ڈاکٹر خالد ندیم
سابق صدرِ شعبہ اردو فارسی
سرگودھا یونیورسٹی پاکستان
ارمغانِ علمی کی روایت اور ڈاکٹر جمیلہ شوکت
علمی دنیا کی معروف شخصیت ڈاکٹر جمیلہ شوکت یکم فروری ۱۹۴۱ء کو رامپور میں
پیدا ہوئیں۔ مدرسۃ البنات لیک روڈ لاہور سے ۱۹۵۷ء میں میٹرک کرنے کے بعد
لاہور کالج براے خواتین لاہور سے ۱۹۵۹ء میں ایف اے اور ۱۹۶۱ء میں بی اے
کیا۔ ۱۹۶۳ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے عربی اور ۱۹۶۴ء میں ایم اے
تاریخ کی ڈگریاں حاصل کیں، جب کہ ۱۹۸۵ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی
کا مقالہ مکمل کیا، علاوہ ازیں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے فرانسیسی میں
سرٹیفکیٹ اور علما القرا یونیورسٹی مکہ سے عربی زبان میں ڈپلومہ حاصل کیا۔
۱۹۶۶ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علومِ اسلامیہ میں ان کی بطور ریسرچ
اسکالر تقرری ہوئی، ۱۹۶۹ء میں لیکچرر ہوئیں، ۱۹۷۶ء میں اسسٹنٹ پروفیسر ہو
گئیں، ۱۹۸۶ء میں انھیں ایسوسی ایٹ پروفیسر تعینات کر دیا گیا اور ۱۹۹۰ء میں
وہ پروفیسر کے عہدے پر فائز ہو گئیں۔ اس دَوران میں وہ ۱۹۸۷ء – ۱۹۹۰ء تک
انچارج اور ۱۹۹۰ء سے ۱۹۹۹ء تک چیرمین رہیں، ساتھ ساتھ ۱۹۹۱ء سے ۲۰۰۰ء تک
شیخ زاید اسلامک سنٹر پنجاب یونیورسٹی کی قائم مقام ڈائریکٹر اور ۲۰۰۰ء سے
۲۰۰۶ء تک ڈائریکٹر کے فرائض انجام دیتی رہیں۔ آج کل ادارہ علومِ اسلامیہ
پنجاب یونیورسٹی میں ایمرٹیس پروفیسر کی حیثیت سے تالیفی خدمات انجام دے
رہی ہیں۔ ان کی چند ایک نمایاں تصانیف و تالیفات یہ ہیں، مسندِ عائشہ
(۱۹۹۱ء)، فہرس تفہیم القرآن (۱۹۹۳ء)، تحفۂ رمضان (س ن)، تدوینِ متن تحفۃ
الطالبین (۱۹۹۶ء)، مرقعِ صدیقی(س ن)، حافظ احمد یار: شخصیت اور علمی خدمات
(۲۰۰۳ء)، A Biographical Sketch of Ibn Rahawayh (س ن)، Studies in
Hadith(۲۰۰۰ء)
۲۰۱۰ء میں علومِ اسلامیہ کے ڈین ڈاکٹر حافظ محمود اختر نے شعبے کے مرحوم
اساتذہ کی خدماتِ جلیلہ کے اعتراف میں یادگاری مجموعوں کی ترتیب کا خیال
ظاہر کیا تو ڈاکٹر جمیلہ شوکت نے نہ صرف اس کی تائید کی، بلکہ اس منصوبے کو
روبعمل لانے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی۔ رئیس الجامعہ ڈاکٹر کامران مجاہد
نے اس منصوبے پر پسندیدگی کا اظہار کیا اور پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
(سابق صدرِ شعبہ اردو)، پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد منصوری (چیرمین شعبہ علومِ
اسلامیہ) اور شعبہ کے دیگر اساتذہ (ڈاکٹر طاہرہ بشارت، ڈاکٹر عبداللّٰہ
صالح، ڈاکٹر محمد سعد صدیقی، ڈاکٹر غلام علی خاں) پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل
دے دی، تاکہ یہ کام منظم انداز میں پایہ تکمیل کو پہنچ سکے۔
(۱)
۲۰۱۲ء میں ڈاکٹر جمیلہ شوکت کی ادارت میں اوّلین مجموعہ ارمغانِ علامہ علاء
الدین صدیقی شائع ہوا۔ علامہ علاء الدین صدیقی ۳؍ نومبر ۱۹۰۷ء کو لاہور میں
پیدا ہوئے۔ ۱۹۲۳ء میں اسلامیہ ہائی اسکول شیرانوالہ دروازہ لاہور سے میٹرک،
۱۹۲۵ء میں ایف سی کالج لاہور سے انٹرمیڈیٹ اور ۱۹۲۸ء میں گورنمنٹ کالج
لاہور سے بی اے آنرزکیا۔ ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۶ء تک دارالسنہ شرقیہ کے پرنسپل رہے۔
اسی دَوران میں ۱۹۲۹ء کو پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فارسی کی ڈگری حاصل کی،
۱۹۳۵ء میں ایم او ایل اور ایل ایل بی کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی۔ وہ
۱۹۴۵ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں دینیات کے استاد مقرر ہوئے اور ۱۹۵۰ء میں
اس کے اوّلین صدرِ شعبہ نامزد کیے گئے۔ ۱۹۶۴ء سے ۱۹۷۳ء تک اسلامی نظریاتی
کونسل کے صدر رہے، اسی دَوران میں ۱۹۶۹ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور کے وائس
چانسلر مقرر ہوئے۔ ۱۹۷۳ء میں فالج کا حملہ ہوا، جس سے جانبر نہ ہو سکے اور
۲۷؍ دسمبر ۹۷۷ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
مجموعے کا انتساب، ممدوح کے اساتذہ، اسلامیہ ہائی اسکول شیرانوالہ دروازہ
لاہور کے ہیڈ ماسٹر مولوی دین محمد اور شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری
کے نام کیا گیا۔ مرتبہ کے خیال میں، یہی وہ شخصیات ہیں، ’جن کی للّٰہیت اور
فیضِ نظر نے علاء الدین صدیقی کو علامہ علاء الدین صدیقی بنا دیا‘۔
زیرِ نظر ارمغان میں’تقدیم‘ کے تحت صدرِ شعبہ اور ڈین ڈاکٹر حافظ محمود
اختر تعارفی کلمات میں لکھا کہ ’علامہ علاء الدین صدیقی اور ان کے مابعد
نامور اور فاضل اساتذہ نے جن جن شعبوں میں تدریسی و تحقیقی کارنامے انجام
دیے، ان شعبوں سے متعلق نئے تحقیقی اور علمی مقالات کو ایک کتاب کی صورت
میں مدوّن کیا جائے‘۔ چونکہ ممدوح ایک عرصے تک تقابلِ ادیان کی تدریس میں
مصروف رہے، اس لیے بقول ڈاکٹر اختر ’اس بات کی ایک عرصے سے ضرورت محسوس کی
جا رہی تھی کہ تقابلِ ادیان میں برِعظیم کے مسلمانوں کی خدمات کو یکجا اور
منضبط و مربوط انداز میں پیش کیا جائے‘؛ چنانچہ ڈاکٹر جمیلہ شوکت نے مقالات
کی جمع آوری میں ممدوح کے تخصص کو پیشِ نظر رکھا اور یوں یہ مجموعہ اپنے
موضوع پر یہ ایک اہم دستاویز کی صورت میں منظرِ عام پر آیا۔ مقالہ نگاروں
میں ڈاکٹر سفیر اختر، ڈاکٹر محمد عبدالقیوم، ڈاکٹر ساجد اسد اللّٰہ، ڈاکٹر
حافظ محمود اختر، عبدالستار غوری، ڈاکٹر احسان الرحمٰن غوری، عثمان احمد،
ڈاکٹر محمد اکرم شاہ اکرام، ڈاکٹر غلام علی خاں؍ مسفرہ محفوظ، ڈاکٹر محمد
سعد صدیقی، ڈاکٹر محمد عبداللّٰہ صالح،ڈاکٹر جمیلہ شوکت، ڈاکٹر محمد
اسرائیل فاروقی، ڈاکٹر حافظ محمد شہباز حسن، عاصم نعیم اور ڈاکٹر زاہد منیر
عامر شامل ہیں۔
’حیات نامہ‘ اور ’علامہ علاء الدین صدیقی، ایک عظیم شخصیت‘ کے عنوان دو
تعارفی تحریریں پیش کی گئی ہیں۔ ممدوح کے تین انگریزی مقالات شامل کیے گئے
ہیں، جو ارمغانِ علمی کی روایت سے کسی حد تک انحراف ہے۔ کتاب میں ممدوح کی
ایک تصویر اور تین گروپ فوٹو شامل کیے گئے ہیں۔ مقالات کی عمدہ ترتیب اور
طباعتی پیشکش کے اعتبار سے اسے ایک معیاری ارمغان قرار دیا جا سکتا ہے۔
(۲)
فروری ۲۰۱۴ء میں دوسرا مجموعہ ارمغانِ پروفیسر ملک محمد اسلممنظرِ عام پر
آیا۔ پروفیسر ملک محمد اسلم ۱۹۲۲ء میں امرتسر میں پیداہوئے۔ ۱۹۳۷ء میں
گورنمنٹ ہائی اسکول امرتسر سے میٹرک اورایم اے او کالج امرتسر سے انٹرمیڈیٹ
اور گریجویشن کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سےایم اے فلسفہ اور مسلم یونیورسٹی
علی گڑھ سے ایم اےعربی کی ڈگریاں حاصل کیں؛ البتہ والد کی وفات کے بعد اپنی
خاندانی ہوزری اینڈ نٹنگ ملز اور دیگر کاروباری اداروں کی نگرانی اور
سرپرستی کےلیےامرتسر چلے آئے اور قیامِ پاکستان تک انھی سرگرمیوں میں مصروف
رہے۔ ہجرت کے بعد لاہور میں ایک نِٹنگ ملز قائم کی، ساتھ ہی پنجاب
یونیورسٹی میں ایم اے علومِ اسلامیہ میں داخلہ لیا اور ۱۹۵۵ء میں ڈگری حاصل
کر لی۔ علامہ علاء الدین صدیقی کی خواہش پر شعبہ علومِ اسلامیہ میں استاد
مقرر ہوئے۔ ۱۹۶۹ء میں صدیقی صاحب پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے تو
انھیں صدرِ شعبہ بنا دیا گیا، جہاں وہ اپنی وفات ۱۸؍ مئی ۱۹۷۶ءتک تدریسی و
انتظامی خدمات انجام دیتے رہے۔
اگرچہ مرتبین میں سرفہرست ڈاکٹر حافظ محمود اختر کا اسمِ گرامی درج ہوا ہے،
لیکن ’تقدیم‘ میں حافظ صاحب نے واضح کیا ہے کہ ’ارمغانِ پروفیسر ملک محمد
اسلم کی تیاری یقیناً محترمہ پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت صاحبہ کی پُرخلوص
مساعیِ جمیلہ کی مرہونِ منت ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جس تندہی اور
خلوص کے ساتھ انھوں نے اس جلد کی ترتیب و تشکیل میں محنت کی ہے، اس کا اجر
انھیں اللّٰہ تعالیٰ ہی عطا فرمائیں گے۔ اگر ان کی عرق ریز محنت شامل نہ
ہوتی تو ارمغانِ پروفیسر ملک محمد اسلم زیورِ طباعت سے آراستہ نہیں ہو سکتا
تھا‘۔
زیرِ نظر ارمغان کے موضوع کے انتخاب کا مرحلہ مرتب کے لیے خاصا اہم تھا، جس
کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر جمیلہ شوکت نے لکھا ہے کہ ’کمیٹی کے ارکان کے
سابقہ فیصلے کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس جلد میں ملک صاحب کے اختصاصی مضمون،
یعنی علومِ حدیث سے متعلق مضامین پیش کیے جا رہے ہیں‘۔ مرتبہ نے انھیں چار
حصوں میں تقسیم کیا، یعنی برِصغیر میں علم حدیث، برِصغیر میں ماہرینِ علمِ
حدیث، انکارِ حدیث اور عربی مقالات۔ مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر؍
ڈاکٹر میمونہ تبسم، ظلِّ ہما، عثمان احمد، ڈاکٹر حمید اللّٰہ؍ عبدالقادر،
ڈاکٹر خالد ظفر اللّٰہ، ڈاکٹر محمد سعد صدیقی، عاصم نعیم، ڈاکٹر محسنہ
منیر، ڈاکٹر ساجد اسد اللّٰہ، مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری، ڈاکٹر جمیلہ
شوکت، ڈاکٹر احسان الرحمٰن غوری، عبدالکریم مستور القرنی، ڈاکٹر عبدالباسط
خاں شامل ہیں۔
آغاز میں پروفیسر حافظ محمد ارشد اور ڈاکٹر اسد اللّٰہ کی مشترکہ تعارفی
تحریر اور مجموعے کے آخر میں ممدوح کا ایک مقالہ (Tradition and Islam) پیش
کیا گیا ہے، جن سے ممدوح کی سوانح و شخصیت اور ان کے طرزِ استدلال کا
اندازہ ہوتا ہے۔ ممدوح کی دلچسپی کے چودہ مقالات میں سے بارہ اردو میں اور
دو عربی زبان میں ہیں۔ مقالات کی حسنِ ترتیب اور پیشکش کے اعتبار سے ۴۲۵؍
صفحات پر مشتمل یہ ارمغان ایک عمدہ مجموعہ قرار پاتا ہے۔
ڈاکٹر جمیلہ شوکت کی ادارت میں تیسرا مجموعہ ارمغانِ پروفیسر حافظ احمد یار
۲۰۱۵ء میں منصہ شہود پر آیا۔ پروفیسر حافظ احمد یار ۵؍ جنوری ۱۹۲۰ء میں
جھنگ میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۳۷ء میں ایم بی اسکول جھنگ سے میٹرک کا امتحان پاس
کیا، ۱۹۴۵ء میں گورنمنٹ نارمل اسکول گکھڑ سے جے وی، ۱۹۴۵ء میں پنجاب
یونیورسٹی لاہور سے منشی فاضل، ۱۹۵۲ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے
گریجویشن، ۱۹۵۴ء میں یہیں سے ایم اے اسلامیات اور ۱۹۵۷ء میں ایم اے عربی کی
ڈگریاں حاصل کیں۔ ۱۹۴۹ء میں ایم بی ہائی اسکول میں بطور استاد مقرر
ہوئے،۱۹۵۵ء میں اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں عربی و اسلامیات کے
لیکچرر اور ۱۹۶۴ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علومِ اسلامیہ میں لیکچرر
تعینات ہوئے، جہاں ۱۹۷۶ء سے ۱۹۷۷ء تک وہ صدرِ شعبہ بھی رہے۔ ۱۹۸۰ءمیں
تدریسی سرگرمیوں سے سبک دوش ہو گئے اور ۱۹۸۳ء سے تاحیات قرآن اکیڈمی اور
قرآن کالج سے وابستہ رہے۔ ۱۵؍ مئی ۱۹۹۷ء میں وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ان
کی تصانیف و تالیفات میںیتیم پوتے کی وراثت (س ن)، دین و ادب ( س ن) ،
فہرستِ کتبِ سیرت (۱۹۶۳ء)، دستورِ حیا (۱۹۶۴ء)، مضامینِ قرآن ( س ن)، قرآن
و سنّت: چند مباحث، جلد اوّل+ دوم (۲۰۰۱ء) میں شامل ہیں۔
ارمغان کے لیے تشکیل دی گئی مجلس ارمغان کی کنوینرکے لیے ڈاکٹر جمیلہ شوکت
نامزد کی گئیں، جب کہ دیگر ارکان میں ڈاکٹر محمد سعداللّٰہ، ڈاکٹر زاہد
منیر عامر، ڈاکٹر عاصم نعیم، ڈاکٹر حافظ عثمان احمد اور ڈاکٹر حافظ حسن
مدنی شامل ہیں۔ شعبہ علومِ اسلامیہ نے اپنے اس ارمغان میں روایت کے برعکس
ممدوح سے متعلق اٹھارہ مضامین شامل کیے ہیں۔ ڈاکٹر جمیلہ شوکت ممدوح کے
علمی دلچسپیوں اور ان سے متعلق مقالات کی جمع آوری کے بارے میں تحریر کرتی
ہیں کہ ’حافظ صاحب مرحوم و مغفور کا میدانِ تخصص علوم القرآن تھا۔ گذشتہ
روایت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم نے محققین حضرات سے درخواست کی کہ ان کی
تحقیقی کاوِشوں کا موضوع قرآنِ حکیم اور اس کے متعلقات ہوں‘،چنانچہ ارمغان
کی ترتیب کے وقت مرتبین نے موضوع کی پابندی کا خیال رکھا۔ مقالہ نگاروں میں
حافظ عبداللّٰہ، حفصہ نسرین، حافظ رشید احمد تھانوی، محمد فیروز الدین شاہ
کھگہ، حافظ ضوفشاں نصیر، محمد اویس، محمد سمیع اللّٰہ فراز، قاری محمد
طاہر، حافظ احمد یار، محمد اقبال بھٹا؍ رخسانہ ندیم، محمد اکرم ورک، حافظہ
شاہدہ پروین، عاصم نعیم، محمد سعد صدیقی، رملہ خان، محمد فاروق حیدر، عائشہ
جبیں، شائستہ جبیں اور ساجد اسد اللّٰہ داؤدی شامل ہیں۔ مجموعےکے تمام
مقالہ نگاروں کا تعلق پاکستان سے ہے اور اردو زبان میں لکھے گئے ہیں۔
مقالات کے بعد مقالہ نگاروں کا تعارف مختصر دیا گیا ہے۔
(۴)
ادارہ علومِ اسلامیہ کی زیرِ اہتمام اور ڈاکٹر جمیلہ شوکت کے زیرِ ادارت
چوتھا مجموعہ ارمغانِ بشیر احمد صدیقی کے نام سے ۲۰۱۹ء میں شائع ہوا۔
پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی ستمبر ۱۹۲۸ء میں کھیم کرن میں پیدا ہوئے۔
۱۹۴۵ء میں ابوہرمنڈی ضلع فیروزپور سے میٹرک کرنے کے بعد پرائیویٹ امیدوار
کی حیثیت سے انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن پرائیویٹ کیا۔ ۱۹۵۳ء میں سندھ مدرسہ سے
عالم عربی کا امتحان پاس کر کے آرام باغ کراچی سے درسِ نظامیہ کر لیا۔
۱۹۶۱ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے علومِ اسلامیہ اور بعد میں ایم
اے عربی اور ۱۹۷۱ء میں اسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ صدیقی
صاحب ۱۹۶۱ء میں شعبہ علومِ اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی سے بطور لیکچرر عملی
زندگی کا آغاز کیا اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے صدرِ شعبہ کے منصب تک
پہنچے۔ سبکدوشی (۱۹۸۸ء) کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ علومِ
اسلامیہ، علما اکیڈمی محکمہ اوقات پنجاب، منہاج یونیورسٹی لاہور، جامعہ
الکرم اور شیرربانی اسلامک سینٹر برطانیہ اور ادارہ صفۃ الاسلام (بریڈفورڈ)
برطانیہ میں انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ بھرپور علمی اور عملی زندگی گزارنے
کے بعد ۱۶؍ اپریل ۲۰۱۳ء کو وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ان کی تصانیف و
تالیفات میں قرآنِ حکیم کی روشنی میں رسولِ کریمؐ کی شان و عظمت(۱۹۹۸ء)،
نبی کریمؐ بحیثیت مثالی شوہر (۲۰۰۳ء)، تجلیاتِ رسالت مآبؐ (۱۹۹۱ءء)، چانن
تے سویرا (س ن)، مقالاتِ صدیقی (۱۹۹۹ء)، Modern Trends in Tafsir
Literature-Miracles( ۱۹۸۸ء)اور Dignity of Man in Islam شامل ہیں۔
زیرِ نظر مجموعۂ مقالات کے لیے ڈاکٹر جمیلہ شوکت (کنوینر)، ڈاکٹر محمد سعد
صدیقی، ڈاکٹر زاہد منیر عامر، ڈاکٹر عاصم نعیم، ڈاکٹر عثمان احمد اور ڈاکٹر
حسن مدنی شامل ہیں۔ ڈین کلیہ علومِ اسلامیہ نے بجا اعتراف کیا ہے کہ
’ارمغانِ علمی کے سلسلے کو جاری رکھنے اور اس کی ترتیب و تدوین کے تمام
معاملات کی تکمیل کا حقیقی محرک اور سبب محترمہ پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت
کی شخصیت ہے‘ اور ’ادارہ علومِ اسلامیہ کے ناظم بھی ان ا رمغان ہاے علمی کی
تیاری میں مرتبہ کی محنت، خلوص اور لگن کے معترف ہیں‘۔ممدوح کے تعارف،
ڈاکٹر محمد حماد لکھوی کی ’تقدیم‘، ڈاکٹر محمد سعد صدیقی کے ’حرفِ تشکر‘
اور ڈاکٹر جمیلہ شوکت کے مقدمہ (پیش لفظ) کے بعد ’تذکرۂ پروفیسر ڈاکٹر
بشیر احمد صدیقی‘ کے تحت گیارہ تحریریں جمع کی گئی ہیں، جب کہ ممدوح کے
پسندیدہ موضوعات پر ڈاکٹر سید محمد اسماعیل، ڈاکٹر گُل زادہ شیر پاؤ، ڈاکٹر
سعید الرحمٰن، ڈاکٹر محمد عبداللّٰہ، ڈاکٹر محمد فاروق حیدر، ڈاکٹر محمد
سعد اللّٰہ، ڈاکٹر زاہد منیر عامر، ڈاکٹر سعید احمد؍ ڈاکٹر محمد اعجاز،
ڈاکٹر محمد سعد صدیقی، ڈاکٹر ظلِّ ہما، ڈاکٹر عبدالباسط خان، محمد انور،
ضوفشاں نصیر؍ زوبیہ پروین، ڈاکٹر سلیمان احمد خاں؍ غلام نبی علوی، یاسر
فاروق، صائنہ ملک؍ ڈاکٹر محمد حامد رضا اور ڈاکٹر فرحت عزیز؍ ڈاکٹر خاور
سلطانہ کے مقالات شامل کیے گئے ہیں۔
مقالات کی کتابت، حواشی و تعلیقات کی ترتیب، کاغذ کے انتخاب، جلد بندی اور
سرورق کی تیاری میں بہت محنت کی گئی ہے ، جس کے لیے مرتبہ اور ادارہ تحسین
کے لائق ہیں۔ مقالہ نگاروں کے منصب اور ادارے کے ناموں کے ساتھ ساتھ بنیادی
کوائف (تاریخ پیدائش، ڈگری، منصب، ادارہ، چند تصانیف و تالیفات وغیرہ)بھی
دیے جاتے اور اشاریہ ترتیب دیا جاتا۔
(۵)
ارمغانِ خالد علوی ادارہ علومِ اسلامیہ اور ڈاکٹر جمیلہ شوکت کی طرف سے
پانچواں مجموعہ ہے، جو ۲۰۲۲ء میں مکمل ہوا۔ ڈاکٹر خالد علوی (پورا نام محمد
صدیق خالد علوی) نومبر ۱۹۴۰ء میں ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۵۳ء، ۱۹۵۴ء
اور ۱۹۵۵ء میں مولوی فاضل عربی، فاضل فارسی اور فاضل درسِ نظامی کیا۔ ۱۹۵۷ء
میں ثانوی تعلیمی بورڈ لاہور سے میٹرک اور ۱۹۵۹ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے
انٹرمیڈیٹ کے بعد ۱۹۶۱ء میں اسی کالج سے گریجویشن اور ۱۹۶۳ء میں پنجاب
یونیورسٹی لاہور سے ایم اے عربی، ۱۹۶۴ء میں ایم اے علومِ اسلامیہ اور ۱۹۶۶ء
میں ایم اے سیاسیات کر کے ۱۹۸۰ء میں ایڈنبرا یونیورسٹی (انگلستان) سے میں
پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ۱۹۶۴ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علومِ
اسلامیہ میں لیکچرر مقرر ہوئے۱۹۸۳ء میں پروفیسر کےعہدے تک پہنچے۔ اسی دوران
میں ۱۹۸۵ء سے ۱۹۹۰ء تک برمنگھم مسجد ٹرسٹ کے ڈائریکٹر، ۱۹۹۱ء سے ۱۹۹۴ تک
برمنگھم یونیورسٹی کے سیلی اوک کالج میں استاد اور ۱۹۹۱ء سے ۱۹۹۸ء تک شیخ
زاید اسلامک سنٹر (پنجاب یونیورسٹی لاہور) کے ڈائریکٹر تعینات رہے۔ اپنی
سبکدوشی کے بعد ۲۰۰۵ء تک بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے
ڈائریکٹر جنرل اور ۲۰۰۵ء سے ۲۰۰۸ء تک وِش یونیورسٹی اسلام آباد میں فیکلٹی
آف آرٹس کے ڈین رہے۔ ڈاکٹر علوی ۸؍ نومبر ۲۰۰۸ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔
اردو، عربی اور انگریزی میں ایک سو سے زیادہ علمی و تحقیقی مقالات کے علاوہ
ان زبانوں میں کم و بیش چالیس کتب تصنیف کیں، نیز بعض معروف عربی مخطوطات
کو تصحیحات و تحشیہ کے ساتھ مرتب کیا۔ اسلام کا معاشرتی نظام ( ۱۹۶۸ء)،
حفاظتِ حدیث (۱۹۷۱ء)، انسانِ کامل (۱۹۷۴ء)، المنہاج السوی فی ترجمہ امام
النووی (۱۹۹۶ء)، پیغمبرانہ دعائیں (۱۹۹۶ء)، تحقۃ الطالبین فی ترجمہ شیخنا
الامام النووی محی الدین(۱۹۹۶ء)، اصولِ حدیث: مصطلحات و علوم اوّل (۱۹۹۸ء)،
رسولِ رحمت (س ن)، شرح الاربعین النووی (۱۹۹۹ء)، خلقِ عظیم (۲۰۰۲ء)، قرآن
کا تصورِ انسان (۲۰۰۶ء)، اصول الحدیث: مصطلحات و علوم دوم (۲۰۱۳)ء)، تجارت
کے اصول (س ن)، اسلام اور دہشت گری (س ن)، The Life of Scholarship of
An-Nawawi (۱۹۹۴ء)، Muhammad, The Prophet of Islam (۲۰۰۲ء)، The Prophet’s
Methodology of Da’wah (۲۰۰۲ء) اور Muhammad: The Educator of Humankind
(۲۰۰۴ء) ان کی تصانیف و تالیفات میں شامل ہیں۔
زیرِ نظر مجموعے کی ترتیب کے لیے ایک مجلس ارمغان تشکیل دی، پروفیسر ڈاکٹر
جمیلہ شوکت کو اس کا کنوینر مقرر کیا گیا، جب کہ ارکان میں ڈاکٹر شاہدہ
پروین (ڈائریکٹر ادارہ علومِ اسلامیہ)، ڈاکٹر زاہد منیر عامر (صدرِ شعبہ
اردو زبان و ادب)، ڈاکٹر عاصم نعیم (ادارہ علومِ اسلامیہ) اور ڈاکٹر حافظ
عثمان احمد (ادارہ علومِ اسلامیہ) شامل تھے۔ ابتدا میں ’تعارفی خاکہ‘ اور
مرتبہ (ڈاکٹر جمیلہ شوکت) کی ’تقدیم‘، ڈین علومِ اسلامیہ کے ڈائریکٹر
(ڈاکٹر محمد حماد لکھوی) اور شریک مرتبہ (ڈاکٹر شاہدہ پروین) کے ’حرفِ
تحسین‘ کے بعد ارمغان کے مقالات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ’تذکرہ
پروفیسر ڈاکٹر خالد علوی‘ میں سولہ تحریریں شامل ہیں۔ مجلس ارمغان نے بیک
وقت ارمغانِ خالد علوی اور ارمغانِ امان اللّٰہ خان کے لیے مضامین طلب کیے
گئے تھے، لیکن موصول ہونے والے زیادہ تر مقامات کا تعلق چونکہ سیرتِ رسولؐ
اور اسلامی معاشرت سے تھا، چنانچہ موضوع کی مناسبت سے ارمغانِ خالد علوی کو
تقدم حاصل رہا۔ممدوح کی دلچسپی پر جو مقالات پیش کیے گئے، ان کے مصنّفین کے
اسماے گرامی یوں ہیں: ڈاکٹر اسما شاہد؍ ڈاکٹر عاصم نعیم، ڈاکٹر حافظ عثمان
احمد، ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی، ڈاکٹر حافظ محمد سعد اللّٰہ، ڈاکٹر ثمینہ
سعیدہ، ڈاکٹر شائستہ جبیں، ڈاکٹر عائشہ جبیں؍ ڈاکٹر جمیلہ شوکت، ڈاکٹر حفصہ
نسرین، ارحم احسان؍ ڈاکٹر حافظ عثمان احمد اور محمد جنید انور۔
مجموعے میں شامل مقالات میں سے پندرہ اردو اور ایک انگریزی زبان میں ہے۔ ہر
مضمون کے اوّلین صفحے پر پاورق میں مقالہ نگار کے منصب اور ادارے کے نام
دیا گیا ہے۔ صفحہ ۷ پر ممدوح کی انفرادی اور ۸ پر تقریبات میں موجودگی کا
اظہار کرتی دو تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔
(۶)
چھٹا مجموعہ، جو ۲۰۲۳ء میں شائع ہوا، ارمغانِ امان اللّٰہ خاں ہے۔ ممدوح
۲۵؍ اپریل ۱۹۳۳ء کو کھاریاں (گجرات) میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۵۸ء میں ایم اے
(اسلامیات) اور ۱۹۵۹ء میں ایم اے (تاریخ) کرنے کے بعد تاریخِ اسلام، جدید
معاشرتی، سیاسی و معاشی افکار کے موضوع پر ۱۹۷۱ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل
کی۔ ڈاکٹر امان اللّٰہ ۱۹۶۳ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علومِ اسلامیہ
میں لیکچرر تعینات ہوئے، ۱۹۷۰ء میں اسسٹنٹ پروفیسر، ۱۹۷۸ء میں ایسوسی ایٹ
پروفیسر اور ۱۹۸۲ء میں پروفیسر کے منصب پر فائز ہوئے۔ اس دَوران میں ۹۱۷۵ء
سے ۱۹۷۶ء اور ۱۹۸۱ء سے ۱۹۸۸ء تک شعبے کے چیرمین کی حیثیت سے انتظامی ذمہ
داریاں بھی ادا کیں۔ بھرپورعملی زندگی گزارنے کے بعد وہ ۱۷؍ فروری ۲۰۰۶ء کو
خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
زیرِ نظر ارمغان کی مجلس ارمغان میں پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت کو اس کا
کنوینر مقرر کیا گیا، جب کہ ارکان میں ڈاکٹر شاہدہ پروین (ڈائریکٹر ادارہ
علومِ اسلامیہ)، ڈاکٹر زاہد منیر عامر (صدرِ شعبہ اردو زبان و ادب)، ڈاکٹر
عاصم نعیم (ادارہ علومِ اسلامیہ) اور ڈاکٹر حافظ عثمان احمد (ادارہ علومِ
اسلامیہ) شامل تھے۔ ابتدا میں’تعارفی خاکہ‘ اور ’تقدیم‘(ڈاکٹر جمیلہ شوکت)،
’اداریہ (ڈاکٹر محمد حماد لکھوی) اور ’حرفِ سپاس‘ (ڈاکٹر شاہدہ پروین) کے
بعد ممدوح سے متعلق چھ تحریریں شامل کی گئی ہیں۔ ممدوح کی دلچسپی پر مقالات
میں ڈاکٹر حافظ عثمان احمد، ڈاکٹر یاسر فاروق اور ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے
مقالات شامل ہیں، جب کہ انگریزی زبان میں ڈاکٹر طاہرہ بشارت اور سلمان احمد
خان ضیغم؍ گلزار احمد کے۔ ان مقالات کی تعداد کو ممدوح کے دو اردو اور چھ
انگریزی مقالات کے ذریعے سے پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ڈاکٹر جمیلہ شوکت نے نہایت دردمندی سے لکھا ہے کہ دیگر مطبوعہ ارمغان کے
برعکس موجودہ ارمغان کے لیے تحقیقی مقالات ملنے کی رفتار نسبتاً سست رہی
ہے، حالانکہ اربابِ علم و تحقیق کو بار بار یاد دہانی اور استدعا کی گئی۔
ڈاکٹر صاحب کے نزدیک، اس کا ایک سبب ایچ ای سی سے منظور شدہ دیگر علمی
مجلّات کے لیے اہلِ علم کا اپنے گرانمایہ تحقیقی مضامین بھیجنا ہے۔ انھوں
نے خبردار کیا کہ اگر اہلِ علم کا تعاون نہ ملا تو اس کام کا آگے بڑھنا
ممکن نہیں۔ (ص ۱۵) اس پر بڑا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مقالات کی کمی کو پرا
کرنے کے لیے انھیں صاحبِ ارمغان کے بعض ذاتی مطبوعہ تحقیقی مقالات کو شامل
کرنا پڑا۔
برِعظیم پاک و ہند میں اردو زبان میں مطبوعہ ارمغان ہاے علمی کی تعداد
چھتیس تک پہنچ گئی ہے۔ ان میں سے سترہ بھارت میں، جب کہ انیس پاکستان میں
شائع ہوئے۔ بھارت میں چودہ دہلی سے اور ایک ایک جونپور، علی گڑھ اور پٹنہ
سے منظرِ عام پر آئے اور پاکستان میں تیرہ لاہور سے، چار کراچی سے اور ایک
ایک سرگودھا اور فیصل آباد سےمنصہ شہود پر آئے۔ اداروں کی سطح پر پنجاب
یونیورسٹی اورینٹل کالج کے شعبہ اردو اور غالب انسٹیٹیوٹ دہلی سے تین تین
اور ادارہ علومِ اسلامیہ جامعہ پنجاب سے چھ مجموعے مرتب ہوئے۔ مرتبین کے
حوالے سے مالک رام اور ڈاکٹر جمیلہ شوکت نمایاں ہیں، دونوں نے چھ چھ مجموعے
مرتب کیے ہیں، اَب جب کہ ڈاکٹر جمیلہ شوکت ساتواں مجموعہ (ارمغانِ علامہ
محمد اسد) بھی ترتیب دی رہی ہیں تو ان کا نام سرفہرست ہو جائے گا۔
ڈاکٹر جمیلہ شوکت ۲۰۰۱ء میں اپنی منصبی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گئی تھیں،
آج کل وہ ایمریطس پروفیسر کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی کے اس ادارے سے
وابستہ ہیں۔ ارمغان ہاے علمی کی ترتیب و تکمیل کوئی آسان کام نہیں، اس کے
لیے مقالات کا حصول تقریباً ناممکن کی سرحدوں کو چھو رہا ہے۔ منصبی ترقی
اور ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کی طرف سے منظور شدہ مجلّات میں مطبوعہ
مقالات پر اعزازیے نے یونیورسٹی محققین کو بہت ’محتاط‘ کر دیا ہے، چنانچہ
اُن کی طرف سے ارمغان ہاے علمی یا دیگر علمی و تحقیقی جرائد و رسائل سے
قلمی تعاون اس حد تک محدود ہو گیا ہے کہ خود ڈاکٹر جمیلہ شوکت کو آخری
ارمغان کے لیے تین اردو اور دو انگریزی مقالات ہی حاصل ہو سکے؛ لیکن ان کی
حوصلہ مندی کے سامنے کوئی دیوار زیادہ دیر تک حائل نہیں رہ سکتی، چنانچہ
یقین ہے کہ وہ موجودہ ذمہ داری کو اس ہمت اور لگن سے نبھائیں گی کہ علمی
ارمغان کی تاریخ میں انھیں فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔
|