شیرشاہ مودی کے ساتھ لومڑ کمار اور بکرا بابو کو آتا دیکھ کر بھیڑیا ناتھ
نے سوچا کہ اگر یہ تین ساتھ ہوجائیں تو میری ضرورت ہی ختم ہوجائےگی ۔ اس نے
بندر سے اپنے سر پر اُسترا پھروایا اور میدانِ جنگ میں کود گیا۔ بکر ےکو
آنکھیں دِ کھانے کے بعد لومڑی کو پنجوں کے اشارے سے دھمکایا لیکن جب دیکھا
کہ ان دونوں پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے تو منافقانہ قہقہہ لگا کر بولا کیا
رام سیتا اور لکشمن کے اس قافلہ میں ہنومان کی گنجائش ہے ؟ لومڑی نے موقع
دیکھ کر چوکا مارتے ہوئے کہا رامائن میں ہنومان سے قبل راون آتا ہےاور اس
کی جگہ خالی ہے ۔ بھیڑیا غصے کا گھونٹ پی کر بولا جب بڑے آپس میں بات
کررہے ہوں تو درمیان میں دخل اندازی شہنشاہ ِ دشت کی توہین ہے۔ تم پر
بلڈوزر چلےگا ۔ بکرا بابو بولے زیادہ نارد منی نہ بنو کیا سمجھے ؟ ہمارے
جنگل راج میں بلڈوزر نہیں چلتے۔
بھیڑئیے کو غصہ آگیا اور اس سے پہلے کہ وہ بکرے پر جھپٹا مارتا شیر بولا
اوئے خونخوار بھیڑئیے کیا تو نہیں جانتا کہ وہ کس کی امان میں ہے؟ اپنی
شامت کو دعوت نہ دے تجھے تو معلوم ہے کہ میری شریعت میں پہلی اور آخری سزا
موت ہے۔ ویسے اگر چاہو تو میرے قافلے میں ان دونوں کے پیچھے چل سکتے ہو۔
بھیڑئیے کو اپنی توہین پر بہت غصہ آیا مگر بحالتِ مجبوری شریکِ قافلہ
ہوگیا۔انتخابی مہم کے دوران شیر نے چار شکار کیے ۔ قومی سطح پر راہل جیسا
بارہ سنگھا ، یوپی میں اکھلیش کی مانند گھوڑا ، بنگال میں نیل گائے اور
مہاراشٹر کے اندر ادھو نامی خرگوش کا شکار کرتے کرتے خود شیر بھی زخمی
ہوگیا اور اس کے 303 ناخون گھٹ کر 240 پر آگئے ۔ اس جنگ میں تھکے ہارے
زخمی شیر نے پہلے سرکار بنائی اور پھر بھوک لگی تو بھیڑئیے سے بولا میرے
نائب تو تم ہی ہو اس لیے اب یہ شکار تقسیم کرو۔
بھیڑیا خوش ہوکر بولا عزت افزائی کاشکریہ اور تقسیم کرتے ہوئے بولا’ جناب
یہ بارہ سنگھا بہت تندرست و توانا اور سب سے زیادہ خطرناک ہے اس لیے آپ
خود اسے نوش فرمائیں۔ میں گھوڑے پر ہاتھ صاف کرتا ہوں۔ لومڑی کے لیے نیل
گائے کافی ہے اور بکری خرگوش پر گزارہ کرلے گی۔ اس بندر بانٹ کے دوران
بھیڑیا بھول گیا کہ بکری سبزی خور مویشی ہے۔ شیر کو اس تقسیم میں اپنی
توہین محسوس ہوئی تو اس نے گینڈے شاہ کو اشارہ کیا تو اس نے بھیڑئیے ناتھ
کو اپنی بھیانک سینگ پر اٹھالیا۔ بھیڑئیے کا انتظام کرنے کے بعد جنگل کا
راجہ لومڑی کو مخاطب ہوکر بولا لومڑ کمار اب تم یہ شکار تقسیم کرو۔ بھیڑئیے
کے انجام سے عبرت پکڑ کرلومڑی بولی جناب عالی یہ جنگل اور اس میں رہنے بسنے
والے سارے جانور آپ کی مِلک ہیں۔ آپ ایسا کریں کہ ناشتے میں نیل گائے سے
لطف اندوز ہوں۔ دوپہر کے وقت گھوڑا سے پیٹ بھریں ۔ شام کی چائے کے ساتھ
خرگوش اور رات کے کھانے میں بارہ سنگھا نوش فرمائیں ۔
اس غیر مساویانہ تقسیم پر خوش ہوکر شیر نے کہا لومڑ کمار میں تمہاری اس
عالی ظرفی کی داد دیتا ہوں ۔ یہ بتاو کہ تمہیں کیا چاہیے ؟ لومڑکمار چاہتا
تو تھاکہ بولے ہمارے کچھ لوگوں کے اہم وزارت دے دیں ۔ ہمارا اسپیکر بنوا
دیں اور بہار کو خصوصی درجہ عنایت فرمائیں لیکن پھر خود کو قابو میں رکھ کر
کہا سر مجھے کچھ نہیں چاہیے نہ وزارت ، نہ اسپیکر اور نہ کوئی خصوصی درجہ
بس بجٹ میں ذرا خیال رکھیں تو بڑی مہربانی ہوگی ۔ شیر یہ سن کر باغ باغ
ہوگیا اور بکرابابو سے مخاطب ہوکر بولا تم بولو تمہیں کیا چاہیے؟ بکرابابو
نے کہا جناب میں کیا مانگوں۔ میرے من کی بات لومڑ کمار نے کہہ دی ہے یعنی
بجٹ میں ہمیں یاد رکھنا جیسا کہ غالب نے کہا تھا؎
ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہے
شیر یہ سب سن کر خوشی جھوم اٹھا اور شاہانہ شان سے گویا ہوا لومڑ کمار اور
بکری بابو سنو ، اب یہ چاروں شکار تمہارے ہیں ۔میرے لیے تو بس بھیڑیا کافی
ہے اور مجھے یقین ہے کہ بہت جلد میرا گینڈا اسے لاکر میرے قدموں میں نچھاور
کر دے گا ۔ لومڑکمار نے کہا ارے صاحب اس طرح کے کئی بھیڑیوں کا آپ شکار
کرچکے ہیں ۔ کون نہیں جانتا کہ بیچارہ ہرین پنڈیا کہاں گیا ؟ ؟ آپ نے تو
توگڑیا کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا ۔ اچھے اچھوں کو مارگ درشک منڈل میں ڈال
دیا اور ایم پی کے مام کو ان کی لاڈلی بہنوں سے دور کرکے سارے بھانجوں
بھانجیوں کو اداس کردیا ۔ اس لیے یہ بھگوا دھاری بھیڑیا کس کھیت کی مولی
ہے؟ بکرابابو نے لومڑ کمار کے سُر میں سُر ملا کر کہا عالی جی جناب ویسے
آپ کا گینڈا بھی کم نہیں ہے۔ اس نے سہراب الدین اورپرجاپتی تو دور جسٹس
لویا تک کو نہیں چھوڑا تو یہ یوگی کی کون سا تیس مار خان ہے۔ شیر خوش ہوکر
بکرا بابو تم تو آج کل کھلے عام میری قدم بوسی سے بھی نہیں کتراتے کیا بات
ہے؟ سرکار میں اگر کیجریوال یا سورین کا ہم عمر ہوتا جیل بھی چلا جاتا مگر
اس عمرمیں ہمت نہیں ہے۔ ۔ شیر بولا وہ تو ٹھیک ہے مگر تمہاری سلیقہ مندی
قابلِ تعریف ہے ۔ ویسے یہ تو پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ تم جب بھی منہ
کھولتےہو تمہاری زبان سے پھول جھڑتے ہیں ۔بکرابا بو نے کہا آپ کی ذرہ
نوازی شکریہ جناب ویسے حضور والانے بگلا بھگت کا یہ شعر سنا ہی ہوگا ؎
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد
شیر سو گیا تو بکرا بابو نے لومڑکمار سے پوچھا بھیا یہ تم نے کیا کردیا ؟
جب بادشاہ نے پوچھا کہ کیا چاہیے تو صرف بجٹ پر اکتفاء کرلیا ۔ یہ منطق
میری سمجھ میں نہیں آئی ۔ لومڑکماربولے دیکھو بھیا اب تم سے کیا چھپانا ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ میں بھیڑئیے کے انجام سے ڈر گیا تھا کیونکہ اگر شیر
نے اس سے قبل مجھ کو تقسیم کرنے کا حکم دیا ہوتا تو میں بھی وہی کرتا
کیونکہ وہی تقسیم معقول اور مبنی بر انصاف تھی لیکن شہنشاہِ دشت کو ناگوار
گزری تو میں نے جیسا دیس ویسا بھیس والا رویہ اختیار کرلیا۔ بکرا بابو بولے
یار میں سمجھتا تھا کہ بہاری بابو بیوقوف ہوتے ہیں لیکن تم نے تو کمال
چالاکی کا مظاہرہ کیا اور پینترا بدل کر شیر کا دل جیت لیا مگر میں اپنی
شکایت پھر سے دوہرا دوں کہ کامیابی حاصل کرنے بعد جب اس سے فائدہ اٹھانے کا
سنہری موقع ہاتھ آیا تو اسے کیوں گنوادیا ؟ لومڑ کمار نے کہا اگر یہی سوال
تمہارے سوا کوئی اور پوچھتا تو میں اس کے سامنے اپنے من کی بات کبھی نہیں
کہتا مگر تم سے کیا چھپانا ؟ تم میرے دودھ شریک بھائی جوہو۔
لومڑ کمار کے آخری جملے نے بکرا بابو کو چونکا دیا ۔ اس نے سوال کیا یار
میں آندھرا پردیش میں اور تم بہار کے اندر پیدا ہوئے۔ ہم لوگ بھلا دودھ
شریک بھائی کیسے ہوسکتے ہیں ؟ لومڑ کمار نے قہقہہ لگاکر کہا یار تمہارا
مسئلہ یہ کہ تم تشبیہ اور حقیقت کا فرق نہیں جانتے ۔ ماں کا دودھ تو انسان
صرف بچپن میں پیتا ہے مگر گائے کا دودھ تمام عمر نوش فرماتا ہے۔ دیکھو یہ
دوسری بار ہم لوگ ایک ساتھ مرکز میں زعفرانی گائے کے اقتدار کا دودھ پی رہے
ہیں اور صوبائی سطح پر تو یہ کئی بار ہوچکا ہے اس لیے ہم لوگ دودھ شریک
بھائی ہوئے کہ نہیں ہوئے؟ لومڑ کمار کی اس منطق نے بکرا بابو کو چاروں خانے
چت کردیا ۔ وہ بولا مان گئے استاد اب یہ بتاو کہ اس کے پیچھے دوسری حکمت
کیا ہے؟ لومڑ کمار بولے دیکھو یار بہت دنوں تک ان کے ساتھ ہمارا گزارہ نہیں
ہوگا ۔ اس لیے جس گھر میں رہنا نہ ہو وہاں رنگ و روغن پر کیوں وقت اور
توانائی صرف کی جائے؟ اپنے لوگوں کو بڑی بڑی وزارتوں پر بیٹھانے کے بعد وقت
ضرورت انہیں واپس بلانا مشکل ہوجاتاہے۔ اس لیے ان سے فاصلہ رکھتے ہوئے اپنا
کام نکالنے میں بھلائی ہے۔
بکرا بابو نے کہا جی ہاں یہی سوچ کر میں نے اسپیکر کے عہدے پر اصرار نہیں
کیا کیونکہ یہ لوگ اول تو اس کو بلیک میل کریں گے اور آگے چل کر کچھ بھی
کرسکتے ہیں ۔ لومڑ کمار تائید کر کے بولے دیکھو جب سے مہا راجہ نے دوسروں
کی حق تلفی کرکے بجٹ میں ہمیں نواز ہ ہے جنگل کے سارے جانور اس پر ٹوٹ
پڑےہیں ۔ بکرا بابو بولے ارے بھیا انڈیا کے گھوڑا ، نیل گائے،خرگوش اور
بارہ سنگھا وغیرہ تو پہلے ہی ان کے دشمن تھے اس کابجٹ سے کیا تعلق؟ جی ہاں
مگر اب اپنے پرائے سب دشمن ہو گئےہیں لیکن بولنے سے ہچکچا رہے ہیں ۔
بکرابابونے پوچھا پرائے تو ٹھیک مگر اپنے کیوں؟ لومڑ کمار نے کہا بھیا
موجودہ سیاست میں کوئی دھرم کرم کے لیے تو آتا نہیں ہے ۔ سارے لوگ روپیہ
کمانے کے لیے آتے ہیں۔ سرکاری خزانے سے جب روپیہ ملتا ہے تو اسی سے سارے
ٹھیکے اور کمیشن نکلتا ہے ۔ اب اگر وہی نہیں آئے گا تو ان کی جیب کٹ جائے
گی اور جب پیٹ پر لات پڑتی ہے تو دماغ ٹھکانے آجاتا ہے۔ اس لیے آپ یہ
سمجھ لو کہ ’سب کچھ بادشاہ سے مانگ لیا خزانہ مانگ کر اب سب کے ہاتھ اٹھیں
گےاس ایک صدا کے بعد‘ ۔بکرا بابو بولا یار تم نے ایسی چال چلی کہ سانپ بھی
مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی ۔ لومڑ کمار بولے بھیا یہ تجربے کی
بات ہے۔ بکرابابو نے تائید کرتے ہوئے کہا یار ایک تو لومڑیوں کی ذہانت اور
تم جیسوں کا تجربہ سونے پہ سہاگہ ہے۰۰۰۰ قسم سے ۔
|