بی جے پی کو بادلِ نخواستہ عدالتِ عظمی ٰ کی پھٹکار کے
بعد جموں و کشمیر اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کرنا پڑا ۔ اس ننھے سے صوبے
کو دو حصوں میں تقسیم کرکے یونین ٹریٹری بنا دیا گیاپھر بھی وہاں تین
مرحلوں میں 18، 25 ستمبر اور یکم اکتوبر کو ووٹ پڑیں گےاور چار اکتوبر کو
نتائج کا اعلان ہو گا۔ دفعہ 370 ہٹائے جانے کے پانچ سال بعد بھی کشمیر میں
بی جے پی کی حالت اتنی خراب ہے کہ مودی کی نارضی کے سبب راندۂ درگاہ
ٹھہرائے جانے والے رام مادھو کو اس کا انچارج بنانا پڑا اور کشن ریڈی اس
مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں ان کے معاون ہیں ۔ جموں کشمیر میں اردو ؍ہندی
بولی جاتی ہے مگر پوری گنگا کی وادی میں وہاں انتخاب کی کمان سنبھالنے کے
لیے بی جے پی کو کوئی مناسب رہنما نہیں ملا تو اسی رام مادھو کو لانا پڑا
جس پر سابق گورنر ستیہ پال ملک نے بدعنوانی کے سنگین الزامات لگائے تھے ۔
بی جے پی کی اب یہ حالت ہے کہ کشمیر تو دور جموں میں بھی کوئی علاقائی
جماعت اس کے ساتھ آنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وادی کشمیر میں چونکہ اس کے
پاس امیدواروں کا قحط ہے اس لیے نام نہاد مضبوط آزاد امیدواروں کی حمایت کا
فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایسے میں جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات کی تیاری کے لیے
مرکزی الیکشن کمیٹی کی میٹنگ ہوئی تو جگت پرکاش نڈا کی صدارت میں وزیر اعظم
نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ سمیت سدھا یادو، اقبال سنگھ لال پورہ
وناتھی سری نواسن وغیرہ نے شرکت کی۔ ان میں چونکہ سبھی باہری ہیں اس
لیےصوبائی انچارج ترون چُگ، آشیش سود، ریاستی صدر رویندر رینا، راجیہ سبھا
رکن پارلیمان غلام علی ، لوک سبھا ایم پی جگل کشور، مرکزی وزیر ڈاکٹر
جتیندر سنگھ، کے ساتھ اشوک کول کو بلانا پڑا۔ اس مشقت کا نتیجہ دیکھ کر کہ
مودی اور شاہ کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔بی جے پی کو اپنے ہی ناراض
کارکنان کے دباو میں آکرپانچ گھنٹے میں امیدواروں کی 3 فہرستیں جاری کرنی
پڑی ۔ یہ مودی اور شاہ کی اطاعت گزاری کا عالم ہے۔
بی جے پی کی پہلی فہرست صبح 10 بجے آئی۔ اس میں 3 مرحلوں کے 44؍ امیدواروں
کا نام شامل تھا، لیکن اسے کچھ دیر میں حذف کر دیا گیا۔ اس لیےکہ ناراض
پارٹی کارکنان نے ہائی کمان پر باہر سے لائے گئے لوگوں کوتھوپنے کا الزام
لگا کر نعرے لگاتے ہوئے رویندر رینا کو گھیر لیا ۔ بی جے پی ملک بھر میں
ایسا کرتی ہے مگربن پیندے کے لوٹے یہ کڑوا گھونٹ پی جاتے ہیں ۔ جموں کے
حریت پسند وں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تو رینا نے خود کو کمرے میں بند
کرکے ہائی کمان سے رابطہ کیا۔ اس کے نتیجے میں پہلی فہرست کے دو گھنٹے بعد
12 بجے ایک نئی فہرست آئی جس میں پہلے مرحلے کے صرف 15؍ امیدواروں کے نام
باقی رہ گئے تھے۔ رویندر رینا نے لیپا پوتی کرتے ہوئے کہا، "ابھی توجہ 18
ستمبر کو ہونے والی ووٹنگ کے پہلے مرحلے پر ہے۔ میں ہر کارکن سے ذاتی طور
پر بات کروں گا۔" کارکن پھر بھی نہیں مانے تو 2.45 بجے تیسری فہرست آئی۔ اس
میں صرف کونکرناگ سے چودھری روشن حسین کے نام تھا یعنی اتفاق بھی ہوا تو
ایک مسلمان پر باقی سارے امیدوار ردیّ کی ٹوکری میں چلے گئے۔اس کے باوجود
وزیر اعظم کشمیر میں ایک سے دو اور جموں میں 8 سے 10 ریلیاں کرنے کے
خواہشمند ہیں مگر جب پارٹی کے اپنے ہی لوگ اگرہائی کمان کی نہیں سنتے ہوں
تو بھلا باہر کے لوگ کیسے سنیں گے؟
اس کے برعکس اسی دن کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کا
مرحلہ بخیر و خوبی طے پاگیا۔ ریاست کی جملہ 90 نشستوں میں سے کانگریس 32
سیٹوں پر اپنا امیدوار اتارنے پر راضی ہوگئی جبکہ نیشنل کانفرنس کو 51
نشستیں مل گئیں۔ سی پی ایم اور پینتھرس پارٹی کو 1-1 نشستوں پر اکتفاء کرنا
پڑا ۔ اس کے علاوہ 5 نشستوں پر دوستانہ مقابلہ پر اتفاق کے باوجود میٹنگ کا
خیر سگالی ماحول بنا رہا۔اس موقع پر فاروق عبداللہ نے بی جے پی پر کشمیر کے
انتخاب میں خلل ڈالنے کا الزام لگایا ۔ کانگریس جنرل سکریٹری وینوگوپال نے
کہا کہ بی جے پی نے جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام خطہ بنا کر مقامی
عوام کو دھوکہ دیا ہے۔ پی ڈی پی انڈیا اتحاد میں شامل ہے پھر بھی اسے کوئی
نشست نہیں دی گئی مگر محبوبہ مفتی نے کہا وہ بی جے پی کو ہرانے والوں کی
حمایت کریں گی ۔ ان کی یہ حالت پچھلے انتخاب کے بعد بی جے پی کو ساتھ لینے
کی وجہ سے ہوئی حالانکہ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں پی ڈی پی نے 28،
بھارتیہ جنتا پارٹی نے 25، نیشنل کانفرنس نے 15 اور کانگریس نے 12 سیٹوں پر
کامیابی حاصل کی تھی۔اس طرح گویا کمل کے ساتھ نے محبوبہ کی لٹیا ڈبو دی ۔
پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی نے جموں کی دو اور نیشنل کانفرنس نے کشمیر
کی دو سیٹوں پر کامیابی حاصل کی مگروہاں پر بی جے پی کے پاس صرف 24.36 فیصد
ووٹ ہے جو پچھلی مرتبہ کے مقابلے میں 23.13 کم ہے ۔ اسی طرح کانگریس کے ووٹ
میں بھی 9.92 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ یہ ممکن ہے لداخ کو الگ کرنے کے سبب
ہوئی ہو۔ پچھلے الیکشن کے مقابلے فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی پارٹیوں
نے بالترتیب 14 اور 5 فیصد ووٹ کا اضافہ درج کیا ہے ۔ اس بار کانگریس کے
ساتھ یہ دونوں جماعتیں انڈیا اتحاد میں شامل ہیں اس لیے بی جے پی کی کراری
ہار طے ہے۔ اس کی پردہ پوشی کے لیے ہریانہ کا ساتھ میں رکھا گیا تاکہ اس
زخم کی تھوڑی بہت مرہم پٹی ہوجائے۔ آر ایس ایس ازل سے آئینِ ہند میں دفع
370 مخالف رہاہے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اس کی وجہ سے کشمیر میں علٰحیدگی
پسندی اور تشدد ہے۔ اس دفع کے ختم ہوتے ہی کشمیر کے حالات بالکل معمول پر
آجائیں گے اور ظاہر ہے یہ کارنامہ انجام دینے والی بی جے پی جموں کشمیر
سمیت سارے ملک میں اپنا اقتدار مضبوط کرلے گی ۔ اسی لیے پانچ سال بعد اس کو
بڑے طمطراق سے ختم کردیا گیا اور اب ان دعووں کی حقیقت دیکھنا ضروری ہے ۔
کشمیر میں اگر حالات معمول پر آچکے ہوتے تو وہاں کے لوگوں کو پانچ سالوں
تک الیکشن کا انتظار کرنے پر مجبور کیوں ہونا پڑتا؟ عدالتِ عظمیٰ کی پھٹکار
پر حکومت مہلت کےآخری لمحات میں اس کا انعقاد کرنے پر مجبور کیوں ہوتی؟
حالات کو معمول پر لانے والوں کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ جموں کشمیر میں کل
پانچ پارلیمانی نشستیں ہیں وہاں پر پانچ مرحلوں میں رائے دہندگی کیوں ہوئی؟
جبکہ تمل ناڈو کی چالیس نشستوں پر ایک ہی دن میں ووٹ پڑ گئے۔ ون نیشن ون
الیکشن کے دعویداروں کا یہ حال ہے کہ ہریانہ کے 90 نشستوں پر تو پولنگ ایک
ہی دن میں ہوجائے گی مگرجموں کشمیر میں یہی کام تین الگ الگ دنوں میں ہوگا
جبکہ لداخ کو الگ کیا جاچکا ہے اور وہاں الیکشن کی کوئی بات ہی نہیں کررہا
ہے۔ جہاں تک تشدد کا تعلق ہے وہ وارداتیں کشمیر کی وادی سے نکل جموں میں
آگئی ہیں اور نئی حکومت بننے کے بعددو ماہ میں 17فوجی اور اتنے ہی عام
شہری ہلاک ہوچکے ہیں جو پچھلے تین سالوں کے اوسط سے دوگنا ہے۔حالات کے
معمول پرلانے کا دعویٰ ہی اگر غلط نکل گیا تو پھر اس سے منسلک زمینوں کی
فروخت اور خوشحالی وغیرہ کے خواب ازخود چکنا چور ہوگئے۔ وہ نوجوان جنہیں
کشمیر میں جاکر بیاہ رچانے کا خواب دکھایا گیا تھا اب سنگھ پریوار کے
پرچارک بن کر مجرد زندگی گزاریں گے۔
جموں کشمیر کی دفع 370 کے خاتمے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کا سپنا تو اس طرح
ٹوٹ کر بکھرا کہ بیچاری بی جے پی کو پوری وادی میں ایک امیدوار نہیں ملا۔
لداخ کے اندر اسے دوبارہ کامیابی تو دور نیشنل کانفرنس کے ایک باغی امیدوار
نے شکست فاش سے دوچار کرکے کانگریس کے پیچھے تیسرے نمبر پر ڈھکیل دیا۔ 2019
میں کشمیر کی دفع 370 ختم کرنے کے بعد ہریانہ اور مہاراشٹر کے انتخابات
ہوئے اس میں بی جے پی نے اسے بھنانے کی خوب کوشش کی ۔ اتفاق سے مہاراشٹر کا
ایک فوجی جوان اسی زمانے میں کشمیر کے اندر ہلاک ہوا اور اس کی موت سے بھی
فائدہ اٹھانے کی سعی کی گئی مگر بی جے پی پہلے کی بہ نسبت دس نشستیں گنوا
بیٹھی۔ ہریانہ کے اندرفوج میں شامل ہونے کا رواج عام ہے۔ وہیں کشمیر میں
جاکر شادی رچانے کا شوشہ چھوڑا گیا تھا لیکن بی جے پی وہاں معمولی اکثریت
حاصل کرنے سے محروم رہی اورجے جے پی کی بیساکھی پر حکومت بنانی پڑی ۔ اس کے
بعد دہلی اور بہار کے انتخابات میں بھی اس کی یاد دلائی گئی مگر چونکہ کوئی
فائدہ نہیں ہوا اس لیے بی جے پی خود اسے بھول گئی۔ ساحر نے کہا تھا ’وہ
افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن اسے ایک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا
اچھا ‘ لیکن اس افسانے کو بی جے پی اگر بھول بھی جائے تو لوگ نہیں بھولیں
گے۔یہ زعفرانی ٹولہ کے لیے ایک ناقابلِ فراموش بھیانک خواب بن جائے گا ۔
|