سیاست کے کھیل میں اگر کوئی رہنما مخالفین کو اپنے پالے
کے اندر لانےکی کامیابی حاصل کرلے تو اس کے لیے آسانیوں کا در کھل جاتاہے۔
اس لیے کہ پھر دوسرے لوگوں اس کے ذریعہ اٹھائے جانے والے مسائل پر ردعمل
دینے کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس طرح اسے کامیابی کی شاہِ کلید مل جاتی ہے
۔ ایک زمانے میں مودی جی کے چھوڑے ہوئے شوشے سے حزب اختلاف پریشان ہوا کرتا
تھا مثلاً چائے والا شوشہ کہ لوگ اس میں الجھے تو انہوں نے چائے پر چرچا
شروع کردی اور وہ ہٹ ہوگئی۔ اس زمانے میں الگ الگ لوگ اپنے اپنے انداز جواب
دینے لگ جاتے اور اس سے پہلے کہ وہ سلسلہ تھمتا مودی جی ایک نئی پھلجڑی
چھوڑ دیتے ۔ اس طرح تمام سیاسی بحث و مباحثہ میں مرکزی حیثیت مودی جی کو
حاصل رہتی ۔ آج کل الٹا ہورہا ہے ۔ وزیر اعظم اپنا مندر اور اپنی گارنٹی
بھول کر دن رات کانگریس اور اس کے منشور پر وقت اور توانائی ضائع کرنے میں
مصروف عمل ہیں۔ اس طرح وہ نادانستہ طور پر اپنے مخالفین کی مدد کررہے ہیں۔
کانگریس کے جس منشور کو خود کانگریسی بھول گئے تھے اسے مودی کی مخالفت نے
مقبولِ عام کر دیا ہے۔
گودی میڈیا میں داخل ہونے والے نئے رنگروٹ شیکھر گپتا نے پچھلے دنوں اس
تشویش کا اظہار کیا تھا کہ پہلی بار کانگریس کے پالے میں جاکر بی جے پی میں
کھیل رہی ہےلیکن انہیں بھی اندازہ نہیں ہوگا کہ مودی جی خود اتنی بڑی غلطی
کربیٹھیں گے۔ وزیر اعظم نے اپنے اس احمقانہ بیان سے تولین سنگھ جیسی مداح
کے لیے بھی مسائل کھڑے کردیئے ہیں جو راہل گاندھی سے اس لیے پریشان تھیں کہ
وہ ملک کی خاطر دولت پیدا کرنے والے اڈانی اور امبانی کولٹیرا کہتے ہیں ۔
اب مودی جی نے انہیں راہل کو کالے دھن میں سے چندہ دینے والا بتا دیا۔تولین
سنگھ اپنے ہفتہ واری کالم میں مودی جی کی اس حرکت کو کیسے جواز فراہم کرتی
ہیں یہ دیکھنا قابلِ دید ہوگا ۔ وزیر اعظم نے اپنے تازہ بیان سے بیرونی
مداحوں کے ساتھ ان پارٹی کارکنان کو پریشان کردیاہے ہیں جو اٹھتے بیٹھتے
ادانی کا حق نمک ادا کرتے پھرتے تھے۔ اب تو یہ سوال بھی پیدا ہوگیا ہے کہ
للت مودی ،نیرو مودی اور میہول چوکسی کی مانند کہیں امبانی اور اڈانی بھی
ملک سے فرار نہ ہوجائیں ۔ ان لوگوں نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ مودی جی کے
طفیل ان پر ایسا برا وقت آجائے گا ۔ ویسے ان بیچاروں کی بھلائی اسی میں ہے
کہ جھولا اٹھا نکل لیں ورنہ نئی حکومت نے اگر ان کے جھولے کی تلاشی لے لی
تو اس میں سے کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی منظر عام پر آجائیں گے اور انہیں
محمد دین تاثیر کی مانند سی بی آئی و ای ڈی کو کہنا پڑے گا؎
داور حشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
راہل گاندھی نے 8؍فروری 2023کو تصویر سمیت ایوانِ پارلیمان میں پہلی بار
اڈانی اور مودی کے رشتوں کا معاملہ اٹھایا تھا ۔ انہوں نے اپنی بھارت جوڑو
یاترا کے تناظر میں کہا تھا کہ دورانِ سفر بہت سے لوگوں نے پوچھا کہ یہ
اڈانی جی اتنی تیزی کے ساتھ اتنے امیر کیسے ہوگئے ؟ راہل گاندھی نے براہ
راست یہ الزام لگایا کہ مودی حکومت کی ملکی، خارجہ اور اسٹریٹجک پالیسیاں
اور ترقیاتی پروگرام صنعت کار گوتم اڈانی کو فائدہ پہنچانے کے لئے بنائے
جارہے ہیں۔اس کی عالمی سطح پر تحقیق ہونی چا ہئے ۔ مودی کو سیاست اور
کاروبار کے درمیان اس انوکھے رشتے کے لئے `گولڈ میڈل دیا جانا چا ہئے۔ راہل
نے پوچھا کہ یہ جادو کیسے ہوا کہ 2014ء میں دنیا کے امیر ترین لوگوں کی
فہرست میں 609؍ویں نمبر پر رہنے والے گوتم اڈانی 2022ءمیں دوسرے نمبر پر
پہنچ گئے۔ ان کی مجموعی مالیت 8؍ارب ڈالر سے بڑھ کر 140؍ ارب ڈالر سےکیسے
تجاوز کر گئی؟
عوام کا حوالہ دیتے ہوئے راہل نے کہاتھاکہ گوتم اڈانی2014 ءسے پہلے تین سے
چار شعبوں میں کام کرتے تھے۔ اب وہ بندرگاہوں، ہوائی اڈوں، قابل تجدید
توانائی اور اسٹوریج وغیرہ کےآٹھ دس شعبوں میں کام کررہے ہیں۔ اڈانی ہماچل
پردیش اور جموں کشمیر میں سیب کا کاروبار بھی کریں گےاور ہوائی اڈےو
بندرگاہیں اڈانی چلائیں گی۔ آخر اڈانی جی کو یہ کامیابی کیسے ملی؟ ان کا
ہندوستان کے وزیر اعظم سے کیا رشتہ ہے؟ اس کے بعد انہوں نے ایوان میں اڈانی
کیساتھ پرائیویٹ طیارے میں وزیر اعظم مودی کی تصویر دکھائی، جس پر حکمراں
پارٹی کے اعتراض کے بعد لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا نے پوسٹر یا تصویر نہ
دکھانے کی درخواست کی ۔ اس پر راہل نے کہا کہ یہ پوسٹر ایک تصویر ہے جسے
دکھانے کی اجازت ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ اس دوستی کےبارے میں ملک جاننا
چاہتا ہے۔ انہوںنے بتایا کہ یاترا کے دوران کیرالا، تمل ناڈو، مہاراشٹر،
مدھیہ پردیش، پنجاب، جموں کشمیر میں لوگوں نے پوچھا کہ یہ اڈانی کسی بھی
کاروبار میں ناکام کیوں نہیں ہوتا ۔ یہ ہم بھی سیکھنا چاہتے ہیں۔
کانگریس لیڈر نےیہ بھی کہا تھا کہ بھارت جوڑو یاترا کے دوران ا ستفسار کیا
گیا کہ ایل آئی سی کا پیسہ اڈانی کو کیوں دیا جا رہا ہے جبکہ اسٹاک مارکیٹ
میں ان کے حصص اتار چڑھاؤ کا شکار ہیں۔ وہ پبلک سیکٹر کے بینکوں سے ہزاروں
کروڑ روپے کیسے حاصل کر رہے ہیں؟ اگر کوئی دوسری کمپنی اڈانی کے راستے میں
آڑے آتی ہے تو اسے سی بی آئی اور ای ڈی کے ذریعے کیوں ہٹا دیا جاتا ہے؟
انہوں نے کہاتھا کہ ہنڈن برگ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اڈانی کی شیل
کمپنیاں ( یعنی بیرون ملک جعلی کمپنیاں) ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان شیل کمپنیوں
کو بھیجی گئی رقم کس کی ہے؟اڈانی گروپ کی شیل کمپنیوں سے حکومت کیوں واقف
نہیں ہے؟ انہوں نےپوچھا تھا کہ ملک کا بجٹ کس کے لئے تیار کیا جا رہا ہے؟
کس کو 50؍ایئرپورٹ دیئے جانے ہیں۔ راہل نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ گرین
ہائیڈروجن کیلئےجو رقم مختص کی گئی ہے وہ بھی اڈانی کو ملنی ہے۔راہل کے اس
بیان نے پوری قوم کو چونکا دیا تھا کہ پہلے مودی، اڈانی کے جہاز میں سفر
کرتے تھے اور اب اڈانی وزیر اعظم کے جہاز میں نظر آتے ہیں۔ انہوں نے یہ
سوال بھی کیا تھا کہ اڈانی نے پچھلے 20؍برس میں بی جے پی کو کتنی رقم دی ہے
اور کتنے انتخابی بانڈ لئے ہیں؟
راہل گاندھی کو اس جرأت رندانہ کی یہ سزا ملی کہ 23؍ مارچ 2023 کو ایک
کرناٹک کاایک پرانا مقدمہ نکال کر ان کے خلاف سورت کی عدالت میں خطاب پر
ہتک عزت کیس میں قصوروار قرار دے دیا گیا۔ انہیں اس جرم کی سب سے زیادہ
یعنی دو سال کی سزادی گئی تاکہ پارلیمانی رکنیت ختم کی جاسکے۔ اس کے بعد
ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے سے قبل نہ صرف ایوان پارلیمان سے نکال باہر کیا
گیا بلکہ گھر بھی خالی کروالیا گیا ۔اس معاملے میں راہل گاندھی کا قصور صرف
ان کا ایک سوال تھا کہ : ’’یہ سارے چوروں کے ناموں میں مودی کیوں ہوتا ہے؟
نیرو مودی، للت مودی اور نریندر مودی۔ ہمیں نہیں معلوم ایسے اور کتنے مودی
آئیں گے؟" گجرات کی ہائی کورٹ نے اس فیصلے کی تائید کردی اور راہل کے سر پر
دو سال کے جیل جا نے کے ساتھ اگلے آٹھ برس تک کسی الیکشن میں حصہ نہ لینے
کی تلوار لٹکنے لگی ۔ ان کے سامنے معافی مانگ کر خلاصی کا موقع تھا لیکن
انہوں نے کہا معافی گاندھی نہیں ساورکر مانگتے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو سپریم
کورٹ کا اس نے مودی سرکار کی ناک کاٹ کر چوراہے پر پھینک دی اور راہل کی
پارلیمانی رکنیت بحال ہوگئی۔
مودی سرکار کی ساری دھونس دھمکی کے باوجود راہل گاندھی کا اڈانی جہاد جاری
رہا۔ 31؍اکتوبر 2023 کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا
کہ وزیر اعظم مودی کی روح اڈانی میں رہتی ہے۔ وہ بولے ’’ہم نے اڈانی کے
معاملے پر حکومت کو اس حد تک گھیر لیا ہے کہ حکومت نے اب جاسوسی کا سہارا
لیا ہے۔ اڈانی حکومت میں پہلے نمبر پر اور پی ایم مودی دوسرے نمبر پر ہیں۔
امت شاہ تیسرے پر آتے ہیں۔ ملک کی طاقت اڈانی کے ہاتھ میں ہے۔ راہل گاندھی
نے بھارت جوڑو نیائے یاترا کے اختتام پر18؍مارچ 2024 کو ممبئی میں اعلان
کیا کہ ’’ ہماری لڑائی کسی ایک شخص سے نہیں بلکہ ایک ’شکتی‘سے ہے، نریندر
مودی صرف اس کا ایک مکھوٹا ہیں۔ اس شکتی کے پیچھے ۲۲؍ سرمایہ کار ہیں۔ ‘‘
مودی پر جانچ ایجنسیوں کے غلط استعمال کا الزام عائد کرتے ہوئے راہل گاندھی
نے کہا کہ’’یہ صحیح ہے کہ راجا کی جان ای وی ایم میں ہے، ای ڈی، انکم ٹیکس
اور ای ڈی میں ہے۔ ‘‘دھاراوی ری ڈیولپمنٹ کا ٹھیکہ اڈانی کو دینے پر راہل
نے کہا تھا کہ’’ وہی شکتی دھاراوی کے لوگوں کو بے گھر کرکے ان کی زندگی
برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ‘‘اڈانی کے خلاف اتنا کچھ کہنے والے کوٹیمپو
میں بھر کر نوٹ دیا جانا نہایت احمقانہ الزام ہےمگر مودی جی نے اپنے بیان
سے یہ تو ثابت کرہی دیا کہ دس سالوں تک اڈانی کے خلاف ان کی زبان نوٹ ملنے
کے سبب بندتھی ۔ مودی جی کا یہ اب تک کا سب سے بڑا جھوٹ ہے بعید نہیں کہ وہ
آگے چل کر خود اپنا ریکارڈ توڑ دیں لیکن پھر بھی ان کے اندھے بھگتوں کو
کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ وہ اس پر بھی یقین کرلیں گے کیونکہ ان کی حالت اس شعر
کے مصداق ہے؎
جانتا تھا کھا رہا ہے بے وفا جُھوٹی قسم
سادگی دیکھو کہ پِھر بھی اِعتِبار آ ہی گیا
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|