ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کے اس بیان کے بعد کہ
خطے میں اُن کا ملک مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتا، بہت سے
سوالات کو جنم دیتا ہے۰۰۰ ایران کے نئے صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف
برداری میں شریک حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد میڈیاکی جانب
سے بڑے پیمانے پر یہ تشہیر کی جارہی تھی کہ ایران حماس کے رہنما کی ان کے
ملک میں شہادت پر اسرائیل سے ضروربدلہ لے گا۰۰۰ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہیکہ
بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کو خاموش رکھنے کیلئے یہ بتانے کی کوشش کی
گئی تھی کہ ایران بہت جلد اسرائیل سے بدلہ لے گا ورنہ دنیا بھر کے مسلمان
ایران کے خلاف اٹھ کھڑے ہوسکتے تھے ۔ ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب
حلف برداری میں حماس کے اس جیالے قائد اور بہادرمردِ مجاہد رہنما اسماعیل
ہنیہ کو مدعو کرکے انکے خلاف منصوبہ بند طریقہ سے کارروائی کرتے ہوئے انہیں
شہید کردیا گیا۰۰۰حماس رہنما کی شہادت کے بعد بعض گوشوں بشمول میڈیاکی جانب
سے یہ کہا اور لکھا گیا کہ نئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان خود اس کارروائی
کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں اور وہ اسرائیل کو حماس قائد کی شہادت کے ذریعہ خوش
کرنے کی کوشش کئے ہیں۰۰۰ اب اس میں کتنی صداقت ہے یہ تو آنے والا وقت ہی
بتائے گا۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان بہرصورت جنگ
کے کالے بادل صرف خوف و ہراس پیدا کرنے کیلئے ہے نہ کہ برسنے کیلئے۰۰۰ واضح
رہے کہ اُن دنوں ایران کے سپریم لیڈرعلی خامنہ ای اور دیگر ایرانی قائدیننے
یہ بتانے کی کوشش کی کہ ایران بہت جلد اسرائیل پر حملہ کردے گا۰۰۰ لیکن یہ
سب مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی کوشش سمجھی جارہی ہے ۰۰۰ اگر واقعی ایران
اسرائیل کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوتا تو اب تک ان دونوں ممالک کے درمیان خطرناک
جنگ چھڑگئی ہوتی اور خطے کے حالات بے شک سنگین نوعیت اختیار کرچکے ہوتے
لیکن یہ سب ایک چال ہے جسے سمجھنا ہر فردِ بشر کیلئے ممکن نہیں۰۰۰ یوں
توعالمی سطح پر عوام کو بیوقوف بنانے کی کوششیں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں
اور اب بھی یہ کوششیں دشمنانِ اسلام اور نام نہاد مسلمان کررہے ہیں۰۰۰
ایران اور اسرائیل کے درمیان دوستی ہے ہو یا دشمنی اس سے ہمیں کوئی سروکار
نہیں ۰۰۰ لیکن اتنا ضرور ہے کہ غزہ پٹی کے مظلومین کے نام پر اسرائیل ہوکہ
ایران یا کوئی اور ملک ۰۰۰ ان معصوم، بے قصور شہداء اور زخمی بچے ، بوڑھے ،
نوجوان مردو خواتین غرض کہ ہر عمرکے مظلوم افراد جو غزہ پٹی ، خان یونس،
رفح میں بھوک و پیاس اور زخموں سے چُور زندگی گزار رہے ہیں انکے نام پر
اپنا اپنا الّو سیدھا کررہے ہیں۰۰۰ کوئی ان مظلومفلسطینیوں پر ظالم اسرائیل
کی جانب سے کئے جانے والے خطرناک حملوں کے خلاف صرف اور صرف بیان بازی سے
کام لے رہے ہیں توکوئی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور دشمنانِ اسلام
طاقتیں اسرائیل کو مزید طاقتور بنانے کیلئے ہر ممکنہ کوشش کرتے ہوئے اسے
مالی و جنگی سازو سامان فراہم کررہے ہیں ۰۰۰ برطانوی خبررساں ایجنسی کے
مطابق 26؍ اگست کو ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اپنے اطالوی ہم منصب
انتونیو تاجانی کو فون پر بتایا کہ تہران خطے میں کشیدگی کو بڑھانا نہیں
چاہتا مگر وہ کسی سے خوفزدہ بھی نہیں ہے۔واضح رہے جیسا کہ اوپر بتایا گیا
ہے کہ ایران نے 31؍ جولائی کو حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا
الزام اسرائیل پر عائد کیا تھا۔اس واقعہ کے بعد ایران کے سرکاری میڈیا نے
وزیر خارجہ عراقچی کے حوالے سے کہا تھا کہ یہ ’ایران کی سلامتی اور
خودمختاری کی ناقابل معافی خلاف ورزی ہے۔‘یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ
ابھی تک اسرائیل نے ایرانی دارالحکومت میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی ذمہ
داری نہ تو قبول کی ہے اور نہ ہی اس سے انکار کیا ہے۔ایران کی وزارت خارجہ
کی طرف سے پیر کو جاری کیے گئے بیان میں عباس عراقچی اور اطالوی وزیر خارجہ
کی ٹیلی فونک گفتگو کی تفصیلات بتائی ہیں جس کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ نے
کہا کہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کا بدلہ ضرور مگر ’نپے تلے انداز‘ میں لیا
جائے گا۔اب کس انداز میں لیا جائے گا اور کب لیا جائے گا یہ بتاناتومشکل ہے
کیونکہ بدلہ لیا بھی جائے گا کہ نہیں ۰۰۰؟ لیکن اتنا ضرورہے کہ شہادت کا
جام حاصل کرنے والے مردِ مجاہد اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد حالات اتنے
سنگین بتائے جارہے تھے کہ بس ابھی چند لمحات میں ایران اسرائیل پر حملہ
کردے گااور حالات پورے مشرقِ وسطیٰ کے سنگین نوعیت اختیار کرجائینگے جو
شاید کبھی نہ ہونگے ۰۰۰ بہت سے دانشوروں ، تجزیہ نگاروں اور صحافیوں کا اس
سے اختلاف تھا کہ ایران اسرائیل پر حملہ کرے گا کیونکہ ایران او راسرائیل
کے درمیان اگر واقعی جنگ ہونی تھی تو بہت پہلے ہی ہوچکی ہوتی یہ بیان بازی
بس ایک دکھاوا ہے ۰۰۰ جو حقیقت پر مبنی دکھائی دے رہا ہے۔
غزہ میں اسرائیل کے نئے احکامات ۰۰۰ جنگ بندی کی امیدمعدوم
ظالم اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نہیں چاہتا کہ غزہ میں جنگ بندی ہو۰۰۰
ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل نے وسطیٰ غزہ کی پٹی میں دیر البلاح کیلئے
انخلا کے نئے احکامات جاری کیے ہیں جس سے مزید خاندانوں کو نقل مکانی پر
مجبور کیا گیا ہے۔ذرائع ابلاغ روئٹرز کے مطابق اسرائیلی فورسز کا کہنا ہے
کہ اس نے عسکریت پسند گروپ حماس اور علاقے میں سرگرم دیگر افراد کے خلاف
کارروائی کرنی ہے۔حالیہ دنوں میں اسرائیل نے غزہ بھر میں انخلا کے متعدد
احکامات جاری کیے ہیں جس پر فلسطینیوں، اقوام متحدہ اور امدادی تنظیموں کی
جانب سے شدید احتجاج کیا گیا ۔دیر البلاح میونسپلٹی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی
انخلا کے احکامات سے اب تک ڈھائی لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔طبی ماہرین
کے مطابق پیر کو اسرائیلی فوج کے حملوں میں کم از کم سات فلسطینی شہید ہو
گئے۔ دو دیر البلاح میں شہید کئے گئے جہاں تقریباً دس لاکھ لوگ پناہ لیے
ہوئے تھے، دو النصیرات کیمپ کے ایک سکول میں اور تین مصر کی سرحد کے قریب
جنوبی شہر رفح میں شہید ہوئے۔بتایاجاتا ہیکہ نئے احکامات نے بہت سے
خاندانوں اور مریضوں کو الاقصیٰ ہسپتال چھوڑنے پر مجبور کر دیا جو دیر
البلاح کی اہم طبی سہولت ہے اور جہاں لاکھوں باشندوں اور بے گھر افراد نے
بمباری کے خوف سے پناہ لی تھی۔میڈیسن سانس فرنٹییئرز (ایم ایس ایف) نے
اتوار کی رات ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ اس کے تعاون سے چلنے والے
الاقصیٰ ہسپتال سے تقریباً 250 میٹر کے فاصلے پر ہونے والے دھماکے سے خوف و
ہراس پھیل گیا۔بیان کے مطابق ’نتیجتاً ایم ایس ایف اس بات پر غور کر رہا ہے
کہ آیا زندگی بچانے کیلئے علاج کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے، زخمیوں
کی دیکھ بھال کو فی الحال معطل کرنا ہے یا نہیں۔‘ایم ایس ایف نے غزہ کی
وزارت صحت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تقریباً 650 مریضوں میں سے صرف 100
ہسپتال میں ہیں جن میں سے سات انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں ہیں۔مزید کہا
گیا کہ ’یہ صورتحال ناقابل قبول ہے۔ الاقصیٰ ہسپتال مریضوں کے لیے متبادل
کی کمی کی وجہ سے کئی ہفتوں سے اپنی صلاحیت سے زیادہ کام کر رہا ہے۔ تمام
متحارب فریقوں کو ہسپتال کے ساتھ ساتھ مریضوں کی طبی دیکھ بھال تک رسائی کا
احترام کرنا چاہیے۔‘انخلا پر مجبور ہونے والی ایک فلسطینی خاتون سواسن ابو
افیش نے کہا کہ وہ اور ان کے بچے اب تک 11 بار بے گھر ہو چکے ہیں۔انہوں نے
کہا کہ ’میں نے اپنے آدھے بچے پیچھے اپنے سامان کے پاس چھوڑے ہیں اور اب
میں اپنے چھوٹے بچوں اور اپنی بیٹی کے ساتھ ہوں، صرف اﷲ ہی ہماری مدد کر
سکتا ہے۔ میرے پاس نقل و حمل کے لیے پیسے نہیں ہیں، میں 17 کے علاقے میں
پیدل جاؤں گی جہاں میرا خاندان رہ رہا ہے۔‘اس کشیدگی سے جنگ کے خاتمے کی
بہت کم امید نظر آتی ہے کیونکہ قطر، مصر اور امریکہ کی سفارتکاری اب تک
اسرائیل اور حماس کے درمیان خلیج کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔کیونکہ
اسرائیل نہیں چاہتا کہ جنگ بندی ہو اسی لئے وہ ہمیشہ کسی نہ کسی بہانے کے
ذریعہ حماس کو جنگ بندی سے روکنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
مصر میں بطلیمی ادوار کے بادشاہوں کے نوادرات کی دریافت
مصر میں قدیم بادشاہت کے آخری دور کے نوادرات کا خزانہ دریائے نیل کے قریبی
علاقے دمیاط گورنریٹ میں موجود 63 مقبروں سے دریافت ہوا ہے۔امریکی نیوز
ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مصر کی نوادرات اتھارٹی کے اہلکار نے پیر
کو بتایا کہ ’ماہرین ان نوادرات کی تاریخ اور درجہ بندی کی جانچ پر کام کر
رہے ہیں۔‘مصر کی وزارت سیاحت و نوادرات کی ترجمان نوین العارف نے بتایا کہ
’ان نمونوں میں سونے کے سکے، مختلف نوادرات اور مصر میں 305 قبل مسیح کے
بطلیمی ادوار کے منفرد زیورات شامل ہیں۔نوین العارف کے مطابق ان اشیاء میں
سے چند مصر کے مختلف عجائب گھروں میں سے کسی ایک میں نمائش کے لیے رکھی جا
سکتی ہیں۔وزارت نے گزشتہ ماہ ایک بیان میں کہا تھا کہ’مصر میں قدیم نوادرات
کی سپریم کونسل سے وابستہ مصری آثار قدیمہ کے مشن نے دمیاط گورنریٹ میں تل
الدیر کے علاقے میں کھدائی کے دوران مٹی کی اینٹوں کے 63 مقبرے دریافت کیے
ہیں۔‘مقبروں کے علاقے میں پائی جانے والی دیگر اشیاء میں سلطنت بطلیما دور
کے مجسمے، مختلف اشکال کے ہار اور مٹی کے برتنوں میں 38 کانسی کے سکے شامل
ہیں ۔بطلیما سلطنت رومی سلطنت کا حصہ بننے سے قبل مصر میں آخری سلطنت تھی
اور اس خاندان کی حکمرانی کی بنیاد 305 قبل مسیح میں رکھی گئی تھی۔واضح
رہیکہ مصر میں 2018 میں قاہرہ کے قومی عجائب گھر میں پہلی بار بطلیما دور
کے نوادرات کی نمائش کی گئی جس میں قدیم دور سلطنت کی تقریباً 300 اشیاء
رکھی گئیں۔
**
|