“ مردِ مومن کو اگر مجسم حالت میں دیکھنا مقصود ہو تو ٹیپو سلطان شہید اس کا بہترین نمونہ ہے“

میسور کی دوسری جنگ جاری تھی کہ حیدر علی کا اچانک انتقال ہو گیا۔ آپ کے بعد آپکا بیٹا فتح علی ٹیپو سلطان جانشیں ہوا۔ ٹیپو سلطان جب تخت نشین ہوئے تو آپ کی عمر 32 سال تھی۔ آپ ایک تجربہ کار سپہ سالار تھے اور والد کے زمانے میں میسور کی تمام لڑائیوں میں شریک رہ چکے تھے۔ حیدر علی کے انتقال کے بعد آپ نے تنہا جنگ جاری رکھی کیونکہ مرہٹے اور نظام دکن انگریزوں کی سازش کا شکار ہو کر اتحاد سے علیحدہ ہو چکے تھے۔ ٹیپو سلطان نے انگریزوں کو کئی شکستیں دیں اور وہ 1784ء میں سلطان سے صلح کرنے پر مجبور ہو گئے۔

ٹیپو سلطان ایک اچھا سپہ سالار ہونے کے علاوہ ایک مصلح بھی تھے۔ سلطان حیدر علی ان پڑھ تھے لیکن ٹیپو سلطان ایک پڑھے لکھے اور دیندار انسان تھے۔ نماز پابندی سے پڑھتے تھے اور قرآن پاک کی تلاوت آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔ ٹیپو سلطان نے اپنی ریاست کے عوام کی اخلاقی و معاشرتی خرابیاں دور کرنے کے لیے اصلاحات کیں۔

ٹیپو سلطان تاریخ اسلام کا وہ لازوال کردار ہے جس پر عالم اسلام تا قیامت نازاں رہے گا ۔ مسلم مورخ سچ لکھتا ہے کہ حضرت اقبال کے مردِ مومن کو اگر مجسم حالت میں دیکھنا مقصود ہو تو ٹیپو سلطان شہید اس کا بہترین نمونہ ہے۔ تاریخ عالم شاید ہی اس جری و اولوالعزم مسلم سلطان کی کوئی مثال یا نظیر پیش کر سکے گی۔ ٹیپو سلطان شہید نا صرف ایک مردِ مجاہد تھا بلکہ حقیقی معنیٰ میں حضرت اقبال کا وہ مردِ مومن تھا جو عالِم بھی تھا اور عابد بھی۔ ایک جری سپاہی اور بہترین سپہ سالار بھی تھا اور ایک بہترین حاکم و منتظم بھی۔ ایک تجربہ کار سیاستدان اور غیر معمولی بصیرت رکھنے والا عوامی رہنما بھی تھا اور عوام دوست قائد بھی۔

سلطان حیدر علی کی وفات کے بعد جس وقت عنانِ حکومت ٹیپو سلطان کے ہاتھ آئی امت مسلمہ کا شیرازہ بکھر رہا تھا اور مسلمانانِ ہند تقسیم ہو رہے تھے۔ ٹیپو سلمان نے ایک جانب اپنی پوری توجہ اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین الاقوام ہند پر مرکوز کی تو دوسری جانب ملک کی صنعت و حرفت پر بھرپور توجہ دی۔ سلطان کے یہی عزائم و ارادے تھے جنہوں نے صلیبی ایسٹ انڈیا کمپنی کو اس مسلم سلطان کا مخالف بنا دیا اور اسی مخالفت نے اس کو تمام عمر جنگوں میں مصروف رکھا۔ مگر باوجود اس کے سلطنتِ خداداد میسور نے صنعت و حرفت اور دیگر فنون میں جو ترقی کی وہ میسور کو کبھی دوبارہ حاصل نہ ہوسکی ۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورے شیطان جان چکے تھے کہ اگر ٹیپو سلطان کو اپنے ارادوں میں کامیاب ہونے دیا جائے گا تو پھر مغربی طاقتوں کا ہندوستان پر قبضہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔ ٹیپوسلطان کے خطرہ کو ختم کرنے کے لیے انگریز، نظام اور مرہٹے متحد ہوگئے۔انگریز اسے ہندوستان پر اپنے اقتدارِ کامل میں سب سے بڑی، بلکہ واحد رکاوٹ سمجھتے تھے۔ اس مسلم دشمن اتحاد کے مقصد کو مزید کامیاب بنانے اور رائے عامہ کی اخلاقی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے انگریزوں نے نہایت عیاری سے ٹیپو سلطان کی مفروضہ چیرہ دستیوں کو اس انداز میں دور تک پہنچادیا کہ خود اپنے بھی اس سے نفرت کرنے لگے۔ حتیٰ کہ فورٹ ولیم کی دیواروں پر کھڑے ہو کر اعلان کردیا گیا کہ سلطان ٹیپو سفاکی اور بربریت میں چنگیز اور ہلاکو سے بڑھ کر ظالم اور انسان دشمن ہے۔ اور پھر مئی 04 1799 ء 29 ذی قعدہ 1213 ہجری کو ٹیپو سلطان شہید نے اپنی زندگی میں آخری مرتبہ سورج نکلتے دیکھا۔ صبح سویرے اپنے طاﺅس نامی گھوڑے پر سوار ہوکر وہ فوجیوں کے معائنے کیلئے نکلا ۔ انگریزوں کی مسلسل گولہ باری سے قلعہ کی دیوار چند مقامات پر گر چکی تھی ۔ سلطان نے اس کی مرمت کا حکم دیا اور پھر واپس محل آ جا کر غسل کیا۔ یاد رہے کہ قلعے کے محاصرے کے بعد سے وہ محل میں رہائش ترک کر کے سپاہیوں کی طرح اک خیمہ میں رہنے لگا تھا ۔ غسل سے فارغ ہونے کے بعد دوپہر تک فصیل کی مرمت دیکھتا رہا۔ دن کے ایک بجے وہ فصیل سے نیچے اترا ایک درخت کے سائے میں نماز ظہر ادا کی اور وہیں دوپہر کا کھانا طلب کیا۔ مگر ابھی ایک نوالہ ہی لیا تھاکہ شہر کی طرف سے رونے اور چلانے کی آوازیں سنائی دیں۔

ٹیپوسلطان نے سپاہیوں سے دریافت کیا کہ یہ شور کیسا ہے تو معلوم ہوا کہ شاہی توپ خانے کا سردار سید غفار شہید ہو گیا ہے اور انگریزی فوج سلطنت کے غداروں کی مدد سے بلا روک ٹوک قلعہ کی طرف بڑھی چلی آرہی ہے۔ وہ فوراً دسترخوان سے اٹھ کھڑے ہوا چند جانثاروں کو ساتھ لیا اورقلعہ کے دریچے ڈڈی دروازہ سے نکل کر دشمن پر حملہ کرنے کیلئے بڑھا۔ ٹیپو سلطان کے باہر نکلتے ہی غدار ِ ملت میر صادق نے اندر سے دریچے کو بند کر دیا تاکہ اگر سلطان کو واپس قلعہ میں آنا پڑے تو وہ واپس نہ آسکیں۔ اور پھر شیر میسور سلطان فتح علی ٹیپو امت مسلمہ اور دین محمدی کی سربلندی اور آزادی ءامت کی حفاظت کرتا ، دست بدست مردانہ وار لڑتا ہوا اپنی جان پر کھیل کر شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہو کر ٹیپو شہید کہلایا.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 394 Articles with 197268 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.