عراق: بابل میرے پیچھے امریکہ میرے آگے سیر

چرچ اور سٹیٹ کہاں ملتے اور کہاں الگ ہوتے؛ یہ مسئلہ اور مذاہب میں رہا ہو یا نہ ہو، ابراہیمی مذاہب میں ہمیشہ سر اٹھاتا رہا ہے۔ عیسائی اور یہودی ان کو الگ کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ مسلمان فرق سمجھ کر اطلاق کر بھی رہے ہوں تو حکمرانوں اور ملاؤں کے وسیع تر مفاد میں ہر کچھ سال بعد کسی خطے میں انکو گڈ مڈ کرکے تبدیلی لاتے جسے کچھ انقلاب کہہ ڈالتے اور کچھ تباہی۔ عربوں کے ہاں یہ رسہ کشی آخری نبی کے آنے سے پہلی بھی تھی اور فوراَ بعد بھی شروع ہو گئی۔ صرف نبی کی زندگی میں طاقت اور شراب کے نشے کچھ معدوم رہے۔ نبی کے بعد کے حالات تبری میں پڑھیں یا آفٹر دا پرافٹ میں؛ تاریخ و جغرافیہ کا نام بدل کر سازش و عبرت رکھنے کا دل کرتا۔ طاقت و حکومت کا نشہ، خود کو دین کیلئے نبی کی طرح لازم و ملزوم سمجھنے کا مغالطہ، پہ در پہ غلطیوں کا سائیکل؛ یہ سب نبی کے خاندان کو ہی نہیں کھا گیا بلکہ امت میں ان مٹ خلیج پیدا کرگیا۔ دین و مذہب تو جوڑنے کے واسطے تھے پھر یہ بگاڑ کیوں؟جب تاریخ و ادب نہیں پڑھا تھا اور دین کی سمجھ درسی کتب والی تھی تو بدر و خندق جا کر خود کو ان فتوحات سے یوں جوڑا کئے جیسے ہم بھی وہاں موجود تھے۔ آگہی کا عذاب نجانے کتنے بت توڑ گیا۔ دل مانتا ہی نہ تھا کہ سفیین و جمل و کربلا بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہیں- غزہ کے مسئلے پہ امت کی بے حسی کی دہائی دینے والے نبی کی رحلت کے پچاس سال کے اندر نبی کے رفقا اور انکی اولادوں کی بے حسی کیوں بھول جاتے ہیں؟

چودہ سو سال سے آئینہ وہی ہے، چہرے بدل جاتے ہیں۔ وہی سیاسیوں کے ٹولے، جنگ وجدل، طاقت کی ہوس،؛سٹیٹ اور چرچ کبھی مل کر تو کبھی لڑ کر عام لوگوں کو یرغمال بنائے ہوئے۔ پچھلے سال جو سوال ایران لے گئے تھے؛ کم وبیش اس سال انہی نے عراق کا قصد کروایا۔ معاملہ زیادہ گمبھیر تھا کہ جس مذہب کو مان کر یا جس کی مان کر ہم زندگی نپٹائے جا رہے؛ اس کے آخری نبی کے خاندان پر کاما اور فل سٹاپ اسی دھرتی پر لگا اور نبی کے پیروکاروں نے لگایا۔ یہاں مذہب، سیاست، حکومت، نشہ، لالچ، دھوکا، علم، عمل، معاملہ فہمی کا فقدان، قربانی، بربریت، صبر، آزمائش سب ایسے گڈ مڈ ہوتے کہ اس واقعے پر کوئی رائے قائم کرتے ہوئے پر جلتے۔ مذہب کو گو اک طرف رکھنا مشکل ہے مگر رکھ کر دیکھیں تو بھی بابل و بغداد ہماری تاریخ اور اجتماعی لاشعور کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ پھر کربلا، سمارہ اور نجف بھی چودہ سو سال سے مسلسل ریلیونٹ۔ عباسیوں سے ہلاکو خان تک اور وہابیوں اور ترکوں سے صدام تک بنتی بگڑتی، بہت کچھ سہتی یہ تہذیب اب بھی زندہ ہے۔ زمین پر اکیسویں صدی میں خدا کے خودساختہ نائب امریکہ نے بھی ۹/۱۱ کے بعد براہراست تباہی پھیرنے کی کوشش کی مگر شاید خدا نے اپنی طاقت کا کچھ حصہ امریکہ کو دیا ہے۔ جو ہنوز اپنے پاس رکھا، اس سے عرب کے اس حصے کو ایک بار پھر بچا لیا کہ ہم آج وہاں عازم سفر ہیں۔ ایران کے شاندار تجربے نے بہت حوصلہ بخشا تھا۔ فلائیٹ اک گھنٹہ لیٹ تھی۔ زیادہ مسافر زائرین تھے جو گروپ کی شکل میں تھے۔ وہ کون سے خلا تھے جو علی، عباس، حسین اور ان کی اولادوں کی قبروں کی زیارت سے بھرنے تھے؟ چھوٹے بچوں کو دیکھکر ایک ایکس شیعہ ملحد دوست کی بات یاد آئی کہ ٹین ایج تک بچوں کو مذہب سے دور رکھو کہ ہوش سنبھالنے پر وہ آزادانہ فیصلہ لے سکیں کے کس مذہب سے اپنے ذات کے کون سے خلا بھرنے۔ ہاں اپنے وطن میں خالی ہوتی جیبوں کو بھرنے کیلئے بھی کچھ جوان عراق جا رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ وہاں ۳۰۰ ولاز زیر تعمیر ہیں اور ان کیلئے مزدور، مالی وغیرہ درکار ہیں۔ اچھے پیسوں اور گیارہ ماہ بعد چھٹی کی موٹیویشن ان کا زاد راہ تھی۔ عراقی ایرلائن کا جہاز کافی کھڑکا ہوا تھا مگر منزل پر پہنچا کر ہی ٹلا۔
نجف اترتے ہی احساس ہوا کہ کوفی اب بھی ان راستوں کو مشکل بنائے ہوئے ہیں۔ کوئی کام کو راضی نہیں۔ مندوب کو ۵۰ ڈالر دے کر بھی دو گھنٹے لگے، اکھیوں کی سکیننگ میں اور ہوائی اڈے سے نکلنے میں۔ ایران کا طلسم ٹوٹ گیا۔ عجمی، عربیوں سے بہتر منتظم تھے۔ ٹوٹی سڑکوں پہ ٹوٹی بسیں دیکھکر پاکستان کے کسی چھوٹے شہر کا گمان ہوتا۔ امام علی ہسپتال کی پرشکوہ عمارت دیکھکر نام سے سرکاری ہسپتال کا گمان گزرا مگر غلط گزرا۔ گورے سینٹز کے نام پر ہسپتال بناتے، سنی محمد و عمر کے نام پر مطب کھولتے اور یہاں یہ کام علی و حسین کے ذمے ہے۔ میزبان یہاں پاکستانی طالبعلم کی حیثیت سے مقیم تھا۔ علم بہت مگر فارمل ڈگری نہیں ہے۔ نجف کو مدینتالعلم بھی کہتے ہیں۔ شیعہ اسلام کے تمام علوم سکھائے جاتے ہیں یہاں۔ شادی شدہ طلباء کیلئے شاندار گھر، قطار اندر قطار اور کنواروں کیلئے ہوسٹل۔ منتظم حکومت نہیں بلکہ ۹۰ سالہ ایرانی بزرگ سید سستانی۔ خود حرم امام علی کے پاس سادہ سے کرائے کے گھر میں مقیم ہیں اور پورے عراق کے علم و مذہب کا کام چلا رہے۔ سڑکوں پر ہر طرح کی گاڑی موجود ہے۔ ٹوٹی پرانی گاڑیوں سے لیکر نئے ماڈل کی ٹویوٹا، ہونڈا، کییا وغیرہ۔ ٹریفک کا نظام حکومت کی طرح کمزور ہے۔ حکومت صرف نام کی ہے۔ کچھ قبائل ہی نظام کو گھسیٹ رہے۔ ہر سال کروڑوں زائرین آتے ہیں۔ زر مبادلہ نجانے کہاں جاتا ہے۔ حرم امام علی کے قریب علاقے کی ہئیت راولپنڈی کے ٹالی موری کی سی ہو گئی۔ مشہد و قم کے حرمین اور ارد گرد کے علاقوں کا طلسم جاتا رہا۔ تنگ گلیاں، ٹوٹی ہوئی۔ بیچ میں نالیاں۔ سامان رکھ کر پہلے کتابوں کی مارکیٹ دیکھی جہاں دکاندار رات کو بتی بجھاتے اور بغیر تالہ لگائے گھر چلے جاتے۔ صبح بتی جلائی اور کام شروع۔ کتب کوئی نہیں چراتا۔ اپنے محنت نہ کرنے، صفائی پسند نہ ہونے اور جمود پر یقین رکھنے پر خود ہی عراقیوں نے لطیفہ بنا ڈالا ہے کہ سب کچھ اتنا پرانا کہ کسی گلی سے لگتا آج بھی امام علی نکل آئیں گے۔ حیراں پریشان بھی نہ ہوں گے کہ کچھ بدلہ ہوا ہی نہ ہوگا۔ جنگوں، صدام حکومت اور حرم امام علی کی سست متولین کی وجہ سے پہلے امام کا حرم باقیوں کی نسبت مختصر اور سادہ۔ سنہری گنبد بھی ایک طرف سے ہی زیادہ نمایاں۔ اندر صحن میں ایوننگ خطبہ چل رہا تھا۔ نیلے اور پیلے رنگ کے کام کی ٹائلیں دیواروں پر۔ اندر وہی بےتحاشہ شیشے کا کام اور روشنی بکھیرتے فانوس۔ سنہری دروازوں، شیشوں اور جالیوں کو چومتے، روتے لوگ۔ بچے بھی انکی نقل میں یہی کرتے۔ ایک اونٹنی کوفہ سے چلی اور اسکے بیٹھنے پر پہلے روضہ اور پھر شہر نجف بن گیا۔ شہر کی عمر ۱۳۰۰ سال۔ مشہد بھی امام رضا کی شہادت سے معرض وجود میں آیا۔ پہلے مذہب کی چاشنی سے شخصیات کے گرد اک طلسم بناؤ۔ پھر انہیں مارو اور پھر زندوں کے شہر بساؤ اور ان کی ٹھیکیداری مذہبی پیشواؤں سے کراؤ۔ یا پھر چھاؤنیاں بناؤ اور انکے گرد عوام کو بساؤ۔ نجانے مشرق میں صنعت، تجارت، سیاحت اور زداعت کے گرد شہر بسنا کیوں بند ہوتے جا رہے ہیں۔ روضے کے پاس بیٹھ کر ذہن کی غلام گردشوں میں کبھی بچپن کی اسلامیات چلنے لگی تو کبھی مذہبی جنون سے تباہ آج کی دنیا۔ علی بن ابی طالب۔ مہد سے لحد تک۔ کعبے سے نجف تک۔ محمد کے دائیں بازو ہونے سے محمد کے امتی سے قتل ہونے تک۔ کفار اور امت سے جنگوں کو معاملہ فہمی سے نپٹانے سے لیکر اپنی کانٹوں بھری حکومت میں اپنے ہی قتل تک۔

علی الصباح مدائن روانگی تھی۔ نجف سے نکلے تو کھجوروں کے باغ اور کوڑے کے ڈھیر مدائن تک ساتھ رہے۔ ٹیکسی ڈرائیور تھوڑا بےتکلف تھا اور پاکستانیوں کو دنیا کی احسن ترین قوم قرار دے رہا تھا۔ ہلہ شہر کے ساتھ بابل کے کھنڈرات کو واپسی کیلئے چھوڑا۔ ہلہ شہر بھی جہلم کے حجم اور میعار کا لگا۔ مین شاہراہ پہ ڈاکٹروں کے پلازوں کی بہتات تھی۔ شہروں کے درمیان معمولی نوعیت کے ریسٹ ایریاز۔ ہاں سرسبز گاؤں اور گھر ساتھ ساتھ۔ لینڈاسکیپ اور صفائی وطن عزیز سے مشابہہ لگی۔ مدائن کیلئے موڑ مڑے تو یوں لگا پنجاب کا گاؤں آگیا۔ سعودیوں کی نظر ہمیشہ یہاں شاید اسی ہریالی کی وجہ سے رہی ہوگی۔ ٹنل فارمنگ بھی چل رہی۔ باغ، کھیت، ویلج ہاؤس اور جانوروں کے باڑے نمایاں نظر آئے۔ لوہے کا پل اور پھر مخدوش قسم کی پولیس چیک پوسٹ۔ مدائن کو عمر کے زمانے سے بڑی اہمیت تھی۔ سلمان فارسی یہاں کے گورنر تھے۔ اب اک مسجد کے پہلو میں دفن ہیں۔ میرے پسندیدہ شہر اصفہان سے چلے۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر مدینہ پہنچے۔ آگ سے عیسی اور پھر خدائے محمد تک کا سفر کیا۔ خندق کی جنگ کے ہیرو بھی بن بیٹھے۔ اور پھر مدائن کی حکومت مل گئی۔ قران کو فارسی میں ڈھال کر اہل عجم پر بھی احسان کیا۔ دنیا سے واپسی کا سفر شروع ہوا تو روانگی علی کے ہاتھوں ہوئی۔ غسل بھی اور جنازہ بھی۔ اس غسل اور جنازے کی جگہ پر آج بھی لوگ نفل پڑھتے ہیں۔ علی کی قربت اور نبی کے اپنوں میں سے ماننے کےاعلان کی وجہ سے شیعوں نے انہیں پکا ہائی جیک کرکے شیعہ صحابی بنا ڈالا۔ ہر جگہ حدیث درج کہ سلمان اہل بیت سے۔ ایک دانا و بینا انسان کے پاس بیٹھ کر مذہبی کرامات کا سوچا کہ امام مہدی خواب میں آکر جمکران میں میلوں پر پھیلی مسجد بنوا سکتے تو سلمان فارسی کسی کے خواب میں آکر کشمیر و فلسطین کے مسئلے کا حل کیوں نہیں بتا سکتے؟ باجو میں رازدار رسول حزیفہ بن یمانی دفن۔ منافقوں کی سکریننگ میں ماہر تھے۔ جس کے جنازے میں یہ نہیں گئے، عمر بھی نہیں گئے۔ سیلاب کے باعث یہاں دوبارہ تدفین ہوئی۔ انکے پیچھے امام باقر کی اولاد، امام الطاہر۔ انکے ساتھ عبداللہ بن جابر۔ قبروں میں لوگ پیسوں کے ساتھ ٹافیاں، سگریٹ اور لائیٹر بھی ڈالے دیتے۔ پیسہ تو چلو حکومت وقت کے کام آجاتا، باقی مادی اشیا کا مصرف اور بہت سی چیزوں کی طرح سمجھ سے بالا تر۔ ساتھ ہی گیارھویں امام کی تعمیر شدہ مسجد ایستادہ۔
مزاروں کے احاطے کے پیچھے اسلام سے پہلے کی بلکہ بہت پہلے کی تاریخ کھنڈر کی صورت میں موجود ہے۔ ساسانیوں کا بنایا طاق کسریٰ۔ کسی زمانے میں پرشکوہ ہوگی یہ عمارت۔ درمیان میں عظیم الشان گول آرچ اور دونوں اطراف مستطیل بلاک نما آرچز۔ وقت، موسم، جنگیں نگل گئے، عمارت کی شان کو۔ گہری دراڑوں اور بھونکتے کتوں نے ماحول میں وہ ہیبت طاری رکھی ہے کہ ساسانی بھی آج آئیں تو ڈر جائیں۔ اقوام متحدہ کی ہیریٹج سائیٹ سو کام چل رہا۔ گارڈ کو ۱۰۰۰۰ریال رشوت دیکر کھنڈر کھنگالا۔
کچھ معاملات میں عراق اب بھی پتھر کے زمانے میں۔ انگریزی نصاب کا حصہ نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کو تو نصاب کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ لوگ سکول ہی جانے کو تیار نہیں ہیں۔ عربی تک نہیں پڑھ سکتے۔ قران پڑھنے سے بھی نا آشنا۔ اور جو پڑھ رہے انکا جدید لباس پہننا، تیراکی کرنا اور زندگی جینا معیوب گردانا جاتا۔ زبان بھی سلینگ والی، اصل عربی سے کوسوں دور۔ پھر بھی ملک چل رہا ہے، کئی مرتبہ تباہ ہو کر بھی چل رہا ہے۔ بجلی کوڑیوں کے بھاؤ، پٹرول بھی۔ وطن عزیز میں یہی دو چیزیں جان کا وبال بنی ہوئیں۔
بغداد سے گزر کر سمارہ کی راہ لی۔ ا وور ہیڈ پلوں پر کام جاری تھا۔ کراچی و ڈھاکا کا سا ماحول لگا۔ شاید ترقی سے دور ممالک کی وائب سانجھی ہوتی۔ سمارہ میں دو امام دفن اور آخری امام وہاں سے غائب، دوبارہ آکر دجال کو مارنے، عیسیٰ کو ویلکم کرنے اور قیامت کی خبر دینے کو۔ مذہبی قصے کتنی بڑی موٹیویشن ذلتوں اور ظلمتوں کے مارے لوگوں کے واسطے۔ سمارہ کا قریباَ تمام راستہ ٹوٹا ہوا تھا۔ روڈ زیر تعمیر ہے۔ کنارے پر دونوں طرف جابجا انگوروں کے باغ ہیں۔ آج کے سامرہ شہر کو ایک طرف چھوڑ کر کچھ آگے جاکر امامین کا حرم۔ باہر سے تو حالت پتلی ہے۔ گیٹ سے کوسٹر میں بیٹھ کر حرم کے صحن میں اترے۔ علی کے حرم کی مانند سنہری گنبد۔ صحن سے ملحقہ گھروں کی حالت ناگفتہ بہ۔ شیشے تک ٹوٹے ہوئے۔ شاید اس بمباری سے ٹوٹے ہوں جو اسی دین کے ایک اور فرقے کے ماننے والوں نے ۲۰۰۶ اور ۲۰۰۷ میں کی تھی۔ اس کے بعد عراق میں فرقہواریت کی لہر تیز ہوگئی تھی۔ ۲۰۱۶ تک متواتر حملے ہوئے۔ زیر زمین امام بھی اسٹبلشمنٹ کیلئے خطرہ ہیں۔ کسی کی عبادتگاہ یا مقدس جگہ کو تباہ کرکے ہی تسلی ہوتی، تخریبی عناصر کی۔ پورا معاشرہ جو مذہب کے ٹانک پر رینگ رہا ہوتا اک دم بلبلا اٹھتا ہے۔ ۱۰ویں اور گیارھویں امام، ایک کی زوجہ ایک کی بہن۔ سب ایک چھت تلے۔ ایک کے بطن سے بارہویں امام کا جنم جو مسیحا سے پہلے آیئگا۔وہی شیشے کا کام، سونے کی چھت، چاندی کی جالیاں اور روتے ہوئے مرادیں مانگتے لوگ۔ اسٹبلشمنٹ نے اماموں اور اہل بییت کو مارنے، زہر دینے، اورغیر متعلق رکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسی کڑی میں گیارھویں امام سامرہ میں نظربند تھے۔ پانچ سال تک اولاد کا وجود مخفی رکھا۔پھر عتاب اسٹبلشمنٹ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ جنازہ پڑھاتا امام مہدی بھی عباسیوں کو وارے میں نہ تھا۔ اک اور حملہ اور تہہ خانے سے امام غائب۔ فرار کا لفظ وہابی و سنی استعمال کر سکتے تھے مگر انکا عقیدہ بھی اس امام کو ایمان میں شامل رکھتا سو بچت ہوجاتی ۔ اس تہہ خانے میں صدیاں گزرنے کے بعد بھی طاقت اور ہوس کی بو ہے۔ یا تو عباسی دور کی ہی بسی ہوئی ان در و دیوار میں یا داعش اور صدام نے بسایا۔عباسیوں نے کچھ کام اچھے بھی کیے۔ اسٹبلشمنٹ ویسے بھی مساجد، مزار اور یادگار شہدا بنا کر اپنے کرموں کو پاک کیا کرتی ہے۔ حرم سے عباسیوں کی بنائی گرینڈ مسجد کا راستہ مڈل کلاس گھروں پر مشتمل تھا۔ جھونپڑی نما گھر میں بھی اے سی، لش گاڑی اور کیمرہ موجود ہے۔ مسلسل بمباری کے بعد فوج جگہ جگہ تعینات نظر آتی ہے۔ گرینڈ مسجد اس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی مسجد تھی۔ اسی طرز پہ بعد میں مصر کی مساجد سمیت کئی مساجد تعمیر ہوئیں۔ اسکا سپائیرل ٹاور آج بھی یونیک ہے۔ یوں لگتا مٹی کی ہیوج آئس کریم دھری ہو ۔ مسجد کا صحن اور باقیات صرف کھنڈر کی صورت میں۔ شاید اب عراقی عباسیوں کی یاد کو بھی آباد نہیں رکھنا چاہتے۔

کاظمین میں امام موسیٰ کاظم دفن ہیں۔ چار ستاروں والے ہوٹل میں سامان رکھ کر امام کی زیارت کو بعد کیلئے اٹھا رکھا اور بغداد میں دریائے دجلہ پر کروز ڈنر کیلئے سواری لی۔ کاظمیہ کے بازار میں دکتوروں کی بہتات تھی۔ یہاں سرکاری ہسپتال نہیں ہوتے۔ کچھ حرم اور علماء چلاتے باقی پرائویٹ۔ بازار کراس کیا تو دل کو حوصلہ ہوا کہ بغداد ایک پوش شہر۔ دجلہ کے کنارے اجڑ اجڑ کر بستا رہا ہے اور ہر مرتبہ خوب ہی بستا رہا ہے۔ مالز، پوش ماحول والے، مہنگے کیفے اور سب کچھ جو اسلامآباد اور کراچی میں ہو سکتا۔ ہائی رائز عمارات اور خاص کر دجلہ کنارے بینک کی پرشکوہ عمارت۔ امریکی ایمبیسی کے ساتھ پل جو امریکی بمباری سے تباہ ہوکر پھر بنا، جدید اور شاندار ہے۔ مطعام سفینہ پہ مہنگا اور مزیدار بوفے کرکے دجلہ کنارے تاریخ کو محسوس کرنا چاہا۔ ترکی سے آتا یہ دریا صدیوں سے اپنے ارد گرد کیا کچھ نہیں ہوتا دیکھ رہا۔ ہلاکو خان نے لال اور سیاہ کیا، وقت گزرتا گیا، امریکی بمباری بھی اسے گدلا ہی کر سکی مٹا نہ سکی۔ اپنے گرد بسے شہر کو بار بار اس دریا نے زندہ ہونے اور پھلنے پھولنے میں مدد دی۔ کتنا شوق تھا دجلہ و فرات کو آنکھوں سے دیکھنے کا- آج پورا ہوا۔ دنیا کے حالات جو اپنی آنکھوں سے ٹی وی پر دیکھے اور سنے دوبارہ یاد آنے لگے۔ پھر ماضی قریب اور بعید۔ یہ شہر کیا ہے۔ عظیم ہے، ڈھیٹ ہےِ، مبارک ہے، معجزاتی ہے یا سازشی ہے؟ بارہا فلک کے لوٹ کر ویران کرنے کے باوجود ہمارے ہمہ وقت کے آباد شہروں سے بہتر ہے۔

امام موسیٰ کے ہاں موبائل پر پابندی ہے۔ ہر حرم کے اپنے ضوابط۔ ان کے بیٹے کے حرم کے گرد تو ایرانیوں نے پورا شہر بسا ڈالا ہے۔ اس گرینجر کا تو عشر عشیر بھی باپ کے مزار پر نہیں۔ ہاں کام چل رہا ہے، برطانوی ادارہ شیعہ اماموں کی آرامگاہوں کی تزئین میں مصروف ہے۔ پہلے احاطے کا آرکیٹیکچر باقی مزاروں سے مختلف۔ سفید رنگ کا بےتحاشہ استعمال، براؤن کی آمیزش کے ساتھ۔ باہر شیعہ عالم آرام فرما اور اندر دادا اور پوتا۔ موسیٰ کاظم کے والد تو تمام عمر درس و تدریس میں لگے رہے اور موسیٰ کو بھی اسی پر لگایا مگر ہارون رشید کو شک تھا کہ یہ والد کی طرح نچلے نہیں بیٹھیں گے سو بغداد میں قید اور پھر موت انکا مقدر بنی۔ اللہ جانے طبعی موت تھی یا سلو پوائزننگ۔ محمد کے دین کو اگر اماموں کے مقلد اپنی انٹرپریٹیشن دیتے تو کیوں سنی و وہابی نہیں مانتے۔ اگر وہ کہتے کہ امام انبیاء کے سلسلے کی موڈیفائڈ کڑی اور خدا کے خاص بندے اور اسکا انکے پاس اتنا ہی "سائنسی ثبوت" جنتا باقی پیغمبروں کے "خاص" ہونے کا تو مان لو۔ انکی روحانی ضرورت ویسے پوری ہوتی اور آپکی ایسے تو ہونے دو۔ خون بہانے کے بجائے کعبے کے چکروں اور اماموں پہ حاضری تک کو روحانی ضرورت سے لنک رکھو۔ روحانی ضرورت کی مسجدوں اور مزاروں سے پورا ہونے کی بھی عجیب سائیکولوجی ہے۔ ازل سے یہ ضرورت بھی موجود ہے اور پورا کرنے کے طریقے بھی۔ گورے بھی صدیوں تک اسی طرح اپنی بےچینی کم کرتے رہے یہاں تک کہ سائینس ترقی کرگئی اور بہت سے سوالوں کا جواب دینے لگی۔ جب بھوک تھی، بے یقینی تھی، جنگ تھی تو اجتماعی و انفرادی خلا ایسے ہی بھرتے تھے۔ پھر معاشرے بن گئے۔ ترقی آ گئی۔ روحانی خلا بھرنے کے شاید بہتر طریقے مل گئے۔ چرچ خالی ہوگئے۔ ہمارے ہاں ابھی بھی بھوک، جنگ، بے یقینی سو مسجدیں اور مزار ہی جائے عافیت ٹھہرتے۔ اور پھر حکمرانوں کو بھی وارا کھاتا کہ لوگ محنت کے بجائے آس سے زندگی کو عبارت کر لیں اور اسٹیٹس کو برقرار رہے۔

امام کے بعد سنی جگہ بنتی تھی سو عبدالقادر جیلانی کے ہاں پہنچے۔ صوفی بھی، عالم بھی۔ وسیع و عریض مسجد اور اندر قبر ۔ عراقیوں نے باہر شجرہ لگا رکھا جس سے ثابت ہوتا کہ کہیں دور شیخ جی بھی آل علی سے۔ ایران چھوڑ کر عراق آبسے۔ بغداد کو علم و عمل سے روشن کیا اور یہیں سو رہے۔ علماء اور صوفیا کبھی معاشرے کو بے لوث دینے اور بہتری لانے پر مصر ہوتے تھے۔
اندرون بغداد سے ہوتے ہوئی عراقی میوزیم کی راہ لی۔ اندرون بغداد اندرون راولپنڈی سے چندان مختلف نہ تھا۔ تنگ گلیاں، لٹکتی تاریں اور جنگوں کے مارے لوگ مگر زندہ اور متحرک۔ میوزیم بند تھا سو رکشے والے نے کہا کہ قریب متنبی سٹریٹ ہے۔ وہاں سب سیاح جاتے ہیں۔ میڈرڈ اور ایمسٹرڈیم کی سٹریٹ مارکٹس یاد آگئیں۔ اولڈ بکس اور سٹیشنری کی بہتات تھی۔ کچھ لوکل سوغات بھی تھیں۔ دوستوفسکی کا کرائم اینڈ پنشمنٹ عربی میں ہر دکان پر موجو تھا۔ ایک اور رکشہ لیکر معروف کرخی کے ہاں حاضری دی۔ مزار کی چھت پر دونوں اطراف کشتی نما ابھار۔ اندر مسجد اور کونے میں صوفی بزرگ۔ علی الرضا کے ہاتھ پہ اسلام قبول کیا اور اپنے والدین کو بھی کرایا۔ امام حنبل سے بھی اچھے تعلقات تھے۔ شیعہ سنی دونوں سلسلے سے منسلک سو دونوں کے ہاں معتبر۔ صد شکر۔
ساتھ ہی ملکہ زبیدہ دفن ہیں۔ ہارون الرشید کی پہلی اور محبوب بیوی۔ محبوب ہونے کا قیاس اسلئے کہ بہت سے مشکل کام اس بیبی نے ڈنکے کی چوٹ پر کرائے۔ عباسیوں کے بائیں ہاتھ چاہے اماموں کے خون سے رنگے ہوں، دائیں ہاتھوں سے کمال کے کام ہوئے۔ ملکہ نے زمزم کا کنواں دوبارہ کھدوایا۔ عرفات میں پانی فراہم کیا اور کوفہ سے مکہ تک کا راستہ سیف اور صاف کیا۔ مسلسل پانی کی فراوانی کو بھی یقینی بنایا۔ ہزاروں دینار لگا دئے ہارون کے۔ ہاں الف لیلوی قصوں کی بنیاد بھی بنی یہ طاقتور ملکہ۔ مگر اب کیا؛ اک لوئر کلاس جگہ پہ جھونپڑی نما گھروں کے درمیان سو رہی۔ ننگ دھڑنگ بچے قبر کے محافظ و مجاور۔ کبھی یہ کتنی پرشکوہ عمارت ہوگی ۔لمبا سپائرل مینار۔ بیچ میں گول جھریاں جس میں سے بہت سی بند کہ پرندوں نے گھونسلے بنا ڈالے ہیں۔ اندر سے بھی آثار بتاتے کہ اس وقت کی طاقتور ترین خاتون کا شایان شان دی اینڈ ہوا تھا، مگر مسلک مختلف ہونے کی وجہ سے اسکی قبر کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ تنگ اور گرد آلود سیڑھیوں سے ہوکر مزار کی نیم چھتی تک آئے اور ارد گرد کی غربت کو اور بہتر جانچا۔ سامنے ریلوے کی پٹری پر اک ٹرین جو حکومت کی بے توجہی کا شکار تھی، رینگ رہی تھی۔ اگلا پڑاؤ جنید بغدادی تھے۔ وہی پڑھے لکھے صوفیا کا سلسلہ۔ ۷ سال کی عمر میں حج کیا اور تشکر کی تعریف پیش کی جس کو علماء نے سند دی۔ اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ گوتم بدھ کی مانند دنیا تیاگ دی۔ پھر خواب میں نبی کی زیارت اور تبلیغ کا روح پرور کام۔ مذہبی کہانیوں میں کتنا آسان رومان بھرا ہوتا ہے۔ مزار پہ سنی مولانا کہنے لگے کہ پچھلے سال میں پاکستان آیا، کراچی خطبہ دیا اور چار ہندو مسلمان ہو گئے۔
بہلول دانا بھی ساتھ ہی قبرستان کے بڑے حصے میں دفن۔ قیاس تھا کہ یہ امام موسیٰ کے قریب تھے اور ایک طرح ساتھی بھی سو شیعہ انہیں اپنائے ہوئے ہوں گے اور مزار شایان شان ہوگا، مگر ایسا نہیں تھا۔ ابھی کچھ ہفتے قبل بھٹو ریفرنس کیس کا فیصلہ آیا۔ تاریخ کئی دفعہ یوں اپنا آپ دھراتی کہ کوئی فلم ریوائنڈ ہورہی۔ ہارون الرشید اور ضیا نے اک ہی کام کیا۔ وہاں بہلول حق کے ساتھ اڑ گئے تھے۔ اب نجانے پہلے حواس بجا نہ تھے جو حکمران کے مخالف گئے یا واقعی امام کے کہنے پہ پاگل پن خود پر طاری کیا کہ گردن بچ جائے۔ بہرحال دلچسپ کردار بہلول جو امیر جج سے غریب مجذوب بن گیا۔ محققوں کو وقت بتانا چاہئیے اور کھوجنا چاہئیے اور بھی اس دیوانے منصف کے بارے میں۔ انکی مجذوبیت اور خدا کے قرب کی شہرت پہنچی دور تلک- گرونانک بھی اپنا فلسفہ لیکر یہاں آئے اور بہلول کے ساتھ ہی گردوارا بنا ڈالا۔ کیا دور تھا کہ خدا تک پہنچنے کے دو الگ راستوں کا سٹارٹ پوائنٹ ایک ساتھ ہو سکتا تھا۔ کافی وقت گرو نانک کا پہلوئے بہلول میں گزرا۔ جنگ عظیم میں گردوارا تباہ ہوا۔ پھر بنا، مگر بغداد نے کم سختیاں تو نہیں دیکھیں۔ پھر دیواریں تباہ ہوئیں اور اب کہ تباہی ریورس صرف خدا تک پہنچنے والے شیعہ رستوں کی ہوتی عراق میں سو بہلول اور نانک دونوں شیعت سے جتنے دور اتنے ہی آج تباہ حال عراق میں ۔ قبرستان کے باہر سالوں پرانی ریلوے لائن جس کی کڑیاں جنگ عظیم دوم سے جا ملتیں۔ اب صرف اپنی حالت پہ نوحہ کناں۔ یہاں سے امام حنیفہ کے ہاں حاضری کیلئے کوچ کیا۔ ہر شاہراہ پر اچھے پرائویٹ ہسپتال دیکھے تھے، آج سرکاری بھی دیکھا۔ باہر سے ہسپتال کو دیکھکر یوں لگا کہ اب بھی بغداد میں روز میزائل گرتے ہیں۔
دنیا میں بسنے والے بیشتر سنی مسلمان امام ابو حنیفہ کی دین کی انٹرپریٹیشن پر چلتے۔ ہم بھی شاید ان ہی میں سے "تھے"۔ ان کے اور آءمہ کے قاتل چونکہ مشترکہ تھے چنانچہ شیعہ پارٹی نے کچھ لاج رکھی ان کے علم وعمل کی۔ امام ابو حنیفہ امام جعفر صادق کے شاگرد تھے۔ کیا زمانہ تھا، کیا لوگ تھے۔ آج کے شیعے ہوتے تو امام جعفر کو ہی متنازع قرار دے ڈالتے اور سنی ہوتے تو امام ابو حنیفہ کو مرتد قرار دے ڈالتے۔ شاید اس وقت سنی/شیعہ میں فرق واقعی اتنا تھا کہ شیعہ علی کا ووٹ بینک تھے۔ وقت اس ہارمونی کے بیج کو بھی نگل گیا بلکہ اس میں ایسا زہر بھر گیا کہ اب درخت اور اسکا پھل بےحد کڑوے۔ مزار کے ساتھ مسجد اور اونچا سا کلاک ٹاور۔ سنی زیارتوں کے خدام عموما مرکزی زیارت کی کنڈی لگا کر رکھتے اور بخشش کی امید میں بھی ہوتے۔ امام ابو حنیفہ کو شاید کچھ صحابہ نے گود میں کھلایا تھا سو تابعی قرار پائے۔ حدیث اور فقہ کے عالم بنے۔ چیف جسٹس بننے کی پیشکش ٹھکرائی تو زندان مقدر ٹھہرا۔ زندان میں بھی علم بانٹنا نہیں چھوڑا۔ جابر سلطان کے خلاف عوام کو اکسانے اور ہتھیار اٹھانے کا فتویٰ دینے پر زہر ملا۔ بھوک پیاس میں جان دی اور کروڑوں مقلدین چھوڑے آنے والے ۱۳۰۰ سالوں تک تو۔ بعد کا فیصلہ کائینات خود کرلے گی۔ آج سارا دن بغداد کی سنی سائیڈ کھنگالی۔ اپنا زمانہ جاہلیت یاد آیا جب پورا ہفتہ یورپ کے چرچ کھنگالنے کے بعد اپنا آپ عجیب لگنے لگا تھا اور ضرورت محسوس ہوئی تھی لمبی نمازوں سے اس عمل کو بیلنس کرنے کی۔ دو دن کی شیعہ زیارات کے بعد آج تمام دن سنی زیارتوں نے شاید یہی کام کیا۔ مگر اب اسکی ضرورت نہ تھی کہ بیتا وقت بہت کچھ سکھا چکا تھا۔
رات کو جدید بغداد میں پام آف بغداد نامی جگہ پر کھانا کھایا۔ مہنگے ہوٹل اور کیفے۔ اسلامآباد سے بھی ایلیٹ ماحول۔ انگریزی بولنے والا سٹاف۔ اندر ہی تھیٹر بھی جہاں میوزک کانسرٹ بھی ہوتے۔ شہر بھی سخت جان اور لوگ بھی۔ مر کر ہر بار پھر جی اٹھتے۔

کربلا، نبی کے ظہور اور وفات کے بعد شاید سب سے پر اثر واقعہ ہے۔ جس نے دین محمدی میں پروان چڑھتے ہوئے فرقوں کو ہمیشہ کیلئے مسلم کردیا۔ اس واقعے نے بہت کچھ نگل لیا۔ غزوات، عمر کی فتوحات، عثمان کا قتل، عائشہ/علی کا ٹاکرا، علی کا کانٹوں بھرا دور حکومت، معاویہ کے سیاسی جوڑ توڑ؛ سب امام حسین اور ساتھیوں کے خون کے ساتھ بہہ گیا۔ صرف تفریق رہ گئی۔ ہمارے ایک دوست کہتے کہ تاریخ سنیوں نے لکھی سو ان ہی کو مارجن دیتی نظر آتی۔ ہم کہتے کہ شیعہ ورژن میں جذبات حقائق کو کھانے لگتے۔ یہ بحث لاحاصل۔ جو بھی ورژن ہو۔ نواسہ رسول کا بہیمانہ قتل امت کے منہ پر چپیڑ ہے۔ اور آج میں وہاں موجود جہاں یہ چپیڑ پڑی۔ کوئی کہے یزید ہر گز ایسا نہ چاہتا تھا۔ کوئی کہے کہ فوج کے دل امام کے ساتھ تھے اور تلواریں یزید کے۔ اگر تاریخ کا ۱/۱۰ حصہ بھی سچ تو ۷۲ لوگوں کو قابو بھی کیا جا سکتا تھا، اگر وہ واقعی حکومت وقت کے باغی تھے۔ حکومت اور سٹیٹ بہت طاقتور ہوتے ہیں۔ کوفیوں کی بتی تو پہلے ہی گل ہوچکی تھی۔ حسین اور رفقاء کا معاملہ بھی نپٹ سکتا تھا۔ مگر اب ایسے ویسے کی گنجائش نہیں۔ ۱۴۰۰ سال گزر گئے۔ کربلا کا میدان اہل بیت کا خون پی کر اب جدید شہر بن چکا ہے۔ یونیورسٹیاں، ہوٹل، ہسپتال؛ حرم کے گرد دنیا آباد ہے۔ مدینہ سے نہ نکلتے امام، سٹیٹ کے ایڈوائزر بن جاتے، درس و تدریس کرتے۔ کوفی علی کے نہ ہوئے تھے، انکے کہاں ہوتے۔ یزید کی فوج نے امام کے قافلے کو اس جگہ کی طرف ڈائیورٹ کردیا تھا اور باقی ظلم تاریخ کا حصہ۔

پہلے عباس علمدار کا مزار۔ اپریل کے مہینے میں بھی بار بار پیاس لگتی ہے۔ اس وقت کا سوچیں۔ مزار کے کمرے باہر چھت سے ایک مشکیزہ لٹکا ہوا ہے۔ عورتوں اور بچوں کی تکلیف میں پہلے دونوں بازو دئے اور پھر جان دے دی۔ گو یزید کے لشکر نے کوئی کسر چھوڑی نہیں تھی مگر پھر بھی صدیوں بعد صدام کے لشکر نے پھر بمباری کی عباس و حسین کے مدفن پر۔ اغیار سے لڑنا ان مسلمانوں نے؟۔ اس وقت ۷۰ لوگوں کو عباس کے مشکیزے کی ضرورت تھی آج کروڑوں اربوں کو ہے۔ بین الحرمین سے گزر کر امام حسین کے پاس پہنچے۔ بین الحرمین میں جا بجا پنکھے لگے اور زائرین چادریں بچھائےے کھا، پی اور سو رہے۔ نبی کا نور عین پاس ہی دفن ہے۔ صدیاں پہلے کی کہانی ریوائنڈ ہونے لگی۔ یہ کوئی شیعہ اسلامی قصہ نہیں۔ انسانیت کا المیہ ہے۔ ایک بڑا طبقہ مانتا کہ سات آسمانوں کا مالک اک خدا ہے۔ پھر ایک طبقہ مانتا کہ خدا نبی بھیجتا ہے۔ پھر اک مانتا کہ محمد اللہ کے آخری نبی اور دنیا کی معتبر ترین شخصیت ہیں۔ اب اگر یہاں تک بھی جائیں اور اس کے بعد والے طبقے پہ نہ بھی جائیں جو علی اور آل علی کو بھی انبیاء کی کڑی مانتا تو بھی محمد کے پیروکاروں کا اس کے نواسے کا قتل ان کے عقیدوں کے کھوکھلے ہونے کی دلیل ہے۔ سامنے چھوٹی چاندی کی جالیاں اور اندر سرخ روشنی۔ اوہ تو یہاں امام گھوڑے سے گرے تھے۔ شمر کا دل ان کے ساتھ تھا، زبان پہ کلمہ انکے نانا کا تھا مگر تلوار یزید کے ساتھ تھی اور وہ چلی۔ ایک بار نہیں بار بار۔ عین اسی جگہ جہاں آج میں کھڑا۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں مذہب پہ طاقت غالب آئی تھی۔ کیوں آیا میں یہاں۔ میرے مذہب پہ تو پہلے ہی سائینس غالب ہے۔ کیوں اس جگہ کو یہ ویل چئیر پہ آیا بابا چوم رہا ہے۔ اسکو بتاؤ نہ کرے۔ یہاں تو کٹ گیا تھا پسر فاطمہ کا سر۔یہاں تو سات آسمانوں والے نے محبوب کے محبوب کی مدد نہ کی تھی تو تمھاری کہاں سنے گا۔ ہاں یہ ہو سکتا کہ اس وقت کے خمیازے کے طور پر اب یہاں کی فریادیں زیادہ سنتا ہو۔ اک طرف ۷۲ کی اجتماعی قبر تو اک طرف امام کے جگری یار اور درمیان میں امام اپنی اولادوں کے ساتھ۔ جھوٹ بولتے شاعر اور ذاکر۔ اس روز نہ آسمان کانپا تھا نہ زمیں ۔ یزید کی فوج جو کرنے آئی تھی، بخوبی کیا اور یہاں، یہاں میرے سامنے کی جگہ پر امام کا سر تن سے جدا کیا اور پورے ۷۲ سروں کے ساتھ دربار لوٹی۔ اوپر والے نے تو بارش بھی نہ برسائی کہ فرات انسانوں کے نرغے میں تھا، آسمان تو نہیں۔ مرنے سے پہلے اہل بیت کے ہونٹ آسمانی پانی سے ہی تر ہوجاتے۔ لاشوں کی شناخت، تدفین اور سروں کی گمشدگی کے بےشمار قصے مگر ان پہ بات کرنا عبث۔

خیام والی جگہ بھی لش پش ۔ قالین، فانوس، اے سی سب موجود۔ اس وقت صرف غربت اور مظلومیت تھی۔ پہلے عباس کا خیمہ۔ پھر گھوڑے اور اونٹ باندھنے کی جگہ۔ پھر خیمہ نواسہ رسول۔ پیچھے قاسم کا خیمہ۔ وہی قاسم جس کے لاشے پر گھوڑے دوڑا دئے شمر کی فوج نے اور امام اپنے جبے میں اس کے اعضا اکھٹے کرتے رہے۔ پھر وہی بات، ان کہانیوں کو یکسر کہانی گردانیں تو پھر پورا دین ہی کہانی ۔ دسواں حصہ بھی سچ مانیں تو سب منافق لگیں۔ سامنے ٹلہ زینبیہ۔ انیس سو زخم ہیں تن چاک چاک پر۔ زینب نکل حسین تڑپتا ہے خاک پر۔ اک دم حرم کی شان و شوکت غائب ہوگئی ۔ ماربل کا فلور مٹی و ریت میں بدل گیا۔ زائرین غائب ہوگئے۔بہن کیا کرسکتی تھی بھائی کیلئے۔ نانا کے امتی حکومت و طاقت کے نشے میں چور تھے۔ مکہ سے چلنے والا دین پچاس سال بعد کربلا میں جاں بلب تھا۔

دو تنگ گلیوں میں بازار کے بیچ و بیچ وہ جگہیں جہاں عباس کے ہاتھ کٹے۔ راولپنڈیٰ کے پرانے موتی بازار نما ماحول میں عباس علمدار کے ہاتھ کٹنے کے نشان۔ مختصر سا گنبد اور جالیاں۔ لوگ یہاں بھی بوسے دیکر مرادیں مانگ رہے۔ ارے لوگو!!! سبق لو، ہاتھ کٹا تو مشکیزہ دانتوں میں دبا لیا عباس نے، کوشش کی کہ پانی نہ گرے اور عورتیں اور بچے تشنہ لب نہ رہیں۔ کوئی منت نہیں مانی، کوئی بوسہ نہیں دیا۔ صرف کوشش کی، جس نے اس کو امر کردیا۔
ہوٹل میں ایک شیعہ ذاکر و عالم سے ملاقات ہوئی۔ لال شہباز قلندر کے تین عدد عرس اٹینڈ کرنے کے بعد اس سے بہت نالاں نظر آئے۔ ان شیعہ علما سے بھی نالاں نظر آئے جو لال قلندر اور صوفی ملاوٹ سے شیعہ مذہب کو آلودہ کررہے۔ ان کے اک مرید نے حسن بصری کو بھی رگڑ دیا کہ وہ وسوسوں کی بیماری کا شکار تھے اور وضو میں بےتحاشہ پانی ضائع کرنے پر مولا علی سے سرزنش بھی پائی تھی۔ گو وہ لوگ ان کے صوفی سلسلے شروع کرنے پر نالاں تھے مگر ہم سوچ رہے تھے کہ اس زمانے میں بھی او-سی-ڈٰی کی بیماری کا سراغ ملتا۔
رات کو جدید کربلا دیکھا۔ صدام اور داعش کے واروں سے یہ سرزمیں زخمی ضرور ہوئی تھی مگر اسکی کمر نہیں ٹوٹی تھی۔ یونیورسٹیاں، شاپنگ مال، بیش قیمت گاڑیاں اور سب سے بڑھ کر زندگی جیتے لوگ۔ رات کا کھانا اک جدید مال کے فوڈ کورٹ میں کھایا جو مقامی لوگوں سے کچھا کچھ بھرا ہوا تھا۔ ہوائی اڈہ بھی زیر تعمیر ہے۔ امام رضا کے حرم کی طرح یہ حرم بھی معاشی خود کفیل ہو رہا۔ اپنے کاروبا چلا رہا۔ کربلا کو ریڈیفائن کرنے کا عمل حرم ہی کے دم سے اور حرم ہی کے ہاتھوں سے ہو ریا ہے۔

اگلے روز صبح پہلا پڑاؤ جناب حر کے پاس تھا۔ کربلا کے نواح میں کنٹری سائیڈ نما علاقے میں مین بازار میں حسین کا فخر سو رہا۔ یو ٹرن کی ایسی مثال نہیں ملتی۔ یزید کا فوجی جو حسین کو یو ٹرن پر فورس کرنے آیا تھا؛ خود ٹریک بدل ڈالا۔ اک مثال یزید اور اسٹبلشمنٹ کے نمائندوں کیلئے کہ زیادہ دیر ہونے سے پہلے راستہ بدلہ جا سکتا، ضمیر کی آواز پہ لبیک کہا جاسکتا۔ دل کی آواز اور تلوار کے رخ کو ایک سمت میں کیا جاسکتا۔ جناب حر کی جالیوں کو بھی لوگ چوم رہے۔ چومو، مگر ضمیر کو استعمال کرنا بھی سیکھو۔ یو ٹرن لینے کیلئے سٹرینتھ اکٹھی کرنا سیکھو۔ حر بننا شاید عباس بننے سے بھی مشکل۔ ہاں حر بن کر اپنے یا لشکر کے ہاتھ کیا آتا، اسکی انزٹرپریٹیشن مختلف اور متنازعہ ہو سکتی ہے۔ حضرت زین کو باہر سے سلام کیا کہ زینب کے اس فرزند نے بھی زندگی کی بہاروں کوٓ پرنانا کے مذہب کا ایندھن بنا ڈالا۔اس سب کہانی میں اسلام نے کیا کھویا اور کیا پایا، اس پر مختلف آرا ہوسکتیں مگر اس پر سب متفق کہ مسلم امہ کو اک جاندار، نسوانی کردار دے گئی یہ کہانی۔ خدیجہ، عائشہ، فاطمہ وغیرہ معاملہ فہمی اور حیا کی علامت ہیں، سمیعہ صبر و برداشت کی۔ زینب علامت نسوانی وقار کی، کانفیڈنس کی، آذادی کی۔

عراق میں اسلام اور کربلا سے پہلے کی تاریخ کے آثار بھی موجود ہیں۔ ہاں ہر تاریخی دور کا تعلق کسی پیغمبر سے ضرور ملتا ہے۔ بابل و نینوا کا مرکب بچپن میں کسی شعر میں پڑھا تھا۔ نینوا تو اس دورے کا حصہ نہیں تھا، بابل ضروی تھا۔ کربلا سے قریبا گھنٹے کے فاصلے پر، عیسیٰ کے ظہور سے بھی سینکڑوں سال پہلے کی تہذیب۔ عراقی گورنمنٹ نے اسے سیاحوں کیلئے بہتر کر رکھا کہ یہاں جذبات سے سرشار مسلمان اور شیعہ کم اور عقل و تاریخ کے داعی کافر زیادہ آتے ہیں۔ بابل کے دروازے سے لیکر پیچھے صدام کے محل سے منسلک تفریح گاہ اور فرات ندی تک ایک پورا کامپلیکس ہے۔ بادلوں نے بابل کی سیر کو آسان بھی کردیا۔ انٹرنس پر سنتری نے پوچھا بھی کہ کس ملک سے تعلق اور پاکستان بتانے پر بھی ۳۰۰۰ دینار کا ٹکٹ دیا جو واپسی پر ہمارے گلے کی ہڈی بنا۔ نیلے رنگ کے علامتی گیٹ کے بعد مٹی کی اینٹوں کی دیواروں کا سلسلہ شروع۔ عراق اور گردو نواح کا نقشہ اک دیوار پر ثبت اور باقیوں پر اس دور کے لوگوں اور فوجیوں کی شبیہ۔ سیدھی دیواریں۔ کمرے اور ہال نما جگہوں کی نشانیاں۔ بغیر چھتوں کے۔ اینٹیں اور اسٹرکچر ہر گز صدیوں پرانا نہیں لگتا۔ شاید آثار کے اوپر دوبارہ تعمیر ہوئی ہے۔ ایک طرف راہداریاں اور چھوٹے چھوٹے کمرے۔ شاید غرباء کا علاقہ ہو۔ اپنا موئنجوداڑو یاد آگیا۔
بابل تاریخ کے کئی ادوار میں ریلیونٹ تہذیب رہی ہے۔ نوح کے پڑپوتے سے لیکر اسلامی دور تک اس سرزمیں نے کئی مدوجزر دیکھے ہیں۔ ایران والے ساسانی بھائی بھی حکم چلایا کئے۔ دار سوں کی بھی یہاں چلا کی۔ پر رہا نام الللہ کا۔ ابھی بھی بہت کچھ زیر زمین پڑا ہوا مگر کوئی گورا آکر ہی کھدائی کرے تو کرے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے سماج کے ٹھیکیدار پورا عراق بابل بنانے کے درپے ہیں مگر یہ قوم سب جھیل کر بھی گھٹنے نہیں ٹیکتی۔ اپنے اماموں سمیت سروائیوو کر رہی ہے۔ اینٹوں اور مٹی کی دیواروں کے ایک طرف ہزاروں سال پرانا شیر بھی موجود ہے۔ کھدائی کے دوران ملے ہوئے بھی سو سال سے اوپر کا عرصہ ہوچلا۔ ریت، بجری اور نجانے کون سے عناصر سے بنا ہوا تھا۔ وقت اور الفاظ اسکا شکار نہ کر پائے سینکڑوں سال تلک اور اس کو بنانے والے شاید ایندھن بن کر کسی ٹرالے میں جل کر دھواں بھی ہو گئے ہوں۔ مٹی کی ٹھیکریوں پر پرانے کھنڈرات، معدوم ہوتے ہوئے۔ نہ انکے بارے میں کوئی معلومات اور نہ ہی انکو بچانے کیلئے کوئی اقدامات۔ عراقی حکومت نے صرف اماموں پر پیسے لگانے اور کمانے کا سوچا ہوا ہے۔ شاید کوئی وسیع النظر حاکم آئے اور نان شیعہ تاریخ جو اس سرزمین پر پوری شان سے بیتی ہے اور اس کی ڈیفینیشن میں شامل ہے اس کو بھی محفوظ کرنے کا سوچے۔ بابل کی کھنڈرات کے پچھواڑے میں تفریح گاہ اور صدام کا محل ہے۔ ہماری جیبوں کی شامت ہمیں وہاں لیجا رہی تھی۔ کھنڈرات کے پیچھے تاروں کو اوپر نیچے کرکے لوگ جا رہے تھے۔ ہم نہ جا سکے اور گاڑی پر سیدھے راستے کو پکڑا۔ تفریح گاہ کی پارکنگ سے پیدل آگے گئے اور محل کی چڑھائی شروع کی۔ سیدھا راستہ تو صدام کے واسطے ہوگا جہاں وہ اس زمانے کی کالی ویگو میں سوار محل میں داخل ہوتا ہوگا۔ عام عوام کے واسطے تو چڑھائی ہی تھی۔ اوپر پہنچے تو قدموں تلے زمانہ نہیں زمانے تھے۔ اک طرف صدیوں پرانی تہذیب کے آثار تو دوسری طرف ماضی قریب کا لوکل ناخدا جو اس سیارے کے خداؤں کا نمائندہ تھا۔ صدام کا محل عبرت کا نشان ہے۔ کیا فلاسفی ویسے عراقی حکومت کی۔ ہمارے ذہن میں تو یہی آتا کہ جابر سلطان کا بھی بہرحال کونٹریبیوشن ہوتا۔ عبرت کیلئے کوئی میوزیم بنا ڈالو، ویسا ہی سہی جیسا بنگلہ دیش کا وار میوزیم۔ یا اتنی زبردست عمارت پہ کوئی ہوٹل یا سرکاری دفتر کھول لو۔ مگر نا جی۔ عراقیوں نے اسے کھلا چھوڑا ہوا عوام اور سیاحوں کیلئے۔ کھلی، بے یارو مددگار عمارت بغیر کسی مینٹیننس کے۔ جو جہاں مرضی تھوکے۔ گند ڈالے، نو ٹینشن۔ منچلے نوجوانوں نے نمبر اور انسٹا آئی-ڈی لکھ چھوڑے۔ ہاں اوپر کی منزل اور چھت بند۔ محل کے عقب میں فرات کی نہر پل پل بہہ رہی۔ شفاف اور رواں۔ تفریح گاہ پہ واٹر سپورٹس کیلئے کشتیاں بھی دستیاب ہیں۔ کیا خوب جگہ چنی تھی صدام حسین نے۔ آگے تاریخ پیچھے بہتا پانی اور درمیان میں جنگوں کے منصوبوں کو نافذ کرتا صدام۔ ایک پورا خطہ متاثر بھی اور تباہ بھی کیا۔ پھر بھی اس عمارت اور لینڈ سکیپ کا بہتر استعمال ہوسکتا ہے۔ ٹھیکے پہ ایران کو دے دو یا گوروں کو۔ واپس اترے تو گاڑی پہ بیٹھتے بیٹھتے اک نوجوان نے ٹکٹ چیک کیا اور ہماری شامت آگئی۔ پہلے خود ہمیں مقامی سیاحوں والے ٹکٹ دئے اور اب کہتے کہ ہم نے جان کر لئے۔ پاسپورٹ لیکر دفتر آنے کو کہا۔ ہمارا ڈرائیور جذباتی ہوکر بیچ میں کود پڑا کہ ایک دینار نہیں دینا۔ پاکستانی مہمان ہیں آپ۔ مگر نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے۔ انتظامیہ کے بندے نے کہا بھی کہ آپکا ڈرائیور اچھا آدمی نہیں اور اک ٹکٹ کے پیسوں میں چھوڑنے کا عندیہ دیا مگر نہ جی، ڈرائیور نے ہماری اور اسکی ایک نہ چلنے دی اور بحث جاری رکھی۔ آخر میں ہم سے دس ہزار دینار لے گیا اور پاسپورٹ لے آیا۔ ہم خوش کہ چالیس ہزار بچا لایا مگر کہنے لگا کہ چالیس اپنی جیب سے ڈال کر انتظامیہ کو دے کر آیا۔ اس بات کا ہمیں بلکل یقین نہ آیا مگر اب پچھتائے کیا ہوت۔ ۴۰۰۰۰ دینار کا ٹیکا ڈرائیور لگا گیا۔ لٹنے کے باوجود راہ کھوٹی نہ ہونے دی اور ذولکفل کی راہ لی۔ خوب جی بھر کے ڈرائیور کو گالیاں دیں جسے میزبان نے اسے تعریف میں ترجمہ کرکے بتلایا۔ دونوں فریقین خوش۔

ذولکفل ہمارے ہاں بھی نبی اور یہودیوں کے ہاں بھی۔ شیعہ اسلام میں انکی کتنی گنجائش نکلتی، انکا مزار دیکھکر اندازہ ہوگیا۔ مزار اور ملحق عبادتگاہ، کبھی مسجد تو کبھی سینیگاگ۔ ۱۹۴۰ کے بعد سے زیادہ تر مسجد ہی۔ عبادتگاہ کی نوعیت کوئی بھی ہو؛ سجدہ تو اسی اندیکھے خدا کو جو کسی کو بھی اپنے پیغمبر کی زیارت سے نہیں روکتا۔ ہاں اسکے بندوں کو اعتراض ہوتا کہ پیغمبر کی زیارت کیلئے خدا کا تصور ایک ہونا ضروری ہے۔ باہر گنبد و مینار اور اندر کی تزئین و آرائش میں یہودی عبادتگاہ کا کوئی شائبہ نہیں ملتا؛ ہاں دیواروں کا پیٹرن کچھ مختلف ہے اور دوسرے مذہب سے مستعار ہوسکتا۔ چھت پر جانے کی اجازت نہ ملی۔ پاس کا علاقہ جنگ زدہ، غربت زدہ ضرور لگا؛ پیغمبر زدہ ہرگز نہ لگا۔ کچے مکان، ننگ دھڑنگ بچے۔ یہ ماحول تو ہمارے ہاں ہلکے پھلکے ولیوں کے پاس ہوتا؛ کجا کہ پیغمبر۔ ویسے ذوالکفل کی قبر کی اور جگہوں پر بھی روایت، پر ہم اسی کو اصل سمجھا کیے۔ نجانے ان پیغمبروں کے بھیجنے والے نے ۱۴۰۰ سال پہلے مہر کیوں لگا دی تھی۔ انسان کو تو اب ضرورت شاید پہلے سے زیادہ ہے۔ سائنس کا یہ جن کھا رہا انسانیت کو؛ اسکو استعمال کرنا سکھانے کیلئے کوئی آئیگا؟ یا قیامت تب ہوگی جب انسان کی بنائی ہوئی مصنوعی طاقت خود اسی کو کھا جائیگی۔
اس لحاظ سے مسجد قرطبہ ٹھیک ہے۔ صدیوں بعد بھی ملا جلا رجحان۔ مسجد کے منبر کا حصہ محفوظ۔ محرابیں محفوظ، ہاں چرچ والا معاملہ ایکٹو اور نماز یا دعا کی اجازت نہیں۔ چلو زیارت تو کر ہی سکتے ہیں۔ آس پاس قرطبہ کا شہر بھی بےمثال ہے۔ پر اس جنگ زدہ ملک میں قدیم ملٹی قوم پیغمبر کے آس پاس دھول اڑ رہی ہے۔ غریبوں کے بچے نجانے ایسے ہر سین میں ننگ دھڑنگ کیوں آجاتے۔ اور دھول بھی محاورے والی نہیں، اصل والی اڑ رہی۔ ہمارے لاہور کے سلمز ٹائپ کے گھر، اک ٹوٹل کا وضو خانہ، مٹی کے دو اعلیٰ مینار اور دو قوموں کا پیغمبر قیامت تک سو رہا۔

اب اگلا ٹھکانہ نجف اشرف تھا، راستے میں اک قومی ہیرو کا مزار تھا جس نے اسٹیٹس کو کے خلاف جدوجہد کی تھی۔ باقر الصدر۔لوکل لوگ شجرہ امام موسیٰ کاظم اور آخری پیغمبر سے جا ملاتے۔ عالم ابن عالم۔ صدام نے انہیں اور انکی بہن کو ایسی بہیمانہ موت دی کہ سن کر ہی روح کانپ جاتی۔ مگر صدام موت کیسے دے سکتا؟ زندگی موت تو الللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہاں بہیمانگی تک کا اختیار شاید اس نے اپنے نائب کو دے رکھا ہے اور صدام جیسے نائب ان اختیارات کا استعمال بخوبی جانتے ہیں۔ انکو نجف کی عوام نے ویسے ہی اپنا نمائندہ بنا ڈالا اسٹبلشمنٹ کے خلاف جیسے امام حسین کو بنایا تھا۔ فتویٰ بھی دیا انہوں نے ورکنگ پارٹی کے خلاف۔ نجف میں انکی بہن نے بھی عوام کو راہ دکھلانے کی کوشش کی مگر بدی تو نیکی سے ایک قدم آگے ہوتی بلکہ کئی قدم۔ نازک اعضا تک کو روند ڈالا۔ سر میں کیل ٹھونکا اور آگ لگا دی۔ صدام نے اپنے ہاتھوں سے بہن اور بھائی کے ساتھ ایک جیسا ظلم روا رکھا۔ اہل مغرب بھی خاموش ہی رہا کیے کہ مولانا ایران کے فلسفے کے داعی تھے۔ شیعہ گورنمنٹ آنے کے بعد سبز گول مزار بن گیا۔ اعلیٰ تعمیر۔ جنگوں میں بھی اور جنگوں کے بعد بھی مذہبی و سیاسی لوگوں کے مزاروں پر کمپرومائز نہیں ہوتا۔ اب شاپنگ مال بھی بن رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کی دکانوں والے پلازے بھی ہر شہر کی بڑی شاہراہ کا اہم جزو۔ کیا یہ ترقی کا میعار؟ کیا یہ وہ اقبال کی مومن کی معراج۔ مومن چاہے شیعہ ہو یا سنی؛ اسکی دینی اور دنیاوی معراج کیا ہوگی۔ عظیم الشان مزار، شاپنگ مال، ڈاکٹروں کے پلازے۔ کیا یہ سب آتی ہوئی خوشحالی کی علامت۔ نان گورننس، کرپشن، عام آدمی کا گرتا میعار زندگی، تعلیم اور سائنس میں پچھاڑ، ان سب کو کہاں رکھا جائے۔ پاکستان سنی ملک، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں۔ عراق شیعہ ملک؛ عرصے سے جنگوں میں۔ ایک پر فیلڈ اسٹیٹ کا آفیشل دھبہ بھی۔ حالات دگرگوں۔ دوسری طرف ایران تھا۔ پابندیاں اور عالمی تنہائی مگر یوں گماں ہو کہ ترقی اور تمدن کا ایسا امتزاج کہیں نہ ملے گا۔ ایران کے سفر کی داستاں، تصاویر اور وی لاگز شاید کوئی بھی اس احساس کو بیان نہیں کرسکتا جو وہاں دس دن گزار کر ہوا تھا۔

نجف میں ہوٹل میں سامان رکھ کر میزبان ایک مستند مگر متنازعہ عالم کے دروازے پر لے گئے۔ ایک عام سی گلی میں اک عام سا گھر شیخ السند کا۔ یوکے کوالیفائیڈ انجینیر، قم کوالیفائڈ شیعہ عالم۔ بحرین میں رہتے ہوئے اپنی گورنمنٹ کے خلاف اقوام متحدہ کو خط لکھا کہ ریفرینڈم کراؤ۔ اس کے بعد نجف میں پناہ لی اور علم و مذہب کا کام جاری رکھا۔ اور اس میں معراج پائی۔ انکے اسسٹنٹ نے مغرب کے بعد آنے کا کہا۔ حیرانی ہوئی کہ یہاں علما اب بھی سادہ اور عوام اور سیاحوں سے ملنے کو تیار۔ ہمارے ہاں کی طرح کی حویلیاں، فارم، پراڈو، گارڈز کی فوج۔ کچھ بھی نہ تھا۔ نماز کے بعد ان سے ملنے گئے۔ ان کی انگریزی کو زنگ لگ چکا تھا سو ویڈیو ریکارڈنگ نہ ہو پائی۔ آڈیو کا بھی پہلے انہوں نے منع کیا مگر پھر سوالوں کی نوعیت دیکھکر اجازت دے دی۔ نجف کی اک گلی کے اک گھر کے تہ خانے میں آدھ گھنٹہ صرف امن کی اور مفاہمت کی بات ہوئی۔ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بار بار کہتے رہے کہ نو باکسنگ امنگ سکالرز۔ مل کر، بیٹھ کر بات کرکے اختلافات کم کرنے کی بات کرتے رہے۔ ہمارے فلسطین کی جنگ اور امت مسلمہ کے وجود کے متعلق سخت سوال پر کہنے لگے کہ شیعہ ممالک کا سٹائل مختلف ہے۔ اس مسئلے پر آپ انکا ردعمل دیکھیں گے۔ ٹھیک دو دن بعد ایران نے اسرائیل پر میزائل داغ دیا۔
علمی اور فقہی خوراک کے بعد اصل شکم کو بھرنا اور وہ بھی نجف کی مشہور مندی کے ساتھ بےحد ضروری تھا۔ ریسٹورانٹ میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی اور نہ ہی کوئی امکان نظر آرہا تھا۔ عراقی میزیں سجائے گوشت اور چاولوں سے نبرد آزما تھے۔ عجیب ہی منظر تھا۔ ایک ماں بیٹا بھی اسی شغل میں مصروف تھے۔ ماں وہیل چئیر پر تھی مگر مندی کھانے کی رفتار اور مقدار پر کوئی کمپرومائز نہ تھا۔ بیٹے کا اپنا ہوٹل تھا جہاں کئی پاکستانی ملازم تھے سو فرینک ہوکر اردو کے الفاظ بولنے لگا۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے لگا۔ چلو کوئی تو ہو۔ ماں جی نے ہڈیوں پر موجود بوٹیوں کا آخری ریشہ تک صاف کرنے کے بعد میز خالی کیا اور ہماری باری آئی۔ مندی ہمیں سعودیہ کی مندی سے بہتر اور دبئی کی مندی سے کم لگی۔
آج اس ملک میں آخری دن تھا۔
ہوٹل کے گیارہویں فلور کی کھڑکی سے نجف کا ایک رخ عیاں تھا۔ شہر کا رخ ہو، زندگی کی سچائی یا تاریخ کے پہلو؛ انسان کے اندر مکمل دیکھنے کی صلاحیت قدرت نے رکھی ہی نہیں۔ اور ہم ایک مختصر سے ویو کو کل سمجھ کر اپنا ردعمل اور برتاؤ متعین کر لیتے ہیں۔ زائرین کیلئے چھوٹے بڑے ہوٹل، بیچ میں کچے پکے گھر اور ہر گیپ کو فل کرتی دکانیں۔ ڈرائی فروٹ، ٹوپی، تسبیح، عطر اور دیگر ضروریات زندگی بیچتی دکانیں۔ اہل نجف کو بھی اور زائرین علی کو بھی۔ اور وہ گیارہ بجے کی سوئی پر بہتا بہار نجف۔ دریا زائندہ کی طرح خشک بھی نہیں مگر ہمارے سندھو کی طرح ہیوج بھی نہیں۔ دوری اور اونچائی سے تو اس ذخیرہ آب کو عزت دیتے بنی۔ نیچے اتر کر جانے کا قصد کیا تو میزبان نے کہا کہ مایوسی ہوگی۔ وہی مایوسی جو کلفٹن کے ساحل پر ہوتی ہے۔ شاید شیعہ میزبان پسند بھی نہیں کرتے کہ نجف اشرف کا کوئی مہمان، علی اور وادیاسلام سے دائیں بائیں ہو۔ ناشتے کے بعد پڑاؤ وادیاسلام قبرستان تھا۔ وہی مذہبی متھ ساتھ ساتھ۔ کوئی مانے کے یہ آدم کے زمانے کی جگہ ہے۔ کوئی کہے کہ ابراھیم نے اس جگہ کو مارک کیا تھا۔ کوئی کہے آخری نبی نے یہاں سے جنت کی بشارت دی۔ اور علی سے تو جو چاہے منسوب کر ڈالو کہ ویسے تو وہ ہر جگہ مشکل کشا مگر یہاں کے دفن شدگان پر خصوصی کرم۔ دنیا بھر سے شیعہ حضرات زندگی عیش و عشرت سے چاہے مغرب میں گزاریں، مر کر یہاں ہی آنا چاہتے۔ پھر جو چاہے کہیے شیعہ اس لحاظ سے بہت ایکوموڈیٹو ہیں۔ قبرستان کی توسیع در توسیع مگر کسی کی خواہش ٹالتے نہیں۔ آدم اور نوح کی یہاں موجودگی کی روایت ضعیف۔ ہود و صالح کی یہاں موجودگی سچ مان لیں تو واقعی یہ جگہ صدیوں پرانا مدفون ٹھہرے گی۔ مگر کس کس چیز کو سچ مانیں اور کس حد تک مانیں؟ تو کیوں نہ یہ مان لیں کہ مکمل سچ ہم جان ہی نہیں سکتے تو ماننا کیسا۔ عراقی سرزمین اور گردونواح پر ہی بےشمار دعویدار آئے کہ وہ ان دیکھے خدا کے پیغام کو عوام تک پہنچانے کی لڑی کا حصہ ہیں۔ اس لڑی کو پکڑنے سے انکار کرنے والوں پر عذاب کی بھی کہانی ہوتی۔ اونٹنی کی روایت ہو یا آسمانی بجلی کی؛ قوم فنا اور پیغمبر بھی زیر زمین۔ چاند اپنا سفر ختم کرتا رہا۔ اور ڈان بھی بہتا رہا۔ یہ گرم اور سخت زمین انسان نگلتی رہی۔ پیغمبر، امام، عام آدمی۔ زندگی کا بوجھ ڈھوتے رہے اور سانس رکنے پر اپنے پیاروں کے ہاتھوں درگور ہوتے رہے۔ وقت اس سائیکل پہ ہنستا رہا۔ امام جعفر کو یہاں عبادت کرتے دیکھا گیا۔ ان کے مقام کو ڈھونڈ کر پہنچے۔ لگا کسی پنجاب کے گاؤں کا گھر۔ ٹوٹا صحن۔ پانی کی دھار۔ کرسی میز لگائے اک بندہ کونے پر موبائل استعمال کرتا ہوا۔ اک طرف نوافل و نماز کی جگہ تو دوسری طرف کنواں۔ کنواں امام جعفر اور امام زمانہ دونوں سے منسوب۔ ارضیاں لکھ لکھ پاندےلوکی وی اپنے پنجاب دے ہی لگے۔ عقیدہ کہیں، توہم پرستی کہیں، اپنی بےچینی کم کرنے کا طریقہ کہیں یا واقعی سچ مان لیں کہ ارضیاں پہنچتی اوپر، نیچے اور درمیان۔ وادیالسلام میں پلاٹ بک بھی ہوتے۔ کئی قبروں پہ تو چھوٹے مکانوں کا گمان ہوتا۔ کئی تہہ خانے میں جاکر بنکر نما قبریں۔ پیچھے رہ جانے والوں کی بےچینی کم کرنے کے طریقے۔ جنگوں میں کٹ مرنے والے بچوں کی قبریں، قبریں کم اور سوالیہ نشان زیادہ لگے۔ مشرق کی اجتماعی کمزوری پہ اور مغرب کی اجتماعی بے حسی پہ۔

آج ٹیکسی ڈرائیور کا بھائی آیا اور ساتھ اسکا کزن بھی۔ عربی میں اردو والے سے فرینکنس جاری رکھی دونوں نے۔ کوفہ روانگی ہوئی۔ پہلا پڑاؤ مسجد حنانہ ٹھہری۔ حسین کا سر یہاں رکھا گیا تھا، کربلا سے دربار یزید جاتے ہوئے۔ پتھر اب بھی وہاں موجود ہے۔ کچھ کہیں اب بھی اس پتھر سے خون رستا ہے۔ حسین کا؟ کچھ دیر کو مسجد، شہر، لوگ سب غائب ہو گئے۔ ریت ہی ریت، مٹی کی مسجد، وحشی لوگ، اک لمبے بالوں والا سر، حسین چہرہ اور داڑھی۔ سر کٹا ہوا، خون رستا ہوا۔ نانا پیغمبر۔ ان دیکھے خدا کو دنیا سونپ دی اور اسکے پیغام رساں ٹھہر گئے۔ ہزاروں نے مان لیا اور زندگیوں کا دھارا بدل لیا۔ مگر تبدیلی کا اثر کتنا مختصر تھا۔ ہزاروں نے بہتر کو مار ڈالا۔ جس کو نبی مانا۔ ان دیکھے خدا کا آخری پیغام رساں مانا، اس کی اولاد کا قلم زدہ سر اسی رسول کے امتی کے ہاں پیش ہونے جارہا تھا۔ کچھ دیر یہاں قیام ہوا۔طاقت ہو تو نظر آتے لوگ ہی خدا بن جاتے اور انکے پیغام رساں بھی بڑے طاقتور ہوتے۔
پاس ہی وفا کا ایک اور پیکر دفن۔ اسلام کا شیعہ ورثن، بہت دلچسپ اس معاملے میں۔ وفا، بے وفائی کا ایسا تانہ بانہ بنا جاتا حقائق کے گرد، حقائق کو شامل کرکے کہ عقل دنگ رہ جاتی۔ کمیل ابن زیاد۔ علی کا دوست، شاگرد اور وفادار ساتھی۔ علی کی وفات کے بعد غائب، کربلا پہ کوئی نقطہ نظر ریکارڈ پر نہیں۔ خیر ریکارڈوں کی بھی کیا کہئیگا۔حجاج بن یوسف کے دور میں گوشہ نشینی ترک کی۔ علی کی وفا کا دم بھرنا، حکومت وقت سے قتل کرا گیا اور آخری مسکن مسجد حنانہ کا ہمسایہ ٹھہرا۔
اب اگلا پڑاؤ اس دورے کا آخری پڑاؤ تھا۔ مسجد کوفہ اور علی کا گھر۔ کوفہ والوں کو دین مکہ مدینہ سے امپورٹ کرنے کا بہت شوق تھا مگر کیپیسٹی نہ تھی۔ نہ علی کے ہوئے اور نہ اس کے بیٹوں کے۔ تاریخ میں کبھی بھی کوفہ اک مضبوط شہر بن کر نہ ابھرا۔ نہ کبھی کوفہ والے افسانوی کردار بن پائے۔ مسجد کا کامپلیکس کافی بڑا ہے۔ باہر کینٹین اور وضو کی جگہ ہے۔ مسجد سے پہلے علی ابن ابی طالب کے گھر گئے۔ باہر سے تو جدید ٹچ دے ڈالا اندر شاید وہی مٹی محفوظ۔ ۱۴۰۰ سال پہلے کا سماں۔ علی کا کنواں اب بھی موجود ہے۔ در و دیوار موجود ہیں۔ آل اولاد غائب۔ کچھ منوں مٹی تلے اور کچھ غائب۔ کزن اور سسر کے امتیوں نے کسی ایک کو بھی نہ چھوڑا۔ ایک کونے میں بیٹھ کر سوچا کئے کہ ان ہی دیواروں اور دروں نے علی اور آل علی کو چلتے پھرتے برتا ہے۔ اور پھر جانلیوا وار کے بعد اپنی آخری سانسیں بھی اسی گھر میں علی نے خود گنیں۔ علی کے آخری غسل کی جگہ بھی موجود ہے۔ کفن دفن کا انتظام بھی یہاں ہی ہوا۔ زینب کا اضطراب بھی اسی چار دیواری نے دیکھا کہ بابا اب کچھ گھنٹوں کے مہمان ہیں۔ جانا تو ٹھہر گیا تھا مگر وہ چند گھنٹے شاید قیامت ہوں گے۔ آسمان پہ بیٹھا واقعی مہروں کی طرح استعمال کرتا زمین پر موجود ہر خاص و عام کو۔ عوام کو استعمال ہوتے تو یہ دھرتی ازل سے دیکھ رہی، خواص کو نبی کی وفات کے ۵۰ سال کے اندر دیکھا۔ ایک لڑکی عاشق کو کہتی کہ علی کو قتل کرو اور میں تمہاری۔ کس شرط پہ کھیلی اس نے پیار کی بازی۔ کیا یہ اتنی سیدھی بات ہے۔ اس روایت کی بھی کتنی پرتیں۔ قبیلوں کی جنگ، طاقت کا ہیجان، عشق کا سودا، مذہب کا کھڑ اک یا ان دیکھے خدا کی مخلوق کو استعمال کرنے کی ریت۔ کیا تھا جو محرک بنا علی کے قتل کا۔ گھر سے نکلتے ہی، کچھ دور چلتے ہی۔ رستے میں ہے وہ امام مسجد کی جگہ جہاں ان دیکھے خدا کی عبادت کے دوران اک عاشق زار نے خلیفہ وقت کی جان لے ڈالی۔ شیر خدا، ولی اللہ، داماد رسول اور نجانے کیا کیا فضائل مگر پھر بھی مسجد کی دیواریں نہ کانپیں۔ کچھ بھی مختلف نہ ہوا اور علی ابن ابی طالب اک عام انسان کی طرح قتل ہو گیا۔ کوفہ کچھ معتبر ہوگیا۔ مسجد کوفہ کے وسیع صحن، سنہری گنبد۔ لمبے مینار، سب سے بھی کامیاب خانہ خدا کا تاثر نہیں ملتا۔ شیعہ ورثن ہو یا سنی۔ علی نبی کے لاڈلے ہوں یا خدا کے خاص۔ یوں قتل؟ کرکٹ کمنٹری کی زبان میں سوفٹ ڈسمسل۔ اب اس سے کتنی داستانیں بنا لو، کتنے نتیجے اخذ کرلو، حقائق یہی، سوفٹ ڈسمسل۔ علی کچھ کر پائے، نہ خدا نے انٹرونشن کا سوچا۔ مدینہ میں دفن سسر اور کزن تو پہلے کہ چکے تھے کہ وصال کے بعد مجھ سے تاقیامت زیادہ امید نہ رکھنا۔ اسی عظیم دکھتی مسجد میں اک اور تاریخی کردار بھی دفن ہے۔ نجانے ابن زیاد نے ان کے ٹکڑوں کو اکٹھا ہو کر کیسی مٹی میں ملنے دیا؟ مسلم بن عقیل۔ کوفے والوں کی نیت کا کھوٹ یا بزدلی سمجھ نہ پائے مسلم۔ یا بنو ہاشم اپنی بہادری اور نسبت کے گمان میں اتنے غرق تھے کہ انہیں کسی اور کے خصائل نظر ہی نہیں آتے تھے۔ ہاں بہادری دکھائی۔ اک بار آگ ہاتھ میں لیکر جھٹکی ہرگز نہیں۔ مگر صلح حدیبیہ کرنے والے نبی کی آل اور امت کی معاملہ فہمی کہاں جا سوئی تھی؟ مسلم بن عقیل کا کردار، پے در پے جذبات کا عقل پہ غالب آجانا۔ اگر عقیدے کی عینک نہ ہو تو سب کتنا دھندھلا ہے۔ تاریخ میں اور بھی جو علی کے عاشق ہوئے یا جو شیعہ ورژن کی چھلنی سے گزر سکتے، آس پاس دفن ہیں۔ ان کے قتل اور ان پر مظالم کی کہانیاں سچ مانیں تو مدفون پر شک ہو کہ ظالم کی چھری تلے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد عوام جو انہیں بچا نہ سکی؛ کیسے اعلی جگہوں پر دفنایا۔ خیر مدفن عالی شان ہوں تو بھی اسٹیبلشمنٹ کی ہی واہ واہ ہوتی۔ ہوائی اڈے روانگی تھی اب۔ عراق جانا؛ بڑی خواہش تھی۔ اسلام اور عربستان کی تاریخ اور جغرافیہ کھنگالنا تھا۔ ہماری زندگیوں اور خطے پر اتنا اثر جو ڈال رکھا تھا۔ ہاتھ کیا آیا۔ اب تو قریبا سب اماموں کے مسکن بھی دیکھ ڈالے تھے۔ امام رضا نمبر ون ٹھہرے؛ ثابت ہوا کہ مذہب اور عقیدے کو بھی تہذیب، تمدن، امن اور نجانے کیا کیا کچھ چاہیے ہوتا پنپنے کو۔ ایرانیوں کے پاس ایک امام اور اسکی بہن۔ وہ دونوں بھی بہترین حالت میں اور ان کے زائرین کی کمائی سے ملک بھی۔ عراق میں علی سے لیکر امام زمانہ تک سب مگر اماموں کے مسکن اور ملک دونوں کو توجہ اور پیسہ درکار۔

اوپر جو بیٹھا مٹی کے پتلے بنا کر جان ڈال کر نیچے بھیجتا ہے تو وہ مٹی بڑی غور طلب ہے۔ انسانوں کی مذہبی تفریق اگر صحیح مان لیں تو ایک مٹی شاید پیغمبروں کی اور ایک عام لوگوں کی۔ ہاں ہر عام آدمی میں شاید چٹکی بھر مٹی خدا پیغمبروں والی ڈالتا کہ کچھ تھوڑا بہت خاص آجائے۔ کچھ میں زیادہ بھی ڈالتا تو خصوصیات بڑھ جاتیں۔ حسین کی مٹی تو نانا والی ہو گی۔ اب وہ مٹی نجنے کیوں اوپر بھی آؤٹ آف سٹاک ہوگئی ہے۔ ہاں یزیدی مٹی کی شاید بہتات ہے۔ اس مٹی میں طاقت کا نشہ، اقتدار کی ہوس اور مخالف کو روندنے کی خواہش ہے۔ اب یہی مٹی انسانوں کی فیکٹری میں خام مال کے طور پر استعمال ہورہی ہے اور شارٹ ٹرم کامیابی کی ضمانت بھی ہے۔ مشرق و مغرب کی سیاحت اور تاریخ اور حال کا تجزیہ فی الحال تو یہی کہتا۔ باقی دجلہ بہہ رہا ہے اور آگے بھی لال ، پیلا اور کالا ہونے کو تیار ہے۔

 

Dr Usama Bin Zubair
About the Author: Dr Usama Bin Zubair Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.