قیام پاکستان کی زندہ تحریک اورتابندہ تاریخ مادروطن کے
حامیوں اوربدخواہو ں میں تفریق کرنے کیلئے کافی ہے۔جواس وقت بدخواہ تھے وہ
آج بھی پاکستان کے وفاداراورجانثار نہیں۔ستر کی دہائی میں جو غلاظت سے بھرے
غدار پاکستان کابٹوارہ کرنے کی سازش میں شریک تھے ان کرداروں کے انجام ِ
بدکویادرکھیں،بدصورت اورشخصی آمریت کی علمبردارحسینہ واجد کی حالیہ رسوائی
اورپسپائی بھی خوابیدہ حکمران اشرافیہ کوجھنجوڑنے کیلئے کافی ہے۔ قومی
سیاست میں قوم کے ناپسندیدہ کرداروں کا’’زہر ‘‘ اور ’’سحر ‘‘ باقی نہیں
رہا، پاکستان میں بھی شخصی آمریت کی عمارت کسی وقت بھی زمین بوس ہوسکتی
ہے۔قیام پاکستان کے بعدہم نے متعدد سیاسی پارٹیز کومعرض وجود میں آتے ہوئے
دیکھاہے ،ان میں سے چندایک کے سوا باقی پارٹیوں کاکوئی نام تک نہیں
جانتاجبکہ کچھ آنیوالے برسوں میں قصہ پارینہ بن جائیں گی ۔جس سیاسی جماعت
نے نظریات کواپنا محورومرکزبنایا انہیں عوام اورایوان میں بھرپور پذیرائی
ملی لیکن جومفادات کیلئے میدان میں اتریں تھیں انہیں عوام نے مسترد کردیا
۔ہم نے عوام پر’’برہم ‘‘ ہونے یاانہیں زخم لگانیوالے تو کئی ڈکٹیٹر ،
حکمران اورسیاستدان دیکھے ہیں کیونکہ بنیادی حقوق سے محروم اورمقروض
پاکستانیوں کے زخموں پر’’ مرہم ‘‘رکھنا کسی عام سیاستدان کے بس کی بات نہیں
اس کیلئے ایک نجات دہندہ کی ضرورت ہے،ہماری زندگی میں یاہمارے بعدایک دن وہ
مسیحا ضرورآئے گا۔پاکستان میں سرخ یاسبز انقلاب بھی آسکتا ہے لیکن انتخابات
میں عوام کا درست حسن انتخاب بھی کایا پلٹ دے گا۔یادرکھیں قومی سیاست میں
موروثیت کاتابوت نیست ونابود کئے بغیر عام آدمی جمہوریت کے ثمرات سے مستفید
نہیں ہوسکتا ۔
"عوام پاکستان" کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت حالیہ دنوں میں رجسٹرڈ ہوئی
ہے، اس جماعت کے روح رواں اور بانیان سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی،سابق
وفاقی وزیرمالیات مفتاح اسماعیل ، خیبرپختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ وسابق
گورنر سردار مہتاب احمدخان عباسی اور میاں نوازشریف سمیت پنجاب حکومت کے
سابق ترجمان اورسابق صوبائی وزیراوقاف پنجاب سیّد زعیم حسین قادری شامل
ہیں۔ پاکستان کی سنجیدہ اورزیرک سیاسی شخصیت شاہدخاقان عباسی کئی دہائیوں
سے نوازشریف کے طرز سیاست کے عینی شاہدہیں اوریقینا انہوں نے ناقابل برداشت
رویوں اورسیاسی وجوہات کی بنیاد پراپنا راستہ تبدیل کیا ہے۔شاہدخاقان عباسی
کاشمار مادروطن کے مٹھی بھر نظریاتی سیاستدانوں میں ہوتا ہے کیونکہ انہوں
نے شروع سے مالیاتی سیاست کی بجائے نظریاتی سیاست کومقدم سمجھا ۔پاکستان کی
سیاسی پارٹیوں میں’’عوام پاکستان‘‘ ایک منفرد اورمختصرنام ہے،اگرسیاستدان
اپنی جماعت کی بنیاد نظریہ ضرورت کی بجائے تعمیری سیاسی نظریات پررکھیں گے
تو یقینااسے دوام ملے گا۔ عوام پاکستان ہیں اوریہ عوام کاپاکستان ہے،یہ
خوبصورت پیغام ’’عوام پاکستان‘‘ کے بانیان دے رہے ہیں۔یہ تاثر اورتاثیرسے
بھرپور سیاسی تصوراورسیاسی فلسفہ ہے۔ طویل مدت کے بعد خالصتاً نظریاتی اور
تعمیری سوچ کے بل پر ایک سیاسی جماعت معرض وجود میں آئی ہے ،اس جماعت کے
بانیان شاہد خاقان عباسی، سردار مہتاب احمدخان عباسی، مفتاح اسماعیل اور
سیّد زعیم حسین قادری کو اپنے اپنے شعبہ جات میں بڑی اچھی شہرت
اورمنفردشناخت حاصل ہے۔ شاہد خاقان عباسی کو باربار قومی اسمبلی میں مری کے
ووٹرز کی نمائندگی کرنے کااعزاز حاصل ہوتارہا اور جب نواز شریف کو عدالت
عظمیٰ سے سزا ملی تو اس وقت شاہد خاقان عباسی وز یراعظم منتخب ہوئے تھے۔ان
دنوں شہبازشریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے تاہم اگروہ قومی اسمبلی میں ہوتے
تویقینا موروثی سیاست کی نحوست سے شایدخاقان عباسی کووزارت عظمیٰ کاآئینی
منصب ہرگز نہ ملتا۔شریف خاندان اہم سرکاری عہدے اپنے خاندان سے باہر کسی
کونہیں دیتا ،سرداردوست محمدکھوسہ کو بھی عارضی بنیادوں پریعنی شہبازشریف
کے ممبرپنجاب اسمبلی منتخب ہونے تک وزیراعلیٰ پنجاب بنایاگیا تھا ۔شریف
خاندان نے شاہدخاقان عباسی کو اپنا معتمداوردیرینہ سیاسی رفیق ہو نے کے
باوجود باامرمجبوری وزیراعظم بنایا تھا۔ پاکستان کے دونوں بڑے حکمران
خاندان اگر باہرسے کسی کواہم سرکاری عہدیدار نامزد کر یں توشروع دن سے ایک
مخصوص ڈر اورخوف کے تحت اس کی لگام کھینچنا شروع کردیتے ہیں،وہ اپنی جماعت
میں کسی دوسرے سیاستدان کوسیاسی طورپرقدآورہوتا نہیں دیکھ سکتے ۔یادرکھیں
اندھوں میں کانا راجا کے مصداق سیاسی بونا اپنی جماعت کے دوسروں بونوں میں
خوش رہتا جبکہ دوچار دیوقامت سیاستدانوں کے وجود سے ڈر تاہے ۔
شاہد خاقان عباسی ایک دانا،مدبر اوربردبار سیاستدان ہیں،انہیں ’’ اصولی‘‘
سیاست کا استعارہ سمجھا جاتا ہے ۔ ’’وصولی‘‘ سیاست سے ان کا دُور دُور
کابھی کوئی تعلق نہیں، پاکستان میں زیادہ تر وصولی سیاست کے
علمبردارسیاستدان کامیاب ہیں۔ہم بعض بڑی جماعتوں میں بڑے عہدوں پر بونوں کو
بیٹھے ہوئے دیکھتے ہیں اورپھران کے بوجھ سے پارٹیوں کابھٹہ بیٹھ جاتا ہے ۔
شاہد خاقان عباسی ،مفتاح اسماعیل، سردار مہتاب احمد خان عباسی اور سیّد
زعیم حسین قادری جیسی سیاسی قیادت کوپارٹی قائد کے ساتھ اختلاف رائے کی
پاداش میں دیوار کے ساتھ لگادیا جاتا ہے۔ سیّد زعیم حسین قادری پرویزی
آمریت کے پرآشوب دورمیں میاں نوازشریف اورپاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے
ترجمان رہے ہیں ۔ یہ بڑی استقامت ،سیاسی بصیرت اورمنفرداسلوب کے ساتھ
پرویزی آمریت کیخلاف مزاحمت اورآمرانہ ہتھکنڈوں کی مذمت کرتے رہے۔ انہوں نے
قیدوبندکی صعوبتوں کا سامنا کرنے کے باوجود اپنی سیاسی وفاداری نہیں بدلی
اور پارٹی قیادت کے ساتھ سودوزیاں سے بے نیاز وابستگی کا امتحان نمایاں
نمبروں سے پاس کیا لیکن جس سیّد زعیم حسین قادری کو فوجی آمرتوڑنے میں
ناکام رہا اس کے حوصلوں کو پست کرنے میں ناکام رہا ،اس کو مسلم لیگ (ن) کی
انٹراپارٹی سیاست نے دیوار سے لگادیا ہے نتیجتاً سیّد زعیم حسین قادری نے
آبرومندانہ اورجرأتمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کادامن
چھوڑدیا۔بیشتر سیاسی جماعتوں میں جوزندہ ضمیر لوگ اپنی قیادت کے ساتھ مخصوص
ایشوز پر اختلاف کرتے ہیں اور اپنے قائد کو درست مشورے دیتے ہیں انہیں پسند
نہیں کیا جاتا کیونکہ قائد صرف ان حواریوں کو ا پنامقرب بناتا اوران سے
ہاتھ ملا تا ہے جوقائد کی ہاں میں ہاں ملا تا ہو،جوقیادت کی قصیدہ خوانی
،خوشامد اور چاپلوسی نہیں کر تے انہیں پارٹی اورسرکاری عہدوں سے محروم
کردیاجاتا ہے۔(جاری ہے)
|