راولپنڈی کے ادبی جریدے چہار سو
کا ستمبر۔اکتوبر2011کا شمارہ اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ مذکورہ شمارے میں
کینیڈا میں مقیم شاعر، ادیب، افسانہ نگار عبداللہ جاوید اور ان کی اہلیہ
شہناز خانم عابدی کو قرطاس اعزاز پیش کیا گیا ہے۔ ایک علاحدہ گوشے میں
عبداللہ جاوید کے طویل انٹرویو اور افسانے کے علاوہ عبداللہ جاوید کے کمال
فن پر اقبال بھٹی، گلزار جاوید، ستیہ پال آنند، صابر وسیم،اے خیام، مبین
مرزا، اکرام بریلوی و دیگر کی آراءشامل کی گئی ہیں۔ادبی جریدوں میں مختلف
شعراءو ادباءکے فن اور شخصیت پر خصوصی گوشے شامل کرنے کی روایت زور پکڑتی
جارہی ہے۔ ہم ایسے گوشہ نشین شخص کے لیے تو یہ گوشے بہت معلوماتی ہوتے ہیں،
اس طرح گھر بیٹھے بیٹھے گوشہ گمنامی میں پڑے کسی شاعر یا ادیب سے تعارف
ہوجاتا ہے۔لیکن اس مرتبہ اکتوبر2011 میں کراچی میں ا یکسپریس اخبار کے زیر
اہتمام منعقد ہوئی عالمی اردو کانفرنس میں بھارت سے آئی ہوئی محترمہ جیلانی
بانو کا ان ادبی گوشوں کے بارے میں موقف سخت تھا، ان کے مطابق ادبی جرائد
میں ان گوشوں کی تواتر کے ساتھ اشاعت پڑھنے والوں کو اکتاہٹ میں مبتلا
کررہی ہے اور یہ تمام معاملہ ذاتی تعلقات کی بنیادوں پر انجام پاتا ہے۔
بعض لوگوں کے خیال سے ادبی گوشوں میں ادباءاور شعراءکو قید کرنے سے بہتر ان
کی تصانیف کی تقریب رونمائی ہوٹل وغیرہ میں کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے ،
جہاں لذت کام و دہن کا بھی معقول انتظام رہتا ہے۔ فروری 1966 میں شمس
الرحمان فاروقی کے جریدے شب خون کی تقریب اجراءبھی الہ آباد کے گذدرنامی
ریسٹورنٹ میں منعقد کی گئی تھی۔ اس کی تازہ مثال انیس جون2010 کو ٹورنٹو
میں ممتاز ادیبہ شکیلہ رفیق کی آٹھویں کتاب ’وے صورتیں الہی ‘ کی تقریب
تعارف ہے جو ٹورنٹو کے”تندوری چکن ریسٹورنٹ“ میں منعقد کی گئی تھی۔ کتاب
میں جنس کے موضوع پر افسانے شامل ہیں ، شاید اسی مناسبت سے یہ تقریب
’تندوری چکن ریسٹورنٹ ‘میں رکھی گئی تھی ۔ کتابیں تو روزانہ درجنوں کے حساب
سے شائع ہوتی ہی رہتی ہیں لیکن ایسی جگہوں پر تقریبات منعقد کرنے کا اس کا
سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ شرکاءکو کتاب کے مندرجات بے شک یاد رہیں یا
نہ رہیں، تندوری چکن کا ذائقہ ایک عرصے تک یاد رہتا ہے۔ یہاں ہزاروں میل
دور کراچی میں بیٹھ کر ہم نے کتاب پڑھی اور تندوری چکن کا لطف پایا۔ تقریب
مذکورہ کا حاصل عابدہ کرامت کا وہ تبصرہ تھا جس میں انہوں نے شکیلہ رفیق کے
بارے میں فرمایاکہ ’ ’ وہ منافقت کا دوپٹہ نہیں اوڑھ سکتی اور اگر ضرورتا
اوڑھنا ہی پڑے تو اس کے آنچل سے سر نہیں ڈھک سکتی“۔ شکیلہ رفیق صاحبہ نے کب
اور کن موقعوں پر ضرورتا منافقت کا دوپٹہ اوڑھا ہے، عابدہ کرامت نے ان کی
کوئی تفصیل بیان نہیں کی۔ اس پر ستم یہ رہا کہ تقریب کے اختتام پر شکیلہ
رفیق نے عابدہ کرامت کے بارے میں حاضرین کے سامنے یہ اعتراف کیا کہ ’اتنا
اندر سے تو انہیں ان کے اپنے بھی نہ سمجھ پائے جتنا عابدہ کرامت نے انہیں
سمجھا ہے،“
بات ہورہی تھی چہار سو اور عبداللہ جاوید صاحب کی۔ جاوید صاحب کی کتاب بیاد
اقبال1968 میں منظر عام پر آئی تھی، شاعری پر طبع آزمائی کا نتیجہ1969 میں
موج صد رنگ کی اشاعت کی صورت میں نکلا۔قلم آزمائی کا یہ سلسلہ تاحال جاری
ہے اور2010میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ’بھاگتے لمحے‘ کے عنوان سے شائع
ہوا۔ بعض حاسدوں کا کہنا ہے کہ یہ کتاب بھاگتے ہوئے لکھی گئی ہے اور بھاگتے
ہوئے ہی پڑھی جانی چاہیے ۔ اس بھاگ دوڑ میں ہم کہاں سے کہاں نکل گئے، ذکر
ہے عبداللہ جاوید اور چہا ر سو کابلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اب چہارسو
عبداللہ جاوید کا ہی ذکر ہے۔
جریدے کے ابتدا میں شامل انٹرویو میں جناب گلزار جاوید نے عبداللہ جاوید کے
شعر:
لاکھ اڑتی پھرے خلاؤں میں
فکر ہم شاعروں کی زد میں ہے
کا حوالہ دیا اور ان پر الزام لگایا کہ اس بارے میں وہ تعلی کا شکار ہیں۔
جواب میں عبداللہ جاوید نے اپنے دفاع میں خلاؤں میں اڑتی فکر کا ہی سہارا
لیتے ہوئے کہا کہ ” ہم شاعروں سے میری مراد اردو میں میر، غالب اور اقبال
ہیں، دنیا کی دوسری زبانوں کے اکابر شاعر ہیں، میں ان کی جوتیوں کے آس پاس
کہیں ہونے کا عرض گزار ہوں۔“
خلاؤں میں اڑتی فکروں کا ہمہ وقت شاعر کی زد میں رہنا ایک قابل قدر دعوی ہے
لیکن ساتھ ہی شاعر کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ خلاؤں میں اڑتی ہوئی چیزیں
اکثر کشش ثقل سے باہر نکل جاتی ہیں اور شاعر تو ایک طرف رہے، سائنسدانوں کے
قابو سے بھی باہر ہوجاتی ہیں۔ امریکیوں نے خلاؤں میں اڑتی پھرتی ایسی چیزوں
کو یو ایف او یعنی Unidentified Flying Object کا نام دیا ہے۔اردو اور دنیا
کی دیگر زبانوں کے اکابر شعراءکی تعداد سینکڑوں میں پہنچتی ہے اور اگر ان
کی جوتیوں کو جمع کرلیا جائے تو ہزاروں کی تعداد بنتی ہے۔ بہتر تو یہ ہوتا
کہ ان شعراءکرام کے آس پاس رہنے کی کوشش کی جاتی نہ کہ ان کی ہزارہا جوتیوں
کے ۔ایسے منظر تو مزارات کے باہر دیکھنے میں آتے ہیں جہاں ہزاروں جوتیاں
ایک ڈھیر کی صورت پڑی ہوتی ہیں ، حاضرین کی مزار سے واپسی پر اس کا نگراں
کار حاضرین سے پیسوں کا ’عرض گزار‘ ہوتا ہے۔
شاعری درحقیقت ہے کیا ، عبداللہ جاوید اس بارے میں مفاہیم و مطالب کو پانی
پانی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
” شاعری وہ ہے جو لفظوں کے لبالب بھرے ہوئے کوزوں میں ہر عصر کی مکانی و
زمانی حقیقتوں کے وجدان کو ممکنہ حد تک لامکانی و لازمانی وجدان کے
ارتسامات سے برقیا کر،بوند بوند داخل کرے “
جناب عبداللہ جاوید نے ٹھیک ہی تو کہا ہے، کوزے میں ہر عصر کی مکانی و
زمانی حقیقتوں کو برقیا کر بوند بوند داخل کرنے سے اس قسم کی معنی خیر
شاعری وجود میں آتی ہے:
پھول پہ رکھ کر پاؤں
جب واجا نے مونچھ مروڑی
رویا سارا گاؤں
اس کلام سے یہ واضح نہیں ہوا کہ واجا نے درحقیقت اپنی مونچھ مروڑی تھی یا
گاؤں والوں کی۔ عبداللہ جاویدکی اس تین سطری نظم کو پڑھ کر گاؤں والوں کے
ساتھ ساتھ ان کا قاری بھی بے اختیار رو پڑتا ہے!
اس رجحان ساز انٹرویو میں عبداللہ جاوید مزید کہتے ہیں کہ’ ’ میرے مزاج میں
شہرت گریزی اتنی زیادہ ہے کہ جہاں دھماکہ کرنا لازمی تھا، وہاں بھی دھماکہ
نہ کیا‘ ‘
جناب عبداللہ جاوید نے دھماکہ نہ کرکے عقل مندی سے کام لیا ہے، صرف پاکستان
ہی ایسی جگہ ہے جہاں آپ کہیں ،کسی وقت بھی دھماکہ کرسکتے ہیں، کینیڈا میں
اس قسم کی کوشش کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں۔
عبداللہ جاویدمزید فرماتے ہیں:
” میرا پہلا شعری مجموعہ 1969میں شائع ہوا، اس میں شامل نظموں اور غزلوں کو
ساٹھ کی دہائی میں منظر عام پر آنے والے دیگر شعری مجموعوں کے مشمولات کے
ساتھ رکھ کر دیکھنے پر میں خود بھی اس نتیجے پر پہنچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں
کہ میرے پاس بہت کچھ ہٹا ہوا، اجنبی اجنبی سا، نیا نیا سا ہے۔میں نے زبان
کو اردو +فارسی کی حدود سے ممکنہ حد تک باہر نکال کر اردو +ہندی میں ڈھانے
کی کوشش کی۔موضوعات میں حسن قاتل کا موضوع میری نظموں کے واسطے سے اردو میں
پہنچا۔وقت کے موضوع پر میرے نظریات علامہ اقبال کے سلسلہ روز و شب کی
موجودگی میں بھی ایک علیحدہ مقام بنا چکے ہیں“
عبداللہ جاوید1960میں کی گئی اپنی شاعری کو خود ہی اجنبی اجنبی سا قرار دے
چکے ہیں۔ جن لوگوں نے جناب عبداللہ جاوید کے پہلے شعری مجموعے کا مطالعہ
کیا ہے ان کا یہ خیال ہے کہ آج اکیاون برس گزر جانے بعد بھی یہ’ اجنبیت
‘اسی شان سے قائم ہے۔
گلزار جاوید نے اس انٹرویو میں طرح طرح کے سوالات سے جاوید صاحب کو دق کیے
رکھا، چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
۔احباب کی ایک معقول تعداد آپ کے تجربات کی طرف بھی توجہ دلایا کرتی ہے مگر
نشان دہی کوئی نہیں کرتا کہ آپ کو کب، کہاں ، کس نوعیت کے تجربات کا وقت
میسر رہا ؟
´۔آپ کے یہاں الفاظ کا دائرہ اکثر بحور سے وسیع کیوں کر ہوتا ہے ؟
۔کچھ لوگوں کے خیال میں آپ نے اپنی ایک دنیا بنا لی ہے جس سے باہر آنا آپ
پسند نہیں کرتے ؟
۔اگر کوئی شخص آپ کے کلام میں طنز، تلخی اور چراندھ کی نشان دہی کرے تو آپ
کا جواب کیا ہوگا ؟
۔آپ کو مظہر جان جاناں ، نیاز بریلوی، عبد الحئی تاباںاور میر درد کا سفیر
گرداننے والے کس امر کی نشان دہی کرنا چاہتے ہیں ؟
۔آپ کے تخلیقی سفر میں طویل وقفے کی بابت قاری قطعی طور پر کیوں بے خبر ہے
؟
۔ کچھ لوگوں کے خیا ل میں آپ نے اپنی بیگم کو بطور افسانہ نگار تسلیم کرانے
کی غرض سے خود کو افسانہ نگاری سے اس وقت تک دور رکھا جب تک بیگم صاحبہ
مستند افسانہ نگار تسلیم نہ کرلی گئیں ؟
جناب عبداللہ جاوید ان سوالات سے ہرگز پریشان نہیں ہوئے بلکہ اپنے جوابات
سے انہوں نے قاری کو پریشان کردیا، چند متفرق مثالیں ملاحظہ ہوں:
۔میری شاعری، میرے افسانے اورمیری تحریر قاری کو میری اپنی دنیا میں لے آتی
ہے، مجھے اور کیا چاہیے۔
۔قاری ہی کو تھوڑا تھوڑا کرکے مجھے سمجھنا پڑے گا،اگر ہر قرات پر قاری مجھ
میں کچھ نیا دریافت کرے گا تو اس کو نئی حیرانی اور نئی خوشی ملے گی۔
۔میر درد تکیہ صوفی بزرگ تھے،میں بھی تصوف سے عملی طور پر جڑا ہوں لیکن
پورا شاعر ہوں۔میر نے درد کو آدھا شاعر مانا تھا۔
۔میں خود بھی نہایت چھوٹے درجے کا صوفی ہوں اور وہ بھی صوفیائے ملامیہ کے
اڑوس پڑوس والا۔
۔مجھے زیادہ سطح کے اوپر اوپر ہی دیکھا اور جانچا جارہا ہے۔
جناب عبداللہ جاوید کا یہ کہنا کہ ’قاری ہی کو تھوڑا تھوڑا کرکے مجھے
سمجھنا پڑے گا اگر ہر قرات پر قاری مجھ میں کچھ نیا دریافت کرے گا تو اس کو
نئی حیرانی اور نئی خوشی ملے گی‘ ، قاری کو ایک کھٹن امتحان میں ڈالنے کے
مترادف ہے۔گویا مظلوم قاری کو دنیا میں اور کوئی کام ہی نہیں ہے، دوسری طرف
یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ قاری کو شاعر پہلی کوشش میں ہرگز سمجھ میں نہیں
آئے گا ، اسے اپنی تمام مصروفیات کو پس پشت ڈال کر شاعر کو روزانہ تھوڑا
تھوڑا سمجھنا چاہیے، شاید وہ دس بیس سال میں وقفے وقفے سے کچھ سمجھ پائے
اور جب جب ایسا ہوگا ، بقول شاعر ، قاری کو ایک نئی حیرت اور نئی خوشی ملے
گی، یہاں اس بات کا ڈر لاحق ہوتا نظر آرہا ہے کہ اس قدر ان گنت خوشیاں
سمیٹتے سمیٹتے کہیں قاری شادی مرگ کی کیفیت سے دوچار نہ ہوجائے۔
جناب عبدللہ جاو ید کے مذکورہ بالا بیانات کو پڑھ کر صوفیہ ملامیہ کے اڑوس
پڑوس سے تعلق رکھنے والے بہت سے حاسدوں نے کہا کہ جناب شاعر کی شاعری
کوعلامتی نہیں بلکہ ’ملامتی ‘ کہا جائے تو بہتر ہوگا، لیکن ہم ایسی
شرپسندانہ باتوں پر سے کان ہی نہیں دھرتے۔ البتہ جاوید صاحب کے اس دعوے پر
کہ وہ میر درد کے مقابلے میں وہ آدھے نہیں پورے شاعر ہیں، ہمیں جناب
عبداللہ جاوید کے درج بالا آخری دعوے کی اصل وجہ کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی
ہے جس میں وہ گلہ کرتے ہیں کہ ”مجھے زیادہ سطح کے اوپر اوپر ہی دیکھا اور
جانچا جارہا ہے“۔ لیکن چونکہ اس انٹرویو کو پڑھنے کے بعد ہمیں جناب عبداللہ
جاوید سے ایک اپنائیت سی محسوس ہونے لگی ہے، لہذا ہم نے ان کی شاعری کی
اوپری سطح کو چھوڑ کر اس کی تہہ میں غوطہ لگایا اور چند آبدار موتی چنے
جنہیں خوب جانچ کر یہاں پیش کررہے ہیں :
سنڈی سے
تتلی کے قالب میںآجانا
پھر سنڈی بن جانا
مرجانا
تتلی بن کر اڑ جانا
٭
میرے اندر بھی کوئی ناچتا ہے
میں اس کے ساتھ پیارے رقص میں ہوں
٭
فلک پر جب ستارے ٹوٹتے ہیں
زمیں پر دل ہمارے ٹوٹتے ہیں
٭
پھول کے چوکیدار
رنگ و بو پر پہرے وہرے
سب کے سب بے کار
٭
ان اشعار کو پڑھ کر شاعر کے’ کوزے میں ہر عصر کی مکانی و زمانی حقیقتوں کے
وجدان کو برقیا کر بوند بوند داخل کرنے ‘ کی بات تو ایک طرف ، خود قاری کے
جسم میں ایک برقی رو سی دوڑ جاتی ہے۔ البتہ سنڈی اور تتلی والے بیان میں
ہمیں جناب عبداللہ جاوید کا یہ کہنا کہ ’قاری ہی کو تھوڑا تھوڑا کرکے مجھے
سمجھنا پڑے گا‘ درست معلوم ہورہا ہے۔ ہم ایسے کوتاہ نظر کو تتلی اور سنڈی
کے ہیر پھیر میں بادی النظر میں تو کوئی نئی حیرانی اور نئی خوشی والی بات
نظر نہیں ٓئی لیکن پھر گھنٹوں اس پر غور کرنے سے یہ سمجھ میں آیا کہ یہ
دراصل ’زولوجی‘ یا علم الحیوانات سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی عمیق گتھی ہے
جس کو سلجھانے پر علم الحیوانات کی دنیا کا تحقیق سے متعلق کوئی بڑا انعام
ملنے کی امید رکھی جاسکتی ہے۔
بحیثیت قاری، ہم جناب عبداللہ جاوید کی شاعری پڑھ کر خوش تو کم ہوئے البتہ
حیران زیادہ ہوئے ہیں۔رہا سوال قاری کاجناب شاعر کی دنیا میں چلے جانے کا ،
تو عرض یہ ہے کہ قاری اپنی ہی دنیا میں خوش ہے، ایسی جگہ جا کر وہ کیا کرے
گا جہاں شاعر کا کلام اور اس کی تخلیقات چوری ہوجاتی ہوں۔ تفصیل اس اجمال
کی یہ ہے کہ انٹرویو میں ایک جگہ جناب عبداللہ جاوید بیان کرتے ہیں کہ ”
جاوید جاوید یوسف زئی کے قلمی نام سے اپنے شائع شدہ افسانوں کی ایک فائل
اپنے ساتھ (کینیڈا) لایا تھا وہ غائب کردی گئی۔اس کے بعد جب بھی کوئی
افسانہ لکھا ، کسی پرچے میں بھجوانے سے پہلے ہی گم ہوگیا۔ انگریزی زبان میں
براہ راست ٹائپ کیے ہوئے چار چھ افسانوں کا بھی یہی انجام ہوا “
اس دنیا میں لوگوں پر کیسے کیسے روح فرسا سانحے گزر جاتے ہیں ، اس کا
اندازہ ہمیں مندرجہ بالا واقعے کو پڑھ کر ہوا، اسے پڑھ کر ہم آبدیدہ ہوگئے،
جب طبیعت کچھ سنبھلی تو بے اختیار خامہ بگوش کی یاد آگئی ۔ وہ اسی سے ملتا
جلتا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”چند برس قبل اتفاق سے ایک مشہور ادیب کے گھر میں آگ لگ گئی۔ ان کے کتب
خانے کی بہت سی نادر کتابیں جل گئیں۔ کئی غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی
جل کر خاک ہوگئے۔ خانہ سوختہ ادیب کے دوست اظہار ہمدردی کے لیے ان کے ہاں
پہنچے۔ ہر دوست نے اپنی بساط کے مطابق آتش زدگی کے واقعے پر اظہار افسوس
کیا۔ البتہ ایک دوست نے منفرد انداز سے اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا۔ اس نے
کہا: ” اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے کتب خانے کا جل جانا ایک دردناک سانحہ
ہے لیکن یاد رکھیے کہ ہر شر میں کوئی نہ کوئی خیر کا پہلو ہوتا ہے۔ جہاں
مطبوعہ کتابوں کا جل جانا افسوس ناک ہے ، وہیں آپ کی غیر مطبوعہ تصانیف کا
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیننا یہ آپ
کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیے کہ آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات
سے محفوظ ہوگئے۔ “
خامہ بگوش کے بیان کردہ اس واقعے پر تبصرہ در تبصرہ مناسب نہ ہوگا، البتہ
ہمیں جاوید صاحب سے یہ شکایت ہے کہ انہوں نے شاعری کرتے وقت طبیعات کے
بنیادی اصولوں کا خیال نہیں رکھا۔ کشش ثقل کے اصول کے عین خلاف یہ شعر
ملاحظہ ہو:
یہ کس کے اشک ہیں اوج فلک تک
کوئی روتا رہا ہے رات بھر کیا
استاد لاغر مراد آبادی نے شعر مذکورہ سن کر فرمایا کہ اشک ہمیشہ نیچے کی
طرف رخ کرتے ہیں، وہ آہیں ہیں جو اثر لانے کو آسماں کی طرف جاتی ہیں۔ اصول
کشش ثقل کا بانی اگر یہ شعر سن لیتا تو گمان ہے کہ رات بھر روتا رہتا۔
جاوید صاحب نے ایک جگہ لطیف انداز میں شمشان گھاٹ کے مسائل کو بھی عمدگی سے
شعر کی زبان میں ڈھالا ہے:
پھول دشمن کے ہوں یا اپنے ہوں
پھول جلتے نہیں دیکھے جاتے
اور آخر میں جناب عبداللہ جاوید کی وہ تخلیق ملاحظہ ہو جس کو چہار سو کے
زیر تبصرہ شمارے میں ڈاکٹر الیاس عشقی نے مرزا غالب کے ہم پلہ قرار دیتے
ہوئے غالب کے دشت امکاں کو دائرہ امکاں میں ڈھالنا قرار دیا ہے:
پانی
بادل کا
اونچے سے اونچا
جاتا بھی ہے
نیچے سے نیچے
آتا بھی ہے
٭
غالب کے دشت امکاں کو جس طرح پانی سے بھرے بادلوں کی مدد سے سیراب کیا گیا
ہے، اس کی کوئی دوسری مثال ہمیں تو نہیں ملی اور شاید ڈاکٹر الیاس عشقی کو
بھی نہ مل پائے۔ مذکورہ مضمون میں ڈاکٹر عشقی نے اس بات پر حیرت کا اظہار
کیا ہے کہ ’ عبداللہ جاوید کو ناگزیر الفاظ کس آسانی سے جاتے ہیں ‘ ، حیرت
و استعجاب کے اسی عالم میں ڈاکٹر عشقی نے جناب عبداللہ جاوید کی یہ تخلیق
درج کی ہے:
دریا میں رہنا بھی ہے
بہنا بھی ہے
پل پل کچھ کرنا بھی ہے
بھرنا بھی ہے
فصل غم بونا بھی ہے
ڈھونا بھی ہے
مرنے سے ڈرنا بھی ہے
مرنا بھی ہے
حضرت جوش ملیح آبادی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ الفاظ ان کے سامنے ہاتھ
باندھے کھڑے رہتے تھے کہ جیسے چاہیں انہیں استعمال کریں۔ مذکورہ بالا کلام
میں بہنا بھی ہے، ڈھونا بھی ہے، بھرنا بھی ہے، کرنا بھی ہے جیسے الفاظ کی
تکرار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے ممدوح کے سامنے الفاظ صرف ہاتھ ہی نہیں
بلکہ پاؤں بھی باندھے پڑے رہتے ہیں کہ کہ جیسے اور جب چاہیں انہیں استعمال
کریں۔
مذکورہ انٹرویو میں فیض احمد فیض کا ذکر بھی آیا، جوابا، جناب عبداللہ
جاوید کی سعادتمندی تو دیکھیے کہ احتراما “ وہ فیض کا نام لینے سے بھی
گریزاں نظر آئے:
سوال: ”تراجم کے حوالے سے آپ پر کچھ ذمہ داریاں لازم تھیں، کم از کم میر،
غالب، اقبال اور فیض کا آپ پر کچھ حق تو بنتا ہے “ ؟
جواب:”اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرنا میرے بس کا کام نہیں تھا۔یہ آپ نے
ایک سانس میںتین ناموں میر، غالب اور اقبال کے ساتھ چوتھا نام کیسے لے لیا۔
کم از کم مجھ سے تو نہ لیا جائے گا۔معذرت۔“
انٹرویو کا نچوڑ عبداللہ جاوید کا وہ تبصرہ ہے جس میں انہوں نے اپنی تمام
ادبی سرگرمیوں کا مقصد ایک مختصر جملے میں بیان کردیا ، سوال تھا کہ ’ایک
ہی وقت میں روایتی اور عطفی تراکیب کا استعمال قاری کو متجسس کیوں کرتا ہے
؟‘ ۔ ۔ عبد اللہ جاوید کا جواب تھا: ’ قاری کو تنگ جو کرنا ہوا‘ ۔
جناب عبد اللہ جاوید کی اس بات کے جواب میں عرض ہے کہ قاری کو اتنا تنگ
کرنا ٹھیک نہیں، اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے، اگر قاری تنگ آمد بجنگ آمد کے
محاورے پر عمل کربیٹھا تو حالات کے نازک ہوجانے کا احتمال ہوسکتا ہے۔
ہمارے قارئین ہمارے اس مضمون کو پڑھ کر یقیننا سوچ رہے ہوں گے کہ ہم ایک کے
بعد بات سے بات نکالتے چلے جارہے ہیں اور ان کو غور کرنے کا موقع فراہم
کرہی نہیں رہے ، لہذا اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے ہم جناب عبدللہ جاوید کے
اس انٹرویو سے ایک سوال اور اس کا جواب درج کرتے ہوئے اس پر تبصرے کا موقع
اپنے پڑھنے والوں کو فراہم کررہے ہیں:
سوال: ”عیسی، حسین، سقراط، بقراط، کرشن، سدھارتھ کو آپ نے اندر کا مکیں
کیونکر بنا لیا، اگر بنا لیا تو اُن سے کس طرح کی قربت اور فیض حاصل کیا “؟
جواب: ”قبضہ مافیا کے لوگ ہیں، مجھ پر قابض ہوگئے۔جلال الدین رومی کے نام
کا اضافہ فرما لیجیے۔“
بزرگ ادیب جمیل الدین عالی نے چہار سو کے زیر تبصرہ شمارے میں شائع ہوئے
عبداللہ جاوید کے تنقیدی مضمون کے بارے میں تبصرہ ( روزنامہ
جنگ۔22ستمبر2011) کرتے ہوئے کہا :
” عبداللہ جاوید کے تنقیدی مضمون کو پڑھتے پڑھتے اپنی اس پیرانہ سالی کے
باوجود مبہوت ہو کر رہ گیا ہوں۔کاش اسے پڑھا جاسکے“
عالی صاحب نے آخری جملے میں یہ کہہ کر گویا بات ہی ختم کردی کہ ’ کاش اسے
پڑھا جاسکے‘
جناب جمیل الدین عالی اس پیرانہ سالی میں بھی غضب کے بذلہ سنج ہیں! |