ملک میں عام لوگوں کی زندگی مسائل میں گھری ہوئی ہے اور
اوپر سے رہی سہی کسر محکمہ ٹرانسپورٹ نے پوری کررکھی ہے یہاں تو خوشی کے
لمحات بھی اس وقت دفن ہو جاتے ہیں جب غریب لوگ عید سمیت کسی بھی قومی تہوار
پر اپنے گھر جانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا رخ کرتے ہیں تو وہاں پر لوٹ مار
کا سماع ہوتا ہے اور بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ حکومت کی سرپرستی
میں ہی ہورہا ہے لاہور ،ملتان ،فیصل آباد ،راولپنڈی سمیت دوسرے صوبوں کے
بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹروں کی بدمعاشیاں تو سرے عام نظر آتی ہیں لیکن
چھوٹے شہروں میں یہ لوٹ مار کہیں زیادہ ہوتی ہے اور یہ سب کچھ محکمہ
ٹرانسپورٹ کی ملی بھگت سے ہی ہو رہا ہے ابھی پیٹرول کو سستا ہوئے تین دن
ہونے والے ہیں لیکن کسی بھی طرف سے کرایوں میں کمی نہیں ہوئی اگر پیٹرول کی
قیمت بڑھ جائے تو ٹرانسپورٹر حضرات فورا کرایوں میں اضافہ کردیتے ہیں اور
محکمہ ٹرانسپورٹ کہیں نظر نہیں آتا اگر آتا ہے توناجائز اڈے کھلوانے اور
پھر ان سے بھتہ وصول کرنے یہی بات ٹوبہ ٹیک سنگھ سے مسلم لیگ ن کے رکن
پنجاب اسمبلی امجد علی جاوید نے اسمبلی کے اندر بھی کہہ دی کہ محکمہ
ٹرانسپورٹ نے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ناجائز اور غیر قانونی اڈے بنوا رکھے ہیں
جنکی وجہ سے شہر میں ٹریفک جام رہتی ہے اور جواب میں ٹرانسپورٹ کے وزیر
بلال اکبر خان اپنے محکمہ کی وکالت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ اڈے شہر سے باہر
ہیں اس لیے غیر قانونی نہیں جس پر امجد علی جاوید جو منجھے ہوئے سیاستدان
ہیں انہوں نے محکمہ ٹرانسپورٹ کی ایسی تیسی پھر دی جس پر ڈپٹی سپیکر کو یہ
کہنا پڑا کہ وزیر صاحب آپ ٹوبہ ٹیک سنگ کا چکر لگا لیں تو حقیقت کا علم بھی
ہوگا اور شہریوں کے مسائل سے بھی آگاہی ہو گی ۔اس وقت شہروں میں دھواں
چھوڑتی گاڑیاں ،غیر قانی اڈے،کرایوں میں اضافہ اور پھر سڑکوں پر بے پنا ہ
ٹریفک کا رش یہ سب کچھ محکمہ ٹرانسپورٹ کا پیدا کردہ ہے اگر اس محکمہ پر
بات کی جائے تو اس کا قیام 1987 میں عمل میں آیاتھا اس سے قبل یہ محکمہ
سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن (S&GAD) میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی نگرانی
میں ایک سیل تھا۔ محکمہ ٹرانسپورٹ کا قیام دو ایڈیشنل سیکرٹریز، تین ڈپٹی
سیکرٹریز، اور چھ سیکشن آفیسرز کے ساتھ سیکرٹری کی سربراہی ہوا تھا اور
پنجاب گورنمنٹ رولز آف بزنس 2011 کے تحت محکمہ ٹرانسپورٹ مندرجہ ذیل کام
انجام دیتا ہے۔ قانون سازی، ٹرانسپورٹ پالیسی، اور منصوبہ بندی،صوبے میں
ماس ٹرانزٹ سسٹم کی منصوبہ بندی، ڈیزائن، آپریٹ، ریگولیٹ،روٹ پرمٹ، کرایہ/مال
برداری، ٹریفک کی رفتار سے متعلق معاملات، لوڈنگ، پارکنگ، اور رکنے کی
جگہیں، موٹر وہیکل آرڈیننس کے تحت گاڑیوں کے استثنیٰ کے معاملات اور اسٹیج
کیریجز کے رولز گروپنگ،پبلک سروس گاڑیوں کا معائنہ اور چیکنگ،پرائیویٹ/
پبلک سیکٹرز اور اس سے منسلک معاملات کے حادثاتی معاملات میں معاوضے کی
ادائیگی،طلباء کی رعایت اور روڈ ٹرانسپورٹ کو قومیانے سے متعلق
پالیسی،سڑکوں کے لائق گاڑی کا معائنہ اور سرٹیفیکیشن،صوبہ بھر میں پبلک بس
سٹینڈز کی دیکھ بھال/انتظام،موٹر گاڑیوں کا معائنہ،بجٹ، اکاؤنٹس اور آڈٹ کے
معاملات،محکمہ کے لیے اسٹورز اور کیپٹل گڈز کی خریداری اور مسافروں کی
خدمات کے معاملات یہ وہ کام ہیں جو اس محکمہ کی ذمہ داری ہے لیکن آپ کسی
بھی بس اڈے میں چلے جائیں وہاں ٹرانسپورٹروں کا بدمعاشی والا رویہ تو ہے ہی
ساتھ میں کوئی بھی واش روم صاف ستھرا نہیں ملے گا اڈے پر صفائی کا کوئی
معقول انتظام بھی نہیں ہوگا بڑی ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے اپنے قانون بنا رکھے
ہیں اور محکمہ ٹرانسپورٹ انکی مدد کرتا ہے انہیں گھر بیٹھے فٹنس سرٹیفیکیٹ
مل جاتا ہے چھوٹے شہروں کے مسائل تو امجد علی جاوید نے اسمبلی میں بتا دیے
بڑے شہروں کے مسائل ان سے بھی بڑے ہیں لاہور میں آپ کسی بھی وقت ریلوے
اسٹیشن کی طرف چکر لگالیں وہاں سڑک کے اوپر تک رہڑھیاں لگی ہوتی ہیں بادامی
باغ لاری اڈہ گندی کا ڈھیر زیادہ لگتا ہے اس اڈے پر کھانے پینے کی صفائی کا
بھی کوئی انتظام نہیں ہے وہاں کے ہوٹل والے تو بادشاہ ہیں ہی ساتھ میں جو
رہڑھیاں لگی ہوئی ہیں انہوں نے بھی اپنا ہی ریٹ لگایا ہوا ہے اگر کوئی ان
سے ریٹ پوچھے بغیر کھانا کھا لے تو بعد میں ہو رہڑھی والا غریب مسافر کو
نانی یاد کروا دیتا ہے بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ یہ رہڑھی والے ایک
اچھے ہوٹل سے زیادہ پیسے مانگ لیتے ہیں اور انکے مقابلہ میں لاری اڈہ پر
ہوٹل والے کتنے زیادہ پیسے مانگتے ہونگے اور انکو پوچھنے والا کوئی نہیں
کیونکہ وہ بھی ہر جگہ انکا حصہ بخوبی پہنچاتے ہیں یہاں تک کہ اگر کوئی تنگ
آکر پولیس کو رپورٹ بھی کرتا ہے تو پولیس بھی وہاں کے لٹیروں کا ہی ساتھ
دیتی ہے پولیس کا ذکر آیا تو یہ بھی بتا دوں کہ لاہور کے کرپٹ ترین تھانوں
میں تھانہ فیکٹری ایریا سرفہرصت ہے جہاں پر ملزمان کو چارپائی پر سلایا
جاتا ہے نہیں یقین تو اسی سیشن میں ایم پی اے حافظ فرحت عباس کی وہ تقریر
نکلوا کرسن لیں جس میں انہوں نے پولیس نظام کا آپریشن کرتے ہوئے لاہور کے
کرپٹ ترین تھانے کی نشان دہی کرتے ہوئے ایک مظلوم خاندان کا قصہ سنایا جس
پر وزیر مجتبی شجاع الرحمن نے خود اس معاملہ کو دیکھنے کا وعدہ کیا ہمارے
ہاں کوئی ایک محکمہ یا ادارہ خراب نہیں بلکہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور
اوپر سے مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے وزیر اور سیکریٹری بھی نیچے کے معاملات
سے آگاہ نہیں اگر انہیں علم ہے تو پھر وہ ان خامیوں کو درست کرنا نہیں
چاہتے اوور اسکی دو ہی وجوہات ہیں ہیں ایک تو وہ بے بس ہیں یا پھر انہیں
انکا حصہ بقدر جثہ مل رہا ہے اس لیے وہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھے
ہیں اگر بندہ کام کرنے والا ہو تو اس کے لیے عوام کا مفاد سرفہرصت ہوتا ہے
اگر کام کرنے والا ہی مفاد پرست ہو تو پھر عوام کا یہی حشر ہوگا جو اس وقت
ہو رہا ہے اور اس کے لیے حکومتی رکن اسمبلی چیخ چیخ کر اسمبلی میں دہائی دے
رہا ہے اور اسکی بات کو متعلقہ وزیر اور سیکرٹری مذاق میں آڑا رہے ہیں کہ
نہیں ایسا نہیں جیسا آپ کہہ رہے ہو اگر کسی کو یاد ہو تو ایک عائشہ ممتاز
بھی ہوا کرتی تھی جسے اب کھڈے لائن لگا رکھا ہے اس نے اپنے دور میں لاری
اڈے کے بڑے بڑے بدمعاشوں کو نکیل ڈال رکھی تھی اور تو اور فوڈ اتھارٹی کا
نام بنانے والی بھی وہی شیر دل خاتون تھی جبکہ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جو
کام کرنے والے لوگ ہیں انہیں ہم نے بغیر کام کے رکھا ہوا ہے جبکہ یاروں
دوستوں ،عزیزواقارب او ر ہر بڑے لوگ کو خوش کرنے والے اچھے عہدوں کے مزے
لوٹ رہے ہیں ان میں ایک ہمارے سیکریٹری سی این ڈبلیو بھی ہیں جنکے کارنامے
اگلے کسی کالم میں ۔
|