پاکستان میں قومی اور صوبائی
اسمبلی کے انتخابات کے لئے ووٹر فہرستوں کی تیاری کا کام جاری ہے اور گھر
گھر جا کرووٹروں کی جانچ پڑتال کے عمل میں اکتوبر تک توسیع کی گئی ہے۔ اسی
دوران بعض حلقوں کی طرف سے یہ معاملہ اٹھایا گیا ہے کہ پاکستان کے مختلف
شہروں میں رہنے والے آزادکشمیر کے افراد کے بھی ووٹ درج کئے جائیں۔ الیکشن
کمیشن نے کہا ہے کہ جن افراد کے شناختی کارڈ پر آزادکشمیر کا ایڈریس درج ہے،
ان کے ووٹ پاکستان میں درج نہیں کئے جا سکتے ۔ آزادکشمیر کے چند حلقے اس
بات کی کوشش کررہے ہیں کہ آزادکشمیر کے پاکستان میں رہنے والے شہریوں کے
ووٹ بھی پاکستان کے انتخابات کے لئے درج کئے جائیں۔
آزادکشمیر کا قیام 24 اکتوبر 1947 ءکو آزادحکومت کی تشکیل کے ساتھ عمل میں
لایا گیا ۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق آزادکشمیر اورگلگت بلتستان
بھی مقبوضہ جموں وکشمیر کے ساتھ اس متنازعہ علاقے میں شامل ہے جس کے مستقبل
کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ تمام ریاست جموں وکشمیر و گلگت بلتستان کی
نمائندہ حکومت کے طور پر آزادکشمیر حکومت نے قیام کے فوراً بعد ہی گلگت
بلتستان کا انتظام معاہدہ کراچی کے تحت حکومت پاکستان کے حوالے کر دیا ۔ اس
کے بعد داخلی امور سے متعلق اختیارات کے حصول اور سیاسی نمائندہ حکومت کے
لئے آزادکشمیر میں کوششیں ایک عرصہ جاری رہیں۔ 1974 ءکے عبوری ایکٹ کے تحت
آزادکشمیر میں پارلیمانی نظام قائم کیا گیا تاہم چند ہی سال بعد آزادکشمیر
میںنامزد حکومت کا سلسلہ چل پڑا ۔1985 ءکے الیکشن کے بعد سے اب تک
آزادکشمیر میں سیاسی حکومت قائم چلی آرہی ہے۔ اس دوران اختیارات بتدریج
آزادکشمیر سے وفاقی اداروں / شخصیات کو منتقل ہوتے چلے گئے۔ آج بھی
آزادکشمیر میں تمام متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کی نمائندگی کے طور پر
آزادکشمیر حکومت کا ڈھانچہ قائم ہے۔ قانون سازاسمبلی ٬ صدر٬ وزیراعظم ٬الگ
ریاستی پرچم اور ایک ریاست کی علامت سپریم کورٹ ہونے کے باوجود آزادکشمیر
حکومت اختیارات اور معاملات کے لحاظ سے میونسپلٹی سطح تک گر چکی ہے۔ تاہم
علامتی طور پر آزادکشمیر حکومت تمام ریاست کشمیر کی نمائندگی کی علامت کے
طور پر قائم ہے۔ آزادکشمیر میں داخلی اختیارات کو ریاستی تشخص کے لئے ضروری
تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ پاکستان سے مختلف لابیاں
مختلف اوقات میں آزادکشمیر کوپاکستان میں ضم کرنے کی کوششیں کرتی چلی آرہی
ہیں۔ اسی طرح مسئلہ کشمیر کے حل سے پہلے گلگت بلتستان کو بھی پاکستان کا
صوبہ بنانے کی کوششوں کی مخالفت ہو رہی ہے۔
ہماری رائے میں جو افراد آزادکشمیر کے افراد کے لئے پاکستان کے قومی
انتخابات میں ووٹ کے حق کی بات کرتے ہیں وہ آزادکشمیر کے ریاستی تشخص کو
کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر آزادکشمیر کے
پاکستان میں مقیم شہریوں کو پاکستان میں ووٹ کا حق دے دیا جائے تو پھر
آزادکشمیر میں مستقل طور پر رہنے والوں کا کیا قصور ہے؟ واضح رہے کہ
آزادکشمیر کے پاکستان میں مقیم افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اس معاملے
میں فائدہ کم لیکن طویل مدتی نقصانات بہت زیادہ ہیں۔مسئلہ کشمیر کے مستقل
حل سے پہلے آزاد کشمیر یا گلگت بلتستان کا پاکستان میں مدغم ہونا خود
پاکستان کے وسیع تر مفاد ات کے منافی اقدام ہو گا۔تاہم اس کا یہ مطلب نہیں
کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں اور انتظامیہ کو مکمل اندرونی
اختیارات دینے سے گریز کیا جائے۔یہاں یہ تلخ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ آزاد
کشمیر کی انحطاط پذیری میں آزاد کشمیرکے سیاست دان بھی بڑے ذمہ دار ہیں۔
آزاد کشمیر حکومت پہلے ہی ایک ایسی لوکل اتھارٹی بن چکی ہے جسے مقامی نوعیت
کے امور میں بھی اسلام آباد سے آئینی،غیر آئینی منظوریاں لینی پڑتی ہیں۔اس
صورتحال میں کیا آزاد کشمیر کے بعض افراد پاکستان کے انتخابات میں ووٹر
بننے کے لئے مقبوضہ کشمیر اور مسئلہ کشمیر سے دستبرداری و لاتعلقی، آزاد
کشمیر میں ریاستی تشخص کے خاتمے اور مقامی حقوق سے بھی محرومی کی قیمت ادا
کرنے کو تیار ہیں؟ |