1971 ء میں سانحہ مشرقی پاکستان کی وجہ سے ہمیں جو ذلت اٹھانا پڑی اس سے ہر
پاکستانی کا دل زخم خوردہ تھا۔اپنے وطن عزیز کی حالت زار پر آنسو بہانے
والے ان کروڑوں پاکستانیوں میں ایک نام ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کا بھی تھا جو
اس وقت ہالینڈ میں مقیم تھے۔ انہوں نے ٹیلی ویژن پر سقوط مشرقی پاکستان کی
فلم دیکھی تو اس المیے نے ان کے دل میں مادر وطن کی محبت اور گہری کردی۔ 18
مئی 1974 ء کو بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ کرکے یہ ثابت کردیا کہ باقی
ماندہ پاکستان کی سا لمیت بھی اب اس کے رحم و کرم پر ہے - بھارت کی جانب سے
یہ ایسی پیش رفت تھی کہ مادر وطن کے مستقبل کے بارے میں سوچنے والا ہر شخص
پریشان ہوگیا ۔ان حالات میں مایوس ہونے کی بجائے ڈاکٹر خان نے اس وقت کے
وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو براہ راست خط لکھا اور بتایا کہ
انہوں نے صرف میٹالرجی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل ہی نہیں کی بلکہ وہ اس
شعبہ ( فلزیات ) کے ماہر اور لاتعداد تحقیقی مضامین کی ایک عالمی شہرت
یافتہ کتاب کے مصنف بھی ہیں ۔اس خط میں ڈاکٹر خان نے یہ بھی بتایا کہ وہ
یورینم کی افزدگی جیسے پیچیدہ اور مشکل ترین کام میں وہ مہارت رکھتے ہیں
اور ہالینڈ میں ایک ایسے ہی منصوبے سے وابستہ ہیں جس کامقصد سینٹری فیوج
سسٹم کے ذریعے یورینیم کی افزدگی ہے کیونکہ اس طریقے سے کم خرچ میں ایٹمی
توانائی کا حصول ممکن ہوسکتاہے۔ اسی طریقے کو بروئے کار لا کر بہت کم عرصے
میں ایٹمی صلاحیت حاصل کی جاسکتی ہے ۔ذولفقار علی بھٹو نے ہالینڈ میں متعین
پاکستانی سفیر کے ذریعے ڈاکٹر خان کو پیغام بھجوایا کہ وہ جب پاکستان تشریف
لائیں تو ضرور ملاقات کریں- دسمبر 1974 ء میں جب ڈاکٹر خان پاکستان تشریف
لائے تو انہوں نے بھٹو سے ملاقات کرکے بتایا کہ سنٹری فیوج پلانٹ کے ذریعے
پاکستان بہت جلد ایٹمی طاقت بن سکتا ہے یہ سنتے ہی بھٹو صاحب چونک پڑے اور
یہ سوچنے لگے کہ جو سنٹری فیوج پلانٹ برطانیہ ٗ جرمنی اور ہالینڈ کے اشتراک
سے بیس سال سے زائد عرصہ میں دو کھرب ڈالر سے پچیس ہزار سے زائد سائنس
دانوں اور انجنیئروں نے قائم کیاہے، اسے پاکستان جیسا غریب ملک کیسے حاصل
کرسکتا ہے، لیکن ڈاکٹر خان ، ذوالفقار علی بھٹو کا اعتماد حاصل کرنے اور
انہیں یقین دلانے میں کامیاب ہوگئے ۔ اس پر بھٹو صاحب اتنے پرجوش ہوئے کہ
انہوں نے ڈاکٹر خان کو فوری طور پر اس منصوبے پر کام کرنے کے لیے کہہ دیا ۔
اس کے ساتھ ہی بھٹو صاحب خوشی سے چہک اٹھے انہوں نے میز پر مکا مار کر کہا
I will see Hindu Bastard now ۔ 31 جولائی 1976ء کو وزارت دفاع میں ڈاکٹر
عبدالقدیر خان کی براہ راست نگرانی میں انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز کہوٹہ کو
مکمل اختیارات کے ساتھ خود مختار منصوبے کی حیثیت دے دی گئی جس کے بعد
ڈاکٹر خان نے ایک نئے عزم اورولولے کے ساتھ کام شروع کردیا۔ تجرباتی پلانٹ
کی تفصیلات کے علاوہ کہوٹہ پلانٹ کے تفصیلی نقشہ جات بھی ڈاکٹر خان اپنے
ہاتھ سے بنا رہے تھے ،ڈاکٹر خان اور ان کے رفقا اٹھارہ سے بیس گھنٹے رو
زانہ کام کررہے تھے۔ 1978 ء میں جب یورینیم افزدگی کا تجربہ کامیاب ہوگیا
تو امریکہ سمیت بڑی طاقتوں نے پاکستان پر دباؤ بڑھا دیا کہ وہ اپنے ایٹمی
پروگرام پر بین الاقوامی ایٹمی توانائی ادارے کی نگرانی اور تحفظات کو
تسلیم کرلے مگر جنرل محمد ضیا الحق نے امریکی دباؤ کو قبول کرنے سے انکار
کردیا۔ نیویارک ٹائمز کی 11 اگست 1979 ء کی اشاعت میں یہ خبر شائع ہوئی کہ
امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے یورینیم انرچمنٹ پلانٹ کو تباہ کرنے کے لیے
تین متبادل صورتوں پرغور شروع کردیا ہے جن میں اسے سبوتاژ کرنا یا کمانڈو
ایکشن کے ذریعے اڑا دینا شامل ہے۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیاگیا کہ پاکستان میں
ایٹمی ٹیکنالوجی کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہلاک بھی کیاجاسکتا ہے ۔
ہندوستان ٹائمز نے بھی یہ خبر شائع کی کہ اگر بھارت چودہ دن میں مشرقی
پاکستان کو فتح کر کے بنگلہ دیش بنا سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ کہوٹہ
پراجیکٹ کو چودہ منٹ میں تباہ نہ کرسکے ۔ حالانکہ عالمی طاقتیں تیزی سے
پاکستان کے گرد سازشوں کا جال بن رہی تھیں اس کے باوجود جنر ل محمد ضیا
الحق نے حوصلہ نہ ہارا ۔امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے دباؤ کی بنا پر
ڈاکٹر خان پر ہالینڈ میں جعلی مقدمہ کیاگیا لیکن خدا کے فضل و کرم سے ڈاکٹر
خان پر الزام ثابت نہ ہوسکا ۔ ایٹم بم کے کولڈ ٹیسٹ 1983 میں کامیابی سے
ہمکنار ہوچکے تھے ۔اب مرحلہ صرف عملی ایٹمی دھماکوں کا باقی تھا ۔ڈاکٹر خان
نے ایٹمی میدان میں زبردست کامیابیوں کے بعد میزائل ٹیکنالوجی کی جانب توجہ
مرکوز کی اور وطن عزیز کو غوری ٗ عنزہ ٗ شاہین اور غزنوی جیسے مہلک اور
جدید ترین میزائلوں کا تحفہ بھی دے دیا جس کی وجہ سے دفاعی میدان میں بھارت
کا مقابلہ کرنے کی ہمت پاکستان کو حاصل ہوئی ۔ ڈاکٹر خاں مزید لکھتے ہیں کہ
بش کی گود میں بیٹھنے سے پہلے پرویز مشرف نے اپنے خطاب میں کہاتھا کہ اﷲ
تعالی نے ہماری دعائیں سن لیں ۔اﷲ کو ہماری حالت پر رحم آگیا اور ایک معجزہ
رنما ہوا ۔ پردہ غیب سے ایک بلند قامت اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل
انسان کا ظہور ہوا اور وہ نابغہ روزگار شخص ڈاکٹر عبد القدیر خان ہیں
۔جنہوں نے تن تنہا پاکستانی قوم کو ایٹمی صلاحیت سے مالا مال کردیا
۔پاکستان کے نامور صحافی جبار مرزا اپنی کتاب "پاکستان کا آخری بڑا آدمی
"میں لکھتے ہیں کہ اگر اس وقت کے وزیراعظم ظفراﷲ جمالی انکار نہ کرتے تو
ڈاکٹر خان کوامریکہ کے سپرد کیا جانے لگا تھا۔ بعد ازاں پرویز مشرف نے ٹیلی
ویژن پر معافی منگوانے اور ڈاکٹر خان کی کردار کشی کے لیے ایک الگ ونگ قائم
کیاتھا۔ اس ونگ کے ایک رکن نے جبار مرزا سے رابطہ کرکے کہا آپ کے پاس گاڑی
بھی نہیں ہے اور گھر بھی کرائے کا ہے ۔پھر کہابحریہ ٹاؤن میں ایک کنال کی
ڈبل منزلہ کوٹھی آپ کے لیے موجود ہے اور آپ کو دو تین سالوں کا پٹرول اور
گاڑی بھی دے دی جائے گی لیکن اس کے بدلے ایک کتاب جو ڈاکٹر خان کو ہیرو سے
زیرہ بنانے کے لیے لکھی گئی ہے ،اس پر مصنف کی حیثیت سے صرف آپ کا نام
لکھنا ہے ۔جبار مرزا نے جب انکار کیا تو وہ شخص اپنا سا منہ لے کر واپس
چلاگیا۔سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والے عظیم ایٹمی سائنس
دان اور محسن پاکستان کو ایک مجرم بناکر اپنے ہی گھر تک محدود کردیا گیا
تھا۔بلکہ مشرف دور میں بلیک واٹر کے لوگ ان کے گھر تک جا پہنچے تھے ۔ ان کے
گھرمیں جاسوسی کے آلات بھی نصب تھے ۔ مجھے یاد ہے جب جیوٹی وی کی جانب سے
سہیل وڑائچ انٹرویو کرنے کے لیے ڈاکٹرخان کے گھر پہنچے تو جیو ٹی وی کے
ذریعے ساری دنیا نے دیکھا کہ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر ڈاکٹر خان نے انٹرویو
ریکارڈکرایا تھا ۔ اس سے زیادہ ایک ہیرو کی توہین اور کیا ہو سکتی ہے
۔بھارت نے اپنے ایٹمی سائنس دان کو اپنے ملک کا صدر بنا کر عزت افزائی کی
لیکن ہم نے اپنے محسن سے آزادی بھی چھین لی ۔ پھر وہ لمحہ بھی
آپہنچاڈاکٹرخان 10 اکتوبر 2021 کو ایک ایسے جہان میں جا بسے جہاں سے کوئی
واپس نہیں آتاتو ٹی وی پر سلائیڈ یہ چلائی گئی کہ انہیں فیصل مسجد کے احاطے
میں شایان شان طریقے سے دفن کیا جائے گا لیکن سب نے کھلی آنکھوں سے دیکھا
کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک عظیم قومی ہیرو کی تدفین ایچ 8کے قبرستان میں
نہایت خاموشی سے کردی گئی ۔نماز جنازہ میں وزیراعظم عمران خاں سمیت کسی
حکومتی عہدیدار نے شریک ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔کیا اس سے زیادہ محسن
کشی اور کیا ہوتی ہے ؟۔اب بھی اگر موجودہ حکومت ڈاکٹر خان کی زندگی اور
ایٹمی میدان میں کامیابیوں پر مشتمل ایک مضمون تیار کرکے تعلیمی نصاب کا
اگر حصہ بنادے تو کم ازکم موجودہ اور آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں محسن
پاکستان کو زندہ رکھا جاسکتا ہے ۔
|