ڈیورنڈلائن: افغانستان اور پاکستان کے درمیان متنازعہ سرحد
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ڈیورانڈ لائن افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک اہم مگر متنازعہ سرحد ہے جو 1893 میں برطانوی سفارتکار سر مارٹیمر ڈورانڈ اور افغانستان کے امیر عبدالرحمن خان کے درمیان قائم کی گئی تھی۔ یہ سرحد تقریباً 2,640 کلومیٹر (1,640 میل) لمبی ہے، جو ایران کی سرحد سے مغرب میں شروع ہوکر چین کی سرحد تک مشرق میں جاتی ہے۔ اس سرحد کا مقصد برطانوی ہندوستان اور افغانستان کے درمیان اثر و رسوخ کی حدود کو واضح کرنا تھا تاکہ سفارتی تعلقات اور تجارت میں بہتری لائی جا سکے۔ یہ لائن سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر کھینچی گئی تھی، نہ کہ نسلی یا قبائلی حدود کے مطابق، جس کے نتیجے میں پشتون کمیونٹیز دو حصوں میں بٹ گئیں۔ ڈیورانڈ لائن کی قانونی حیثیت افغانستان کے لیے ہمیشہ ایک مسئلہ رہی ہے، خاص طور پر اس کے نفاذ اور پشتونوں کی یکجہتی کی خواہشات پر اثرات کے حوالے سے، اور ہر دور میں اس پر بات ہوتی رہی ہیں او راسے متنازعہ بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہیں.
ڈیورانڈ لائن کی تاریخی بنیادیں 19ویں صدی کے برطانوی اور افغان طاقت کے تصادم پر مبنی ہیں۔ 1800 کی دہائی کے آخر میں، برطانوی ہندوستان نے اپنے شمال مغربی سرحدی علاقے کو مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ ان کا مقصد روس کی بڑھتی ہوئی طاقت کے درمیان ایک بفر زون قائم کرنا تھا جو وسطی ایشیا میں پھیل رہی تھی۔1893 میں، سر مارٹیمر ڈورانڈ نے افغان امیر عبدالرحمن خان کے ساتھ مذاکرات کیے اور ڈورانڈ لائن کو برطانوی ہندوستان اور افغانستان کے درمیان سرکاری سرحد کے طور پر قائم کیا۔ اس لائن کا بنیادی مقصد برطانوی اور افغان سلطنتوں کے اثر و رسوخ کی حدود کو واضح کرنا تھا اور علاقے میں استحکام برقرار رکھنا تھا۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ڈورانڈ لائن پشتونوں کی قبائلی زمینوں کو چیرتی ہوئی گزرتی ہے، جس سے یہ لوگ برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان) اور افغانستان کے درمیان تقسیم ہو جاتے ہیں۔ اس تقسیم کے دیرپا اثرات ہیں، جو آج بھی سرحد پر تناو¿ کو بڑھا رہے ہیں۔ڈیورانڈ لائن نے پشتون قوم پرستی اور اتحاد کی تحریکات کو جنم دیا ہے، جس سے افغانستان اور پاکستان دونوں میں عدم استحکام پیدا ہوا ہے۔ افغانستان نے کبھی بھی ڈورانڈ لائن کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، اور یہ حل طلب مسئلہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی کمی کا باعث ہے۔
پرتشویش کی بات یہ ہے کہ اس سرحد کے رقیق اور کھلے ہونے کی وجہ سے طالبان جیسے شدت پسند گروپوں کو دونوں طرف پناہ ملتی ہے، جو علاقائی سلامتی پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے اہم زمینی راستے کی نگرانی کے باعث افغانستان اب بھی بحری راستوں سے محروم ہے، جس سے اس کی اقتصادی ترقی پر منفی اثر پڑتا ہے۔ڈیورانڈ لائن کی پیچیدہ حالت اور پاکستان کے ساتھ موجودہ تنازعہ جنوبی ایشیا کی سیاست کا مرکز ہے۔ بین الاقوامی سطح پر یہ سرحد تسلیم شدہ ہے، لیکن افغان حکومت نے کبھی بھی اسے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔ پشتون علاقوں کی تقسیم اور ان کی خودمختاری کی خواہش اس خطے میں مسلسل تنازعے کا سبب بنی ہوئی ہے۔
ڈیورانڈ لائن کی موجودہ حیثیت بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہے، لیکن یہ سرحد جنوبی ایشیا کی سیاست میں ایک پیچیدہ مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اس سرحد پر ہونے والی نقل و حرکت اور عدم استحکام نے علاقائی اور عالمی سطح پر تشویش پیدا کی ہے، اور یہ مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے۔
|