تین روپیہ فی یونٹ بجلی کے بعد؟

تصویر کے یکے بعد دیگرے چار رخ میری آنکھوں کے سامنے ہیں ایک رخ جب چند سال پہلے کشمیر میں بجلی بلز پر پہلی مرتبہ جب فیول ٹیکس کی صورت پہلا ٹیکس لگا تب حسن ابراہیم نئے نئے ممبر قانون ساز اسمبلی بنے تھے علی امین گنڈا پور وزیر امور کشمیر تھے حسن ابراہیم سے ان کی دوستی تھی میں نے حسن ابراہیم سے فون پر رابط کر کے یہ ٹیکس ہٹانے کی مانگ کی مگر حکومت نے یہ ٹیکس نہ ہٹایا اور پھر رنگ برنگے اور ٹیکسوں کا اجراء کیا تو ایک نعرہ سامنے آیا بجلی بلز پہ یہ ٹیکس نرالے نہ منظور یہ نیلے کالے ویگو ڈالے نا منظور تصویر کا دوسرا رخ وہ میرے سامنے ہے جب قائد تحریک امان للہ خان بیمار ہوئے ان سے درخواست کی کہ آپ راولاکوٹ دفن ہونے کی وصیت کریں (خدشہ تھا احباب انہیں گلگت دفن کرنے کے بجائے راول پنڈی دفن نہ کر دیں )امان صاحب انکار ہوگئے اور کہا میری وصیت ہے مجھے گلگت دفن کیا جائے اور کچھ نہ سہی میری قبر گلگت بلتستان اور کشمیر میں رابط رہے گی آج دلوں کو راہ ہوئی مہاراجہ ہری سنگھ کے ٹیکسوں کے خلاف جب فاتح آزاد کشمیر کیپٹین حسین خان شہید نے مسلح تحریک شروع کی تب مہاراجہ گھنسارہ سنگھ کے خلاف گلگت بلتستان میں فاتح جی بی کرنل حسن مرزا کیپٹن بابر نے تحریک شروع کر کے جس جڑت کو سامنے لایا آج گلگت بلتستان کی طرز پر آزاد جموں کشمیر میں بجلی بلز کے اجراء نے امان صاحب کی دھرتی کے دو منقسم حصے ایک کر دکھائے تصویر کا ایک رخ یہ ھے کہ ہر ایرا غیرا یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اس کے آباؤ اجداد نے مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف جنگ لڑی میں وہ واحد شخص ہوں جو برملا اظہار کرتا ہوں کہ میرے آباؤ اجداد سے کوئی کیپٹین حسین خان شہید کے قافلہ میں شامل رہ کر ہری سنگھ کے خلاف عسکری تحریک میں شامل نہیں تھا نہ ا براہیم خان صاحب کی سیاسی تحریک میں تھا البتہ ببانگ دہل لکھ رہا ہوں کہ ٹیکسوں کے خلاف پہلی تحریک جب لیاقت حیات نے این ایس ایف سے چلوائی دھرنا دیا گرفتاریاںں ہوئیں تو اس احتجاج کا آئیڈیا بھی میرا تھا اور چارٹرڈ آف ڈیمانڈ بھی انہی ہاتھوں کا تحریر کردہ تھا تصویر کا چوتھا ر خ بھی سامنے ہے جب آج کے مزاحمت کار اور سیانے ابھی عمر نزیر کشمیری کے وقف بھی نہیں تھے صدر راولاکوٹ انجمن تاجران نامزد کیے جانے کے بعد پہلی ملاقات اور پہلے مختصر سفر میں ان سے بھی بجلی ایشو پر تحریک چلانے کی مانگ کی گلگت بلتستان کے بجلی بلز پر سیانوں کے بہت سے اعتراض تھے تب گلگت سے بجلی بلز منگوا کر عمر نزیر کشمیری کے حوالے کیے اور تجویز یہی دی کہ بیوروکریسی شاطر ہے مزاکرات میں مختصر موقف یہ رکھیں کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کا عالمی سٹیٹس ایک ہے جس قیمت پر وہاں گندم اور بجلی فراہم کی جاتی ہے اسی طرز پر دونوں ضروریات زندگی ہمیں دی جائیں بجلی کی ڈیمانڈ مان لی گئی مگر گندم کی مانگ کے بجائے آٹے کی سبسڈی کی تجویز پیش کی گئی جس کا نقصان لوگوں کو ہونا شروع ہے اور آٹا مافیا اب بھی سبسڈی سے اربوں روپیہ لوٹ رہی ہے صرف ایک اشارہ دئیے جاؤں کہ گزشتہ سال جب آٹے کی قیمت چھتیس سو روپیہ فی من تھی آزاد کشمیر حکومت کو بارہ ارب روپے کی رقم سبسڈی کے لیے ضرورت تھی اب آٹا پاکستان کی طرح سستا ہو کر دو ہزار روپیہ فی من ہوگیا سبسڈی بھی کم ہونا چاہیے تھی مگر شہباز شریف حکومت سے انیس ارب روپے سبسڈی کے لیے لیے گئے کاش بجلی کی طرح گندم کی فراہمی کا مؤقف ہی رہتا لوگوں کو صاف گندم ملتی لوگ خود پیسواتے کہیں چکیاں لگتی بیروزگار ی میں کمی آتی اور یہ آٹا ایک ہزار روپیہ فی من سے بھی کم میسر آتا سبسڈی کے نام پر اربوں روپیہ آٹا مافیا نہ ہڑپ کرتی مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف ٹیکسوں کی تحریک کا انجام کیا ہوا وہ تحریک کیسے الحاق پاکستان کی تحریک میں بدلی جموں کشمیر کے سینے پر منحوس لیکر کینچھی بھائی بہن اولاد والدین آر پار تقسیم ہوئے وہ کہانی الگ سہی مگر اب کی بار نیلم سے بھمبر ایک آواز گونجی ہم ایک ہیں یہ وطن ہمارا ہے اس کی حفاظت ہم کریں گے اس پر حکومت ہم کریں گے بجلی بلز پر یہ ٹیکس نرالے نہ منظور اج قوم جشن منا رہی ہے شٹر ڈاؤن پہیہ جام دھرنے ریلیاں گرفتاریاں اور چار معصوم نوجوانوں کی شہادت آج گلگت بلتستان جتنی قیمت پر بجلی دلوا گئی مگر جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی چار ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے کشمیر کی ضرورت پانچ سو میگا واٹ ہے فری لورڈشیڈنگ زون قرار دیا جانا سب سے بڑا مقصد ہے یہ بجلی سٹاک کرنے کشمیر کا نیشنل گرڈ سٹیشن قائم ہونا ضرورت ہے منگلا ڈیم کی بجلی کی پیداوار ی لاگت صرف دو روپیہ سات پیسے فی یونٹ ہے پھر سبسڈی کس بات کی جب معاہدہ ہی ان الفاظ کہ پیداوار ی لاگت پر بجلی بلز لیے جائیں گے فاروق حیدر اور انوار الحق کس مد میں ستر ارب روپیہ سبسڈی کی گرانٹ مانگ رہے ہیں سبسڈی کے نام پر اب مزید لوٹ مار کا راستہ روکنا ہوگا تئیس ارب روپے میں چار ارب روپیہ واپڈا کو دینے لیے گئے کہ بائی کاٹ تحریک کی وجہ تاجران اور شہریوں کے زمہ چار ارب روپیہ واپڈا کا واجب الادا ہے پھر کیوں تاجران اور شہریوں سے واجب الادا رقم اقساط میں لی جا رہی ہیں اس چار ارب روپیہ کے مصرف پر ایکشن کمیٹی کو انوار الحق سے پوچھنا ہوگا اور شہباز شریف حکومت تک مطالبہ پہنچانا ہوگا کہ چار ارب روپیہ واپڈا کو دینے لیا گیا اور پھر کیوں نہیں دیا جا رہا تحریک کا سب سے بڑا مطالبہ اشرافیہ کی عیاشی ختم کروانا تھا مگر سرکاری وسائل کی لوٹ مار جاری ہے باقی چھوڑئیے سرکاری گاڑیوں پر بچوں کو تعلیمی اداروں میں لانے جانے بیگمات کی شاپنگ اور سیر پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا ججز اور سابق سربراہان صدور وزیراعظم کی مراعات مفت پٹرول ڈیزل بجلی تک ختم نہیں کی گئی سابق ممبران اسمبلی کی پنشن ختم نہیں ہو رہی محکمہ برقیات کے ملازمین کو غیر قانونی طور مفت بجلی کی سہولت تک ختم نہیں ہوئی ستم ظریفی یہ کہ چالیس سال میٹر رینٹ کی مد میں ٹیکس لینے کے بعد آج بارہ سو روپیہ میں خرید کر چھ ہزار روپیہ اور وہ بھی نقد وصول کرنے کا ناٹک جاری ہے بات اصل یہ ہے کہ لڑائی ابھی باقی ہے قوم کو ابھی اتحاد اور جڑت کی ضرورت ہے ابھی خون کے دریا عبور کرنے ہیں چارٹرڈ آف ڈیمانڈ دور کی بات ہے جن تین نکات پر تحریک شروع ہوئی تھی ابھی اڑھائی نکات قرض ہیں اگر پرانے فوٹو یا ویڈیوز دیکھی جائیں تو تین نکاتی ایجنڈا جو دھرنوں پر آویزاں تھا اس میں پہلا مطالبہ آزاد کشمیر کو فری لورڈشیڈنگ زون قرار دے کر نیشنل گرڈ سٹیشن قائم کیا جائے دوسرا مطالبہ گلگت بلتستان (شمالی کشمیر)جتنی قیمت پر بجلی اور گندم مہیاء کی جائے اور تیسرا مطالبہ عوام کے ٹیکسوں سے اشرافیہ کو حاصل مراعات ختم کی جائیں یہ تحریک کے مطالبات تھے ان کو ادھورہ چھوڑنا ان پر مصلحت اختیار کرنا مظفرآباد میں رینجرز کے ہاتھوں شہید تین معصوم کشمیری جوانوں کے خون سے غداری ہوگی بجلی بلز بغیر ٹیکسوں کے ملنا اگر حق تھا تو سستی بجلی سھمجھ کر اس کا نا جائز استعمال بھی حرام جاننا ہوگا اظہار تشکر کے ساتھ تجدید عہد کرتے آگے بڑھنا ہوگا جیت کا جشن تب منانا ہوگا جب تینوں مطالبات پورے ہوں محض سستی بجلی پر اکتفا کرنا سودے بازی اور مصلحت پسند ی ہے مزاحمت کاری نہیں نہ جانے کیوں تاریخ کا وہ منظر میری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے جا رہا جب بلدیہ راولاکوٹ میں پہلی مرتبہ ایک قوم پرست چیئرمین کے عہدے پر بڑی جیت سے سامنے آ ئے بابائے خودمختاری سردار رشید حسرت مرحوم اس تاریخی جیت کے جشن سے مہمان خصوصی خطاب کرتے کہہ گئے تھے کہ آج اس جیت سے ہم نے عمارت کا پہلا پھتر لگایا ہے عمارت ابھی بننی ہے پھر یوں ہوا کہ پھتر ہل گیا اور عمارت نہ بن سکا ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔دعا ہے ایسا نہ ہو کہ بجلی سستی پر جشن ویسا ہی جشن ثابت نہ ہو باقی مطالبات خواب ہی رہیں ۔۔۔اس کامیابی کے بعد اب دعوی کر رہا ہوں کہ اگر رسوائے زمانہ معائدہ کراچی اور ایکٹ چوہتر کا خاتمہ کروا کر چوبیس اکتوبر کی حکومت کا اسٹیٹس بحال کروانے میدان میں اترا جائے تو اہل کشمیر وزارت امور کشمیر اور لینٹ آفیسر وں سے نجات پا کر خودار باوقار قوم بن سکتے ہیں ۔حرف اخر ۔۔منگلا ڈیم اپنی قیمت چار مرتبہ پوری کر چکا یہ ملک پاکستان نے نہیں بنوایا دنیاکے مختلف ممالک کے چندے سے بنا جس میں بھارت نے بھی فنڈنگ کی تب بھی اور منگلا ڈیم توسیع منصوبہ میں بھی مفت بجلی دینے کہا گیا اس بجلی کی پیداوار ی لاگت محض دو روپیہ سات پیسے فی یونٹ ہے اگر بارہ سو میگا واٹ منگلا ڈیم کی بجلی سے چار سو میگا واٹ تین روپیہ فی یونٹ ملنے لگی تو کیا احسان ہوا ۔۔۔یہ بھی تو کوئی بتائے

 

Asif Ashraf
About the Author: Asif Ashraf Read More Articles by Asif Ashraf: 40 Articles with 28315 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.