انسان اپنا تشخص اور ذات تک کا اعتبار کھو چکا ہے۔ فرد کی اس ظاہری موت کو جس
بے ساختگی کے ساتھ ذیل کے شعر میں باندھا گیا ہے اس کا جواب نہیں۔
شاید کہ میری موت کا اعلان ہو چکا اب مجھ پہ کوئی وار نہیں کر رہے ہیں لوگ یہ موت
جسمِ خاکی کے فنا کا اعلان نہیں بلکہ خواب و خیال کی سرزمین کا بے آب و گیا ہ ہو کر
صحرا میں بدل جانے کا حوالہ ہے۔ اس پر لوگوں کی سرد مہری ، لاتعلقی اور اجتماعی بے
حسی کی انتہا نے شاعر کے ہاں ایک نوحہ کی شکل اختیار کر لی ہے۔اس ضمن میں دیکھا
جائے تو بطور رد عمل ان کی شاعری میں وجودیت کے تحت احساسِ ذات کے حوالے خاصے
نمایاں ہیں جواپنے مخصوص پس منظر میں بہت اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ وہ خارج میں
مظاہر کائنات اور ارد گرد پھیلے ہوئے رشتوں میں اپنی تلاش اور اہمیت کا کھوج لگانے
والے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں کہیں تو ان کی ذات ایک سوالیہ نشان بن کر ان کے
سامنے آتی ہے اور کہیں ان سرد مہر، بے نیاز رویوں کے بیچ اپنی بے وقعتی پر کڑھنے
لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں لفظ ،‘ میں’ کا استعمال نت نئے زاویوں سے
دیکھا جا سکتا ہے۔ ‘میں’، ‘میری’، ‘میرا’، ‘ہوں’، ‘ مجھ کو’، ‘مجھے’ جیسے متکلمانہ
ردیف ان کی کئی غزلوں میں استعمال ہوئے ہیں جن میں ان کی ذات بطور خاص موضوع بنی ہے
مگر یاد رہے کہ یہ معاملہ من و تُو والا فلسفہ نہیں بلکہ ایسے مقامات پر ذات کے
آئنے میں سسکتے بلکتے احساس میں گرفتار ہر اس شخص کا عکس نظر آتا ہے جو کسی نہ کسی
صورت بے حسی کا شکار ہو چکا ہوتا ہے۔
زندہ ماؤں کا مرثیہ ہوں میں اک دھماکے کا واقعہ ہوں میں
تمھیں میری ضرورت بھی پڑے گی پرانے شہر کا نقشہ ہے مجھ میں
احساسات کے اس شاعر اسحاق وردگ کو اگر‘ احساس وردگ’ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
احساسات کے ضمن میں ان کی شاعری کا ایک خوب صورت اور جدید پہلو احتساسی کیفیت ہے جس
میں مختلف حسیات باہم یوں مدغم ہو جاتی ہیں کہ ان کی شاعری ساحری بن جاتی ہے۔ جہاں
رنگ ذائقہ کی صورت محسوس ہونے لگتے ہیں اور خوشبو رقص کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
‘ شہر میں گاؤ ں کے پرندے’ کا مطالعہ دراصل اردو شعری جدت اور جدت طرازی کا مطالعہ
ہے جو دورِ جدید میں ہلچل مچاکر حیاتِ انسانی میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر اتھل
پتھل کرنے والے حالات و واقعات کو سامنے لاتا ہے۔فرد اور معاشرے کے تعلق کو جس مؤثر
طریقے سے یہاں اجاگر کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اسحاق کے ہاں دورِ جدید کے کئی
پہلوؤں کے حوالے سے ایک مزاحمتی رویہ موجود ہے جو بنے بنائے مدار کو توڑ کر ایک نئی
تشکیل کی خواہش سامنے لاتا ہے۔ ان کی جدید حسیات ذیل کے چند اشعار میں ملاحظہ کی جا
سکتی ہیں۔
آگ کا پیکر زمیں پر آگیا خاک زادوں سے حسد کرتا ہوا
تیرے کردار کو نبھانے میں مجھ کو مرنا پڑا فسانے میں
خواب کے راستے پہ چلتا ہوا آگیا ہوں کباڑخانے میں
اوپر کے شعر میں ایک غیر شعری اور غیر رومانوی لفظ کو جس سلیقے سے برتا گیا ہے اس
سے ایک خاص طرح کا شعری حسن پیدا ہوا ہے۔ایسی کئی مثالیں اس مذکورہ مجموعے میں
موجود ہیں جو اسحاق وردگ کی قادر الکلامی اور فکری پختگی پر دال ہیں۔یوں تو ان کے
ہاں خارجی جبر اور ناہمواریوں پر احتجاج نظر آتا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ
زندگی کی ان بد رنگیوں میں وہ عشق و محبت کی لطافتوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔ وہ عشقِ
کامل پر یقین رکھنے والے شاعر ہیں اور اس کے لیے وہ ہر قسم کی قربانی دینے پر آمادہ
ہیں۔
دین و دنیا سے جانا پڑتا ہے دل کو دیوانگی بنانے میں
خواب زندگی کو نارمل بنانے اور آگے بڑھانے کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں ۔اسحاق وردگ
کی شاعری یہ گواہی دیتی ہے کہ وہ خواب دیکھنے والے شاعر ہیں اور ان کے خوابوں نے ان
کی شعری دنیا کو آباد رکھا ہوا ہے۔گو کہ خوابوں کی یہ دنیا مکڑی کے جال کی طرح
الجھی ہوئی ہے لیکن امید و آس کا دامن وہ کبھی نہیں چھوڑتے ۔ خواب اور تعبیر کے
درمیان ایک مبہم سی امید کو وہ ایسا آئینہ بناتے ہیں کہ آسمان سے بھاگنے والے بشر
کے طعنے سننے والا یہ شاعر کبھی ٹوٹے کرداروں کا ملبہ جوڑ کر نیا قصہ بنانے کی سعی
کرتے ہیں اور کبھی یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں :
اے پشاور !آخری کوشش ہے یہ خواب سے اک فاختہ لایا ہوں
مسلسل سفر اور اڑان پر یقین رکھنے والا یہ شاعر منزل پر پہنچ کر بھی سفر جاری رکھنے
والا مسافر ہے جو روح کی پیاس صحرا سے بجھانے کا ہنر جانتا ہے۔ وہ زندگی کی حقیقتوں
کا ادراک بھی رکھتے ہیں اور جہاں سچ اور حق بات کہنے کی ضرورت محسوس کرے تو بلا
جھجھک اظہار اور اعتراف سے کتراتے بھی نہیں۔سماجی سطح پر بندھے ہوئے رشتوں کی شکایت
کرنی ہو یا سیاسی دنیا میں ہمارے اپنے لیڈران کی کم ظرفی اور نااہلیوں کو ہدفِ
تنقید بنانا ہو، جو دوسروں کے ہاتھ میں کٹھ پتلیاں بن کر ہماری قسمتوں کے فیصلے
کرتے ہیں ، بین الاقوامی استعماری طاقتوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے بھی
وہ کسی رعایت کے رودار نہیں ،جس طرح طاقت کے زعم میں مبتلا یہ بد مست ہاتھی طاقت کے
نشے میں کمزور کو روندتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ، ہمارے ساتھ وہ جو رویے رکھتے ہیں اور
جو ڈرامے کرتے ہیں ان سب پر شاعر گہری نظر رکھتے ہیں اور ا ن کا شعری محاسبہ کر نا
اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔یہاں ان کے ایک مثبت رویے کا ذکر نہ کرنا نا انصافی کے
زمرے میں آئے گا، وہ یہ کہ دوسروں کی نااہلیوں پر طنز کرتے ہوئے وہ اپنی کمی
کوتاہیوں سے بھی صرفِ نظر نہیں کرتے بلکہ وہ اس کا بھی برملا اظہار کرتے ہیں۔
سبھی کردار ساکت ہو گئے ہیں کہانی چل رہی ہے منتروں سے
ہماری خاک ہی میں مسئلہ ہے شکایت کچھ نہیں کوزہ گروں سے
یہ سچ ہے کہ ہر دور اپنے موضوعات لے کر آتا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اپنا
ڈکشن علامتوں ، تشبیہات اور استعاروں کی صورت میں تخلیق کار خود بناتا ہے۔اسحاق کے
ہاں لفظیات کے چناؤ اور ہنر مندی سے اس کے استعمال پر ان کی فنکاری کی مہر لگی ہوئی
ہے۔وہ منظر دیکھ کر تماشا کرنے والے شاعر نہیں بلکہ اس میں اتر کر باریکیاں تلاشتے
ہیں اور پھر جب اس پر اظہار خیال کرتے ہیں تو پڑھنے والا بیان کی گہرائی اور گیرائی
سے دیر تک عالمِ حیرت میں مبہوت رہ جاتا ہے۔
سڑک کے بیچ میں گاڑی کھڑی ہے کہ گاڑی چل رہی تھی مشوروں سے
فطرت سے کلام ہر اچھے شاعر کا مشغلہ اور اچھی شاعری کا حسن ہوتا ہے۔ اس سے تو انکار
نہیں کیا جا سکتا کہ اچھا ادب گہرے رنج اور ناقابلِ برداشت تلخیوں سے جنم لیتا ہے
۔اسحاق وردگ بھی اپنے شعری فن کی نمو داخل اور خارج کی بے چینیوں سے کرتے ہیں یہی
وجہ ہے کہ ان کے ہاں کربِ زیست کے سب حوالے نئے ذائقوں کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ ان
کے پاس فلک کی شاخ سے لپٹا ،روتا ہوا ستارہ دیکھنے والی بصیرت بھی ہے اور بوقتِ شام
سسکتے ہوئے سورج کے دکھ کو اپنے اندر اتارنے والا احساس بھی ہے۔ بظاہر اپنی ذات میں
الجھا یہ شاعر سر جھکائے بے نیاز ی سے چلتا ہے مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ
روشنی کی پکار پر آگے بڑھتا ہے اس لیے تو وہ یہ کہتے ہیں:
ہو گیا خاص مجھے خاص سمجھنے والا ہو گئے گُم مجھے گم راہ سمجھنے والے
اگر یہ رات مجھے جاننے سے قاصر ہے تو روشنی سے کبھی پوچھ لے پتا میرا
اسحاق وردگ کے ہاں لفظی سطح ہی پر انفرادیت نہیں بلکہ وہ پورے شعر میں ایسی انوکھی
بات کہ جاتے ہیں جو بڑے بڑے شعرا کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آتی وہ جمود زدہ
اقداری بیانیوں کے تسلسل اور محض روایت کی کڑیوں میں فکری اسیری کے قائل نہیں بلکہ
ان میں حصارِ ذات کو توڑنے کا حوصلہ بھی ہے اور مدارِ حیات سے نکلنے کا جنون بھی۔
ذیل کا شعر ملاحظہ کریں جس میں ایک نئی فکری تازگی کی جھلک اپنا بھرپور احساس دلا
رہا ہے۔
بہت مشکل تھی جنت سے رہائی بغاوت کی بدولت خاک پر ہوں روایت اور فکر و خیال کی یہ
ردِ تشکیل ان کے ہاں نئی منزلوں کی بشارت دیتی ہے۔بعض مقامات پر تو ان کے ہاں شعری
مضامین ایسے فلسفیانہ انداز میں سامنے آتے ہیں کہ ذہن کے گرد ان گنت سوال دائروں
میں اڑنے لگتے ہیں۔ ذیل میں درج یہ چند اشعار میرے دعوے کی دلیل ہیں۔
اساطیری فسانے غور سے سنتے ہیں ذرے سنا ہے دشت میں گہرے سمندر بولتے ہیں
یہ شہرِ وقت ہے اس کے قرینے مختلف ہیں زمیں خاموش ہے اور اس کے چکر بولتے ہیں
فلک کی آنکھ پہ حیرت سرائے کھولوں گا حدودِ وقت کے صحرا کو پار کرتے ہوئے
فلسفہ پڑھنے لگا ہوں ذات کا زلزلے آنے لگے ایمان میں
اسحاق وردگ کی شاعری کا اگر لفظیاتی سطح پر جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی ان کی جدت
اور انفرادیت اپنے ہونے کا اعلان کرتی ہے۔ ان کے ہاں ایسے انوکھی اور نرالی تراکیب
پڑھنے کو مل جاتی ہیں کہ شعر کی تخلیقی سرشار ی قاری کو پُرکیف احساس میں اتار دیتی
ہے۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مذکورہ صفت ان کے ہاں محض تجرباتی مشغلہ نہیں بلکہ
انھوں نے جس لفظ اور ترکیب کو باندھا ہے اس کی صوری اور سمعی حسن کو دوبالا کیا ہے
بلکہ ایسے اشعار میں معنوی تہ داری بطور خاص توجہ کھینچ لیتی ہے۔
وقت کی ریل کے آگے ہیں سبھی لوگ یہاں اور اس ریل نے ہے سب کو مٹانا مرے دوست
ذات کے اسم کو ڈی کوڈ کروں گا پہلے پھر خرابے کو بناؤں گا ٹھکانہ مرے دوست
شہر میں گاؤ ں کے پرندے’ خیبر پختونخوا کے شعری ادبی منظر نامے پر ایک خوب صورت
اضافہ ہے جو لائقِِ ستائش ہی نہیں بلکہ موضوعاتی اور اسلوبیاتی سطح پر قابلِ تقلید
بھی ہے۔آخر میں یہی کہوں گا کہ اسحاق وردگ نے زندگی اور فن کو وقت گزاری کا مشغلہ
نہیں سمجھا بلکہ اسے سنجیدگی سے برتا اور اس کی تلخیوں سے یہ شعر ی عطر کشید کیا
ہے۔
|