صبح کے وقت جیل کا دروازہ کس نے کھلوایا ۔ کس کے کہنے پر
اعظم سواتی اندر گئے۔ کس نے کس کے ترلے کیے اور کس نے کس کو یقین دہانیاں
کروائیں یہ سب باتیں اب ہوتی رہیں گی۔ فرض کریں جیل میں بیٹھا ہوا عمران
خان صبر کا دامن چھوڑ دیتا اور کہہ دیتا کہ نہیں جلسہ تو ہوگا۔ تو پھر کیا
ہوتا؟
مجبوری کے عالم میں علی امین گنڈا پور ، پنجاب اور اسلام آباد کی قیادت کو
آگے بڑھنا پڑتا۔ کارکنان جذباتی ہوتے ہیں۔ حکومت روکنے کےلیے اپنا زور
لگاتی۔ کچھ شیلنگ ہوتی۔ کچھ ڈنڈے اور پتھر چلتے۔ زبردستی جلسہ روک لیا جاتا
یا زبردستی جلسہ ہوجاتا۔ اللہ نہ کرے لیکن ایسی صورتحال میں دو چار جانیں
چلی جاتیں تو پھر کیا ہوتا؟
کیا اس کے بعد پورے ملک میں امن و امان اور کنٹرول کی صورتحال یونہی برقرار
رہتی؟ کیا حالات محاذ آرائی کی طرف نہ بڑھ جاتے؟ یقیننا ایسا ہی ہوتا۔ اب
ڈرانے دھمکانے اور بڑھکیں مارنے کو دانشور و تجزیہ کار یہ تو فرما دیتے ہیں
کہ حالات خراب ہوئے تو مارشل لاء لگ جائے گا یا فوج آجائے گی۔ یہ تو سارا
سلسلہ تحریک انصاف کو اپنے تئیں ڈرانے کے لیے چلتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ
حالات خراب ہونے سے سب سے زیادہ ڈر تو خود فوج کو لگتا ہے۔
کیونکہ زبردستی کنٹرول فوج نے بنا رکھا ہے۔ عوام پر ظلم و بربریت کے پہاڑ
فوج نے توڑ رکھے ہیں۔ عوام کے دل میں غم و غصہ فوج کے خلاف ہے۔ ایسے میں
اگر کچھ بھی اونچ نیچ ہوتی ہے تو مارشل لاء کی راہ ہموار نہیں ہوگی بلکہ اس
نظام کے آقاؤں کے فرار کے راتے مسدود ہوجائیں گے۔
عمران خان کے لیے جیل میں بیٹھ کر ایسی کوئی بھی کال دے دینا بہت آسان ہے۔
لیکن عمران خان فوج کو بار بار موقع دے رہا ہے۔ کبھی مذاکراتی کمیٹی بنا
کر۔ کبھی جوڈیشل کمیشن کی آفر دے کر۔ کبھی جلسہ ملتوی کرکے کہ شاید کچھ
ایسا رستہ نکل آئے کہ یہ نظام بھی بچ جائے اور درمیانی رستہ بھی نکل آئے۔
لیکن شاید فوج کو سمجھ نہیں آرہی۔ حافظ صاحب کو ابھی بھی غلط فہمی ہے کہ وہ
دو چار تقریریں کرکے بازی پلٹ لیں گے۔ حافظ صاحب کو تو انکے خوشامدیوں نے
گھیر رکھا ہے۔ حافظ صاحب کو اپنی کرسی بھی جانے کا ڈر ہے۔ حافظ صاحب کو
شکست تسلیم کرنے میں عار ہے۔ باقی فوج کس قیامت یا کس تباہی کا انتظار کس
قیمت پر کررہی ہے؟
عمران خان مواقع دینا بند کردے یا تحمل کا مظاہرہ کرنا چھوڑ دے تو آپ کی
بربادی شاید چند گھنٹوں کی مار ہے۔ سبق حاصل کیجیے۔ قبل اسکے کہ سبق سکھا
دیا جائے۔
|