تیار ہیں آپ گولڈی کا دکھ جاننے کے لۓ؟

نہایت معذرت کے ساتھ آغازِکہانی مگر واقعہ چونکہ دلخراش اور حقیقت پر مبنی ہے اس لۓ شاید لفظوں اور تحریر میں جذباتیت اور کچھ تلخی در آۓ۔ چند برسوں سے ایک المیہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ ہم پاکستانی انسان کو انسان سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اسکے دکھ، درد، غم میں شریک ہونا تو درکنار بلکہ مختلف واقعات و حادثات میں اسی کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتے نظر آرہے ہیں۔ جب انسانوں کے ساتھ ہمارا یہ رویہ ہو تو جانور کو تو پھر واقعی جانور ہی سمجھا جاتا ہے۔ خدارا میرے معزز قارئین بالکل یہ خیال نہ کریں کہ اس تحریر کے ذریعے میرا مقصد پاکستان یا اس کے باسیوں کا منفی پہلو سامنے لانا ہے مگر حق گوئ کا حق بھی ادا کرنا ایک لکھاری کے اولین فرائض میں سے ہوتا ہے۔

ہم نام نہاد مسلمان بہت ہی آسانی سے رحمتہ العالمین حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانوروں کے حقوق کی تعلیمات کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ جانوروں کے حقوق پامال کرتے ہوۓ نہ ہم ان کے دکھ، تکلیف، جذبات و احساسات کو اہمیت دیتے ہیں بلکہ ان کے وجود کو ہی بے معنی و بے مقصد تصور کرتے ہیں۔ تمہید تھوڑی طویل ہو گئ مگر یہ ناگزیر تھی۔ چلیں سچی کہانی کے دکھ کو محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہمارے ہی معاشرے کا ایک خاندان جانوروں سے نہایت انسیت رکھتا ہے۔ جی ہاں حیران نہ ہوآج بھی ایسے لوگ بستے ہیں یہاں۔ انہوں نے دو ِبلؔے پال رکھے ہیں۔ والدہ کی طرف سے گھر میں کتے پالنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس لۓ انہوں نے کچھ عرصہ قبل گلی میں پھرنے والی ایک چھوٹی سی کتیا کو اپنے گھر کے ساتھ والے خالی پلاٹ پر گھر بنا دیا جسے انہوں نے 'گولڈی' کا نام دیا کیونکہ اسکا رنگ بہت ہی پیارا سا سنہری ہے۔ وہ کتیا بہت سمجھدار ہے۔ جیسے ہی اس گھر کا گیٹ کھلتا سنتی جھٹ سے دوڑ کر وہاں پہنچتی اور لاڈ میں دُم ہلانے لگتی۔ وہ بچے اسے کھانا دیتے اور اس کے ساتھ کھیلتے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا گولڈی نے اپنے گھر سے باہر آنا جانا شروع کر دیا۔ دن بھر باہر پھرتی مگر شام کو ضرور لوٹ آتی۔

گھر والے اس کا بہت خیال رکھتے بالکل جیسے کوئ اپنے پالتو جانور کا خیال رکھتا ہے۔ بیمار ہوتی تو ڈاکٹر کے پاس لے جاکر دوائ دے کر دوبارہ اسے صحت مند کیا جاتا۔ چند دن پہلے انہوں نے محسوس کیا کہ گولڈی کچھ سست سی رہنے لگی ہے، کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھاتی اور ان کے ساتھ اٹھکھیلیاں بھی نہ کرتی۔ ایک دو دن کی بات ہوتی تو ٹھیک تھا مگر وہ مسلسل سست رہنے لگی۔ جب بچے سکول سے لوٹتے گولڈی گیٹ کے باہر ان کا استقبال کرنے کے لۓ موجود ہوتی۔ بچوں کا اسے پیار سے تپھتپھانا گولڈی کو ایک انوکھی خوشی اور نئ توانائ دینے کا باعث بنتا۔ پانچویں دن جب وہ لوگ اسے ڈاکٹر کے پاس لے گۓ تو وہ دن اس گھرانے کے لۓ ایک انجانی سی خوشی لایا تھا۔ جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ گولڈی ماں بننے والی ہے وہ بھی ایک یا دو کی نہیں پورے آٹھ بچوں کی۔ بس پھر کیا تھا انہوں نے باقاعدگی سے گولڈی کو ڈاکٹر کے پاس لے جاکر معائنہ کروانا اپنے اوپر جیسے فرض کر لیا۔ سب بالکل ٹھیک چل رہا تھا، بچوں کی پیدائش میں کچھ ہی وقت رہ گیا تھا کہ۔۔۔۔

شام ہونے کو تھی گولڈی اپنی ہی گلی میں چہل قدمی کر رہی تھی کہ اچانک ایک تیز رفتار گاڑی اسے زبردست ٹکرمارتی دندناتی ہوئ نکل گئ۔ گلی کے گارڈ خان بابا نے گھنٹی بجا کرگھر والوں کو اس حادثے کی خبر دی۔ بس پھر کیا تھا فوراً ہی گاڑی نکال کر ڈاکٹر کے لے جایا گیا۔ ڈاکٹر نے فوری طبی امداد دی اور ساتھ ہی گولڈی کے ہاں آٹھ نومولود آ گۓ۔ بات تو خوشی کی ہوتی اگر وہ حادثہ رونما نہ ہوا ہوتا۔ آٹھ میں سے دو بچے تو کچھ سانسیں لینے کے بعد ہی مر گۓ کیونکہ گولڈی کو بیرونی کے ساتھ ساتھ اندرونی چوٹیں بھی لگی تھیں۔

چھ بچوں کے ساتھ وہ لوگ گولڈی کو واپس لے آۓ۔ اسے اسکے گھر پر چھوڑ کر بچوں کی والدہ دودھ میں ہلدی ملا کر لے آئیں۔ گولڈی میں طاقت نام کو باقی نہ تھی کیونکہ زخم اس کے جسم پر ہی نہیں روح پر بھی لگے تھے۔ ماں کے ساتھ بچوں کی حالت بھی کچھ خاص بہتر نہیں تھی۔ ان لوگوں نے گولڈی کا بھرپور خیال رکھا کبھی یخنی دیتے تو کبھی دودھ ہلدی۔ دوائ بھی وقت پر لگائ جاتی۔

ایک دن گولڈی اپنے گھر سے بمشکل تمام باہر آئ اور گیٹ کے باہر لیٹ گئ۔ بچے بھی اس کے پاس ہی تھے جو ماں کی آغوش میں خود کو محفوظ تصور کر رہے تھے۔ مگر ان چھ میں سے تین کمزوری کے باعث زندگی کی بازی ہار گۓ۔ تھوڑی دیر بعد گولڈی اپنے گھر جانے کے لۓ اٹھی تو اسے اپنے تین بچوں کی موت کا علم ہوا۔ یہ جانتے ہی اس نے ایک درد بھری آواز نکالی اور آنسو اس کی آنکھوں کی زینت بن گۓ۔ گھر والے باہر آۓ تو گولڈی کی بے بسی اور افسردگی اور اسکے مردہ بچوں کو دیکھ کر رنجیدہ ہو گۓ مگر وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ گولڈی نے کھانا پینا بالکل چھوڑ دیا تھا۔ ڈاکٹر سے بھی اس سلسلے میں مشاورت کی گئ۔ اس نے کہا کہ گولڈی اس وقت بہت بڑے 'ٹراما' (ذہنی صدمے) سے گزر رہی ہے، اسے نارمل زندگی کی طرف لوٹنے میں کچھ وقت لگے گا۔

خوراک کی کمی کے باعث گولڈی نے اپنے دو بچے اور کھو دیۓ۔ وہ گھرانے والے بہت افسردہ تھے کیونکہ وہ چاہتے ہوۓ بھی گولڈی کی خوشی کے لۓ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ گولڈی کے لۓ اسکی کل کائنات اسکا واحد بچ جانے والا بچہ تھا۔ مگر شاید مزید آزمائش گولڈی کی منتظر تھی۔ چند دن بعد گولڈی نے اپنا آخری بچہ بھی کھو دیا۔ اس کے بعد تو جیسے گولڈی کی دنیا ہی ختم ہو گئ۔ ہر وقت کی اداسی اور کھانے پینے سے بےرخی نے گولڈی کو نہایت نحیف کر دیا۔ یہاں ایک بات واضح کرتی چلوں کہ رب تعالٰی نے انسانوں کو ہی نہیں جانوروں، پرندوں کو بھی مامتا کے جذبے سے روشناس کروایا ہے جسے ہم انسان یکسر نظر انداذ کردیتے ہیں۔

گھر والوں کے خیال اور توجہ نے گولڈی کو کسی قدر زندگی کی طرف لانے میں مدد دی۔ دو مہینے کی مسلسل کاوشوں سے گولڈی کے جسم اور روح کے زخم شاید بھر گۓ۔ اب گولڈی دوبارہ گھر سے باہر جاتی اور وقت پر واپس آ جاتی ہے مگر ایک واضح تبدیلی جو اس میں رونما ہوئ ہے وہ یہ کہ وہ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں سے بہت ڈرنے لگی ہے۔

خان بابا نے گھر والوں کو اس بات سے آگاہ کر دیا تھا کہ گولڈی کو ٹکر پڑوس والوں کے کم عمر بچے کی گاڑی سے لگی تھی۔ وہ بچہ جو صرف 14 ۔ 13 سال کا ٹھہرا ہو گا۔ بچوں نے چاچو سے کہا کہ ہمیں پولیس میں اس حادثے کی رپورٹ کروانی چاہیۓ کیونکہ جانوروں کے حقوق پر بھی تو کوئ قانون ہو گا ناں۔ چاچو نے نہایت دل گرفتگی سے بچوں کو سمجھایا کہ بیٹا جس ملک میں انسانوں کو انصاف نہ مل سکے وہاں جانوروں کو کون پوچھے گا، اس لۓ رپورٹ کروانے کا کوئ فائدہ نہ ہو گا۔ افسوس صد افسوس۔

 

Asma Ahmed
About the Author: Asma Ahmed Read More Articles by Asma Ahmed: 47 Articles with 44908 views Writing is my passion whether it is about writing articles on various topics or stories that teach moral in one way or the other. My work is 100% orig.. View More