قیام پاکستان کے وقت قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم
ہوئیں جب پاک سر زمین کی طرف ہجرت ہوئی.... ابراہیم کی قربانی و وفاداری کی
ادا رب کو اتنی پسند آئی کہ قیامت تک کے لئے کامل اور ناقابل تغیر شریعت
محمدی صہ میں بھی سیرت ابراہیمی کے اس گوشے سے مستفید ہونا لازم کر دیا گیا...
جانتے ہیں ابراہیم علیہ السلام ایک امت کا درجہ رکھتے ہیں... کتنی مماثلت
ہے نا پاکستان اور ابراہیم علیہ السلام میں... پاکستان بھی تو تن تنہا عالم
کفر کی ساری طاقتوں سے ٹکرا گیا تھا اپنے قیام کے وقت.... ابراہیم علیہ
السلام جب آگ و خون کے دریا سے گزر کر اپنی نسل کو فرمانبرداری رب اور
اعلائے کلمتہ اللہ کی خاطر بظاہر بے یارو مددگار سر زمین مکہ میں چھوڑ گئے
تھے اسی طرح ہمارے اسلاف پاکستان میں اپنی نسلوں کو اللہ کے سہارے چھوڑ گئے
اعلائے کلمتہ اللہ کے عظیم مقصد کی خاطر... اماں ہاجرہ اپنے دائرہ کار میں
کامیاب ٹھہریں اور ابراہیم اپنے کاز میں نمبر لے گئے... ہاں، ابراہیم علیہ
السلام کو اسماعیل کی گردن پر چھری رکھنے جیسے کٹھن مرحلے سے گزار کر بھی
آزمایا گیا اور ہجرت پاکستان کے وقت بزرگوں کو بھی رب نے اس مرحلے سے گزارا....
غرض ابراہیم کی وفاداری و قربانی کا سلسلہ ختم ہوا مگر ختم کیسے ہوا کہ وہ
تو اسماعیل سی اطاعت شعاری و فرمانبرداری سے مطلوب ہے. آج ہم نے سنت
ابراہیمی کو تو تازہ کرنا ہی ہے مگر اسماعیل سی فرزندی کا قرض بھی ابھی ہم
پر باقی ہے. کیا ہم نے اسماعیل علیہ السلام کی طرح فرمانبرداری کا حق ادا
کر دیا.. کیا ہم نے اپنے باپوں کے مشن کو جاری رکھا؟ کیا لا الہ الا اللہ
کی ریاست سے عالم کفر لرزتا ہے؟ کیا اطاعت و فرمانبرداری کی مثال ہم نے بھی
قائم کی؟ ہم قربانی کی محض رسم ہی تو نہیں کر رہے؟ یاد رہے اللہ کو خون اور
گوشت نہیں پہنچتا.... ہمارا مرنا، جینا، عبادتیں، قربانیاں اللہ کے لئے ہوں،
اللہ کو یہی درکار ہے... کیا پیمرا، بیوروکریسی، افواج اور حکمران نظریے کی
حفاظت کے لئے کوشاں ہیں یا یہود کے بچھائے جال میں پھنس چکے ہیں... اس بار
عید الاضحٰی پر یہی فیصلہ ہمیں کرنا ہے فلسطین میں نظریے کی حفاظت کے لئے
قربانی دینی ہے اور حکمران افواج کو بھجوانا ہے نظریے کو بچانے کی خاطر کہ
اپنے اپنے مینڈھے پر چھری چلانے کی رسم پوری کر کے کارپوریٹذ ورلڈ کا حصہ
ہی بنے رہنا ہے؟
|