ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے

تحریک آزادی کشمیر کے سرخیل اور مزاحمت کا استعارہ ۔۔۔۔۔۔بابائے حریت سید علی شاہ گیلانی
سید علی شاہ گیلانی کو کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے عشروں پرمحیط طویل جدوجہد کے اعتراف میں پاکستان کے سب سے اعلیٰ سول ایوارڈ نشان امتیاز سے نوازاگیا

 تحریک آزادی کے سرخیل ، بابائے حریت سید علی گیلانی کی تیسری برسی آج منائی جارہی ہے ، سید علی گیلانی نے بھارتی پولیس کی حراست کے دوران یکم ستمبر 2021کو سرینگر کے علاقے حیدر پورہ میں واقع اپنی رہائش گاہ پر جام شہادت نوش کیاتھا۔ انہیں ایک دہائی سے زائد عرصے تک مسلسل گھر میں نظر بند رکھا گیا۔آل پارٹیز حریت کانفرنس نے سید علی گیلانی کی برسی کے موقع پر مقبوضہ کشمیر کے عوام سے حیدر پورہ سری نگر ان کی قبر پر حاضری دے کر خراج عقیدت پیش کرنے کی اپیل کی ہے۔جہاں ان کے خاندان کو یرغمال بنا کر مرحوم رہنما کو زبردستی سپرد خاک کردیا گیا تھا،مرحوم کی وصیت کے برعکس بھارتی قابض حکام نے انہیں شہداء قبرستان میں دفنانے سے انکار کردیا تھا، مقامی قبرستان میں جنازے میں صرف قریبی رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو شرکت کی اجازت دی گئی جسے قابض فورسز نے مکمل طور پر سیل کردیا تھا۔ بھارت نے یہ تمام جابرانہ اقدامات اس لیے کیے کیونکہ قابض حکام کو معلوم تھا کہ شہید سید علی گیلانی ان کے لیے زندہ سے زیادہ خطرناک ہیں۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے جنازے کی اجازت ایک ایسے وقت میں بڑے پیمانے پر بغاوت کو جنم دے گی جب بھارت نے اگست 2019 میں آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیریوں کو دبانے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں پہلے ہی بڑے پیمانے پر فورسز کی تعیناتی کی تھی۔سید علی گیلانی نے اپنی پوری زندگی اس نظریے کے لیے نہ صرف جدوجہد کی بلکہ کشمیریوں میں بھارت سے آزادی کا جذبہ بھی پیدا کیا، وہ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے سخت اور پرجوش حامی تھے اور انہوں نے کشمیریوں میں پاکستان کے ساتھ وابستگی کا جذبہ پیدا کرنے کا ایک مضبوط نعرہ دیا تھا۔ ان کا نعرہ ’’ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے‘‘ یہ نعرہ اب کشمیریوں کا مشہور نعرہ بن چکا ہے اور مقبوضہ علاقے کے ہر کونے میں گونج رہا ہے۔ سید علی شاہ گیلانی 29ستمبر 1929کو شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے ایک گاؤں میں پیداہوئے۔ ابتدائی تعلیم سوپور سے حاصل کی۔ سید علی گیلانی نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1950میں کیا ۔ انہوں نے تحریک آزادی کو زور و شور سے آگے بڑھانے کیلئے 2003میں اپنی تنظیم ’’تحریک حریت جموں وکشمیر ’’کی بنیاد رکھی۔ انہیں کئی مرتبہ جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی کارکن بھی منتخب کیا گیا لیکن جب کشمیری نوجوانوں نے بھارتی غلامی سے آزادی کیلئے مسلح جدوجہد شروع کی تو انہوں نے 1990میں اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ سید علی گیلانی عارضہ قلب میں مبتلا تھے جبکہ 2007میں انہیں گردوں کے کینسر کی بھی تشخیص ہوئی تھی۔ زندگی کے آخری مرحلے میں انہیں سانس کی د شواریوں کا سامنا تھا،وہ سات دہائیوں تک کشمیرکی تحریک حریت میں سرگرم رہے تھے۔اس کی پاداش میں انھیں کم سے کم 20برس تک بھارت اورکشمیر کی جیلوں میں قید یا نظربند رکھا گیا۔سید علی گیلانی کی وفات سے کشمیریوں نے ایک ایسا رہنما کھو دیا ہے جن کے ساتھ سارے حتیٰ کہ مخالفین بھی محبت رکھتے تھے۔ مرحوم قائد نے ورثاء میں کشمیری قوم کے علاوہ دو بیٹے، بیٹیاں اور پوتے پوتیاں چھوڑے۔ سید علی گیلانی ایک اعلیٰ پائے کے مصنف اور مثالی خطیب تھے۔سید علی گیلانی پاکستان کے کٹر حمایتی تھے جنہوں نے اپنی زندگی کشمیر کاز اور کشمیر پر بھارتی حکمرانی کے خاتمے کے مطالبے کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ سید علی گیلانی کو اگرچہ بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑالیکن کشمیر کا زکے ساتھ انکی وابستگی میں کوئی آنچ نہیں آئی۔انکا ماننا تھا کہ جموں وکشمیر پر بھارت کا قبضہ قطعی طور پر غیر منصفانہ اور غیر قانونی ہے اور کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ صرف اور صرف استصواب رائے کے ذریعے ہی کیا جاسکتاہے۔ سید علی گیلانی دل کی گہرائیوں سے پاکستان کے ساتھ محبت رکھتے تھے۔ وہ ریاست جموں وکشمیر کی بھارت سے آزادی اوراس کا پاکستان سے الحاق چاہتے تھے ۔سید علی شاہ گیلانی نے کشمیری عوام کوحق خودارادیت دلانے کے لیے پوری زندگی دلیرانہ جدوجہد کی۔انھیں قابض بھارتی حکام نے جبروتشدد کا نشانہ بنایا لیکن وہ پوری زندگی آہنی عزم کے ساتھ کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے رہے تھے۔پاکستان میں سیّد علی گیلانی کی وفات پر قومی پرچم سرنگوں رہا اورسرکاری طورپر ایک روزہ سوگ منایاگیا تھا۔جبکہ آزاد کشمیر حکومت نے سید علی گیلانی کی وفات پر ایک روزہ چھٹی اور تین روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا۔ آزاد کشمیر کے تمام ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں سید علی شاہ گیلانی کی غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی گئی تھی۔ جموں و کشمیر لبریشن سیل نے اس موقع پر خصوصی سوشل میڈیا کیمپینز بھی کی تھیں۔ سیدعلی گیلانی کو کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے عشروں پرمحیط طویل جدوجہد کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے ملک کے سب سے اعلیٰ سول ایوارڈ نشان امتیاز سے نوازا تھا۔ سیدعلی گیلانی کا‘‘ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے’’کا نعرہ آج پوری دنیا میں گونج رہا ہے، پوری دنیا میں سید علی گیلانی کو ان کے یوم شہادت پر زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے۔کشمیریوں کا سید علی گیلانی کے لئے بابائے حریت کا خطاب اُن کی تاریخی جدوجہد کا اعتراف ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز کی طرف سے محاصروں اورتلاشی کی کارروائیوں کے باوجودمختلف علاقوں میں پوسٹر چسپاں کئے گئے ہیں جن میں لوگوں سے قائد تحریک سید علی گیلانی کے یوم شہادت پرانہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے یکم ستمبراتوار کو حیدر پورہ سرینگر ان کی قبر پر حاضری کی اپیل کی گئی ہے۔مختلف تنظیموں کی جانب سے سرینگر کے مختلف علاقوں میں دیواروں، ستونوں اور بجلی کے کھمبوں پر چسپاں کیے گئے پوسٹروں میں آئمہ مساجد، خطیبوں اور علمائے کرام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ سید علی گیلانی اور دیگر شہدائے کشمیرکے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں۔ پوسٹروں میں لوگوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ قائد تحریک کو زبردست خراج عقیدت پیش ریں۔ پاکستان ،مقبوضہ جموں وکشمیر اور آزادجموں وکشمیرکے متعدد سیاسی و حریت رہنماؤں نے قائد تحریک سید علی گیلانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ قائد کی میراث آج بھی کشمیر کی سیاسی زندگی پر حاوی ہے۔ مرد آہن سید علی گیلانی کی جدوجہد حریت اور کشمیر کی آزادی کی تاریخ کا سنہری باب ہے۔ سید علی گیلانی کشمیریوں کے حق خودارادیت کے تحفظ اور آواز بلند کرنے میں شامل رہے، ان کی خدمات آج بھی ناقابل فراموش ہیں، بھارتی ناجائز قبضے کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی وجہ سے انہیں بھارت کے ہاتھوں عمر بھر ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت کی طرف سے حریت اور آزادی پسند رہنماؤں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرنے کی کوشش بین الاقوامی اور انسانی حقوق کے قانون کے خلاف ہے، بین الاقوامی قانون ہر شہری کو اس کے حق خود ارادیت اور آزادی کی اجازت دیتا ہے، لیکن بھارت طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو سلب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے مطابق کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کریں گے۔ قائد تحریک سید علی شاہ گیلانی ایک فرد نہیں تحریک اور مشن کا نام ہے جس کا نعرہ کشمیر بنے گا پاکستان ہے۔ وہ کشمیرکی آزادی کی تحریک میں مشعل بردارکا کردار ادا کرتے رہے ۔انھوں نے آخری سانس تک کشمیریوں کے حقوق کی جنگ لڑی۔ ’سید علی گیلانی کی جدوجہد انڈین قبضے کے خلاف ناقابل تسخیر عزم کی علامت ہے۔ سید علی گیلانی تحریک آزادی کشمیر کے روح رواں تھے، حریت رہنما نے بھارتی ظلم و جبر کا دلیری سے مقابلہ کیا۔ سید علی گیلانی عزم و حوصلہ کے کوہ گراں تھے، جبر، جیل اور تشدد کا کوئی مرحلہ ان کے عزم آزادی کو کبھی کمزور نہ کر پایا۔ سید علی گیلانی کی زندگی بھر کی قربانیاں اور مسلسل جدوجہد کشمیریوں کے بھارتی قبضے کے خلاف ناقابل تسخیر عزم کی علامت ہے۔ ان کا خواب اور اس کا مشن تب تک زندہ رہے گا جب تک مقبوضہ کشمیرکے لوگ اپنے حق خود ارادیت کو حاصل نہیں کر لیتے۔ وہ تحریک آزادی کے سرخیل اور مزاحمت کا استعارہ تھے۔ وہ کشمیریوں کے ایسے ہیرو ہیں جن پر آنے والی نسلیں فخر کریں گی۔سید علی گیلانی نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن کبھی بھی بھارت کے غاضبانہ قبضے کے سامنے سر نہیں جھکایا جبر، جیل اور تشدد کا کوئی مرحلہ ان کے عزم آزادی کو کبھی کم زور نہ کر پایا۔ کشمیری قوم سید علی گیلانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آزادی کی منزل ضرور حاصل کریگی اور کشمیر کاز کے لیے سید علی گیلانی کی جدوجہد کشمیر کی تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھی جائے گی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

Najeeb Alghafoor Khan
About the Author: Najeeb Alghafoor Khan Read More Articles by Najeeb Alghafoor Khan: 16 Articles with 8463 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.