امریکی عزائم چکنا چور

حقانی نیٹ ورک اور ائی ایس ائی کے تعلقات کے غیر سروپا شوشے چھوڑ کر پاکستان کو دھمکیاں دینے والے طوطا چشم حلیف امریکہ کے جارہانہ عزائم کے توڑ کے لئے حکومتی چھتری تلے ال پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ملک کی تمام دینی سیاسی جماعتوں کے رہنما اپوزیشن قیادت اور افواج پاکستان کے جری کمانڈر اور آئی ایس آئی کے سرخیل شریک ہوئے۔ کانفرنس کے شرکا میں تمام پارٹیوں نے شرکت کرکے امریکہ سمیت پاکستان کو اپنی لونڈی سمجھنے والے مغربی ممالک کو پیغام دیا ہے کہ مختلف سیاسی مسائل اور ریاستی پالیسیوں پر باہمی اختلافات جمہوریت کا حصہ ہوتے ہیں مگر جب کبھی ہماری سلامتی اور سیکیورٹی کو نظر بد سے دیکھا جائے گا تو پھر ہم یک جان ہونے کا دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ کانفرنس میں ایک طرف امریکی الزام تراشیوں کو مسترد کیا گیا تو دوسری طرف عسکری اور سیاسی قیادت نے ایک دوسرے کو اپنی آرا سے اگاہ کیا۔پرائم منسٹر نے عالمی برادری کو دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستانی کے لئے تعاون کی یقین دہانی کروائی کہ خطے میں امن و امان کے گلستان کو سرسبز و شاداب رکھنے کے لئے پاکستان اپنا خون جگر دیتا رہے گا۔پاکستان کے عسکری ادارے اور سیاسی حکومت ایک جانب طرفین کے مابین پیدا ہونے والے تناو رنجش اور تلخیوں کے خاتمے کی خاطر نیک نیتی سے بھاگ دوڑ کررہی ہے مگر دوسری جانب مریکی دلدارمیں نہ مانوں کی رٹ لگا کر پے درپے الزامات کا طو مار باندھے ہوئے ہیں۔ مائیک مولن نے امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل سے گفتگو کرتے ہوئے کابل میں اٹھائی جانے والی ہزیمت کی بھڑاس پاکستان کے خلاف نکالی کہ آئی ایس آئی حقانی بٹالین کی معاونت کرتی ہے اب ہم پاکستان کے ساتھ سخت رویہ اپنانے جارہے ہیں۔ مائیک مولن کے الزامات پر حامد کرزئی اور من موہن سنگھ نے چنگاری پر جلتی کا کام کیا۔کرزئی نے کہا طالبان اپنے فیصلے کرنے میں آزاد نہیں۔پاکستان چونکہ طالبان اور حقانیوں کی سرپرستی کرتا ہے اسی لئے مذاکرات بھی پاکستان کے ساتھ ہونا چاہیں۔پاکستان نے نہ تو قیام امن کے سلسلے میں اپنے وعدے پورے کئے اور نہ ہی سرحد پار فاٹا میں انتہاپسندوں کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کی کوشش کی۔من موہن سنگھ نے کرزئی کے بیان پر خوشیوں کے پھول بکھیرتے ہوئے کہا کہ چلو اب امریکیوں کو آئی ایس آئی کے اصل چہرے سے شناسائی ہوچکی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا پاکستان کے خلاف کیا فیصلہ کرتی ہے ؟بھارت اور افغان سرکار کے حالیہ بیانات نیو برانڈ نہیں بلکہ دونوں اٹھتے بیٹھتے پاکستان کے خلاف بے پرکیاں چھوڑتے رہتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے مابین تو پچھلے مہینوں وزرائے خارجہ ڈائیلاگ میں دوستی اور امن کا سفر شروع کرنے کے عہد و پیمان کئے گئے۔پاکستان کے خلاف ہرژہ سرائی ڈائیلاگ کے اخلاقی اصولوں کا قتل عام ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق وائٹ ہاوس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مولہن نے حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے آئی ایس آئی اور پاکستان کے خلاف جو الزامات لگائے ہیں وہ غلط ہیں کیونکہ ثبوت ناکافی ہیں۔ مائیک مولن نے ایک طرف امریکی حکومت کو مشکل میں ڈال دیا تو دوسری طرف وہ دوبارہ اپنی فطانت کا اظہار کرتے رہے کہ پاکستان کے ساتھ شراکت داری مشکل ہوچکی ہے۔امریکہ اور پاکستان میں الفاظ کی سرد جنگ اب نفسیاتی صورت اختیار کرچکی ہے۔عالمی حالات کے بدلتے ہوئے تیور میں پاکستان کو مزید دباؤ میں لایا جائے۔ امریکہ اور جوہری پارٹنر ہندوستان کی خواہش ہے کہ افغانستان کی خارجی اور داخلی پالیسیوں کے اوراق پر نقش پا پاکستانی اثرات اور کردار کو کلی طور پر مٹادیا جائے۔امریکی افغانستان میں پاکستانی کردار سے خوف زدہ ہیں۔دشمنان پاکستان ملک میں سیاسی انتشار افراتفری اور لاقانونیت کی راکھ کو شعلہ بنانے کی راہ پر گامزن ہیں۔ استعماری سازشوں کی بھرمار میں ہماری داخلی خارجی سلامتی سے منسلک اداروں سے موجودہ صورتحال اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ انہیں ریاستی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کی خاطر چومکھی جنگ لڑنی ہوگی۔ جب کوئی قوم تاریخ سے نابلد ہوجائے جب انصاف مساوات اور یگانگت اور ملی یکجہتی کی بجائے استحصال لوٹ مار کرپشن اقرباپروری کا زور ہوجائے جہاں آئین و قانون کو گھر کی لونڈی سمجھا جائے جہاں حکمرانوں کی پارسائی قصہ پارینہ بن کر کالک کے داغ کا درجہ حاصل کرلے جب قومی رہبر قومی مفاد کی بجائے زاتی سیاسی ایجنڈوں کی تکمیل میں غرق ہوجائیں جب ریاستی ادارے کرپشن اقرباپرووری اخلاقی گراوٹ بدانتظامی کے اکھاڑے بن جائیں تو پھر ایسی قوموں کو تباہی کے گڑھے میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے کہا وہ مولن جیسے الفاظ استعمال نہیں کرسکتے۔ امریکی سفارت کارmark garamseen نے کہا پاکستان ہمارا دوست ہے جسے ہم کھونے کا رسک نہیں لے سکتے۔دہشتگردی دونوں امریکہ پاک کے لئے خطرہ ہے اسکے خلاف دونوں کو ملکر لڑنا چاہیے۔امریکن محکمہ خارجہ کے مدح سرا وکٹوریہ نو لینڈ پریس بریفنگ میں بتارہے تھے کہ حقانی نیٹ ورک پر پابندی لگانے کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ہیلری کلنٹن نے جگالی کی کہ حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ اخری مراحل میں ہے۔آل پارٹیز کانفرنس سے مستقبل میں کیا امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں اسکا علم تو صرف رب العالمین کو ہے مگر اے پی سی نے امریکیوں کو باور کروادیا ہے کہ اگر پاکستان کے خلاف کوئی ایڈونچر کیا گیا تو سخت جواب مل سکتا ہے۔اے پی سی نے سارا امریکی پلان فضا میں اڑا دیا۔امریکہ کو پتہ چل چکا ہے کہ انکی گیم انکے اپنے گلے میں پڑ گئی امریکہ کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ امریکہ نے ایک طرف پاکستان کو ناراض کردیا تو دوسری جانب قوم متحد ہوگئی اسی لئے امریکی مولن کے الزامات سے برات کا اظہار کررہے ہیں مولن کا بیان زاتی نہ تھا بلکہ یہ ایک بڑی سازش تھی جو ناکام ہوچکی ہےAPC انعقاد خوش آئند ہے عالمی برادری پر یہ سربستہ راز منکشف ہوچکا ہے کہ پاکستانی سیاستدان مشکل اوقات میں باہم شیر و زشکر بن سکتے ہیں ۔اے پی سی کے انعقاد سے خیبر سے کراچی تک خوشی کی لہر دوڑ گئی دیر آید درست آید ماضی میں ایسی کانفرنسیں چائے پینے اور گپ شپ کا سیٹ ثابت ہوئیں مگر یہ کانفرنس نشستند گفتند اور برخواستند کی بجائے امریکی عزائم کو پاش پاش کرنے کا زریعہ بن گئی۔ پاکستان میں ایک ایسی اے پی سی کی ضرورت ناگزیر ہوچکی ہے جو ایک طرف ریاستی سلامتی کی ضامن ہو تو دوسری طرف سیاسی نااتفاقیوں عالمی سازشوں اور سیاسی استحکام کی بدترین صورتحال اور معاشی و معاشرتی مصائب کے جہنم میں سلگنے والی پاکستانی قوم کے لئے حیات نو کا پیغام بن سکے۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140683 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.