ایک تیز ہوا چلی اور تاریخ کی کتاب کے اوراق کو پلٹا کر
ان دردناک دنوں کی یاد تازہ کر گئ اج اندلس پر گزرا وہ ظلم یاد آ گیا جس نے
اس زمین اور اس کے مکینون کی زندگیاں بدل ڈالیں تھیں وہ ماضی جو گزر جانے
کے باوجود آج ہمارے سامنے ہے۔ کیا غزہ کا مستقبل بھی اندلس جیسا ہو گا کیا
ہم ان لوگوں کو ہمیشہ کیلئے منوں مٹی تلے دفنا کر بھول جائیں گے دو چار روز
افسوس اور مذمت کے جھوٹے آنسو بہا کر سب بھول جائیں گے کیا انسانی جانیں
اتنی بے وقعت ہیں یا پھر مسلمانوں کے خون کو ان کی بزدلی نے حقیر کر دیا ہے
۔
یوکرینی حق دفاع استعمال کرنے کے باوجود مسلح ہونے کے باوجود سارے یورپ کی
حمایت کے ساتھ بھی مظلوم اور وہاں کے بچے معصوم ہیں اگر توان بچوں کا قصور
جو نہتے لاوارث بے سہارا فلسطین میں سفاکیت کا نشانہ بنے ہوۓ ہیں۔ ہم دو
ارب کے ہوتے ہوۓ وہ لاوارثوں کی موت کیوں مر رہے ہیں؟امن کے جھنڈے تلواروں
کی نوک پر لہراۓ جائیں تو تبھی امن قائم ہوتا ہے ۔حق کے راستے میں لڑنا
دہشت گردی نہیں جہاد کہلاتا ہے اپنے اندر کا ڈر ہميں نکالنا ہو گا ورنہ
اندلس اور غزہ جیسی کئی داستانیں دیکھنے کو ملیں گیں۔
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ رسم خانقاہی ہے فقط اندوز دل گیری
|