نام شہنشاہ تو کام بھی شہنشاہ بھارت کی فلم شہنشاہ میں
امیتابھ کا ایک ڈائیلاگ ہے کہ رشتے میں ہم تمھارے باپ ہوتے ہیں نام ہے
شہنشاہ میں بھی جس شہنشاہ کا ذکر کررہا ہوں وہ اس وقت پنجاب کے ایک اہم
ادارے تعلقات عامہ کا ڈی جی لگ چکا ہے شکل سے معصوم اور سیدھا سادھا نظر
آنے والا شہنشاہ فیصل عظیم اندر سے پورے دنوں کا ہے یہ اس ادارے کا سربراہ
بنا ہے جہاں کے لوگ اپنوں کو برداشت نہیں کرتے اور باہر سے آنے والوں کے
آگے لیٹ جاتے ہیں لیکن ایک مخصوص وقت کے لیے اسکے بعد ان کے اندر کا شیطان
جاگ جاتا ہے اور یہ پھر سازشوں میں لگ جاتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ڈی جی سے
جان چھڑوائیں لیکن اس بار اس ادارے کے منافقین کی منافقت اس لیے نہیں چلے
گی کہ شہنشاہ اپنے کام میں بھی عظیم ہے وہ سامنے والی کی شکل دیکھ اسکے
اندر کا حال جان جاتا ہے اس لیے اسے چارنا یا چکر دینا مشکل ہو جائے گا
ویسے میں ذاتی طور پر اس بات کے خلاف ہوں کہ اس اہم ادارے میں کوئی بندہ
باہر سے آکر براجمان ہو جائے جو پبلک ریلیشنز کی الف ب سے بھی واقف نہ ہو
لیکن جب اس اداے میں بیٹھے ہوئے افسران ہی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں
اپنا سارا وقت اورزور لگائے رکھیں گے سازشوں کے تانے بانے بنتے رہیں گے تو
پھر ایسا ہی ہوتا ہے جو اب اس ادارے کے ساتھ ہو رہا ہے تیتر اور بٹیر کی
لڑائی میں یہ لوگ اپنا سب کچھ داؤ پر لگاکر اپنا ہی نقصان کررہے ہیں۔
ایک تھا تیتر ایک بٹیر
لڑنے میں تھے دونوں شیر
لڑتے لڑتے ہو گئی گْم
ایک کی چونچ ایک کی دْم
ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے والوں نے نہ صرف اپنا نقصان کیا بلکہ اس ادارے
کی عزت وآبر بھی گنوا بیٹھے ہیں اسی لیے تو یہاں پرباہر سے آنے والوں کا
راستہ صاف اور کھلا ہوا ہے کبھی جونیئر آکر ان پر مسلط ہو جاتا ہے تو کبھی
میڈیا سے لاتعلق شخص یہاں بھیج دیا جاتا ہے آپس کی لڑائیاں لڑتے لڑتے یہ
لوگ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے اور اسی وجہ سے 82دن ڈی جی پی آر کی سیٹ خالی
رہی اس دوران حکومت نے محکمہ میں سے کسی افسر کو اس قابل نہیں سمجھا کہ اسے
ڈی جی پی آر تعینات کردیا جائے یا کم از کم اسی ادارے میں سے کسی کو چارج
ڈی جی کا چارج ہی دیدیا جاتا اسی سال 22جولائی کواپنوں کی سازشوں کی بدولت
ڈی جی پی آر کی خوبصورت اور ذہین روبینہ افضل نے ڈی جی پی آر کا چارج چھوڑا
تھا اور پھر تقریبا تین ماہ اس محکمہ میں ڈی جی پی آر نہ لگ سکا روبینہسے
پہلے ڈاکٹر اسلم ڈوگر بھی ڈی جی پی آر رہے انہیں بھی اپنوں نے برداشت نہیں
کیا اور آخر کار وہ اپنی ملازمت کے آخری دن الحمرا میں پورے کرنے پر مجبور
ہوئے ڈی جی پی آر کے مقامی لوگوں میں مثالی کام کرنے والے افسران میں شعیب
بن عزیز،خواجہ طاہر جمیل ،آغا اسلم اورچوہدری امجدسر فہرصت رہے جنہوں اپنے
اپنے دور میں بہترین پبلک ریلیشنگ کی اب اس ادارے کی صورتحال یہ ہے کہ
سوائے اشتہارت کے اور کوئی ڈھنگ کا کام یہاں نہیں ہوتا پنجاب بھر میں پھیلے
ہوئے انکے دفاتر میں بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں بلکہ آج سے کچھ عرصہ پہلے
تک ان کے پاس کوئی چج کی گاڑی بھی نہیں ہوتی تھی نہ انکے کمروں میں اے سی
تھے اور نہ ہی پینے کے لیے ٹھنڈے پانی کا کوئی بندوبست تھا وہ تو بھلا ہو
ثمن رائے کا جس نے اس محکمہ کے منہ پہ چھائی ہوئی دھند کو صاف کیا اور ڈی
جی پی آر کے لیے نئی گاڑیاں ،اے سی اور واٹر ڈسپنسر منگوائے اور ہمارے
بیڈمنٹن کورٹ پر نئی بلڈنگ بنوا دی میں سمجھتا ہوں کہ اب اس محکمہ کے نئے
ڈی جی پی آر ڈاکٹر شہنشاہ فیصل عظیم بھی یہاں پر مثالی کام کرینگے کیونکہ
وہ عظیم شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ایچی بیچی کو بھی سمجھتے ہیں اور سب سے
بڑھ کر یہ کہ وہ اس ادارے میں بیٹھے ہوئے افسران سے زیادہ پی آر کے مالک
ہیں یہ ادارہ بنیادی طور پر ہے ہی پبلک ریلشنز کا ہے جسکے ذمہ کام بھی سب
سے اہم ہے کہ انہوں نے حکومت کا عوام میں اچھا تاثر قائم کرنا ہے یہ ادارہ
1940 کی دہائی میں ڈائریکٹوریٹ آف پبلک ریلیشنز (DPR) کے طور پر قائم کیا
گیا تھا اور 1984 میں ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پبلک ریلیشنز پنجاب کے طور پر اپ
گریڈ ہوااس ادارے میں مختلف ونگز ہیں اور انکا بھی اس وقت وہی حال ہے جو
ہماری سپورٹس فیڈریشنوں کا بنا ہوا ہے وہ بھی آپس کی لڑائی جھگڑوں کی وجہ
سے انٹرنیشنل سطح پر بین ہیں اکثر میں وہ لوگ صدر بن کر بیٹھے ہوئے ہیں
جنکا سپورٹ کے ساتھ کوئی لینا دینا ہی نہیں فت بال فیڈریشن کے وہ لوگ صدر
رہے جنہوں نے کبھی فٹ بال ہی نہیں کھیلا پاکستان سپورٹس بورڈ اس وقت ملک
میں کھیلوں کی ترقی کے لیے بہت ہم ہے لیکن لاہور میں پی ایس بی کا جو
ڈائریکٹر تعینات ہے اسکاکھیلوں کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں خیر میں بات کر
رہا ہو تعلقات عامہ کی کہ اس کے مختلف شعبوں میں بیٹھے ہوئے افسران کا بھی
ان شعبوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں جن میں وہ بیٹھے کام کررہے ہیں جو لوگ ان
معاملات کو سمجھتے ہیں انہیں لاہور سے باہر تعینات کررکھا ہے اس ادارے میں
تعیناتیوں کا کوئی تریقہ کار ہے اور نہ ہی ترقیوں کے حوالہ سے کوئی کام
ہوتا ہے اس ادارے میں بیٹھے ہوئے افسران اپنے محکمہ کے کامیاب لوگوں کی نقل
نہیں کرسکتے تو راجہ جہانگیر اورثمن رائے کے ہی نقش قدم پر چل کردیکھ لیں
یا پھر شہنشاہ فیصل عظیم کے کام کو ملاحظہ کرتے رہیں کیونکہ یہ تینوں لوگ
پبلک ریلیشنز کے نہ ہونے کے باوجود اس محکمہ تعلقات عامہ میں بیٹھے ہوئے ہر
افسر سے زیادہ پبلک ریلیشنز والے ہیں اس محکمہ کی اصل روح اسی محکمہ کے
لوگوں کے اندر ہے جو ابھی تک تو نیم مردہ ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس نحیف
جسم میں جان پڑتی ہے یا پھر کہیں جاکر دفن کرنا پڑے گا ویسے آپس کی بات ہے
کہ یہ ادارہ جبطاقتور ہوتا ہے تو اس وقت پنجاب حکومت بھی مضبوط ہوتی ہے جب
یہ ادارہ کمزور ہوتا ہے تو حکومت بھی کمزور ہی رہتی ہے اسی ادارے نے بتانا
ہوتا ہے کہ حکومت کتنی عوامی ہے اور کتنی کمزور ابھی تو یہ ادارہ خود اپنے
پاؤں پر کھڑا نہیں ہورہاحکومت کو کیا کھڑا کرے لیکن شہنشاہ بادشاہ ہوتا ہے
اپنی مرضی کے فیصلے ایک بادشاہ ہی کرسکتا ہے امید اور توقع کی جاسکتی ہے کہ
ڈی جی پی آر کا بادشاہ اس ادارے کوتیتر اور بٹیر کی لڑائی سے نکال کر اسکا
مقام دلوا کر ہی واپس جائے گا ۔
|