مال ودولت دیکھ کر شادی کرنے کے نتائج

ربیع النورکی رحمتوں اورمسرتوں سے مزین بہاریں سایہ فگن ہیں۔ غلامان رسول نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کاجشن یوم ولادت باسعادت منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ کوئی جلوس اورریلیاں نکالنے کی تیاریاں کیے ہوئے ہے توکوئی محافل میلادکاانعقادکررہاہے ۔کوئی اپنے گھرکوسجارہاہے توکوئی اپنی دکان کو۔بازاروں اورگلیوں کوبھی سجایاجارہاہے۔غلامان رسول نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کایوم ولادت باسعادت خوب سے خوب ترمناتے ہیں۔ رسول اکرم نورمجسم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے یوم ولادت باسعادت مناتے ہوئے ہمیں رحمت دوجہاں صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری پیاری سنتوں پرعمل کرنے اورسنتوں کوزندہ کرنے کاعہدبھی کرناہوگا۔ ان میں ایک سنت نکاح بھی ہے۔ نکاح کی خوشی میں شادی کااہتمام کیاجاتا ہے۔ جس میں رسم ورواج کوترجیح دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ شادی مال ودولت کی لالچ میں بھی کی جاتی ہے۔ کیامال ودولت کی لالچ میں مال داردولت مندلڑکی سے شادی کرنی چاہیے ۔ بڑے، خاندان والے، دولہاکے والدین سب یہی سوچتے ہیں کہ امیرلڑکی سے شادی ہوجائے توہمارے بیٹے کی زندگی سنورجائے گی جو اس کی امیربیوی کوملے گا وہ ان کے بیٹے کابھی توہوگا۔کیاواقعی ایساہوتا ہے۔ اس کی راہنمائی ہمیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ اوراس کی تشریح میں ملتی ہے۔ آج کی اس تحریرمیں وہ حدیث مبارکہ اوراس کی تشریح کاایک حصہ لکھاجارہاہے۔ جس میں بتایاجارہاہے کہ دولت مند مال دارعورت سے شادی کرنے کے کیافائدے یانقصانات ہوسکتے ہیں یاہوتے ہیں۔ اب آپ حدیث مبارکہ اوراس کی تشریح پڑھنے کی سعادت حاصل کریں ۔اﷲ تعالیٰ عمل کرنے کی توفیق، ہمت اورحوصلہ عطاء کرے۔ آمین
کتاب تحفہ شادی خانہ آبادی کے صفحہ 44پرلکھا ہے کہ
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ارشادفرمایا کہ عورتوں سے چاروجہوں سے نکاح کیاجاتا ہے ۔اس کے مال پر،خاندان پر،حسن پراوردین پرتم دین والی کواختیارکرو۔گردآلودہوں تمہارے ہاتھ
اس حدیث مبارکہ کی تشریح میں مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ عام طورپرلوگ عورت کے مال،جمال اورخاندان پرنظررکھتے ہیں۔ان ہی چیزوں کودیکھ کرنکاح کرتے ہیں مگرتم عورت کی شرافت اوردینداری کوتمام چیزوں سے پہلے دیکھو کہ مال اورجمال فانی چیزیں ہیں ۔دین لازوال دولت ہے۔ دیندارماں دینداربچے جنتی ہے شاعرمشرق ڈاکٹراقبال علیہ الرحمۃ نے کیاخوب فرمایا
بے ادب ماں باادب اولادجن سکتی نہیں
معدن زرمعدن فولادبن سکتی نہیں
ماں فاطمہ رضی اﷲ عنہاجیسی ہوتواولادحسین رضی اﷲ عنہ جیسی ہوگی۔ حدیث مبارکہ کے آخری الفاظ گردآلودہوں تمہارے ہاتھ کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ اگرہمارے اس فرمان پرعمل نہیں کروگے توپریشان ہوجاؤگے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایاجوعورت کاصرف مال دیکھ کرنکاح کرے گا وہ فقیررہے گا۔جوصرف خاندان دیکھ کرنکاح کرے گاوذلیل ہوگا اورجودین دیکھ کرنکاح کرے گااسے برکت دی جائے گی۔مال توایک جھٹکے میں اورجمال،خوبصورتی حسن ایک بیماری میں جاتارہتا ہے۔ اسی کتاب کے صفحہ 49پربھی وہی حدیث مبارکہ لکھی ہے جوآپ ابھی پڑھ چکے ہیں۔ اس کے بعدلکھا ہے کہ اس حدیث مبارکہ سے روزروشن کی طرح واضح ہوگیاہے کہ عورت کاانتخاب کرتے وقت دین کوترجیح دینی چاہیے۔یعنی اس عورت سے شادی کرنی چاہیے جونیک سیرت،پاکباز،سلیقہ شعاراوردین سے رغبت رکھنے والی ہو۔حسن وجمال ،مال ودولت ،حسب ونسب کوبھی دیکھناچاہیے۔لیکن ان سب پردین کوترجیح دینی چاہیے۔
کتاب سنت نکاح کے صفحہ 29پریہی حدیث مبارکہ ان الفاظ کے ساتھ لکھی ہوئی ہے کہ
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے چارچیزوں کومدنظررکھاجاتا ہے
اول اس کامال،دوسرااس کاحسب نسب،تیسرا حسن وجمال اورچوتھا اس کادین ۔
پھرفرمایاتمہاراہاتھ خاک آلودہوتم دین دارعورت کے حصول کی کوشش کرو۔
اس حدیث مبارکہ کی تشریح میں لکھا ہے کہ اس حدیث مبارکہ میں حضورسرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے بیوی کے انتخاب کے وقت اس میں جن صفات کادیکھناضروری ہے۔ ان کومختصرالفاظ میں بیان فرمایاہے۔
حضورپرنورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے بیوی کے انتخاب کے وقت جن چیزوں کوپسندیدہ قراردیاہے ان میں سب سے پہلے عورت کے مال کوبیان فرمایاہے کہ اس کامال دیکھ شادی کرنی چاہیے اس سے عورت کامال دارہونایااس کے والدین کامال دارہونامرادہے۔تاکہ اگرلڑکے کوکوئی پریشانی بن جائے یارقم وغیرہ کی ضرورت بن جائے تواس کے کام آسکے ۔لیکن اگرلڑکی کاصرف اورصرف مال دیکھ لیاجائے باقی تینوں باتوں کومدنظرنہ رکھاجائے توبے شمار خرابیاں لازم آئیں گی۔ سب سے پہلے تودین سے بے پرواہ ہوکرصرف مال ودولت کی بناپرشادی کرناحماقت ہے ۔کیونکہ دولت توایک ڈھلتاسایہ ہے۔ اس کاکوئی بھروسہ نہیں ،صبح کابادشاہ شام کوفقیر اورشام کافقیرصبح کوبادشاہ ہوسکتاہے۔ لیکن اگرلڑکی مال دارتوغریب لڑکاان کاغلام اورخادم بن کررہ جاتا ہے ۔ اگردونوں دولت کے نشے میں مدہوش ہوں تونت نئے فتنے اورفساد ظاہرہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ لڑائی جھگڑے بلکہ طلاق تک نوبت آجاتی ہے۔ پھرساری دولت عدالتوں کی ملکیت ہوکررہ جاتی ہے۔ اسی لیے توحضورمصلح اعظم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
عورتوں سے ان کے مال دارہونے کی وجہ سے نکاح نہ کروہوسکتا ہے ان کامال تمہیں (میاں بیوی) طغیان اورسرکشی میں مبتلاکردے عورتوں سے دین داری کی بناء پرنکاح کرو
ایک اورحدیث مبارکہ میں
حضورسرکارمدینہ، راحت قلب وسینہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے کسی عورت کے ساتھ اس کی عزت (اورمرتبے ) کی وجہ سے شادی کی (تاکہ اس کی وجہ سے خودبھی معزز ہوجائے )تواﷲ اسے معزز کی بجائے ذلیل کرے گا اورجس نے کسی عورت کے ساتھ مال کی وجہ سے شادی کی (تاکہ اس کی وجہ سے خودبھی مال دارہوجائے) توااﷲ اسے مال دارکی بجائے محتاج کرے گا۔
مذکورہ دونوں حدیثوں سے واضح ہوگیا کہ مال ودولت کی لالچ میں کی ہوئی شادی نفع بخش نہیں ہوسکتی اورپھراس میں ایک اورفتنے کابھی اندیشہ ہے اوروہ یہ ہے کہ مال ودولت کالالچ (امیرزادی کی تلاش ) شادی میں تاخیرکاسبب بھی بن سکتا ہے۔ جس کے نتائج بہت برے نکلتے ہیں جوان اولادجب نفسانی خواہشات پرقابونہیں پاسکتی توحرام کاری اوربدکاری جیسے کبیرہ گناہ کاارتکاب کرکے نہ صرف یہ کہ اپنے ایمان کی دولت کوکمزورکربیٹھتی ہے بلکہ جسمانی امراض میں مبتلاہونے کی وجہ سے شادی کے قابل بھی نہیں رہتی پھرحرام کاری کی وجہ سے صرف اولادہی نہیں بلکہ والدین بھی گناہ گارہوں گے۔
حضرت ابوسعیدرضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنورمجسم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس آدمی کے گھرمیں لڑکاپیداہوتوچاہیے کہ اس کانام اچھارکھے اوراسے اچھی تعلیم دے اورجب بالغ ہوجائے تواس کی شادی کردے اوراگرلڑکابالغ ہوگیا اورباپ نے اس کی شادی نہ کی اوراس سے کوئی گناہ سرزدہوگیا تواس لڑکے کاگناہ اس کے باپ پر(بھی) ہوگا۔
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضورآمنہ کے لال صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ توریت میں لکھا ہے کہ جس لڑکی کی عمر
با رہ برس ہوجائے اوروہ اس کانکاح نہ کرے اوراس لڑکی سے کوئی گناہ سرزدہوگیا تووہ گناہ اس کے باپ پر(بھی ) ہوگا۔
ان مذکورہ حدیثوں سے معلوم ہوا کہ باپ نے اگربالغ اولادکی شادی میں تاخیرکی تواسے بدلے میں اولادسے جن گناہوں کاصدورہوگا اس میں باپ بھی مجرم ہے کہ اس نے اولادکی شادی میں بلاوجہ تاخیرکی اورجوان اولاداپنی نفسانی خواہشات پرقابونہ پانے کی وجہ سے گناہ کی مرتکب ہوئی اور اگر ان کی شادی کردی جاتی توعین ممکن تھا کہ ایسانہ ہوتا ۔ افسوس آج کل دنیاوی رسم ورواج کی وجہ سے شادیوں میں غیرمعمولی تاخیرکی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے عشق مجازی بھی پروان چڑھتا ہے اوربے شمارگناہوں کاسلسلہ چلتا ہے کاش کوئی ایسارواج قائم ہوجائے بچہ اوربچی جونہی بلوغت کی دہلیزپرقد م رکھیں ان کے نکاح ہوجایاکریں کہ انشاء اﷲ اس طرح ہمارامعاشرہ بے شماربرائیوں سے بچ جائے گا۔
کتاب اسلامی شادی کے صفحہ 91پرلکھا ہے کہ بعض نکاح کرنے والے منکوحہ (لڑکی کے گھرمیں ) مال کودیکھتے ہیں اوردرحقیقت یہ اس سے بھی بدتر ہے کہ منکوحہ یااس کے اولیاء (یعنی لڑکی والے) مردکے مال کودیکھیں کیونکہ یہ توکسی درجہ میں اگراس میں غلونہ ہوامرمعقول سمجھ میں آنے والی بات ہے کیونکہ مردپرعورت کامہراورنفقہ واجب ہوتا ہے تواستطاعت رکھنے اوراس بناء پرمال کودیکھنے میں مضائقہ نہیں بلکہ ایک قسم کی ضروری مصلحت ہے۔ البتہ اس میں ایک قسم کاغلوہوجانا کہ اس کواورضروری اوصاف پرترجیح دی جائے یہ مذموم ہے۔لیکن عورت کے مال دارہونے پرنظرکرنامحض اس غرض سے کہ ہم اس کے فائدہ اٹھانے والے ہوں گے یاہم پرنفقہ وغیرہ کابارکم پڑے گابڑی بے غیرتی اوربے حمیتی ہے۔
شادی آسان کروتحریک کاپیغام بھی یہی ہے کہ شادی کسی بھی دنیاوی مال ودولت کی لالچ میں نہ کی جائے۔ شادی بیاہ کی فضول رسومات کی وجہ سے نوجوانوں کی شادیوں میں غیرضروری تاخیرہوتی ہے۔ جس سے برائیاں جنم لیتی ہیں۔ اسی لیے شادی آسان کروتحریک فضول رسومات اورغیرضروری اخراجات اوربے جامطالبات کے خاتمے کے لیے مسلمانوں میں شعوربیدارکرنے کی ایکشعوری مہم ہے۔ معاشرے کے سنجیدہ طبقات اورافرادکواس تحریک کادست وبازوبنناچاہیے۔
 

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 402 Articles with 334912 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.