آج سے 10سال پہلے ایک دن اچانک مجلس وحدت مسلمین کے
سیکریٹری نشرواشاعت مظاہر شگری کا ٹیلی فون آیا کہ روحیل بھائی سکردو کے
لیے روانہ ہونا ہے آپ تیاری کریں میں نے پوچھا کس لیے اور کون کون ساتھ ہے
تو انہوں نے اپنی میٹھی اور سریلی آواز میں کہا کہ الیکشن ہیں اسکی کوریج
کرنی ہے اور ساتھی رپورٹرز کے نام بتا دیے اگلے دن لاہور سے سکردو تک کا
سفر سڑک کے زریعے کیا میری زندگی کا یہ طویل ترین اور خوبصورت سفر تھا اس
وقت سڑک بھی اتنی صاف شفاف نہیں تھی پنڈی سے سکردو تک ہم 24گھنٹے میں پہنچے
گلگت /بلتستان ایسا علاقہ ہے جہاں ایم ڈبلیو ایم کی اکثریت ہے اوروہاں کے
لوگ علامہ راجہ ناصر عباس کواپنا مسیحا سمجھتے ہیں سکرود میں ہم سب دوستوں
نے خوب مزے کیے مظاہر کے شہر شگر بھی گئے جہاں کے لوگ چیری سے زیادہ میٹھے
اور خوبانی سے بھی زیادہ پیارے ہیں شگر کا قلعہ بھی دنیا کی عجائبات میں سے
ایک ہے تقریبا 10دن رہنے کے بعد ہوائی جہاز سے واپسی ہو گئی لیکن وہ منظر
وہ راہیں اور وہ پہاڑ ہمیشہ نظروں کے سامنے رہے وہی پر مظاہر نے ہماری
ملاقات حسن سدپارہ سے بھی کرائی جنہوں نے بڑے بڑے پہاڑوں کی چوٹیوں کو اپنے
پاؤں تلے روند ڈالا تھا حکومت نے ان سے بہت سے وعدے بھی کیے لیکن ایک بھی
پورا نہیں ہوا وہ اب اﷲ کو پیارے ہو گئے ہیں اﷲ تعالی ان پر اور انکے بیٹے
پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے (آمین) گلگت بلتستان ایسا جنت نظیر علاقہ ہے جو
دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے اور اس علاقے کو پھر ہم نے بار بار دیکھا ہر سال
گرمیوں میں طارق جٹھول اور میں اس طرف کا سفر ضرور کرتے ہیں اور اب تو
شاہراہ قرام پر سفر کرنے کا مزہ ہی آجاتا ہے ایسی شاندار اور خوبصورت سڑک
بن چکی ہے کہ جہاں پر گلگت کی طرف سفر شروع کریں تو ساتھ ہی یہ گانا سننے
کو دل کرتا
ہم تمہاری راہ دیکھیں گے صنم
تم چلے آؤ پہاڑوں کی قسم
یہ شاہراہ قراقرم محض ایک سڑک نہیں بلکہ ہماری ترقی ،خوشحالی اور بلندیوں
کی طرف جانے والا ایک حسین سفر بھی ہے اس عظیم الشان سڑک کی تعمیر کا آغاز
1966 میں ہوا اور تکمیل 1978 میں ہوئی شاہراہ قراقرم کی کْل لمبائی 1,300
کلومیٹر ہے جسکا 887 کلو میٹر حصہ پاکستان میں ہے اور 413 کلومیٹر چین میں
ہے یہ شاہراہ پاکستان میں حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور ہری پور ہزارہ,
ایبٹ آباد, مانسہرہ, بشام, داسو, چلاس, جگلوٹ, گلگت, ہنزہ نگر, سست اور
خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی چائنہ میں کاشغر کے مقام تک جاتی ہے اس سڑک کی
تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں
یہ کام کرنے سے عاجز رہیں ایک یورپ کی مشہور کمپنی نے تو فضائی سروے کے بعد
اس کی تعمیر کو ناممکن قرار دے دیا تھا موسموں کی شدت, شدید برف باری اور
لینڈ سلائڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بنایا جانا بہرحال ایک عجوبہ
ہے جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا ایک سروے کے مطابق اس کی تعمیر
میں 810 پاکستانی اور 82 چینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے شاہراہ قراقرم کے
سخت اور پتھریلے سینے کو چیرنے کے لیے 8 ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال کیا
گیا اور اسکی تکمیل تک 30 ملین کیوسک میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا یہ
شاہراہ کیا ہے؟ بس عجوبہ ہی عجوبہ! کہیں دلکش تو کہیں پراسرار ،کہیں
پْرسکون تو کہیں بل کھاتی شور مچاتی, کہیں سوال کرتی تو کہیں جواب دیتی۔۔یہ
سڑک اپنے اندر سینکڑوں داستانیں سموئے ہوئے ہے, محبت, نفرت, خوف, پسماندگی
اور ترقی کی داستانیں!! شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے آپ کا تجسس بڑھتا ہی جاتا
ہے کبھی پہاڑوں کے اس پار یہ دیکھنے کا تجسس تو کبھی یہ جاننے کا تجسس کہ
جب یہ سڑک نہیں تھی تو کیا تھا؟ اسی سڑک کنارے صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی
کہانیاں سننے کا تجسس تو کبھی سڑک کے ساتھ ساتھ پتھروں پر سر پٹختے دریائے
سندھ کی تاریخ جاننے کا تجسس !!شاہراہ قراقرم کا نقطہ آغاز ضلع ہزارہ میں
ہے جہاں کے ہرے بھرے نظارے اور بارونق وادیاں "تھاکوٹ" تک آپ کا ساتھ دیتی
ہیں۔تھاکوٹ سے دریائے سندھ بل کھاتا ہوا شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ جگلوٹ
تک چلتا ہے پھر سکردو کی طرف مڑ جاتا ہے تھاکوٹ کے بعد کوہستان کا علاقہ
شروع ہوجاتا ہے جہاں جگہ جگہ دور بلندیوں سے اترتی پانی کی ندیاں سفر کو
یادگار اور دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں کوہستان کے بعد چلاس کا
علاقہ شروع ہوتا ہے جوکہ سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ چلاس ضلع دیا
میر کا ایک اہم علاقہ ہے اسکو گلگت بلتستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔
ناران سے بذریعہ بابو سر ٹاپ بھی چلاس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ چلاس کے بعد
شاہراہ قراقرم نانگا پربت کے گرد گھومنے لگ جاتی ہے اور پھر رائے کوٹ کا
پْل آجاتا ہے یہ وہی مقام ہے جہاں سے فیری میڈوز اور نانگا پربت بیس کیمپ
جانے کے لیے جیپیں کرائے پر ملتی ہیں۔ رائے کوٹ کے بعد نانگا پربت, دریائے
سندھ اور شاہراہ قراقرم کا ایک ایسا حسین امتزاج بنتا ہے کہ جو سیاحوں کو
کچھ وقت کے لیے خاموش ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔اس کے بعد گلگت ڈویڑن کا
آغاز ہوجاتا ہے جس کے بعد پہلا اہم مقام جگلوٹ آتا ہے جگلوٹ سے استور,
دیوسائی اور سکردو بلتستان کا راستہ جاتا ہے۔ جگلوٹ کے نمایاں ہونے میں ایک
اور بات بھی ہے کہ یہاں پر دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ,
کوہ ہندوکش اور قراقرم اکھٹے ہوتے ہیں اور دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں
جہاں تین بڑے سلسلے اکھٹے ہوتے ہوں۔جگلوٹ کے بعد شمالی علاقہ جات کے صدر
مقام گلگت شہر کا آغاز ہوتا ہے جو تجارتی, سیاسی اور معاشرتی خصوصیات کے
باعث نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ نلتر, اشکومن, غذر اور شیندور وغیرہ بذریعہ
جیپ یہیں سے جایا جاتا ہے۔ گلگت سے آگے نگر کا علاقہ شروع ہوتا ہے جس کی
پہچان راکا پوشی چوٹی ہے۔ آپکو اس خوبصورت اور دیوہیکل چوٹی کا نظارہ
شاہراہ قراقرم پر جگہ جگہ دیکھنے کو ملے گانگر اور ہنزہ شاہراہ قراقرم کے
دونوں اطراف میں آباد ہیں یہاں پر آکر شاہراہ قراقرم کا حْسن اپنے پورے
جوبن پر ہوتا ہے میرا نہیں خیال کہ شاہراہ کے اس مقام پر پہنچ کر کوئی سیاح
حیرت سے اپنی انگلیاں دانتوں میں نا دباتا ہو ہنزہ اور نگر کا علاقہ نہایت
خوبصورتی کا حامل ہے بلند چوٹیاں, گلیشیئرز, آبشاریں اور دریا اس علاقے کا
خاصہ ہیں اس علاقے کے راکاپوشی, التر, بتورہ, کنیانگ کش, دستگیل سر اور پسو
نمایاں پہاڑ ہیں عطاآباد کے نام سے 21 کلومیٹر لمبائی رکھنے والی ایک
مصنوعی لیکن انتہائی دلکش جھیل بھی ہے جو کہ پہاڑ کے گرنے سے وجود میں آئی
تھی ہنزہ کا علاقہ "سست" پاک چین تجارت کے حوالے سے مشہور ہے اور یہ چائنہ
سے درآمدی اشیاء کی مارکیٹ بھی ہے سست کے بعد شاہراہ قراقرم کا پاکستان میں
آخری مقام خنجراب پاس آتا ہے سست سے خنجراب تک کا علاقہ بے آباد, دشوار
پہاڑوں اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے خنجراب پاس پر شاہراہ قراقرم کی
اونچائی 4,693 میٹر ہے اسی بنا پر اسکو دنیا کے بلند ترین شاہراہ بھی کہا
جاتا ہے خنجراب میں دنیا کے منفرد جانور پائے جاتے ہیں جس میں مارکوپولو
بھیڑیں, برفانی چیتے, مارموٹ, ریچھ, یاک, مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل
ہیں اسی بنا پر خنجراب کو نیشنل پارک کا درجہ مل گیا ہے اس سڑک پر آپکو
سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پتھریلے و بنجر پہاڑی سلسلے اور دیوقامت برفانی
چوٹیوں, دریاؤں کی بہتات, آبشاریں, چراگاہیں اور گلیشیئر سمیت ہر طرح کے
جغرافیائی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جو نا صرف آپکا سفر خوبصورت بناتے ہیں
بلکہ آپ کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں شاہراہِ قراقرم محض ایک سڑک
نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے یہ تہذیب و تمدن کی امین ہے یہ
پسماندگی سے نکلنے کا زریعہ ہے, یہ ہر سال ہزاروں سیاحوں کی سیاحت کی پیاس
بجھانے کا منفرد زریعہ ہے یہ محبت و دوستی کی علامت ہے یہ سینکڑوں مزدوروں
کے لہو سے سینچی وہ لکیر ہے جس نے پورے گلگت بلتستان کو تاریکیوں سے نکال
کر روشنیوں کے سفر پر ڈالا رکھا ہے بلاشبہ یہ شاہراہ ایک شاہکار ہے اور اس
سڑک پر بار بار سفر کرنے کو دل کرتا ہے جہاں راستے میں جھومتا ہوا حسینی پل
بھی آتا ہے جہاں خواتین وہاں کی سوغات بیچ رہی ہوتی ہیں ان خوبصورت نظاروں
کا سفر انتہائی دلکش اور پیارا ہے ہر سال گرمیوں میں ان علاقوں کی یاد
ستاتی ہے تو بے اختیار زبان سے تم چلے آؤ پہاڑو کی قسم گنگنانا شروع ہو
جاتا ہوں ۔
|