جب ویر بھگت سنگھ دت کو
دیا پھانسی کا حکم سنا
اس کی ہونے والی نار کو
کسی نے گاؤں میں دیا بتا
گاڑی میں اندھا منگتا گا رہا تھا.... پھر میں نے منگتے کے منہ کی طرف دیکھا
لیکن اسٹیشن آ جانے کی وجہ سے وہ اس ڈبے میں سے اُتر کر دوسرے میں جا چڑھا۔
اب میرے دل میں بار بار یہ خیال آنے لگا کہ جب کسی نے گاؤں میں جاکر بتایا
ہو گا تب بھگت سنگھ کی منگیتر کے دل پر کیا گزری ہو گی....؟‘‘
میں ڈبے کی کھڑکی میں سے باہر دیکھنے لگی۔ ایسے لگتا تھا۔ جیسے سامنے کے
کھیت کھیتوں میں اُگی ہوئی فصلیں اور درختوں کی قطاریں بھاگی جا رہی ہیں ۔
اسی تیزی سے خیالات میرے دل میں دوڑنے لگے۔ میری کلپنا دور کے اُفق سے بھی
دو ر گاؤں کے ایک کچے کوٹھے میں بیٹھی چرخا کاٹتی ہوئی ایک خوبصورت عورت کو
ڈھونڈنے لگی۔ چپ چاپ میں اس کے منھ کی طرف دیکھنے لگی۔
’’کیا کہتی ہو؟‘‘ وہ بولی۔
’’تم نے کیسے عمر گزاری؟‘’ میں نے پوچھا۔
مجھے اس کی عزت کا پاس تھا۔ لوگوں نے تو کہہ دینا تھا۔ یہ بھگت سنگھ کی
منگیتر ہے۔ میں کیسے حوصلہ چھوڑتی ؟ میں نے محنت مزدوری کی ، لوگوں کی کپاس
بینی، سوت کاتا، ان کے دانے پیسے، گھروں کی لپائی کی، گھاس چھیلی۔ اور اس
طرح اپنا وقت گزارا۔‘‘
کیوں ۔تیرے ماں باپ کو تیرا خیال نہیں تھا۔ ’’میں نے پوچھا۔
کون سی سال چھ مہینے کی بات تھی کہ میں ان پر بوجھ بنی رہتی؟ یہ تو عمروں
کا معاملہ تھا۔ اور پھر انھوں نے تو اسے ہی کو سنا تھا۔ جو اپنے قرضوں کو
ادھورا ہی چھوڑ چلا گیا تھا۔
’’تم نے سرکار سے مدد مانگ لینی تھی۔‘‘ میں نے اداس ہو کر کہا۔
’’میں اس کی منگیتر ہو کر کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتی۔ یہ مجھ سے ہو نہیں سکا۔
اس کا ایمان اس کا حوصلہ اس کے مزاج کی پختگی دیکھ کر میرا دل کیا اس عظیم
عورت کے پاؤں چھولوں ، بیتی ہوئی عمر کی پرتیں اُتار کر وہ بھرپور جوان
لڑکی بن کر میری یاد کے جھروکے میں دمکتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
’’سنا ہے اس کے گاؤں میں اس کی یا د منا رہے ہیں ۔ تم جاؤ گی؟‘‘ میں نے
پوچھا۔
’’میں ۔ میں اس کے گاؤں میں بھلا کیسے جاسکتی ہوں ؟‘‘ اس نے تو باجے گاجوں
کے ساتھ سہرے باندھ کر مجھے لینے کے لیے آنا تھا۔ وہ آیا نہیں ۔ پھر میں
کیسے جاسکتی ہوں ۔‘‘
’’یہ تو بڑی پرانی بات ہو گئی۔ ‘‘ میں نے کہا۔
’’تمھیں پرانی لگتی ہو گی۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے۔ جیسے ابھی کل کی بات ہو۔
جب ایک دن دیئے جلانے کے وقت وہ ہمارے گاؤں میں آیا تھا۔ باہر کنویں پر
کھڑے ہو کر اس نے ایک بچے کے ہاتھ مجھے سندیشہ بھیج دیا۔
میں جھجکتی جھجکتی سب سے چوری وہاں آ گئی۔ کہنے لگا۔ ’’تم فکر نہ کرنا ابھی
مجھے ضروری کام ہیں ۔ جب بھی بیاہ کیا، میں تیرے ہی سے کروں گا۔ میں جلدی
ہی آؤں گا۔ وہ چلا گیا اور تب سے ابھی تک نہیں آیا۔
اس وقت مجھے ایک روسی گیت یاد آیا کہ ’’ہمارا گھر اے سجنی اتنی دور تو نہیں
تھا کہ عمر بھر آ نہ سکے۔‘‘
ان لفظوں کی تڑپ ان کا درد میں اس کے چہرے پر ڈھونڈ رہی تھی جو زندگی بھر
اُس کا انتظار کرتی رہی جو پھر کبھی لوٹ کر نہیں آیا۔
’’تم ان دردوں کی ٹیس کیا جانو؟‘‘ وہ آنکھیں بھر کر بولی۔ وہ آنسو بہہ
نکلے۔ مجھے لگا جیسے وہ کہہ رہی ہو۔ ‘‘ یہ کیسی رے دھرتی کانٹوں بھری، یہ
کیسے رہے جیون کے سونے ٹاپو میرے سانس سوکھتے جا رہے ہیں ۔
’’رب تجھے لمبی عمر بخشے۔‘‘ اس کے مرجھائے ہوئے چہرے کی طرف دیکھ کر میں نے
کہا۔ وہ ڈری ہوئی سی ایسے چونکی جیسے میں نے اسے تھپڑ مار دیا ہو۔ پھر درد
بھری آواز میں کہنے لگی۔
’’میری ہمدردی نے۔ لمبی عمر کی میری خواہش نہیں ۔ عمر کے تو یہ دن بھی ختم
نہیں ہو پا رہے۔‘‘
اس کی اداسی مجھ سی دیکھی نہ گئی۔ بات بدلنے کے لیے میں نے کہا۔’’تو میرے
ساتھ شہر چل۔ میری بہن کی شادی ہے۔ دو چار دن اچھے نکل جائیں گے۔‘‘
’’نہیں ۔ میں بیاہ میں نہیں جاسکتی۔ ‘‘ وہ بولی۔
’’کیوں ؟ میں نے پوچھا۔
خوشیوں کے موقعے مجھ سے برداشت نہیں ہوتے۔ ایسے موقعوں پر میں بہت تھک جاتی
ہوں ۔ اب مجھ سے اپنے غم گھڑی پَل کے لیے بھی دور نہیں کیے جاتے۔ مجھے ان
کے ساتھ رہنے کی عادت ہو گئی ہے۔ ایک بات بتاؤ گی؟ اس نے بڑی امید سے میری
طرف دیکھا۔
’’ہاں پوچھو۔‘‘ میں نے کہا۔
’’کیا سچ مچ کوئی اگلا جنم بھی ہوتا ہے؟‘‘
’’بے چاری.... ‘‘ میرے دل نے کہا۔
’’ہاں ضرور ہوتا ہے۔‘‘ میں نے کہہ دیا۔ یہ سن کر اس کی آنکھوں میں چمک آ
گئی اور وہ مسکرا پڑی۔
’’کیا ابھی تک وہ تمہیں یاد ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہاں .... ہر گھڑی، ہر پل مجھے وہ یاد رہتا ہے۔ کبھی کبھی تو بڑا من کرتا
ہے کہ کوئی آ کر بتائے کہ ’’نہیں وہ مرا نہیں ۔ اسے پھانسی نہیں دی گئی۔ وہ
زندہ ہے۔‘‘ کبھی کبھی سوچتی ہوں اگر کہیں سے وہ وہ سچ مچ واپس آ جائے۔ میں
اس سے کہوں ۔ کہہ ان تقدیروں کو ، یوں نہ دور رہیں ۔ میں بھی کسی کی بیٹی
رے۔ میں بھی کسی کی بہن۔‘‘ لیکن ان تقدیروں کے پاس میرے لیے رکھا گیا ہے۔
‘‘ وہ اداس ہو کر بولی۔
’’اب تو بھگت سنگھ کے سپنے پورے ہو رہے ہیں ۔ دیکھ دیش کیسے ترقی کی طرف جا
رہا ہے۔ تو بھی اس میں اپنا حصہ ڈال۔ دیکھ نیا سال آ رہا ہے۔ کوئی نیا قدم
اٹھا۔‘‘ میں نے کہا۔
اس کا منہ بجھ گیا اور وہ چپ چاپ میری طرف یوں دیکھنے لگی۔ جیسے کہہ رہی
ہو۔
پچھلا برس روکے چلا گیا
اگلا بھی اداس کھڑا
کس منی نے شراپ دیا
تم نے پھر نہ پوچھی بات۔‘‘
تم کیا سوچ رہی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری جیسے کہہ رہی ہو۔’’ رات کی رانی مجھے پوچھتی
کہاں ری چلی گئیں ، تمھاری رات کی نیندیں کہاں گُم ہو گئیں تمھاری صورتیں ۔
میں بار بار تم سے پوچھتی، کون بھرے گا میری کہانی کا ہنکارا۔ کون بنے گارے
میرے دُکھوں کا ساتھی؟‘‘
میں نے اس کے منہ کی طرف دیکھا۔ نانک ستیا جاہین جے برہوں چوٹ مرن۔ ’’ اس
قول کے آگے میں نے سر جھکا دیا۔ اس کی ٹوٹی ہوئی جوتی پر میری نظر پڑ گئی۔
میں نے درمیان سے دیکھا۔ اس کی قمیض پر بھی پیوند لگے ہوئے تھے۔ مجھے دھکا
سا لگا۔
’’تم نے اسے دیکھا تھا؟ ‘‘ وہ اب بھی اسی کے بارے میں سوچ رہی تھی
’’نہیں ۔‘‘ میں نے کہا۔
’’وہ بڑا خوبصورت تھا۔ ہمارے گاؤں کی ساری لڑکیوں کے مردوں سے زیادہ
خوبصورت اور ....‘‘
اس کے بعد اس کا گلا بھر آیا اور پھر جیسے وہ خود سے باتیں کرنے لگی۔
’’میں آتے جاتے مہمانوں کے چہروں کی طرف دیکھتی۔ کوئی کرے رے تیری بات۔‘‘
’’میں کنیا کنواری کھڑی انتظار کروں ، اسے کوئی سندیشہ بھیج۔‘‘
’’کیا سوچ رہی ہو سونیے؟ میں نے پوچھا۔
وہ اپنے ہاتھ کی لکیروں کی طرف دھیان سے دیکھنے لگی ۔ جیسے کہہ رہی ہو۔ ماں
اپنی سے میں پوچھتی بیٹی کی کیسی قسمت لکھائی۔‘‘
میں اس کی طرف دیکھتی رہی۔ ایک لَو جلتی تھی اس کی آنکھوں میں ، ایک قہر
برستا تھا اس کی نظرو ں سے۔ مجھے لگا جیسے وہ ایک ناگن بن کر پھنکار رہی
ہو۔ بھگت سنگھ کے قاتلوں کو جیسے اسی وقت ڈس لینا چاہتی ہو۔ جیسے سب کچھ
توڑ پھوڑ کر مسل دینا چاہتی ہو۔ پھر اس نے پلکیں جھکا لیں ۔ جیسے کہہ رہی
ہو۔ ’’میں بھلا کیا کرسکتی ہوں ۔‘‘
’’تم نا امید نہ ہو۔ بھگت سنگھ تیرا ہی نہیں تھا۔ وہ ہمارا سب کا تھا۔ اس
کی موت کا دُکھ تجھے ہی نہیں ۔ سارے دیش کو ہے۔ ہم اسے بھولے نہیں ۔ ہمیں
تو بھی یاد ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی اس کی آنکھیں بھر آئیں اور آنسو گراتی ہوئی وہ میری کلپنا کی
طرف واپس مڑنے کو ہوئی۔ مجھے لگا۔‘‘
’’زمین اور آسمان بھی سوچتے کہ کیا دیں تسلی۔‘‘
اتنے میں ایک جھٹکے کے ساتھ گاڑی اسٹیشن پر آ کر کھڑی ہو گئی۔ وہ منگتا اب
پھر ڈبے کے سامنے سے گاتا ہوا جا رہا تھا۔
جب ویر بھگت سنگھ دت کو
دیا پھانسی کا حکم سنا
اُس کی ہونے والی نار کو
کسی نے گاؤں میں دیا بتا
|