قومی انتخاب سے قبل بی جے پی نے ایک نہایت پرفریب نعرہ
لگایا تھا ’جو رام کو لائے ہیں ،ہم ان کو لائیں گے‘۔ ایودھیا کے پارلیمانی
حلقہ میں شکست کے بعد پتہ چلا کہ عوام نے بی جے پی کا ہی رام نام ستیہ
کردیا۔ اس کے بعد ہری دواراسمبلی کے ضمنی انتخاب میں ہارکے بعد زعفرانیوں
پر ہری کا دوار(دروازہ) بھی بند ہوگیا ۔ اب تو یہ نعرہ لگ رہا ہے کہ
’ایودھیا اور ہری دوار تو جھانکی ہے ، کاشی متھرا باقی ہے‘ یعنی اگلی بار
ان دو نشستوں پر بھی کمل مرجھا جائے گا ۔بی جے پی کے اندر آج کل اس سوال
پر خاصہ غوروخوض ہورہا ہے کہ آخر اترپردیش میں ایسی کراری ہار کیوں ہاتھ
لگی ؟ یہاں نزاکت یہ ہے کہ لوگوں کے اندر اس کے اصل ذمہ داروں مودی اور شاہ
کے خلاف بولنے جرأت نہیں ہےتولوگ باگ یوگی کے پیچھے پڑ گئے۔ پہلے حلیف
جماعتوں اپنا دل اور نشاد پارٹی کی جانب سے باقائدہ خطوط لکھوا کر حملے
کرائے گئے اور اب پارٹی کے اندر سے ارکان اسمبلی رمیش چندر مشرا، موتی سنگھ
اور فتح بہادر سنگھ نے کھلے عام یوگی انتظامیہ پر تنقید کردی ۔
تو تو میں کے اس سلسلے میں ایک بی جے پی رہنما کے ذریعہ سب سے دلچسپ وجہ یہ
انتظامیہ کا عدم تعاون سامنے آ گیا۔ حزب اختلاف کا یہی تو الزام تھا کہ
اپنی کارکردگی ، پارٹی یا آر ایس ایس کے بل بوتے پر نہیں بلکہ انتظامیہ کی
غیر قانونی مدد سے جیت حاصل کرتی ہے اس طرح یہ گویا اعتراف جرم ہوگیا۔ بی
جے پی یوپی کے ریاستی صدر بھوپیندر چودھری نے جائزے کی نشست میں اکھلیش کو
عجیب و غریب مشورہ دےکر ساری دنیا کو چونکا دیا ہے۔ اترپردیش میں بی جے پی
کے دو دشمن اکھلیش یادو اور مسلمان ہیں۔ اس دشمنی کے باوجود بھوپیندر
چودھری نے اکھلیش کو خبردار کیا کہ کانگریس حمایت سے جیتتی ہے لیکن وہ بھول
گئے کہ ا یسا تو بی جے پی بھی کرتی ہے۔ اسی لیے اس نے این ڈی اے بنارکھی
ہےاورخود یوپی میں اس کے اندر اپنا دل، ایس بی ایس پی، نشاد پارٹی اور آر
ایل ڈی شامل ہیں ۔ یہ کام دوسروں کے بھلے خاطر نہیں بلکہ اپنے فائدے کے لیے
کیا گیا ہے۔ بھوپیندر سنگھ نے کہا کانگریس نے کبھی کسی کا بھلا نہیں کیا۔
یہ بات اگر درست ہوتب بھی بی جے پی نے اپنی حلیف شیوسینا کے ساتھ کیا کیا؟
تروپتی پاسوان اور نوین پٹنایک کو کیسی پٹخنی دی؟ بھوپیندرچودھری یہ بھی
بولے کہ کانگریس کے پاس کوئی نظریہ نہیں ہے یہ الزام اگرصحیح ہے تو انہیں
بتانا چاہیے کہ بی جے پی کانگریسیوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے ٹکٹ کیوں
دیتی ہے؟ بھوپیندر سنگھ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ بابا صاحب نے کانگریس کو
کبھی کچھ نہیں سمجھا۔یہ بات اگر درست ہے تو وہ بتائیں کہ بابا صاحب کو وزیر
قانون بناکر آئین ساز کمیٹی کا سربراہ کس نے بنایا؟
بھوپیندر سنگھ کے مطابق کانگریس ایک موروثی پارٹی ہے ایسے میں انہیں بتانا
چاہیے کہ بی جے پی نے بانسری سوراج اور اشوک چوہان جیسے کتنے لوگوں کو رکن
پارلیمان بنایا ہے۔ کانگریس پر لوہیا کو اپنا آئیڈیل نہیں ماننے والوں کو
یہ بتانا چاہیے کہ کیا سنگھ کے مرجع الخلائق منو ،گولوالکر اور مسولینی
نہیں ہیں ؟ اکھلیش یادو کا نام لےکر بھوپیندر چودھری نے کہا، ‘اکھلیش جی،
میں آپ کو خبردار کر رہا ہوں، ہوشیار رہیں۔ کانگریس پارٹی کی نظر آپ کے ووٹ
بینک پر ہے، یہ بھسماسر ہے اور اس کی نظر آپ کے مسلم ووٹ بینک پر ہے۔سوال
یہ ہے کہ مسلم ووٹ سے یوگی پہلے ہی دستبردار ہوچکے ہیں ایسے میں وہ
سماجوادی کے ساتھ رہے یا کانگریس کے پاس چلا جائے اس سے بی جے پی کو کیا
فرق پڑتا ہے؟ بھوپیندرچودھری کو اصل پریشانی اس بات سے ہے کہ وہ خود تو کسی
کو اپنے ساتھ نہیں لاسکے مگر کانگریس برہمنوں اور دلتوں کو اکھلیش کے ساتھ
لے کر جارہی ہے جو بی جے پی کا سیدھا نقصان ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی سمیت
بی جے پی کے سارے رہنماوں کے اعصاب پر فی الحال کانگریس سوار ہے۔ مودی نے
ایوان میں کانگریس کے پیچھے پڑگئے اور بھوپیندر سنگھ نے پارٹی کی میٹنگ میں
وہی بھونپوں بجا دیا۔
ایودھیا میں بی جے پی کی شکست چراغ تلے اندھیرے کی علامت ہے۔ اس نے ظاہر
کردیا کہ آدھے ادھورے مندر کا بڑے تام جھام سے افتتاح نہ تو ملک بھر میں
بی جے پی کا بیڑہ پار کرسکا اور نہ مقامی سطح پر کام آسکا ۔ مندر مسجد کی
گھناونی سیاست کا غبارہ اپنی انتہا پر پہنچ کر پھوٹ گیا ۔ اس نے نہ صرف
ایودھیا بلکہ وسطی اترپردیش یعنی اودھ میں بھی بی جے پی کی کمر توڑ دی ۔ اس
علاقہ میں کل 20 نشستیں ہیں۔ ان میں سے صرف 9؍ بی جے پی کے حصے میں آئیں
جبکہ سماجوادی اور کانگریس نے بالترتیب 7 اور4 پر کامیابی حاصل کرکے اپنی
برتری ثابت کردی ۔ ان میں رائے بریلی، امیٹھی ، سلطانپور اور لکھنو بہت
اہمیت کی حامل نشستیں سمجھی جاتی تھیں ۔ رائے بریلی میں تو خیر راہل گاندھی
نے زبردست کامیابی حاصل کی مگر امیٹھی اور سلطانپور سے بھی بی جے پی کی
سمرتی ایرانی اور مینکا گاندھی ہار گئیں ۔ لکھنو سے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ
کی جیت کا فرق ساڑھے تین لاکھ سے گھٹ کر ڈیڑھ لاکھ پر آگیا ۔ ایودھیا کے
قرب و جوار کے رائے دہندگان نے بدعنوانی ٹپکتی چھت میں رام کو براجمان کرنے
کی سزا بی جے پی کو دے دی اور اسے بتا دیا کہ ’نہ تم رام کو لائے ہو ،نہ ہم
تم کو لائیں گے‘۔
یہ دونوں ہندووں کے مذہبی مقامات اور وہاں کی سیاسی تاریخ نہایت دلچسپ ہے ۔
1991 سے قبل وہاں جن سنگھ یا بی جے پی نے کبھی کوئی کامیابی درج نہیں کرسکی
تھی حالانکہ کانگریسیوں کے علاوہ اشتراکی بھی ان حلقۂ انتخاب سے کامیاب
ہوچکے تھے ۔ رام مندر تحریک کے طفیل پہلی بار بجرنگ دل کے فائر برانڈ رہنما
ونئے کٹیار کو ایودھیا یعنی فیض آباد حلقہ انتخاب سے کامیابی ملی اور وہ
لگاتار دوبار جیتے مگر 1998 میں سابق اشتراکی امیدوار مترسین نے ونئے کٹیار
کو ہرا دیا مگر اگلے سال ہونے والے الیکشن میں ونئے کٹیار پھر سے جیت گئے۔
2004 میں مترا سین نے بہوجن سماج پارٹی کے ٹکٹ پر اور 2009 میں کانگریس کے
نرمل کھتری نے ونئے کٹیار کو شکست سے دوچار کردیا ۔ اس کے بعد دومرتبہ بی
جے پی کے للو سنگھ وہاں سے جیتے اور اس بار سماجوادی پارٹی کے اودھیش سنگھ
پاسی نے ان کو بھی ہرا دیا۔
مندرجہ بالا تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ ملک بھر میں ایودھیا کے رام مندر کو
لے کر سیاست کرنے والوں پکڑ آس پاس کے علاقوں میں بہت زیادہ مستحکم نہیں
رہی ہے۔ دور دراز کے مقامات ہندو سماج کو مسلمانوں سے متنفر کرکے اپنے قریب
کرنے اور اسی علاقہ کے رائے دہندگان کا دل جیتنے میں بہت بڑا فرق ہے ورنہ
1991 کے بعد چار مرتبہ بی جے پی کو فیض آباد حلقۂ انتخاب میں شکست فاش سے
دوچار نہیں ہونا پڑتا۔ یہ دلچسپ صورتحال ہے کہ جب جو بھی فیض آباد کی سیٹ
جیت جاتا ہے وہ اسے ایودھیا کہنے لگتا ہے اور ہارنے والا فیض آباد کہہ کر
پکارنے لگتا ہے۔ رام کو لانے والوں کو جب عوام نے گھر بھیج دیا تو اب بی جے
پی کے اندر ایک مہا بھارت چھڑ گئی ہے۔ آریس ایس اس شکست کا فائدہ اٹھاکر
مودی سے چھٹکارہ پانا چاہتا ہے اور شاہ کی آڑ میں اپنے ولیعہدی کے حریف
یوگی ادیتیہ ناتھ کو ٹھکانے لگانا چاہتے ہیں ۔ اس نئی مہابھارت میں بعید
نہیں کہ دونوں فریق ایک دوسرے کو شکست فاش سے دوچار کرکے اپنے مخالفین کو
کامیاب کردیں ۔
بی جے پی نے اترپردیش میں ایودھیا کے علاوہ بنارس کے گیان واپی محلے میں
واقع جامع مسجد کا بھی سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی۔ پہلے تو
وضوخانے کے فوارے کو شیولنگ کہا گیا۔ اس کے بعد محکمہ آثار قدیمہ کی جھوٹی
رپورٹ عدالت میں پیش کرکےمسجد کےتہہ خانے میں پوجا پاٹ کی اجازت لی گئی۔ یہ
سب تماشے وزیر اعظم کے حلقۂ انتخاب میں کرنے پڑے جہاں کاشی وشوناتھ مندر
اور اس سے متعلق عمارتوں کی تعمیر کے پہلے مرحلے پر ٹیکس دہندگان کا
339کروڈ روپیہ پھونک دیا گیا۔ اس کے باوجود وزیر اعظم کی جیت کا فرق پچھلے
انتخاب کے مقابلے 4.79سے گھٹ کر 1.52کروڈپر آگیا ۔ مشرقی یوپی میں نہ صرف
وزیر اعظم نریندر مودی کی کرم بھومی وارانسی واقع ہے بلکہ گورکھ ناتھ مٹھ
بھی ہے جہاں سے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے اپنی سیاسی زندگی کی ابتداء
کرکے وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھنا شروع کیا ۔ پورانچل میں وزیر اعظم اور
وزیر اعلیٰ کی ساری کوششوں کے باوجود بی جے پی 18سے گھٹ کر 10 پر آگئی۔ اس
کے مقابلےسماجوادی پارٹی نے 14 پر جیت حاصل کی اور اپنا دل و کانگریس کے
حصے میں بھی ایک ایک نشست آئی۔ یہ قرآن حکیم کے اس آیت کی تفسیر ہے کہ
کلمہ خبیثہ کی جڑیں گہری نہیں ہوتیں ارشادِ ربانی ہے:’’ اور کلمہ خبیثہ کی
مثال ایک بد ذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اُکھاڑ پھینکا جاتا ہے،
اُس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے‘‘۔
ہندووں کے نزدیک ہری دوار کا تقدس زیادہ ہے۔ سنسکرت زبان میں خدا کا ترجمہ
چونکہ’ ہر‘ بھی ہوتا ہے اس لیے ہری دوار کو 'گیٹ وے ٹو گاڈس' کے نام سے بھی
جانا جاتا ہے ۔ اس لحاظ سے شیو کے پیروکار ہر دوار اور وشنو کا ایک نام
’ہری ‘ بھی ہے اس لیے وشنو بھگت اس مقام کو ہری دوارکہتے ہیں ۔ یہ دیو
بھومی اور چار دھام یعنی بدری ناتھ، کیدارناتھ، گنگوتری اور یمونوتری میں
داخلے کا نقطہ ہے اس لیے ایودھیا سے زیادہ ہندو وہاں آتے ہیں۔
ہری دوار کے اسمبلی حلقہ میں
میں بی جے پی کی پکڑ
|