نریندر مودی فی الحال ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ ۴؍جون کے بعد
وہ اس عہدے پر فائز رہیں گے یا نہیں؟ یہ کوئی اور تو دور وہ خود بھی نہیں
جانتے مگر ترجمانِ اعظم سمبت پاترا کی کرسی تو آگے بھی صحیح سلامت رہے گی
کیونکہ مودی کا نعم البدل تو مل جائے گا مگر پاتراکا جانشین مشکل ہے ۔ سمبت
پاترا کو پچھلی مرتبہ بی جے پی نے پوری سے انتخابی ٹکٹ دیا مگروہ ہار گئے۔
بی جے ڈی کے پناکی داس نے ان کو ہرا کر اپنی ہیٹ ٹرک کرلی ۔ 1996 میں وہ
کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوے تھے مگر بی جے ڈی کے برج کشور ترپاٹھی سے
لگاتار تین بار ہارنے کے بعد دشمن کا ہاتھ تھام لیا۔ بی جے پی نے شکست کے
باوجود سمبت پاترا کو میدان میں اتارا کیونکہ شکست کا فرق 12؍ہزار سے کم
تھا۔ اس بار پاترا نے اپنے ’من کی بات‘ کہ لارڈ جگناتھ بھی مودی کے بھگت
ہیں کھلے عام کہہ کر ہنگامہ برپا ہوگیا ۔
اڈیشہ کے وزیر اعلیٰ نوین پٹنائک تو جیسے اس کی حماقت کا انتظار کررہے تھے
۔ انہوں فوراً شنکھ( بی جے ڈی کا نشان) پھونک کر انسٹاگرام کی پوسٹ میں
لکھا کہ ’’ مہا پربھو شری جگن ناتھ کائنات کے بھگوان ہیں۔ مہا پربھو کو
انسان کا بھکت کہنا بھگوان کی توہین ہے۔ اس طرح کے بیانات سے دنیا بھر میں
جگن ناتھ کے بھکتوں اور اڑیا لوگوں کے جذبات اورعقیدے کو ٹھیس پہنچی ہے‘‘۔
وزیر اعلیٰ پٹنائک نے آگے کہا’’ میں پوری لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی
امیدوار کے بیان کی سخت مذمت کرتا ہوں۔‘‘ اس کے ساتھ انہوں نے بی جے پی سے
اپیل کی کہ وہ خدا کو کسی بھی سیاسی بیان بازی سے بالاتر رکھیں۔ وزیر اعلیٰ
پٹنائک کے مطابق سمبت پاترا نے اڑیہ شناخت کو گہری ٹھیس پہنچائی ہے۔ اڈیشہ
کے لوگ اسے طویل عرصے تک یاد رکھیں گے اور مذمت کریں گے۔
سمبت پاترا نے سوچا ہوگا کہ ان کے اس بیان کو سے ’سردار خوس ہوگا، ساباسی
دے گا‘ مگرگبر کی طرح مودی بھی خوش نہیں ہوے یا اگر من ہی من ہوئے بھی ہوں
گے تو اپنی مسرت کا اظہار نہیں کیا ۔ لارڈ مودی نے تو یہ تک نہیں کہا کہ
میرے پرم بھگت کی زبان پھسل گئی ہے اس لیے اسے معاف کردیا جائے۔ پارٹی کے
اندرچہار جانب پھیلے پر اسرار سناٹے کو دیکھ کرسمبت پاترا ازخود اپنی صفائی
پیش کرنے پر مجبور ہوگئے۔ انہوں نےایکس پر لکھا"مودی جی شری جگناتھ مہا
پربھو کے پرجوش بھکت ہیں .. ایک بائٹ کے دوران غلطی سے میں نے اس کے متضاد
بات کہہ دی "۔ پاترا نے معذرت کرنے کے بجائے نوین پٹنائک کو مخاطب کرکے
کہا، "میں جانتا ہوں کہ آپ بھی اس کو جانتے اور سمجھتے ہیں... سر آئیے کسی
غیر موجود مسئلے کومسئلہ نہ بنائیں... ہم سب کی زبان "کبھی کبھارپھسل جاتی
ہے"۔ یہ معاملہ اتنا سہل نہیں ہے کیونکہ زبان کی طرح ووٹ بھی پھسل جاتے
ہیں۔’سرکار آپ کا نمک کھایا ہے‘ کہنے سے بات نہیں بنتی جواب ملتا ’اچھا اب
گولی کھا‘۔ نمک کھلانے والے ووٹ کی گولی ٹھونک دیتے ہیں۔
عام آدمی پارٹی ہندووں کےمذہبی جذبات کا استحصال کرنے میں اکثر بی جے پی سے
بھی آگے نکل جاتے ہیں۔ دونوں میں بس اتنا فرق ہے کہ عآپ والے مسلمانوں کی
دلآزاری سے حتی الامکان گریز کرتے ہیں۔ اس لیے اروند کیجریوال یہ نادرموقع
کیسے گنواتے؟ انہوں نے ایکس پر پوسٹ کیا، "میں بی جے پی کے اس بیان کی سخت
مذمت کرتا ہوں۔ اس نے سوچنا شروع کر دیا ہے کہ وہ خدا سے اوپر ہے۔ یہ انا
کی انتہا ہے۔ مودی کو بھگوان کہنا بھگوان کی توہین ہے۔ اس بار خواب غفلت
میں رہنے والی کانگریس بھی ہوش میں آگئی اور اس نے اپنے ایکس ہینڈل
پرلکھا، "بی جے پی رہنما سمبت پاترا کہہ رہے ہیں کہ مہا پربھو بھگوان شری
جگناتھ نریندر مودی کے بھکت ہیں۔ یہ مہا پربھو کی شدید توہین ہے۔ اس بیان
سے کروڑوں عقیدت مندوں کے عقیدے کو ٹھیس پہنچی ہے،" کانگریس نے آگے بڑھ
پاترا کے بجائے وزیر اعظم سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہوئے لکھا ،
"مودی بھکتی میں ڈوبے ہوئے سمبت پاترا کو یہ گناہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔
نریندر مودی کو اس نفرت انگیز بیان کے لیے معافی مانگنی چاہیے۔"
کانگریس کے سربراہ ملک ارجن کھرگے نے کہا کہ یہ بیان ان کے اس الزام کو
تقویت دیتا ہے کہ اقتدار کے نشے میں دھت بی جے پی ہندوستان کے لوگوں کوتو
چھوڑو، ہمارے بھگوانوں کو بھی نہیں بخشے گی‘‘۔ سمبت پترا نے اپنے ایک بیان
سے ہندو مسلم بیانیہ کو ہندو ہندو مہابھارت میں بدل دیا۔ ‘‘ اوڈیشہ کانگریس
کے سربراہ اجوئے کمار نے لکھا، "وہ سوچنے لگے ہیں کہ وہ خدا سے اوپر ہیں۔
یہ تکبر کی انتہا ہے۔ مودی جی کو بھگوان کہنا خدا کی توہین ہے۔ملک اور
اڈیشہ بھگوان جگن ناتھ جی کی اس توہین کو برداشت نہیں کریں گے۔" اس کے بعد
انہوں نے میڈیا سے سوال کیا کہ "کیا وہ سمبت پاترا سے کوئی سوال پوچھے گا؟
کہاں ہیں وہ صحافی جن کا شام 7 بجے کا ایجنڈا ہے؟ ہندوتوا نواز تنظیمیں
کہاں غائب ہو گئی ہیں ؟"
کانگریس کی شعلہ بیان ترجمان سپریا شرینیت نے ویڈیو شیئر کرکے پوچھا’ پربھو
جگناتھ مودی کے بھکت ہیں؟ بی جے پی والوں کو کیا ہوگیا ہے؟؟ ہمارے خدا کی
ایسی توہین؟ ؟؟یہ تکبر ختم ہو جائے گا۔راہل گاندھی نے اسی بات کو آگے
بڑھاتے ہوئے لکھا’’جب وزیر اعظم خود کو شہنشاہ اور درباری انھیں بھگوان
سمجھنے لگیں تو مطلب صاف ہے کہ پاپ کی لنکا کا زوال قریب آلگا ہے۔‘‘ انہوں
نے سوال کیا کہ ’’ مٹھی بھر بی جے پی والوں کو آخر کس نے کروڑوں لوگوں کے
عقیدے کو چوٹ پہنچانے کا حق دیا؟ یہی تکبر ان کی تباہی کی وجہ بن رہا ہے۔‘‘
اس ہنگامے سے سمبت پاترا حیران ہیں کہ آخر انہوں نے ایسا کون سامہا پاپ
کردیا جو اس قدر طوفان اٹھایا جارہا ہے ۔ ان سے قبل رام جنم بھومی ٹرسٹ کے
سیکریٹری چمپت رائے نے وزیر اعظم نریندر مودی کو بھگوان وشنو کا اوتار کہہ
دیا تھا ۔ اس وقت تو کوئی خاص ہنگامہ نہیں ہوا الٹا بدعنوانی میں ملوث چمپت
رائے کو کلین چِٹ مل گئی ۔ انہوں نے صاف کہا تھا کہ ہندوستان کی بھارتی
روایت میں راجہ وشنو کا اوتار ہے ۔
نریندر مودی کو راجہ کہنے کے بعد چمپت رائے کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو
وہ بولے مودی ملک میں جمہوریت کے سب کو قابلِ قبول فرد ہیں۔ وہ دنیا میں
ہندوستان کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ یہ بات درست ہو تب بھی کیا وہ بھگوان کے
اوتار ہیں اور کل کو اگر راہل گاندھی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوجائیں تو
کیا چمپت رائے ان کو بھی یہی سند عطا فرمائیں گے؟ سمبت پاترا، یوگی ادیتیہ
ناتھ اور گنگوپادھیائے جیسے سڑک چھاپ لوگوں کے ہاتھوں میں اپنی پارٹی کمان
دیکھ کر لال کرشن اڈوانی خون کے آنسو روتے ہوں گے۔ 2014 ؍ سے قبل بی جے پی
جیسی بھی تھی اتنی گئی گزری نہیں تھی۔ اس وقت پارٹی کی کمان راجناتھ سنگھ
کے ہاتھوں تھی اور وہی سب سے بڑے رہنما تھے۔ اس لیے ان کو بحالتِ مجبوری
وزارت داخلہ کا قلمدان سونپنا پڑا مگر اگلے پانچ سال بعد یوگی ادیتیہ ناتھ
کو ان کا متبادل بناکر دوسری میعاد میں بلا تاخیر اپنے دستِ راست امیت شاہ
کووزیر داخلہ بنا دیا اور راجناتھ سنگھ کوو زیر دفاع بناکر سرحد پر دفع
کردیا ۔
مودی جی کی پہلی مدتِ کار میں وزیر خزانہ ارون جیٹلی ، وزیر خارجہ سشما
سوراج اور وزیر دفاع کے عہدے پر منوہر پاریکر جیسے پڑھے لکھے اور مہذب لوگ
فائز تھے۔ وہ تینوں جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔ ان کی جگہ ایسے کمزور لوگوں
کو ان عہدوں پر لایا گیا جو بلدیاتی انتخاب جیتنے کی صلاحیت بھی اپنے اندر
نہیں رکھتے تھے۔موجودہ وزیر خزانہ نرملا سیتا رامن اور وزیر خارجہ ایس جئے
شنکر ایوان بالا سے بغیر انتخاب جیتے آجاتے ہیں اور ان کا سنگھ سے بھی
کوئی تعلق نہیں تھا۔ ریاستوں کے مقبول عام وزرائے اعلیٰ میں سے شیوراج سنگھ
چوہان، وسندھرا راجے،یدورپاّ اور دیویندر فڈنویس تک کے پر کتر دئیے گئے
تاکہ آگے چل کر کوئی خطرہ نہ جنم لے ۔ اب یہ حال ہےکہ وزیر داخلہ عام
آدمی کے ووٹرس کو پاکستانی کہتاہے۔ یوگی ادیتیہ ناتھ جیسا غیر ذمہ دار
انسان اذان بھلانے کی دھمکی دیتا ہے حالانکہ وہ دن دور نہیں جب ملک کے لوگ
اس بات کو بھول جائیں گےکہ ایک بھگوا دھاری مجنون اترپردیش کا وزیر اعلیٰ
بھی تھا ۔
اڈیشہ میں اگر بی جے پی کامیاب ہوجائے تو بعید نہیں کہ ایک چٹھی بھیج کر
سمبت پاترا کو وزیر اعلیٰ بنادیا جائے کیونکہ پچھلی بار مدھیہ پردیش ،
چھتیس گڑھ اور راجستھان میں وزیر اعلیٰ کا تقرر ارکان اسمبلی نے نہیں بلکہ
دہلی سے آنے والی پرچی نے کیا تھا۔ مرکز کے مبصر کے اعلان پر سبھی ارکان
اسمبلی نے نندی بیل کی مانند گردن ہلا کر تائید کردی تھی۔ مودی جی نے اپنے
سیاسی مفاد کی خاطر اپنی ہی سیاسی جماعت کا بیڑہ غرق کردیا ۔اس پر گفتگو
نہیں ہوتی کیونکہ مخالفین سوچتے ہیں اچھا ہوا اور حامیوں کو اس پر لب کشائی
میں شرم محسوس ہوتی ہے مگر سمبت پاترا نے اپنی حماقت سے اس سر بستہ راز کو
چوراہے پر فاش کردیا۔ مودی نے بی جے پی کو کانگریس نما اور سنگھ کو بی جے
پی کے سانچے میں ڈھال دیا ہے۔اس طرح آر ایس ایس کی صد سالہ محنت کو برباد
کرنے کا کام کسی اور نے نہیں ہندو ہردئے سمراٹ مودی نے کیا ہے۔
|