آزادی سے غلامی تک

ابھی تک چمٹی ہے پاؤں سے زنجیریں غلامی کی ۔ دن آ جاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی ۔

میرا نام اقصی عاشق ہے اور میں ضلع سیالکوٹ کے ایک گاوں سید نیال میں رہتی ہوں ۔ میں نے اپنی زندگی کے 23 برس اس لا علمی میں گزارے ہیں کہ میرا ملک پاکستان 14 اگست 1947 کو آزاد مملکت کی حیثیت اختیار کر گیا تھا اور اب ہم غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آگے بڑھ چکے ہیں میں ایک ایسے آزاد ملک میں رہائش پذیر ہوں کہ جہاں میں 4 سال سے موٹر سائیکل چلا رہی ہوں کہیں بھی آ جا سکتی ہوں آزادی کہ زندگی گزار سکتی ہوں لیکن میں اپنے ہی ملک کے سابقہ وزیر اعظم کا نام نہیں لے سکتی آخر کیوں ؟ دنیا میں سب سے لعنتی انسان یزید تھا میں اس کا نام لے کر اسکو لعنت دے سکتی ہوں لیکن میں اپنے ہی ملک کے سابقہ وزیر اعظم کا نام نہیں لے سکتی آخر کیوں ؟ میں ایک ایسے ملک میں رہائش پذیر ہوں کہ جہاں میں صبت کی داستان شائع کروا سکتی ہوں میں بغیر پردے کے ٹک ٹاک پر ویڈیوز بنا کر مشہور ہو سکتی ہوں لیکن اپنے ملک کے حالات کے بارے میں میں سابقہ وزیر اعظم اعظم کے کے بارے میں کچھ بھی لکھ کر شائع نہیں کروا سکتی آخر کیوں ؟ میرے علم میں آج سے پہلے یہ تصور کبھی نہیں آیا کہ ہم نے غلامی سی آزادی تک کا سفر تو طے کیا تھا لیکن آزادی سے غلامی تک کا سفر کب طے کر لیا کبھی علم ہی نہیں ہوا کہ ہم تو غلام کے غلام ہی ہیں ۔ اس بات کا علم تب ہوا جب میں نےسابقہ وزیر اعظم اور ملکی حالات پر کتاب شائع کروانا چاہی بہت سے پبلشر سے بات کی سب نے یہ ہی کہا کہ آپ خاتون ہیں آپ کو نہیں لگتا ایسا کرنے سے آپ مشکل میں آسکتی ہیں یا آپ انتظار کر لیں ملک کے حالات بہتر ہونے دیں پھر اپنی کتاب شائع کروا لیجیے گا یہ کون ہے جو میرے نظریے پر میرے الفاظ پر میرے دماغ پر حکومت کر رہا ہے یہ کون ہے ؟ کیا مجھے ایک آزاد ملک میں آزادی کے ساتھ اپنا موقف اپنا نظریہ پیش کرنے کا حق نہیں ؟ کیا میں حقیقتاً آزاد ہوں ؟ اگر میں آزاد ہوں تو کون ہے جس نے ہماری سوچ کو ہماری زبان کو غلام بنا رکھا ہے ؟ آخر کیوں میں قیدی نمبر 804 کا نعرا لگا رہی ہوں آخر کیوں ؟ وہ جس نے اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین کے بارے میں بات کی مجھے اس کے بارے میں بات کرنے کی اجازت نہیں آخر کیوں ؟ مجھے ہمیشہ سے یہ شکوہ رہا ہے کہ ہم فلسطین کیلے کچھ نہیں کر رہے لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ ہم تو اپنے ملک کیلئے بھی کچھ نہیں کر پا رہے ۔ ہم کب آزاد ہوں گے ۔ مینڈیٹ چوری ہوتے ہم نے دیکھا ۔ گندم سکینڈل ہم نے بھگتا ۔ چادر چار دیواری کا تقدس پامال ہوتے ہم نے دیکھا ۔ ایک چور کو وزیر اعظم بنتے ہم نے دیکھا ۔ ماؤں کی گود اجڑتی ہم نے دیکھی ۔ نکاح پر مقدمہ ہوتا ہم نے دیکھا ۔ ہم نے دیکھا بیٹیوں کو قرآن پر ہاتھ رکھ کر ماں کا گواہ بنتے ۔ ہم نے دیکھا ایک ہی وقت میں ایک ہی عورت چار جگہوں پر کیسے ہو سکتی ہے ہم نے دیکھا ایک مسلم ملک میں مسلمان کو احرام میں گرفتار ہوتے ہوئے ۔ ہم نے دیکھے وہ بزدل لوگ جو ایک شخص کے نام تک سے خوف کھاتے ہوں ۔ ہم نے دیکھا نا معلوم خواجہ سراؤں کا حملہ ہم نے اور بھی بہت کچھ دیکھا ہے اب نہیں دیکھ سکتے مزید ہمیں آزادی چاہیے اپنے دین کے مطابق زندگی گزارنے کی کہ ہم سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کیہ سکے ہمیں چور حکمرانوں سے آزادی چاہیے ۔ ہمیں اپنے پسندیدہ حکمران کا نام لینے کی آزادی چاہیے ۔ ہم نے اس سارے نظام کو ننگا ہوتے تو دیکھا ہے بس نہیں دیکھ سکے تو ظلم کے خلاف آواز اُٹھاتے ہوئے فلسطینوں کے حق میں آواز اٹھاتے ہوئے ہم نے موجودہ حکومت کے دور میں ظلم ہوتے لوگ اگواہ ہوتے دیکھے اب انصاف ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں ہم خود کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں جہاں ہمیں کسی شخص کی بات کرتے ہوئے مرشد نہیں 804 کا نعرہ نہیں اس کا نام لینے کی اجازت ہو ہم دیکھنا چاہتے ہیں ان نا معلوم خواجہ سراؤں کو جنہوں نے روف حسن پر حملہ کیا ہم دیکھنا چاہتے ہیں ارشد شریف کے قاتلوں کو ہم دیکھنا چاہتے ہیں ان نامعلوم افراد کو جنہوں نے عمران ریاض کو اگواہ ہم غلامی سے آزادی تک کا سفر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ہم اپنے ملک پاکستان کو امن و سکون کی حالت میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ہم خود کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں ۔

 

Aqsa Bibi
About the Author: Aqsa Bibi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.