چکرویوہ کی کہانی راہل گاندھی کی زبانی

مہابھارت کا سب سے دلچسپ موڑ ابھیمنیو کا قتل ہے کیونکہ اس کے بعد جنگ کے سارے اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھنے کا جواز پیدا ہوگیا ۔ فی الحال قومی سیاست بھی مہابھارت کے اسی دور سے گزر رہی کیونکہ میں اخلاقیات کے حدود قیودپامال ہوچکے ہیں اور حلا ل و حرام یا جائز و ناجائز جیسے الفاظ بے معنیٰ ہو گئے ہیں۔ اس صورتحال پر حکومت کولگام لگانا چاہیے مگر وہ خود اس مرض میں مبتلا ہوکر بستر مرگ پر دم توڑ رہی ہے ۔مہا بھارت کے چکر ویوہ کی کہانی میں دریودھن یا ارجن کا نہیں بلکہ ان دونوں کے بیٹے ابھیمنیو اور جئے درتھ کا سیدھا مقابلہ تھا یعنی یہ سمجھ لیجیے کہ موہن بھاگوت اور نریندر مودی ایک دوسرے کے سامنے نہیں تھے بلکہ بھاگوت کی سرپرستی میں یوگی اور مودی کے اشارے پر شاہ قدیم ہندو روایت یعنی اقتدار کے لیے اپنے ہی خاندان میں ایک دوسرے سے بھڑ جانے کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔ بعید نہیں کہ اس رسہ کشی کا انجام بھی مہا بھارت جیسا ہی ہو۔

مہابھارت کےکوروکشیتر میں کورو وں نے محسوس کیا کہ لڑ کر جنگ نہیں جیت سکتے تو یدھشٹر کو قیدکرنے کا منصوبہ بنایا گیا ۔ بی جے پی اپنے مخالفین کو قابو میں کرنے کی خاطر دھڑلےّ سے اس حکمت عملی کا استعمال کرتی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے اروند کیجریوال سے لے کر ستیندر جین تک کواسی لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا گیا ۔ ویسے ہیمنت سورین ہوں یا لالو پرشاد یادو بلکہ اعظم خان سے لے کر نواب ملک تک ملک بھر میں ایسی بے شمار مثالیں ہیں کہ جب یہ سیدھا مقابلہ کرکے ہرانے میں ناکام ہوگئے تو قید بند کا حربہ استعمال کیا گیا۔ مہا بھارت کی بات کریں تو اس مقصد کے حصول کی خاطر ارجن کو ایک معرکہ میں الجھا کر میدان جنگ سے بہت دور بھیج دیا گیا ۔ اس کے بعد گرو درونا چاریہ نے پانڈووں کو اپنے چکرویوہ (سازش) میں پھنس کر جنگ کرنے یا ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کی ۔ پانڈو نے دونوں صورتوں میں ہار دیکھ کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ جنگ کے اس مرحلے میں سب سے کم عمر 16؍ سالہ ابھیمنیو نے اپنے چچا یدھشٹر سے چکرویوہ میں داخل ہوکر اسے توڑنے کی اجازت طلب کی ۔

یہ ابھیمنیو دراصل ارجن کا جگر گوشہ تھا۔ یدھشٹر منع کیا تو اس نے بتایا کہ اپنی ماں کی کوکھ میں وہ چکرویوہ کو توڑنے کا فن سیکھ چکا ہے۔ مہابھارت کی اس بات کو اگر درست مان لیا جائے کہ ابھیمنیو نے رحم مادر میں کوئی مہارت حاصل کی جاسکتی ہے تو راہل گاندھی کے پیدائشی سیاستداں ہونے پر اعتراض بے معنیٰ ہوجائے گا کیونکہ وہاں تو موتی لال نہرو سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ پنڈت نہرو ، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی سے ہوتا ہوا پانچویں نسل میں ان تک پہنچا ہے۔ ویسے ابھیمنیو کی مانند راہل گاندھی بھی اپنے سے بہت زیادہ طاقتور دکھائی دینے والے سنگھ پریوار کی صفوں میں بے خوف ہو کرتنہا گُھس جانے کا حوصلہ کئی بار دکھا چکے ہیں ۔ ایوان پارلیمان میں آئے دن اس کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ چچا یدھشٹر نے اپنے بھتیجے کے اصرار پر اجازت دی تو جملہ ۷ میں سے ۶ حصار توڑ کر ابھیمنیو مرکز تک پہنچ گیا ۔ اس دوران اس کے ہاتھوں دریودھن کے بیٹے لکشمن کا قتل ہوگیا اور اس نے اسے آگ بگولہ کردیا ۔نئی کمک کو روکنے کے لیے لکشمن کے بھائی جئے درتھ نے پیچھے سے دروازہ بند کردیا ۔

مہابھارت کے مطابق اس مرحلے میں ابھیمنیو نے گرودرونا چاریہ سمیت کرن اور دریودھن کو ایک ایک کرکے شکست دے دی مگر پھر وہ سارے لوگ ایک ساتھ اس پر پل پڑے ۔ دوران جنگ ابھیمنیو کی ڈھال ٹوٹ گئی تو اس نے اپنے تباہ شدہ رتھ کے پہیے کو ڈھال بناکر نہتاّ لڑتا رہا۔ مہا بھارت کےزمانے جنگی قانون کے مطابق مدمقابل کے نہتاّ ہوجانے کے بعد اس پر حملہ کرنا ممنوع تھا۔ کل یگ میں دھرم یدھ کے سہارے ہندو راشٹر قائم کرنے کا دعویٰ کرنے والا سنگھ پریوار اس اصول کی دھجیاں اڑا تا ہے۔ مودی کے دورِ حکومت میں ملک بھر کے اندر ہجومی تشدد کے واقعات عام ہوگئے ہیں۔ ان میں کسی بھی نہتے شخص کو گھیر کر اس پر اسلحہ سے لیس غنڈے پِل پڑتے ہیں۔ کانوڈیوں تو حکومت نے دھینگامشتی کی کھلی چھوٹ دے رکھی اور سارا انتظامیہ ان کی غنڈہ گردی سے عوام کو بچانے کے بجائے خود ان کو تحفظ فراہم کررہا ہے۔ گئو رکشا کے نام پر ہونے والی قتل غارتگری کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوتی ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والوں سزا دینے کے بجائے بچایا جاتا ہے۔

ابھیمنیو کی موت کے بعد ارجن لوٹے تو انہیں بہت غصہ آیا اور انہوں اگلے دن سورج غروب ہونے سے قبل اپنے بیٹے کے قاتل اور دریودھن کے فرزندجئے درتھ کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا عہد کیا نیز ناکامی کی صورت میں خود سوزی کا اعلان کردیا ۔ کورو بہت خوش ہوئے ، انہوں جئے درتھ کو چھپا لیا ۔ ارجن شام تک لڑتے رہے مگر جئے درتھ تک نہیں پہنچ سکے ۔ اس بیچ کرشن نے یہ اپنے چمتکار سے سورج کو بادلوں میں چھپا دیا ۔ کورو اس فریب میں آگئے کہ سورج غروب ہوگیا ہے ۔ یہ دیکھ کر دریودھن کا بیٹا جئے درتھ کلیکاریاں مارتے ہوئے سامنے آگیا اور ارجن کو خود سوزی کے لیے عار دلانے لگا ۔ ایسے میں کرشن نے بادلوں کو ہٹا کر ارجن سے کہا کہ وہ دیکھو سورج موجود ہے اس لیے تم جئے درتھ کو قتل کرسکتے ہو لیکن یاد رکھو کہ اس کے باپ کو وردان ملا ہوا ہے کہ جو بھی جئے درتھ کا سر زمین پر گرائے گا اس کی کھوپڑی کے 100ٹکڑے ہوجائیں گے۔

ارجن نے اس وردان کا لحاظ کرتے ہوئے ایسا تیر چلایا کہ جئے درتھ کا سر دریودھن کی گود میں جاکر گرا اور وہاں سے زمین پر گرتے ہی باپ کا سر پھٹ گیا یعنی ایک تیر سے دو شکار ہوگئے۔کوئی نہیں جانتا کہ سنگھ پریوار کی خانہ جنگی میں یہ حشر موہن بھاگوت کاہوگا یا نریندر مودی کا ؟ لیکن مہابھارت کا یہ عبرتناک انجام ان دونوں میں سے ایک کا منتظر ضرور ہے۔ راہل گاندھی نے ایوان پارلیمان بی جے پی کو مہابھارت کا بھولا ہوا سبق یاد دلاتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ لوگ تو جانتے ہی نہیں کہ ہندو دھرم کیا ہے؟ سنگھ پریوار نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ایک اطالوی ماں کا بیٹا بھارتیہ جنتا پارٹی کے ار کانِ پارلیمان کو مہابھارت کا سبق پڑھائے گا اور اس رزمیہ داستان کو آج کے سیاسی و معاشی حالات پر منطبق کردے گا۔

راہل گاندھی نے اپنے زبردست خطاب میں بتایا کہ گرو درونا چاریہ کی طرح آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے ایک چکرویوہ رچا اور دریودھن کے بھیس میں وزیر اعظم نریندر مودی نےاپنے جئے درتھ امیت شاہ، گوتم اڈانی ، مکیش امبانی اور اجیت ڈوول کی مدد سے ابھیمنیو کو گھیر لیا۔ انہوں نے بتایا کہ آج کا ابھیمنیو اگنی ویر ہے۔ اس دور کا نوجوان بیروزگاری کے چکرویوہ میں پھنسا ہوا ہے۔ وہ اس سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو پیپر لیک کرکے بھرتی پر روک لگ جاتی ہے۔ ٹیکس کے ظالمانہ نظام نے نوجوانوں کے علاوہ پورے سماج کو سنگھ پریوار کے چکرویوہ یعنی خونیں پنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ راہل گاندھی اس بار ایوان کے صدر اوم برلا کو اس طرح گھیرا کہ وہ جل بن مچھلی کی مانند پھڑ پھڑانے لگے ۔ اسپیکرنے جب امبانی اور اڈانی کا نام لینے سے روکا تو راہل نے سوال کردیا کہ آپ میری مدد کریں اور بتائیں میں ان کا حوالہ کیسے دوں ؟ کیا میں ان کو اے ون اور اے ٹو کہہ کر پکار سکتا ہوں ۔ اب بیچارے برلا جی کرتے تو کیا کرتے ؟ اور بولتے تو بولتے؟

راہل گاندھی کے بیان پر بی جے پی والوں کے شور شرابے کےحوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ بیچارے ان سرمایہ داروں کی مدافعت کرنے کے پابند ہیں۔ انہیں اوپر سے یعنی وزیر اعظم کی طرف اس کا حکم دیا گیا اور وہ بیچارے بجا آوری کیلئے مجبور ہیں۔ اس طرح گویا چکرویوہ کا حوالہ دے کر حزب اختلاف کے رہنما نے پوری بی جے پی کو اپنے جال میں ا یسا پھنسایا کہ اس کا نکلنا مشکل ہوگیا۔ راہل گاندھی فی الحال بی جے پی کے لیے سڑک لے کر سنسد (ایوان پارلیمان) تک مصیبت بنے ہوئے ہیں۔ آئے دن وزیراعظم نریندر مودی ان کے چکرویوہ میں پھنس جاتے ہیں۔ مشیت ایزدی نے مودی کے لیے اسی طرح گھٹ گھٹ کر مرنے کا عذاب لکھ چھوڑا ہے۔ اس لیے ایک طرف ان کو راہل گاندھی کا سڑک پر رام چیت موچی سے ملنا مہنگا پڑجاتا ہے اور دوسری جانب ایوانِ پارلیمان میں خطاب مودی کے لیے سوہانِ روح بن جاتا ہے۔ مودی جی اس عذاب کو کب تک جھیلیں گے اورپھر جھولا اٹھاکر چل دیں گے یہ کوئی نہیں جانتا لیکن دمِ واپسی کا وہ منظر بہت سہانا ہوگا۔ ویسے مودی اور اڈانی کے باہمی رشتے کا حال قتیل شفائی کےاس شعر کی مانند ہے؎
دل پہ آئے ہوئے الزام سے پہچانتے ہیں
لوگ اب مجھ کو ترے نام سے پہچانتے ہیں


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2103 Articles with 1331615 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.