جب یونین جیک اتارا گیا اورقائد اعظم نے پہلا قومی پرچم لہرایا گیا۔

قومی تاریخ کا وہ یادگار لمحہ
جب یونین جیک اتارا گیا اورقائد اعظم نے پہلا قومی پرچم لہرایا گیا۔

جب یونین جیک اتارا گیا اورقائد اعظم نے پہلا قومی پرچم لہرایا گیا۔

قومی تاریخ کا وہ یادگار لمحہ
جب یونین جیک اتارا گیا اورقائد اعظم نے پہلا قومی پرچم لہرایا گیا۔



جناب ڈاکٹر صفدر محمود اپنے ایک مضمون "14 اگست فتح مبین اور نعمت کی تکمیل "میں لکھتے ہیں کہ:
قومی زندگی کے مقدس لمحات کی یادیں ہمیشہ تازہ رہنی چاہئیں کہ ان سے قلب و روح کو مسرت اور تسکین حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ یاد رکھیں کہ پاکستان 14اور 15اگست کی نصف شب معرض وجود میں آیا اس لئے پہلا یوم آزادی پندرہ اگست کو منایا گیا۔ چودہ پندرہ اگست کی درمیانی شب ستائیسویں رمضان تھی جسے ہم عام طور پر لیلۃ القدر کا درجہ دیتے ہیں۔ پندرہ اگست جمعۃ الوداع تھا۔
ان تمام قرائن نے مل کر آزادی کا ایسا جذبہ پیدا کر دیا تھا جو بعد ازاں کبھی نصیب نہ ہو سکا۔ وائسرائے مائونٹ بیٹن تیرہ اگست کو کراچی پہنچے تھے۔ ان کے تعصبانہ رویے کی بنا پر قائد اعظم ان کے استقبال کے لئے ایئرپورٹ نہیں گئے جس سے وائسرائے رنجیدہ رہا اور اس کے ملٹری سیکرٹری نے اس پر دو تین بار اظہار ناراضی بھی کیا۔
ہندو جوتشیوں کا خیال تھا کہ ہندوستان کے لئے چودہ کے بجائے پندرہ اگست کا دن زیادہ بابرکت ہے۔ مغربی یونیورسٹیوں کی فارغ التحصیل کانگریسی قیادت ان کے دباؤ میں تھی۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ آزادی کا سرکاری اعلان بارہ بج کر ایک منٹ پر کیا جائے تاکہ پندرہ اگست شروع ہو چکا ہو۔ ماؤنٹ بیٹن نے چودہ اگست کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں خطاب کیا۔
انہوں نے بادشاہ برطانیہ کی جانب سے آزادی کا اعلان اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ماؤنٹ بیٹن نے رواداری کے حوالے سے اکبر بادشاہ کی مثال دی۔ قائد اعظم نے جواباً شکریہ ادا کیا۔ قائد اعظم نے واضح کیا کہ مسلمانوں کی رواداری کی تاریخ تیرہ سو سال پرانی ہے جب ہمارے پیغمبر ﷺ نے فتح کے بعد یہودیوں اور عیسائیوں سے بہترین سلوک کیا تھا۔ یہ اشارہ تھا ریاست مدینہ اور میثاق مدینہ کی جانب۔ تقریریں ختم ہوئیں تو
قائد اعظم اور ماؤنٹ بیٹن اسمبلی کے باب داخلہ کی جانب بڑھے جہاں برطانوی اقتدار کی علامت یونین جیک لہرا رہا تھا۔ فوجی پسپائی کی غمگین دھنوں میں یونین جیک اتارا گیا۔ قائد اعظم نے اسے تہ کر کے مائونٹ بیٹن کے حوالے کر دیا۔ پھر قائداعظم نے آگے بڑھ کر پاکستان کا جھنڈا لہرایا جسے 31توپوں کی سلامی دے کر پاکستان کی ولادت کا اعلان کر دیا گیا۔
قائد اعظم کے اے ڈی سی کی گواہی
اِس مقام پر ہم قائد اعظم کے اے ڈی سی جناب میاں عطا ربانی کی کی دو کتابوں "آئی واز دی قائد اے ڈی سی" اور"جناح تھرو مائی آئیز" کے دو حوالوں کا ڈاکٹر صاحب کے مضمون میں اضافہ کرتے ہوئے یہ واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان کی آزادی کا پہلا پرچم "قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے ہاتھوں سے خود لہرایا تھا۔یہ حوالے اس دعوے کی نفی کرتے ہیں کہ پاکستان کی آزادی کی پہلی پرچم کشائی علامہ شبیراحمد عثمانی کے ہاتھوں ہوئی تھی یا قائد اعظم نے علامہ کو پرچم کشائی کی دعوت دی تھی۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ جناب عطا ربانی (والد سابق چئیرمین سینٹ رضا ربانی)کا شمار قائد اعظم کے اُن اے ڈی سیز میں ہوتا ہے جب سات اگست 1947 کو قائد اعظم نے دہلی کے پالم ہوائی اڈے سے ڈکوٹہ جہاز کے ذریعے کراچی کا سفر شروع کیا۔ تو ان کے ساتھ جہاز میں محترمہ فاطمہ جناح،کے علاوہ نیول اے ڈی سی ایس ایم احسن اور ایئر(پاکستان ایئر فورس کی جانب سے) اے ڈی سی عطا ربانی ہمراہ تھے۔عطا ربانی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ رائل انڈین ایئرفورس میں شامل ہو گئے۔ پاکستان معرض وجود میں آیا تو انہیں یہ اعزاز نصیب ہوا کہ وہ قائد اعظم کے پہلے ایئرایڈی کانگ مقرر کئے گئے
جناب عطا ربانی "آئی واز دی قائد اے ڈی سی" میں صفحہ 98 پر لکھتے ہیں کہ :
The last British Viceroy of India had handed over power. Ceremony over, the two Dignitaries walked back to the main entrance of the Assembly building, where they were joined by members of the Constituent Assembly and other distin- guished guests, to witness the last ritual of the termination of the British Raj and the birth of the new State. The Union Jack that flew atop the main entrance of the Assembly building was slowly lowered as the buglers sounded the 'retreat'. It was neatly folded and ceremoniously handed over to Lord Mountbatten by the Quaid-i-Azam. The Governor-General-designate then hoisted the green and white flag to the booming of a 31 guns salute. Pakistan was born. The biggest Muslim State and the fifth most populous state in the world emerged on the map of the world.
یعنی" ہندوستان کے آخری برطانوی وائسرائے نے(قائد اعظم کو) اقتدار سونپ دیا تھا۔ تقریب کے اختتام پر، دونوں معززین اسمبلی کی عمارت کے مرکزی دروازے پر واپس چلے گئے، جہاں ان کے ساتھ دستور ساز اسمبلی کے اراکین اور دیگر معزز مہمان بھی شامل تھے، تاکہ برطانوی راج کے خاتمے اور (نئی مملکت کے )یوم پیدائش کی آخری رسومات کا مشاہدہ کیا جا سکیں۔
نئی ریاست.۔۔ یونین جیک جو اسمبلی کی عمارت کے مرکزی دروازے کے اوپر اڑتا تھا اسے آہستہ آہستہ نیچے کر دیا گیا کیونکہ بگلرز نے 'دستبرداری یا رخصت ہونے ' کی دھنیں بجائیں۔ قائداعظم نے اسے(یونین جیک) صفائی کے ساتھ لپیٹا اور رسمی طور پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے حوالے کیا۔ اس کے بعد نامزد گورنر جنرل نے سبز اور سفید پرچم کو 31 توپوں کی سلامی سے لہرایا۔یوں دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی مسلم ریاست اور دنیا کی پانچویں سب سے زیادہ آبادی والی ریاست(پاکستان پیدا ہوئی ) ابھری۔

کم و بیش اسی طرح بات جناب عطا ربانی اپنی دوسری کتاب "جناح تھرو مائی آئیز" میں صفحہ 144 پر لکھتے ہیں کہ :
The last British Viceroy had formally handed over power. The ceremony over, the two dignitaries walked back to the main entrance of the Assembly building where they were joined by members of the Assembly and other distinguished guests to witness the last ritual of the termination of British Raj and the birth of the new state. The Union Jack that flew atop the main entrance of the Assembly building was then slowly hauled down with the buglers sounding the "retreat". The Union Jack was neatly folded and ceremoniously handed over to Lord Mountbatten by the Quaid-e-Azam. The Governor General-designate then hoisted the green and white flag to the sound of 31 gun salute. Pakistan was born!
The two dignitaries drove together, back to the Governor General's House. Gul Hassan and I were there in time to receive them. Before disembarking, the Quaid- e-Azam tapped Mountbatten on his knee and turning towards his guest said something. Mountbatten reacted sharply and returned the complement with a stiff upper lip and a stern haughty look. We could not hear their conversation. The only two persons who were with them in the coach and within earshot were the two Military Secretaries. It is said that before alighting the Quaid tapped Mountbatten on his knee and said, "Thank God, I have brought you back safely." Mountbatten
یعنی "اور دنیا کی تمام قوموں کے ساتھ" آخری برطانوی وائسرائے نے باضابطہ طور پر اقتدار سونپ دیا تھا۔ دونوں معززین کی تقریب رونمائی اسمبلی کی عمارت کے مرکزی دروازے تک پہنچی جہاں ان کے ساتھ ممبران اسمبلی اور دیگر معزز مہمان بھی شریک تھے۔ برطانوی راج کے خاتمے اور نئی ریاست کی پیدائش کی آخری رسم جس نے اسمبلی کی عمارت کے مرکزی دروازے پر اڑان بھری تھی، اس کے بعد بگلرز کے ساتھ دی یونین جیک کو صفائی کے ساتھ جوڑ کر رسمی طور پر قائد اعظم نے لارڈ ماؤئنٹ بیٹن کے حوالے کیا گیا۔ اس کے بعد نامزد گورنر جنرل نے 31 توپوں کی سلامی کے ساتھ سبز اور سفید پرچم لہرایا۔
دونوں معززین ایک ساتھ گاڑی چلا کر واپس حسن کے پاس گئے اور میں ان کے استقبال کے لیے وقت پر موجود تھے۔ اترنے سے پہلے، قائداعظم نے ماؤنٹ بیٹن کو گھٹنے پر تھپتھپایا اور اپنے مہمان کی طرف مڑ کر کچھ کہا۔ ماؤنٹ بیٹن نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور اس کے اوپری ہونٹ اور سخت مغرور نظر کے ساتھ تکمیل کو واپس کر دیا۔ ہم ان کی گفتگو نہیں سن سکتے تھے۔ ان دو افراد جو کوچ میں ان کے ساتھ تھے اور ان کے کان کے اندر ملٹری سیکرٹریز تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اترنے سے پہلے قائد نے ماؤنٹ بیٹ کو اپنے گھٹنے پر تھپتھپا کر کہا، ’’اللہ کا شکر ہے، میں تمہیں بحفاظت واپس لایا ہوں۔ماؤئنٹ بیٹن"

آگے جناب صفدر محمود صاحب کے مضمون کے مطابق:
اگرچہ ماؤنٹ بیٹن نے کہا تھا کہ آج نصف شب برطانوی عملداری ختم ہو جائے گی لیکن عملی طور پر پاکستان کا جھنڈا لہراتے ہی عوامی سطح پر آزادی کے جشن شروع ہو گئے۔ اس تاریخی پس منظر میں حکومت پاکستان نے قائد اعظم کی منظوری سے جولائی 1948ء میں یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان میں ہر سال یوم آزادی چودہ اگست کو منایا جائے گا جس دن دستور ساز اسمبلی کی عمارت سے یونین جیک اتار کر پاکستان کا پرچم لہرایا گیا تھا۔
بقول عطا ربانی (ADC) انہوں نے قائداعظم کی ہدایت پر ’’ممتاز مقامی ہندوئوں کو انتقال اقتدار کی اس تقریب میں شرکت کے دعوت نامے جاری کئے تھے لیکن کوئی بھی ہندو شریک نہ ہوا۔‘‘ خفیہ رپورٹ کے مطابق آزادی کے جلوس کے دوران قائداعظم پر بم سے قاتلانہ حملے کا منصوبہ تھا۔
قائداعظم کو کھلی گاڑی میں سفر سے منع کیا گیا لیکن وہ وائسرائے کے ساتھ کھلی گاڑی میں ہی چودہ اگست کی صبح دستور ساز اسمبلی گئے اور کھلی گاڑی میں ہی واپس آئے۔ قائداعظم نے خوفزدہ ہونے سے انکار کر دیا اور اللہ سبحانہ تعالیٰ انہیں بخیر و عافیت گورنر جنرل ہاؤس لے آیا۔
راستہ بھر فلک شگاف نعروں، عوامی جوش و خروش، کھمبوں اور عمارتوں سے لٹکے لوگ اور سڑک کے دونوں جانب انبوہ نے ان لمحات کو یادگار بنا دیا۔ گورنر جنرل ہائوس واپس پہنچتے ہی ماؤنٹ بیٹن واپس نیودہلی چلے گئے۔
14 اور 15 اگست کی شب گیارہ بج کر پچاس منٹ پر آل انڈیا ریڈیو نے پاکستان کی سرحدوں کے اندر واقع کراچی، لاہور، ڈھاکہ ریڈیو اسٹیشن ہمیشہ کے لئے بند کر دیے۔ اس رات کروڑوں لوگ ریڈیو کے ساتھ کان لگائے بے چینی سے اعلان کا انتظار کر رہے تھے۔ دوسری طرف فسادات کی آگ پھوٹ پڑی تھی اور مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا ایسا خوفناک قتل عام شروع ہو چکا تھا جس کی عالمی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔بارہ بجے شب کے لگ بھگ براڈ کاسٹر ظہور آذر نے اعلان کیا کہ ٹھیک آدھی رات کو پاکستان کی آزاد مملکت معرض وجود میں آ جائے گی۔ بارہ بجے جب انگریزی میں ظہور آذر نے اعلان کیا کہ یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ہے اور پھر اردو میں مصطفیٰ ہمدانی نے یہی الفاظ دہرائے تو پوری قوم جھوم اٹھی۔
)https://urdu.geo.tv/latest/228711-(
الحمد حوالے تو اور بھی ہیں جنھیں ہم آئندہ کسی وقت کے لیے موخر کرتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ مندرجہ بالا حوالے ہی یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے پہلے قومی پرچم کی پرچم کشائی قائد اعظم محمد علی جناح کے ہاتھوں ہی ہوئی تھی۔لہذا یہ کہنا تاریخی طور پر قطعاً غلط ہے کہ پاکستان کا پہلا پرچم سرکاری سطح پر علامہ شبیراحمد عثمانی نے لہرایا تھا۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ ہمیں علامہ کے مرتبہ مقام اور علمیت سے کوئی پرخاش نہیں لیکن تاریخ کا تقاضہ شواہد اور حوالوں کا محتاج ہوتا ہے ،محبت اور عقیدت کا نہیں۔
سمجھدار قومیں تاریخ کی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں مگر ہم تاریخی حقیقتوں سے سبق سیکھنے کی بجائے اس سے آنکھیں چھپاتے ہیں اور اپنی من پسند تاریخ گھڑکرمحبت و عقیدت کے بت تراشتے ہیں اور اپنے ممدوح کو اس مقام پر فائز کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس نہ تو وہ اہل ہوتا ہے اور نہ ہی تاریخی حقائق اس کی تصدیق کرتے ہیں۔جبکہ دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ قومی تاریخ کے کسی گوشے کو مسخ نہ کیا جائے اور قومی تاریخ کے کسی بھی کردار سے ناانصافی نہ کی جائے۔
محمداحمد ترازی
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 318 Articles with 343924 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More