جھیل سیف الملوک کی سیر

لاہور کا جون اور بجلی کا بل، اس وقت ہر کوئی شمالی علاقوں کا رخ کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ چند دن ان چیزوں سے دور جا سکے جو کہ گرمی کے موسم میں ناگزیر ہوتی ہیں ۔ ہم نے بھی اپنے خیالی پلاؤ کو حقیقی رنگ دینے کی ٹھان لی اور اپنے بجٹ کو سامنے رکھتے ہوئے آن لائن ہوٹل کی بوکنگ کروائی جس میں کئی طرح کی کوفیتں برداشت کرنا پڑیں لیکن اپنے ملک میں اب یہ چیزیں عام سی لگتی ہیں ۔ اللہ کا نام لیتے ہوئے اپنے سفر کا آغاز کیا اور ہماری منزل ناران کی وادی ٹھری ۔ جب بھی کوئی سفر کا آغاز کیا جاتا ہے تو عجیب سی خوشی اور جذبہ آپ کے ساتھ ہوتا ہے اور اسکی وجہ سے ہم بہت سی کوفیتں اور تکلیفوں کو برداشت کرلیتے ہیں ۔ جب ہم کوئی گیارہ گھنٹوں کی مسافت طے کر کے ناران اپنے ہوٹل پہنچے تو اسکی کھڑکی سے ناران ویلی کا خوبصورت منظراتنی لمبے سفر کی تھکان دور کرنے کے لیے ایک میڈیسن سے کم نہیں تھا۔ قدرت کی خوبصورت سینری جس میں پہاڑ ، دریا ، کھیت اور پائن کے لہلہاتے درخت سب کچھ تھا سبحان اللہ
۔
رات کو ہم نے ہوٹل کے کاؤنٹر پر جا کر سیف الملوک جھیل کے راستے کے بارے میں پوچھا توہم پر انکشاف ہوا کہ اس راستے پر صرف جیپ 4/4 ہی جاتی ہے اور صبح جیپ اور ڈرائیور کا انتظام ہو جائے گا ۔

سیف الملوک جھیل جو وادی کاغان کے شمال میں ناران کے قصبے کے قریب واقع ہے۔ یہ سطح سمندر سے 3,224 میٹر (10,578 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے، اور پاکستان کی بلند ترین جھیلوں میں سے ایک ہے۔ اسکے ساتھ یہ درخت کی لائن کے اوپر ہے۔ درخت کی لائن جس پر درخت اگنے کے قابل ہوتے ہیں اور اس سے آگے درخت نہیں اگتے ہیں۔ اس جھیل کے متعلق بہت سی طلسماتی کہانیاں وابستہ ہیں ۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ کوئی مصری شہزادہ سیف الملوک اس جھیل پر ایک پری بدرالدین کے عشق میں مبتلا ہو گیا تھا اور اس کو صوفی شاعر شاہ حسین نے اپنی شاعری میں جگہ دی۔ یہ بات ابھی بھی مانی جاتی ہے کہ پریاں یہاں آتی ہیں اس واقع کی یاد کے سلسلے میں ۔

چلیں اب اس جھیل کو خود دیکھتے کہ یہ کتنی خوبصورت ہے کہ اس کی سیر کو پریاں آتی ہیں ۔ ہمیں ہوٹل کے عملے نے آکر بتایا کہ آپکی جیب آچکی ہے اور آپ جلدی سے باہر تشریف لے آئیں ہم نے اپنا بیگ پکڑا اور ہوٹل کے باہر آگے ہم نے ادھر ادھر نظر دوڑائی کہ جیپ کہاں ہےہم نۓ ماڈل کی جیپ کا تصور کر رہے تھے لیکن یہ جیپ نے ہمیں بلیک اینڈ وائٹ فلموں کی یاد دلا دی۔ لیکن اسکا رنگ سرخ تھا ۔ اب اس میں بیٹھنے کا مرحلہ بھی کسی مرکع سے کم نہیں تھا ۔ ڈرائیور نے تسلی کر کے اسکو اسٹارٹ کیا اور ہمارا سفر جھیل کی طرف گامزن ہوا۔ اگر آپ نے پطرس بخاری کی سائیکل کا مضمون پڑھا ہوا ہے تو اس جیپ کی بھی حالت بھی ویسی ہی تھی یعنی چلنے کے ساتھ ہی اس میں آوازیں ، اسکی تھڑتھڑاہٹ اور ساتھ میں ڈیزل کی خوشبو نے تو ماحول کو مزید سہانا کر دیا۔ ہم پوری طرح سے اپنے آپ کو سمجھا نہیں پایے تھے کہ ڈرائیور نے ہمیں کہا کہ اپنے آپ کو سنبھال کر بیٹھ جائیں کیونکہ جھیل کی روڈ شروع ہو گئی ہےاور یہاں جھٹکے محسوس ہوں گے ۔ محسوس کرنا شاید اس نے کثرنفسی میں کہا تھا۔ صرف محسوس نہیں بلکہ آپ کا پورا جسم یقین دلاتا ہے کیونکہ اس کو روڈ نہیں کہا جاسکتا ہے بلکہ یہ چھوٹے بڑے پتھروں کا ٹریک ہے اور اور اوپر سے جیپ کی حالت ۔ میری ان تمام حضرات سے گزارش ہے کہ جو کسی قسم کی کمر یاکسی اور تکلیف یا درد میں مبتلا ہیں تو وہ اس سفر میں جانے سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کرلیں ۔ ایک بات ذہن میں بار بار آتی کہ کیا روڈ بنانے کے ادراے کے زمہ دار افراد نے کبھی اس راستے کا سفر کیا ہےاور ان کو عوام کی تکلیف اور خطرے کا احساس ہے۔

ہم اپنی منزل یعنی جھیل سیف الملوک پر پہنچ ہی گئے ۔ اس احاطے پر پہنچ کر بھی کچھ افراتفری کا سماں تھا ۔ لوگ کافی تعداد میں تھے ، ساتھ میں لا تعداد جیپس ، انکا شور اور ساتھ ہی ساتھ چھوٹے بے ترتیب کھوکھےاور انکا شور۔ خیر ہم نے کسی طرح راستہ بنا کر جھیل کی طرف بڑھے۔ اوپر سے جھیل نظر آنا شروع ہو گئی تھی ۔ اس پر نظر ڈالتے ہی سبحان اللہ کا لفظ نکلا ،یقینا قدرت کا ایک بہت خوبصورت شہکار ہے۔ جھیل کے پاس جانے کے لیے آپکو نیچے اترنا ہوتا ہے۔ سیڑھیاں اترنی ہوں گی۔ جانے اور آنے کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور کافی رش تھا ۔ نیچے اترنے کے بعد جھیل کی طرف چل دیئے بالکل ہموار راستہ نہیں اور ساتھ میں آپکودیکھ کر چلنا پڑتا ہے کیونکہ وہاں گھڑسواری کی سہولت موجود ہے اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ جہاں جانور ہوں گے تو وہاں ان کا گند اور اسکی بدبو آپکو برداشت کرنی ہوتی ہے ۔ اس بات کو نظر انداز کر کے ہم جھیل کی طرف بڑھے اور جھیل کے سحرانگیز منظر کو اپنی نگاہوں میں قید کرنےکی کوشش لگے۔ جھیل کے کنارے کے ساتھ چلتے ہوے خیال آیا کہ کہیں بیٹھ کر اس نظارے سے لطف اندوز ہونا چاہیے ۔ لیکن بیٹھنے کی وہاں کوئی جگہ دستیاب نہیں ہے ہاں کشتیوں کے اندرآپ بیٹھ سکتے ہیں جو کہ ایک کنارے پر کھڑی ہیں شاید ان پر کوئی پابندی جسکی وجہ سے وہ چل نہیں رہی تھیں ۔ہم بھی کھسیانے ہو کر اس میں بیٹھ گئے اور سبز رنگی مایل صاف پانی کو چھونے کے لیے آگے جھکے، پانی بہت ٹھنڈا تھا ۔ آپکو ایک عجیب سی تازگی کا احساس ہوتا ہے جسکو آپ بعد میں بھی یاد کر کے اس کیفیت کو محسوس کرسکتے ہیں ۔ کچھ دیر بعد ہم نے آس پاس نظر دوڑائی تو بحثیت قوم ہونے کی مجھے بہت شرمندگی کا احساس ہوا ۔ ہمارے پاس کی کشتیوں میں جو فیملیز پکنک منانے آئی ہوئی تھیں وہ وہاں بیٹھ کر بڑے جوش خروش سے پھل خوری میں مشغول تھیں اور شاید انھوں نے جھیل کو ڈسٹ بن سمجھا تھا اور سارا گند جھیل میں پھینک رہے تھے ۔ اپنے آگے دیکھا تو نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کچھ نامناسب سی ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے میں مصروف تھے ایک عجیب سا احساس ہوا کہ لوگ اپنے آپ میں زیادہ مصروف ہیں نہ کہ قدرت کے نظاروں میں ۔ ہم کشتی سے اتر کر زرا آگے گئے تو دل کو دہلا دینے والا منظر دیکھا ایک فیملی کے دو افراد جھیل کے کنارے گلیشیر کو پار کرتے ہوے افراد پھسل گئے اور وہ اپنے ہاتھ پاؤں مار رہے کہ کسی طرح اس کو عبور کرلیں وہاں کوئی سیکورٹی کا کوئی انتظام وہاں موجود نہیں ہے جو کہ آپکو کسی نا گہانی صورت حال سے بچا سکے۔ اس فیملی کے اپنے ہی افراد نے ان کو بچایا ۔ اتنے میں بارش شروع ہو گئی اور وہ بھی کافی تیز، کوئی شیڈ وغیرہ میسر نہیں ۔ ہم تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے سیڑھیوں کی جانب بڑھے۔ آپ کو سیڑھیوں میں رک رک کر آنا پڑتا ہے کیونکہ کافی چڑھائی ہے۔
مختصر کہ ہم جیپ تک پہنچ گئے اور واپسی کا سفر لیا ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ راستے میں ملک والموت سے کیا دفعہ ٹاکرا ہوتے ہوتے رہ گیا ۔

قدرت نے تو ہمیں اپنے خوبصورت شہکار سے نوازا ہے لیکن نہ ہم اس کو بہتر کر سکے ہیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہم اس کی خوبصورتی کوبھی نہیں سنبھال سکے ہیں ۔

 

Mahrukh Nazir
About the Author: Mahrukh Nazir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.