بلا ٓخر تقریباً آٹھ ماہ کی سماعت کے بعد
یکم اکتوبر 2011ء کو راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے جج
پرویز علی شاہ نے اڈیالہ جیل میں محافظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم
غازی ملک ممتاز حسین قادری کو سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے مقدمہ قتل
میں سزائے موت سناتے ہوئے کہا کہ ” کہ کسی فرد واحد کو اختیار نہیں دیا جا
سکتا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کون مرتد اور غیر مسلم ہے اور نہ ہی کسی فرد کو
یہ اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ لوگوں کو سزا دے کیونکہ اِس سے معاشرے میں
انارکی کا راستہ ہموار ہوگا،عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ ملزم کے
اقدام نے عام لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کیا جو دہشتگردی کے زمرے میں آتا
ہے اِس لیے ملزم کو انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفعہ 7 اور تعزیرات پاکستان کی
دفعہ 302 کے تحت دوبار سزائے موت دی جاتی ہے،عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا
کہ انہیں دو لاکھ روپے بطور معاوضہ مقتول کے ورثاءکو ادا کرنا ہونگے،معاوضہ
کی عدم ادائیگی کی صورت میں ممتاز قادری کوچھ ماہ قید بامشقت بھی کاٹنا
ہوگی،عدالت نے اپنے فیصلے میں تسلیم کیا کہ گستاخ رسول کی سزا موت ہے،لیکن
اِس کیلئے ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا قانون موجود ہے،عدالت نے غازی
ممتاز قادری کو سات یوم کے اندر سزائے موت کے خلاف اپیل کی اجازت بھی دی ۔
سزائے موت کا فیصلہ سن کر غازی ممتاز حسین قادری نے خوشی سے نعرہ تکبیر
بلند کیا اور مسکراتے ہوئے” الحمد اللہ رب العالمین “ کے الفاظ ادا
کئے،جبکہ ممتاز قادری کی اہلیہ نے اِس فیصلے کو انتہائی تحمل سے سنا اور
کہا کہ میرے شوہر نے ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے جو قدم اٹھایا
اُس پر میں فخر کرتی ہوں،اِس کے لئے ضرورت ہو تو میں اپنا دس ماہ کا بیٹا
محمد علی بھی قربان کرنے کو تیار ہوں،ممتاز قادری کے والد نے فیصلہ سنتے ہی
اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور کہا کہ میں ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم
کےلئے اپنی ساری اولاد قربان کرنے کو تیار ہوں،غازی ممتاز قادری نے سزائے
موت کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے،جبکہ غازی
ممتاز قادری کے وکلاء اور علمائے کرام اپیل کا حق استعمال کرنے پر اصرار
کررہے ہیں،غازی ممتاز قادری کے وکیل ملک رفیق کا موقف ہے کہ ایک واقعہ میں
کسی بھی ملزم کو دو مرتبہ سزائے موت نہیں دی جاسکتی،اُن کا کہنا ہے کہ
اگرچہ عدالت نے غازی ممتاز قادری کے بیان کی بنیاد پر مقدمے کا فیصلہ سنایا
ہے اور اُسے قتل کے الزام میں سزائے موت دی ہے،تاہم اِس کیس میں دہشت گردی
کی دفعہ کے تحت کوئی ثبوت سامنے نہیں لائے گئے،غازی ممتاز قادری کے وکیل کا
کہنا ہے کہ اِس مقدمے کی گزشتہ سماعت کے دوران یہ طے ہوا تھا کہ استغاثہ کے
وکیل سیف الملوک کی جانب سے جمع کروائے گئے تحریری جواب پر وہ جواب الجواب
دلائل دیں گے لیکن ایسا نہیں کیا گیا،ملک رفیق کا یہ بھی کہنا ہے کہ پتہ
نہیں متعلقہ عدالت کے جج پر کونسا دباؤ تھا جس کی بنا پر وہ ہفتے کے روز
صبح آٹھ بجے ہی عدالت میں چلے گئے اور انہوں نے فوری فیصلہ بھی سنا
دیا،انہوں نے عدالتی فیصلے کو جانبدارانہ قرار دیا،دوسری طرف غازی ممتاز
قادری کے خاندان والوں نے انسداد دہشت گردی کی عدالت سے عجلت میں سنائی
جانے والی سزا پر تحفظات کا اظہار کیا ہے،ممتاز قادری کے بھائی دلپذیر
اعوان کا کہنا ہے کہ وہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے خلاف کوئی
اپیل نہیں کریں گے کیونکہ اُن کا بھائی اِس فیصلے سے بہت خوش ہے ۔
واضح رہے کہ غازی ملک ممتاز حسین قادری کی سزائے موت کی بنیاد وہ بیان ہے
جواُس نے اسلام آباد کے ایک جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے دیا تھا،جس میں انہوں
نے سلمان تاثیر کو قتل کرنے کے اعتراف کرتے ہوئے اِسے اپنا ذاتی فعل قرار
دیا تھا اور کہا تھا کہ” میں نے 31دسمبر 2010ء کو مسلم ٹاون میں ہونے والی
ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس سے متاثر ہوکر گورنر سلمان تاثیرکو
واجب القتل مانتے ہوئے قتل کاارادہ کیا،میری دعاہے کہ اللہ تعالٰی اور اُس
کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم میری قربانی قبول فرمائیں،مجھے کوئی افسو س
نہیں ہے،بلکہ میں بہت خوش ہوں کہ اب گستاخان رسول کافی عرصہ اپنے مذموم
عزائم سے باز رہیں گے،میری نظر میں سلمان تاثیر گستاخ رسول اور واجب القتل
تھا،کیونکہ اُس نے ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کوکالا قانون
کہا اور گستاخ رسول آسیہ مسیح کی حمایت ومعاونت کی،چنانچہ میں نے گورنر
سلمان تاثیر کو واجب القتل مانتے ہوئے قتل کا ارادہ کیا اور قتل سے قبل
اپنے پرس میں ایک چٹ ڈالی جس پر لکھا تھا کہ”گستاخ رسول کی سزا موت ہے“موت
تو ایک دن آنی ہے تو پھر ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر جان قربان
ہوجائے توکیاکہنا۔“اِس میں شک نہیں کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت
قتل کی سزا،سزائے موت ہے اور قانون چونکہ لوگوں کے مذہبی جذبات کو اہمیت
نہیں دیتا اِس لئے غازی ممتاز قادری کے لئے سزائے موت کا فیصلہ سنایا
گیا،کیونکہ انہوں نے بڑی دلیری کے ساتھ عدالت کے روبرو اقرار کیا تھا کہ
انہوں نے سلمان تاثیرکو قتل کرکے اپنا دینی فریضہ پورا کیا ہے ۔
قارئین محترم ! غازی ممتاز قادری کے خلاف فیصلے نے عوام کے جذبات کو شدید
ٹھیس پہنچائی ہے اور ملک بھر کے عوام اپنے جذبات کا بھر پور اظہار کر رہے
ہیں،یہ بالکل ویسا ہی منظرنامہ ہے جیسے تقسیم سے پہلے گستاخ رسول راج پال
کے زمانے میں تھا،جب غازی علم دین شہید کو ملنے والی سزا کی توثیق ایک
انگریز جج نے کی تو متحدہ ہندوستان کے ہر شہر،قصبے،گاﺅں اور کوچے کے لوگ
سڑکوں پر آگئے تھے،آج وہی منظر نامہ اسلام کے نام پر حاصل کی گئی سرزمین
پاکستان میں نظر آرہا ہے،عدالتی فیصلہ آنے کے بعدغازی ممتاز قادری کے
ہزاروں حامیوں نے اڈیالہ جیل کے باہر جج ہوکر عدالت اور حکومت کے خلاف
زبردست نعرے بازی کی،فیصلہ آتے ہی ملک بھر میں مذہبی اور دینی جماعتوں کی
جانب سے بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے،تحریک ناموس رسالت
صلی اللہ علیہ وسلم کے سربراہ اور جمعیت علماءپاکستان کے صدر صاحبزادہ ابو
الخیر محمد زبیر نے لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اِس فیصلے کی
مذمت کی،اُن کا کہنا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے تحفظ
کےلئے ہم کسی دنیاوی قانون کے پابند نہیں ہیں اور ہم اِس فیصلے کو شریعت کے
منافی تصور کرتے ہیں،انہوں کہا کہ پوری قوم توقع کررہی تھی کہ عدالت ناموس
رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کو کالا قانون کہنے والے کے قتل پر اسلامی اصولوں
کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرے گی،لیکن ایسا نہیں کیا گیا،اِس غیر شرعی فیصلے
نے پورے پاکستان میں دین اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے
والوں کو شدید صدمے سے دوچار کردیا ہے،انہوں نے کہا کہ غازی ممتاز قادری کے
دفاع کیلئے تحریک ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجلاس طلب کیا جارہا
ہے،جس میں غازی ممتاز قادری کی سزائے موت کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کا
فیصلہ کیا جائے گا،اسی طرح دیگر علماء،سیاسی و مذہبی جماعتوں اور تنظیموں
کی جانب سے بھی اِس فیصلے خلاف7 اکتوبر کو ملک بھر میں”یوم احتجاج“ اور ملک
گیر ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے ۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ اِس فیصلے نے پاکستان میں نام نہاد مسلم حکمرانوں کے
حقیقی چہروں کو بے نقاب کردیا ہے،ہمارے حکمرانوں میں اتنی بھی جرات نہیں
تھی کہ وہ اِس مقدمے کی سماعت کھلی عدالت میں کرواتے،حالانکہ ممتاز حسین
قادری نے سلمان تاثیر کو قتل کرنے کے بعد اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کردیا
تھا،اِس مقدمے کی سماعت نہ صرف بند کمرے میں ہوئی بلکہ اِس کےلئے اڈیالہ
جیل کا انتخاب کیا گیا،مقدمے کی سماعت کے طریقہ کار اور فیصلے پر اسی لیے
تنقید اور تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے کہ جتنی تیزی کے ساتھ سماعت کرکے
فیصلہ سنایا گیا ہے،اُس کی مثال ہماری عدالتی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے،یہاں
یہ اَمر بھی قابل ذکر ہے کہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بارے میں انسداد
دہشت گردی کی عدالت نے تسلیم کیا ہے کہ گستاخ رسول کی سزا موت ہے اور وہ
واجب القتل ہے،لیکن عدالت نے اعتراف جرم کے باوجود غازی ممتاز حسین قادری
کو دہشت گردی کا مجرم بھی قرار دیا،حالانکہ پورے ملک میں دہشت گردوں نے آگ
لگائی ہوئی ہے،لیکن آج تک ایک بھی دہشت گردی کے مجرم کو سزا نہیں دی
گئی،اسی طرح 900 کے قریب توہین رسالت کے کیس رجسٹرڈ ہونے کے باوجود آج تک
کسی گستاخ رسول کو تختہ دار پر نہیں چڑھایا گیا،جبکہ ایمان اورحب رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کا تقاضا پورا کرنے والے پاکستانی مسلمانوں کے ہیرو غازی
ممتاز قادری کو انتہائی جلد بازی میں سزا سنادی گئی،درحقیقت انسداد دہشت
گردی کی عدالت کا یہ فیصلہ اُس انگریزی عدالت سے بھی بدترفیصلہ ہے جس نے
غازی علم دین کو سزائے موت دی تھی،ویسے بھی پاکستان کی عدالتی اور قانونی
تاریخ میں خصوصی عدالتوں اور انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلوں کو کبھی
بھی اعتبار نہیں مل سکا،خود پیپلزپارٹی کی حکومت اور سابق وزیراعظم بے نظیر
بھٹو اپنے خلاف انہی عدالتوں کے فیصلوں کو” کنگرو کورٹس“ کے فیصلے قرار دے
چکی ہیں ۔
مگر آج سب سے زیادہ افسوس اِس بات کا ہے کہ ایسے مشتبہ اور حالات واقعات کے
حقیقی تناظر کو نظر انداز کرکے دیئے جانے والے فیصلوں پر تبصرہ کرنے سے
پیپلزپارٹی سمیت اکثر روشن خیال مغرب اور امریکہ نواز عناصر خاموش ہیں،اگر
پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت امریکہ اور وٹیکن کے دباؤ میں آکر قانون توہین
رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتمے کے لیے متحرک نہ ہوتی تو یہ سانحہ پیش
نہ آتا،اِس لیے عدالت کے فاضل جج کایہ تبصرہ ادھورا ہے کہ گستاخ رسول کی
سزا موت ہے،وہ واجب القتل ہے، لیکن کسی بھی فرد کو خود سزا دینے کا اختیار
نہیں،شاید فاضل جج یہ بھول گئے کہ جب اِس قانون کے خاتمے کے لیے تحریک چل
رہی تھی اور سابق گورنر پنجاب اِس قانون کو سیاہ قانون قرار دے رہے تھے تو
اُس وقت علمائے کرام اِس قانون کے حق میں یہی دلیل دے رہے تھے کہ اگر حکومت
اِس قانون کو ختم کردے گی تو لوگ خود فیصلہ کریں گے،فاضل جج اِس اہم بات کو
بھی نظر انداز کرگئے کہ ایمان و عقیدے سے تعلق رکھنے والے اُمورہر چیز سے
بالا تر ہوتے ہیں،ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اپنی جان تو کیا
لوگ اپنے جگر گوشوں بھی قربان کردیتے ہیں،مگر پاکستان میں مغرب زدہ سیکولر
اقلیت اور ذہنی غلام قیادت اِس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے،حالانکہ حکمرانوں
کو تو اسی وقت عبرت پکڑنی چاہیے تھی جب انہیں لاہور جیسے بڑے شہر میں سلمان
تاثیر کی نماز جنازہ پڑھانے والا اور پڑھنے والا نہیں ملا،اب انہوں نے جلد
بازی میں غازی ممتاز قادری کو سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا ہے،مگر اُس نے
تو پہلے ہی ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کےلئے اپنی جان قربان کرنے کا
فیصلہ کرلیا ہے،تم اُسے تختہ دار پر لٹکاکر ختم کرنے نہیں بلکہ ہمیشہ کیلئے
اَمر کرنے جارہے ہو ۔
یقینا آنے والا کل شہیدانِ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ میں
ایک اور غازی کے اضافے پر نازاں ہوگا،کیونکہ غازی ممتاز قادری ناموس رسالت
صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کےلئے غازی علم دین،غازی عبدالرشید اور غازی
عبدالقیوم کا راہ اختیار کرکے اپنی منزل مراد کی جانب گامزن ہوچکا ہے،اب وہ
زندہ رہے یا شہید ہوجائے،اُس نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مظاہرہ
کرکے دنیا و آخرت دونوں جگہ سرخروئی حاصل کرلی ہے،آج غازی ممتاز قادری اِس
اعزاز پر جہاں مسرور ونازاں ہے،وہیں فدائیان ختم نبوت اِس فیصلے سے سخت
مضطرب اور دل گرفتہ ہیں اور اِسے مسترد کرتے ہوئے حکومت وقت اور عدالت
عالیہ سے سوال کرتے ہیں کہ کیاشاتم رسول کی حمایت اور اُسے سزا سے معافی
دلانے کا جرم زیادہ سنگین ہے یا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کی
خاطر اشتعال میں آگر قتل جیسی واردات کا ارتکاب ؟ اپنے فیصلے میں فاضل جج
نے بالواسطہ طور پر یہ تو تسلیم کیا کہ سلمان تاثیر توہین رسالت کے مرتکب
ہوئے تھے،مگر کیا فاضل عدالت اور ارباب ا ختیار نے اِس حوالے سے اپنی ذمہ
داریاں ادا کیں؟ کیا پاکستان جیسے نظریاتی اور اسلامی ملک میں قانون تحفظ
ناموس رسالت 295C کے مطابق کبھی کسی گستاخ رسول کو قرار واقعی سزا دی
گئی،اُسے نشان عبرت بنایا گیا؟ اگر نہیں تو پھر غازی ممتاز قادری جس نے
مذہبی جذبات سے مغلوب ہوکر یہ ذمہ داری اداکی،تو کونسا جرم کیا؟ کیا اسلامی
ملک کی عدالت تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے دینی فریضہ کی
ادائیگی پر ایک عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سزائے موت سناتی ہے؟ جب
ریمنڈ ڈیوس جیسے تین بے گناہ پاکستانیوں کے قاتل اور مملکت کے دشمن کو ملک
کے عمومی قانون کے ہوتے ہوئے اسلامی قانون دیت کا سہارا لے کر رہا کیا
جاسکتا ہے تو پھر ممتاز قادری کے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ اُسے کیوں
قانون توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کے باوجود برطانوی قانون
کے مطابق سزا سنائی جاتی ہے؟ فدایان ختم نبوت سمجھتے ہیں کہ اگر ایسے ہی
فیصلے کیے جاتے رہے تو ملک انار کی شکار ہوجائے گا،کیونکہ مسلمان سب کچھ
برداشت کرسکتے ہیں لیکن کسی کو گستاخ رسول یا اُس کے حمایتی کو اِس بات کی
اجازت نہیں دے سکتے کہ اُس کے ناپاک اور غلیظ ہاتھ عفت اور حرمت رسو ل صلی
اللہ علیہ وسلم تک پہنچیں ۔ |