7 ستمبر وہ تاریخ ساز دن ہے جب 1974 ء میں پاکستان
کی آئین ساز اسمبلی نے بحث و مباحثہ اور ہر پہلو پر مکمل غور و خوض کے بعد
قادیانیوں کی حیثیت کا تعین کیا اور متفقہ طور پر انہیں غیر مسلم اقلیت
قرار دیا۔ بلاشبہ رحمت للعالمین محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم
کرنا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر نبوت کے باب کو بند سمجھنااسلام کی اساس
اور بنیاد ہے، جس پر دین اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہے۔قرآن مجید کی ایک سو
سے زائد آیات مبارکہ اوررحمت للعالمین محمد صلی اﷲ علیہ و سلم کی تقریبا ً
دو سو دس احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تاجدار ختم نبوت حضرت
محمدصلی اﷲ علیہ و سلم اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرئے وہ کافر مرتد ، زندیق ، دائرہ
اسلام سے خارج ، اور واجب القتل ہے ۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’نہیں ہیں محمد (صلی اﷲ علیہ و سلم )
کسی کے باپ تمہارے مردوں میں سے بلکہ وہ اﷲ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں
اور اﷲ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے ‘‘(سورۃ الاحزاب آیت نمبر40)۔اس آیت
کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب صلی اﷲ علیہ و سلم کا نام مبارک
لے کر فرمایا کہ میرے محبوب صلی اﷲ علیہ و سلم خاتم النبیین ہیں۔ ارشاد
نبوی صلی اﷲ علیہ و سلم ہے ’’میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں
‘‘ (مسلم ) ایک اور حدیث مبارکہ ہے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا
’’ میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کرام کی مثال ایسی ہے ، جیسے ایک
شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی مگر ایک کونے میں ایک
اینٹ کی جگہ خالی رہی لوگ اس عمارت کے اردگرد پھرتے اور اس کی خوبصورتی پر
حیران ہوتے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی ( آپ
صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا وہ اینٹ میں ہوں ) اور میں خاتم النبیین ہوں‘‘
(بخاری و مسلم ، ترمذی )۔ ایک اور حدیث مبارکہ حضرت ثوبان رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میری امت
میں سے تیس کذاب ہوں گے ، جن میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے
حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ‘‘ (ابو
داؤد)۔
اسلام کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہے ، اس کلمے کے دو جزو ہیں اﷲ تعالیٰ کی
وحدانیت کا اقرار اور حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت کا
اعتراف و اقرار۔ آج تک پوری امت مسلمہ کا اجماع چلا آرہا ہے کہ حضور نبی
کریم صلی اﷲ علیہ و سلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کفر ہے، بلکہ امام اعظم امام
ابوحنیفہ رحمتہ اﷲ علیہ کا تو یہ فتویٰ ہے کہ حضور خاتم الانبیا محمد صلی
اﷲ علیہ و سلم کے بعد مدعی نبوت سے دلیل طلب کرنا یا معجزہ مانگنا بھی کفر
ہے ۔ اس سے عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ خلیفہ اوّل حضرت
ابوبکر صدیقؓ نے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے جو عظیم قربانیاں دیں وہ
تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں ۔ دشمنان اسلام کی جانب سے ہر دور میں
مسلمانوں کو اسلام سے گمراہ کرنے کی کوششیں جاتی رہی ہیں۔ دشمنوں کی ان
سازشوں پر نگاہ رکھنے، اور ان کی مسلمانان اسلام کو راہ راست سے بھٹکانے کی
گھناؤنی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لئے ہر سال 7 ستمبر کا دن یوم تحفظ ختم
نبوت کے طورپر منایا جاتا ہے ۔ کیونکہ بیسویں صدی کے آغاز میں برصغیر پاک و
ہند میں جب مرزا غلام احمد قادیانی آنجہانی ملعون نے اپنے خود ساختہ نبی
ہونے کا اعلان کیاتو علماء ومشائخ نے اس فتنے کے سدباب کے لیے ہر میدان میں
قادیانیت کا محاسبہ کیا ، اور سات ستمبر1974ء کے دن پاکستان کی قانون ساز
اسمبلی نے مشترکہ طورپر تاریخ ساز فیصلہ دیتے ہوئے اس فتنے کی جڑوں پر کاری
ضرب لگائی اور متفقہ طور پرقادیانیوں ،احمدیوں اورمرزائیوں کوغیرمسلم اقلیت
قراردیا ۔ اس فیصلے کے بعد اکثر اسلامی ممالک نے یکے بعد دیگرے قادیانیوں
کو غیرمسلم قراردیا۔اس فیصلے نے جہاں اہلیان پاکستان کے دینی جذبات کی مکمل
ترجمانی کی وہاں پر پوری دنیا کے مسلمانوں میں پاکستان کی قدر کو بھی بڑھا
دیا کہ پاکستان کے مسلمان حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ناموس کے لئے اپنی جان
کی قربانی دینے کے لئے بھی تیار ہیں، مگر ختم نبوت پر کسی کو ڈاکا ڈالنے کی
قطعاً اجازت نہیں دے سکتے۔
زندہ قومیں اس طرح کے تاریخ ساز اور تابناک ایام و لمحات کو نہ صرف یاد
رکھتی ہیں، بلکہ زندہ بھی رکھتی ہیں۔ امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری
رحمتہ اﷲ علیہ نے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ
’’ تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی میں یہ کمزوریاں اور
عیوب تھے، اس کے نقوش میں توازن نہ تھا۔ قدوقامت میں تناسب نہ تھا، اخلاق
کا جنازہ تھا، کریکٹر کی موت تھی، سچ کبھی نہ بولتا تھا، معاملات کا درست
نہ تھا، بات کا پکا نہ تھا، بزدل اور ٹوڈی تھا، تقریر و تحریر ایسی ہے کہ
پڑھ کر متلی ہونے لگتی ہے لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی
کمزوری بھی نہ ہوتی، وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا، قویٰ میں تناسب
ہوتا،چھاتی45 انچ کی، بہادر بھی ہوتا، کریکٹر کا آفتاب اور خاندان کا
ماہتاب ہوتا، شاعر ہوتا، فردوسی وقت ہوتا، ابوالفضل اس کا پانی بھرتا، خیام
اس کی چاکری کرتا، غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا،انگریزی کا شیکسپیئر اور
اردو کا ابوالکلام ہوتا پھر نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم اسے نبی مان
لیتے؟ نہیں ہرگز نہیں، میاں! آقا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کائنات میں
کوئی انسان ایسا نہیں جو تخت نبوت پر سج سکے اور تاج نبوت و رسالت جس کے سر
پر ناز کرے، تاجدار ختم نبوت محمدصلی اﷲ علیہ و سلم اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی
اور رسول ہیں۔‘‘
|