اصلی پٹواری کے مسائل

پٹواری اور یوتھیے آجکل بہت مشہور ہیں بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کو طعنے کے طور پر پکارتے اور لکھتے ہیں ان دونوں کا ہی آپس میں مقابلہ ہے عمومی طور پرعمران خان کے حامیوں کو یوتھیے جبکہ میاں نواز شیرف کے حامیوں کو پٹواری کہا جاتا ہے جبکہ انکے مقابلہ میں ایک تیسری جماعت پیپلز پارٹی بھی ہے جو فلحال اس حوالہ سے کسی کھاتہ میں نہیں ہے اگر دیکھا جائے تو ہماری یوتھ پڑھی لکھی ہونے کی وجہ سے بہت عقل مند اور سمجھدار بھی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ پاکستان کو لوٹنے میں کن کن لوگوں کا ہاتھ ہے خیر ان باتوں سے ہٹ کر ہم بات کرتے ہیں پٹواریوں کی جی ہاں وہ پٹواری جو اصل میں پٹواری ہیں اور ایک کماؤ پوت کے طور پر جانے جاتے ہیں جس پر ملکہ ترنم نور جہاں نے گانا بھی گایا تھا کہ دوروں دوروں اکھیاں مارے منڈا پٹواری دا جنکے پاس ہماری زمین کے ایک ایک انچ کا حساب ہوتا ہے اور جو عموما اتنے پاور فل ہوتے ہیں کہ انکا تبادلہ کرنے والے خود تبدیل ہو جاتے ہیں پٹواری بظاہر اتنے طاقتور لوگ ہیں لیکن اتنے ہی معصوم بھی ہیں جن سے پیسے بٹورنے والے بھی درجنوں میں ہیں یہاں تک کہ ہمارے اکثر صحافی بھائی بھی انہی سے کاروبار زندگی چلاتے ہیں ویسے تو ہمارے تھانوں میں تعینات ایس ایچ او صاحبان بھی مختلف لوگوں کی خدمت کرتے ہیں لیکن ان میں زیادہ تر انکے اپنے محکمے کے لوگ ہی شامل ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انکے اخراجات پورے کرنے کے لیے تھانیدار کو کرپشن کرنا پڑتی ہے آج اگر گلی محلوں اور تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال عام ہے تو اسکے پیچھے وہی لوگ ہیں جو باقاعدگی سے بھتہ وصول کرتے ہیں اسی طرح ہماری سڑکوں پر جو تجاوزات ہیں انکے پیچھے بھی وہی لوگ ہیں جو ٹی ایم او کو رھڑیوں اور فٹ پاتھ قبضہ مافیا سے پیسے لینے پر مجبور کرتے ہیں بلاشبہ اگر وہ سو روپے اکھٹے کرتے ہیں تو 50روپے وہ خود بھی رکھتے ہونگے خیر بات ہو رہی تھی پٹواریوں کی وہ بھی اصلی والوں کی جو ساری عمر خود بھی کماتے ہیں اور دوسروں کو بھی کھلاتے ہیں آپ کسی بھی پٹواری کا شجرہ کمائی دیکھ لیں خود بخود اندازہ ہو جائیگا لیکن اسکے باوجود پٹواری کے پاس پرانی سی موٹر سائیکل ہوگی اور دیکھنے والا سمجھے گا کہ اس سے غریب انسان کوئی نہیں ہوگا پٹواریوں کے حوالہ سے سجاد علی بھنڈر کے خیالات بھی پڑھنے کو ملے جو حقیقت کے قریب ترین لگے سوچا آپ لوگوں سے بھی شیئر کر دیے جائیں کہ عام شہریوں کا خیال ہے کہ پٹواری لوگوں کو لوٹتے ہیں لیکن پٹواری کو کون کون لوٹتا ہے یہ کوئی نہیں جانتا شائد یہی وجہ ہے کہ رشوت کی زیادتی کی بنا پر محکمہ ریونیو میں مینول نظام کو ختم کر کے کمپیوٹرائزڈ کیا جا رہا ہے جسکے بعد پھر کوئی پٹواری کیونکر کسی کے ناز نخرے اٹھائے گا ؟ کیونکر اضافی ڈیوٹیاں نبھائے گا ؟ ایک اندازے کے مطابق 35 سے 55 ہزار روپے تنخواہ لینے والا ایک پٹواری نیچے سے اوپر تک تقریباً 70 گھروں کے چولہے روشن کرنے کے اسباب پیدا کرتا جیسے رشوت کی کوئی رسید نہیں ہوتی اسی طرح فٹیک کی بھی کوئی وصولی نہیں دی جاتی بس حکم ملتا ہے صاحب نے یا میڈم نے کہا ہے " پھر اس کی کسی سے تصدیق بھی نہیں کی جا سکتی بیچارہ پٹواری اپنی مجبوری میں کی گئی ایک غلطی کو چھپانے کے لیے 70 سے زائد لوگوں کے ناز نخرے اٹھاتا ہے پٹواری سے مجبوری میں غلطی بھی افسران کی لاپرواہی اور خود غرضی کی ہی مرہون منت ہوتی ہے جب ٹی اے ڈی نہیں دیا جائے گا جب دفتر میں اسٹیشنری نہیں پہنچائی جائے گی جب عالمی انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق دن میں 8 گھنٹے ڈیوٹی اور ہفتہ وار ایک تعطیل بھی نہیں دی جائے گی جب محکمہ ریونیو کے علاوہ چھتیس محکموں کی بلا معاوضہ اضافی ڈیوٹی بھی لی جائے گی جب پٹوار خانے میں سرکاری طور پر مفت بجلی بھی نہیں دی جائے گی پھر سب سے بڑھ کر پٹواری کے ذاتی حیثیت میں امدادی اسٹاف کے لیے پرائیویٹ منشی کی سہولت بھی نہ دی جائے تو پھر پٹواری سے سرزد مجبوری میں ہوئی لوٹ مار کے ذمہ دار بھی تو سبھی قرار پائیں گے نالیکن جب بھی انٹی کرپشن کا چھاپہ پڑتا ہے تو پکڑا صرف پٹواری ہی جاتا ہے جو تھوڑے ہی عرصہ کے بعد دوبارہ اپنی ڈیوٹی پر پہلے سے زیادہ مستعدی سے کام کرنا شروع کردیتا ہے لیکن اسکے حصوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے ایک پٹواری سے مختلف قسم کے لو گ اپنا کام کرواتے ہیں جو پٹواری کے نام پر خود بھی کھاتے ہیں اور پٹواری کو بھی خوش کرتے ہیں جبکہ وکیل فیس لے کر اپنے کلائنٹ کو انصاف دلوانے کے لیے پٹوار خانے پہنچتے ہیں اشٹام فروش کمیشن لے کر ریونیو کے کام کرواتے ہیں انویسٹرز پھڈے والی پراپرٹی چوونی اٹھنی میں خرید کر مالا مال ہو جاتے ہیں اور انکے بدلے میں افسران گلا گھونٹ کر پٹواری سے فرمائشیں پوری کرواتے ہیں تو پھرذمہ دار بھلا اکیلا پٹواری کیسے ہو سکتا ہے ؟آج کمپیوٹرائزڈ نظام کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن ہمارے پٹواری اسکی الف بے سے بھی واقف نہیں اگر پٹواری کو محکمانہ دفتری امور کی انجام دہی کے لیے مسلسل فنڈز اور سہولیات فراہم کی جاتیں اور ناجائز اور ناحق فرمائشیں نہ پوری کروائی جاتیں تو شاید اگلے 100 سال تک بھی محکمہ ریونیو میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت ہی پیش نہیں آنی تھی آج بورڈ آف ریونیو پنجاب کی عمارت پر صرف اور صرف تزئین و آرائش پر غالباً ایک ارب روپیہ خرچ کیا جا چکا ہے افسران کے کمروں میں لاکھوں روپے کے فانوس اور برقی قمقمے تو لگا دئیے گئے مگر محکمہ ریونیو کی اپگریڈیشن اور کمپیوٹرائزڈ نظام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ان کی ٹیبل پر ایک لیب ٹاپ یا کمپیوٹر تک نہیں رکھا گیا جبکہ بے او آر کے افسران ایک یا دو نہیں بلکہ تین تین گاڑیوں سے لطف اندوزبھی ہورہے ہیں اسکے ساتھ ساتھ پلرا ہیڈ آفس اور اراضی ریکارڈ سنٹرز پر اتنی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں کہ اسٹاف کو اپنی جیب سے ایک کچی پینسل تک نہیں خریدنی پڑتی جو صبح 9 بجے آتے ہیں اور شام 4 بجے اپنے گھروں کو روانہ ہوجاتے ہیں ہفتے کو ہاف ڈے اور اتوار کو پوری چھٹی کے مزے اڑاتے ہیں اور انکے مقابلہ میں ایل ڈی اے، روڈا، ڈیفنس اور پلرا ٹائپ تمام اتھارٹیوں کے ناز نخرے پٹواری ہی تو اٹھا رہے ہیں پٹواری بیچارہ دیہاڑی ، ہفتے اور منتھلی تقسیم کرتے کرتے ایسا ملاح بن کر رہ جاتا ہے جس کے حقے میں کبھی پانی ہی نہیں ہوتا یہ تو ہمت والے پرانے بھرتی شدہ پٹواری جو کہ اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ محکمہ ریونیو کی خدمت اور نوکری میں گزارنے کے بعد اب ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ چکے ہیں جبکہ نئے بھرتی ہونے والے پٹواریوں کا تعلق ہماری نوجوان نسل یعنی یوتھ سے ہے وہ کھانے اور کھلانے کے چکر میں نہیں پڑتے اور ابھی سے حوصلہ شکنی کا شکار ہو رہے ہیں جیسے ہی انہیں کسی اور محکمہ میں نوکری کا چانس ملے گا وہ دیر نہیں لگائیں گے اگر پٹواری چور ہے تو اس سے دیہاڑی، ہفتہ،منتھلی اورفٹیک لینے والے بھی چور ہی ہیں بلکہ بڑے چور ہیں خدارا محکمہ مال پر ترس کھائیں ویسے بھی کون سا محکمہ دودھ کا دھلا ہوا ہے۔
 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 611383 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.