گورکھ اسٹیشن کی تعمیر و ترقی میں عدم دلچسپی کیوں

کراچی.......ساگر سہندڑو.......گرم ترین علاقوں میں شمار کئے جانے والے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی سے 425کلو میٹر کے فاصلے پر شمال مغرب میں واقع گورکھ ہل اسٹیشن تپتے سندھ کا وہ ٹھنڈا ترین مقام ہے جہاں پہنچتے ہی سخت گرمی کے باوجود ٹھنڈک کا احساس ہونے لگتا ہے۔

سطح سمندر سے 5ہزار 688فٹ کی بلندی پر واقع گورکھ ہل اسٹیشن مشہور کیرتھر پہاڑی سلسلوں کے دامن میں واقع ہے اور ان پہاڑیوں کا سلسلہ مغربی سندھ سے بلوچستان تک پھیلا ہوا ہے۔ دادوشہر سے تقریباً 100 کلو میٹر کے فاصلے پر پہاڑیوں کے اوپر موجود گورکھ ہل اسٹیشن کا مقام تقریباً دس کلو میٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں سہولتوں کا فقدان ہے۔

گورکھ ہل اسٹیشن کب اور کیسے بنا اس سے متعلق کوئی حتمی معلومات تو دستیاب نہیں لیکن بعض مورخین اور سیاحت میں دلچسپی رکھنے والی شخصیات کے مطابق سندھ کے گرم ترین علاقے میں موجود اس ٹھنڈے مقام کو پہلی بار1860 میں انگریز سیاح جارج نے دریافت کیا تھا لیکن اس وقت وہاں پہاڑیوں کے اوپر صرف ہموار زمین تھی جسے آگے چل کر سیاحتی مقام میں تبدیل کردیا گیا۔

گورکھ ہل اسٹیشن کی تعمیر و ترقی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی ترجیحات میں شامل تھی جس کی وجہ سےانہوں نے 1989ء میںگورکھ ہل اسٹیشن منصوبے کو شروع کیا لیکن بدقسمتی سے 28 سال گزرجانے اور تیسری بار پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے باوجود گورکھ ہل اسٹیشن پر وہ سہولتیں میسر نہیں جو سیاحوں کو متوجہ کر سکیں۔

مقامی افراد کے مطابق ایک زمانے میں یہاں گرکھ نامی ایک ہندو عورت رہتی تھی جس کی وجہ سے اس مقام کا نام گورکھ پڑا جبکہ کچھ افراد کا کہنا ہے کہ یہاں کسی زمانے میں ہندو جوگی سری گورکھ ناتھ رہتا تھا جس کے بعد اس مقام کو گورکھ کہا جاتا ہے۔ کچھ ماہرین کے مطابق گرکھ فارسی، بلوچی اور براہوی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی بھیڑیا ہے اور کسی زمانے میں پہاڑیوں پر بھیڑیوں کی کثرت تھی جس کی وجہ سے اس سیاحتی مقام کا نام گورکھ پڑا۔

مقامی لوگوں کے مطابق سندھ سمیت پاکستان بھر کے لوگوں کے لئے کشش رکھنے والے اس سیاحتی مقام میں سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے سندھ کے کئی لوگ گورکھ ہل آنے کے بجائے مری، کاغان، سوات اور گلگت بلتستان جیسے علاقوں کا رخ کرتے ہیں جس کے سبب جہاں سیاحوں کا خرچہ بڑھ جاتا ہے، وہیں سیاحوں کو دور دراز علاقوں میں جانے کی تکلیف بھی اٹھانی پڑتی ہے۔

ابھی تک گورکھ ہل اسٹیشن تک پہنچنے کے لئے کوئی باضابطہ راستہ نہیں بنایا گیا بلکہ پہاڑیوں کو کاٹ کر غیر محفوظ راستہ تیار کیا گیا ہے جس پر صرف فوروہیل جیپ ہی سفر کرسکتی ہیں جنہیں صرف مقامی ڈرائیورز ہی چلا سکتے ہیں۔ سیاحتی مقام تک پہنچنے کیلئے 90 کلو میٹرز کا راستہ دشوار اور پہاڑیوں پر بنا ہوا ہے جبکہ شہر سے 35 کلو میٹر کے بعد کسی بھی جگہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں کوئی بھی اسٹاپ نہیں بنایا گیا۔

گورکھ ہل اسٹیشن پر چیئرلفٹ، رہائشی اور کھانوں کے ہوٹلز سمیت سیکورٹی اور صحت سے متعلق کوئی بھی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ نجی طور پر بنائے گئے ہوٹل میں غیر معیاری کھانوں سمیت رہائش کیلئے مہنگے داموں دستیاب کمروں کی وجہ سے سیاحوں کو سخت مشکلات درپیش ہوتی ہیں جبکہ جدید دور کی سہولتوں کے عادی سیاح دنیا سے رابطے سے کٹ جاتے ہیں کیوں کہ وہاں ابھی تک کسی بھی موبائل یا انٹرنیٹ کمپنی نے اپنے نیٹ ورک کا آغاز نہیں کیا ہے اور نہ ہی حکومت نے اس حوالے سے کوئی توجہ دی ہے۔

جبکہ گورکھ ہل اسٹیشن ڈولپمنٹ کا مرکزی دفتر بھی کراچی میں ہونے کی وجہ سے سیاحتی مقام پر کوئی بھی ترقیاتی کام نہیں ہو پا رہا جب کہ ڈولمپنٹ کمیٹی کے چیئرمین و پیپلز پارٹی کے رہنما اس کے لیے سندھ کے باسیوں کو ہی آگے آنا پڑئیگا اور اس کے لیے سندھ حکومت کو مجبور کرنا پڑئیگا کیونکہ کوئی بھی منصوبے کی تعمیر و ترقی کے لئے النا فعال بھر پور طریقے سے وہ کردار ادا نہیں کر رہے جو ان کو سندھ دھرتی کو جو یہ سب ماں کی دھرتی سے تشبیہ دیتے ہیں ان کو اب سندھ کے لیے آگے آنا پڑئیگا اور اس بہترین تفریح گاہ کو ایک معیاری اور انٹرنیشنل سطح کی تعمیر کرنا پڑئیگی.

گورکھ ہل اسٹیشن سہولیات سے محروم ہونے کے باوجود سندھ سمیت ملک بھر بلکہ بیرون ملک رہنے والے سیاحوں کے لئے بھی کشش رکھتا ہے۔ گورکھ ہل اسٹیشن پر سخت گرمی کے دنوں میں بھی برفباری اور ٹھنڈک پڑنے کی وجہ سے یہ سیاحتی مقام لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ حکومت کی بے توجہی کے باوجود کئی نجی کمپنیاں کراچی سے گورکھ ہل اسٹیشن تک سیاحوں کو پہچانے کا انتظام کرتی ہیں جب کہ تمام کمپنیوں کے اخراجات بھی مناسب ہوتے ہیں. افسوس کی بات یہ ہے کہ سندھ میں اتنا پر فضا مقام ہونے کہ باوجود نہ ہی سندھ کی حکومت اور نہ سندھ کی دوسری سیاسی ، مذہبی ، قومیتی، یا کوئی سماجی تنظیموں نے اس پر آواز اُٹھائی ہو کہ ہمارے سندھ میں ایک جنت نظیر وادی کہ نظاروں کو سندھ کہ باسیوں کو محروم کررکھا ہے کتنے سالوں سے یہ جنت نظیر وادی جو سندھ حکومت کی بے حسی پر آج ایک ویران تھر کے ریگستان کا نمونہ بنی ہوئی ہے ہم سندھ کے باسیوں کو سیاست سے فرصت ہو تو ان پر نظر ڈالیں کاش جس طرح سندھ کے نوجوان جو سیروتفریح کے لیے سندھ سے باہر جاکر اپنا پیسہ اپنا وقت بھی برباد کرتے ہیں اگر وہ ایک قدم اور ایک زبان ہوکر گورکھ ہل اسٹیشن کے لیے قدم سے قدم ملاکر گورکھ اسٹیشن کی تعمیر و ترقی کے لیے ایک ہوکر ہم آواز اُٹھائیں تو یہ سندھ اور سندھ کے باسیوں کے لیے بہت بڑی کامیابی ہوگی اس سے اندرون سندھ کے باسیوں کو گھر کے قریب روزگار کے مواقع ملیں گے اور اندرون سندھ جو زرا زرا سی خوشی کے لیے اپنے بڑوں کی طرف دیکھتے ہیں شائید ان کے چہروں پر یہ خوشی یہ حکومت ہی سجائے.

“ انشا ء اللہ وہ دن ضرور آئیگا”
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 403 Articles with 204375 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.