2022 میں سری لنکا بدترین معاشی بحران کاشکار ہوا ۔سری
لنکا کے حریت پسند لوگوں نے پہلے فسطائی وزیراعظم مہندا راجا پکشے کو مار
بھگایا اور پھر ان کے بھائی صدر مملکت گوٹا بایا راجا اپکشے کے محل میں گھس
گئے۔ یہ دونوں سری لنکا کے رنگا بلاّ یعنی مودی اور شاہ تھے۔ اس کے بعد
رانیل وکرما سنگھے نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ۔ اس وقت ملک ڈیفالٹ کرگیا
تھامگر رانیل وکرما سنگھے نے صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ آئی ایم ایف
کا 2.9 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پروگرام حاصل کرنے کی خاطر ٹیکس میں اضافہ
کرکے خوراک، ایندھن اور ادویات کی قلت کو ختم کیا۔ اپنی کارکردگی کی عوامی
توثیق اورسخت معاشی اقدامات کو جاری رکھنے کے لیے انہوں نے دوبارہ انتخاب
کا انعقاد کروایا۔ اس انتخاب میں کُل 38 امیدوار میدان میں تھےلیکن بنیادی
طور پر برسرِ اقتدار صدر رانل وکرما سنگھے اور حزب اختلاف کے رہنما ساجت
پریم داسا کے بیچ مقابلہ تھا نیز بائیں بازو کے رہنماانورا کمارا دِسانایکا
بھی عوامی توجہات کو اپنی جانب مبذول کروارہے تھے ۔ اول الذکر دونوں
امیدواروں میں سے کسی کی جیت حیرت کا سبب نہیں ہوتی مگر مارکسی نظریے کے
حامی انورا کمارا نے کامیابی درج کروا کر ساری دنیا کو چونکا دیا۔
سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمہ پر مبنی اشتراکی نظریہ کے حامل انورا کمارا نے
اس انتخابات میں حزب اقتدار کےرہنما ساجیت پریما داسا کو شکست دی جبکہ
اقتدار پر فائز صدر تیسرے نمبر پر کھسک گئے ۔ انورا کمارا دسانایاکا تعلق
اس مارکسٹ پارٹی سے ہےجس نے 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں دو ناکام بغاوتوں
کی قیادت کی تھی اور اس میں 80 ہزار سے زائد افراد کو جان سے ہاتھ دھونا
پڑا تھا ۔ سری لنکا جیسے کم آبادی والے ملک میں یہ بہت بڑی تعداد ہے ۔ یہ
بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی تحریک کو اس طرح کچل دیا جائے تو اس کا دوبارہ
کامیاب ہوجانا ایک دیوانے کا خواب لگتا ہے مگر پچھلے انتخاب میں ۴؍ فیصدسے
کم ووٹ پانے والے امیدوار کے کامیاب ہونے سے ان تمام لوگوں کو حوصلہ ملے گا
جو ظالم و جابر قوتوں سے نبرد آزما رہتے ہیں اور کبھی بھی ہمت نہیں ہارتے۔
اپنی کامیابی کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم نے صدیوں سے جو خواب دیکھا تھا وہ
بالآخر پورا ہو رہا ہے۔ وہ بولے یہ فتح ہم سب کی ہے ترقی و استحکام کے
ہمارے خواب نئی شروعات سے پورے ہوں گے۔ امید اور امید سے بھری لاکھوں
آنکھیں ہمیں آگے لے جاتی ہیں اور ہم سب مل کر سری لنکا کی تاریخ کو دوبارہ
لکھنے کے لیے تیار ہیں۔ سچ تو یہ ہے انورا کمار کی فتح نے ایک تاریخ رقم
کردی ہے۔
جزیرہ نما سری لنکا کا یہ انتخاب اس معنیٰ میں بھی تاریخی تھا کہ اس میں
تشدد کی ایک واردات بھی درج نہیں ہوئی ۔اس کے باوجود گنتی کے دوران ملک بھر
میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ۔ پہلے مرحلے میں بائیں بازو کے رہنما انورا
کمار 39 فیصد ووٹ لیکر آگے رہے جبکہ اپوزیشن رہنما ساجت پریم داسا نے 34
فیصد ووٹ حاصل کیے ۔ سری لنکن صدارتی انتخابات میں ووٹ کی پرچی کے اندرایک
سے زیادہ امیدواروں کو ترجیحی طور پر نمبر ایک، دو اور تین کی حیثیت سے ووٹ
دینے کا اختیار بھی ہوتا ہے۔ پہلے مرحلے میں اگر تمام امیدوار 50 فیصد ووٹ
حاصل کرنے میں ناکام ہوجائیں تو دوسری ترجیح کے امیدوار کی گنتی کرنی پڑتی
ہے۔سری لنکا میں کل ایک کروڑ 70 لاکھ رائے دہندگان ہیں ان میں سے 76 فیصد
نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا ۔ اس انتخاب میں ساجت پریماداسا کو 45 لاکھ 30
ہزار ووٹ کے مقابلے دسانائیکا کو 57 لاکھ 40 ہزار ووٹ ملے اس طرح وہ 13
لاکھ سے زیادہ ووٹوں کے ساتھ فاتح قرار پائے۔
سری لنکا کے ساتھ عرب ممالک تعلق بہت قدیم ہے۔ وہاں پر محکمہ آثار قدیمہ کے
محقق عبدالرحیم جیسمل کے مطابق جزیرے پر پہلے عرب سیاح تیسری صدی قبل مسیح
کے آس پاس آئے تھے۔اس وقت، جزیرے کی بیرونِ ملک تجارت مکمل طور پر عربوں کے
ہاتھوں میں تھی ۔وہ آئے تو الائچی، دار چینی، لونگ اور سفید مرچ جیسے
مصالحوں کی تلاش میں تھے مگر دوران قیام جب ان پر انکشاف ہوا کہ جزیرے کے
سمندر کا کچھ حصہ موتیوں سے بھرا پڑا ہے تو انہوں نے اپنے کاروبار کا رخ
موتی کے لیے غوطہ خوری کی طرف موڑ دیا۔ابتدائی طور پر موتی زیادہ تر منار،
چلاؤ اور کلپٹیا کے قصبوں میں پائے جاتے تھے۔ تاریخ دانوں کے مطابق دوسری
صدی عیسوی میں بحر ہند سے جہازوں یا قافلوں کے ذریعے موتی یوروپ لائے جاتے
تھے ۔ قدیم روم کی اشرافیہ میں ان کی بڑی قدردانی ہوتی تھی۔یہ صنعت اتنی
منافع بخش تھی کہ موتیوں کے بہت سے عرب تاجر مقامی تامل برادریوں کے
کاروبار سے وابستہ خواتین سے شادیاں کرکے سری لنکا میں آباد ہو گئے۔
اسلام کی آمد کے بعد سے ثقافت اور مذہب میں عرب اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا
جس کے وافر ثبوت موجود ہیں۔ سری لنکا میں 920 عیسوی کے اندر سب سے پرانی
مسجد ابرار مسجد عربوں نے تعمیر کی۔ابن بطوطہ کا جہاز ستمبر 1344 میں پٹلم
پہنچا اور وہ اپنے قیام کے دوران آدم پہاڑ کی چوٹی پر گئے جس کا احترام
مسلمان زائرین پہلے انسان اور نبی کےنقش کے طور پر کرتے ہیں۔ابن بطوطہ نے
اپنے ’سفر نامے‘ میں لکھا کہ جافنا کے بادشاہ کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ
موتیوں کا کاروبار تھا۔انہوں نے بادشاہ سے تحفے میں ملنے والے جواہرات کو
دنیا کے سب سے بڑے اور خوبصورت ترین موتی قرار دیا تھا ۔ یوروپی مخطوطات
بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ عربوں نےسری لنکا میں موتی کی ماہی
گیری کو فروغ دیا اور مولسک سے بنے اس قیمتی پتھر کو جزیرے کا سب سے قیمتی
آبی وسائل بنایا۔ 19 ویں صدی تک سمندر سے موتی کی سیپیاں جمع کرنا، ان کی
پروسیسنگ اور تجارت پر عربوں اور تاملوں کا غلبہ تھا اورانہیں بہترین غوطہ
خور سمجھا جاتا تھا۔ اس پورے عرصے میں مسلمانوں کے مقامی سنہالی بودھ اور
ہندو تملوں کے ساتھ نہایت خوشگوار تعلقات تھے۔ سری لنکا کی کل آبادی 2کروڈ
02 لاکھ ہے۔ اس میں 10 فیصد لوگ اسلام کی پیروی کرتے ہیں۔
منار میں ساحلی برادریوں کے ساتھ معاہدہ کرکے پرتگالیوں نےموتیوں کی ماہی
گیری کو اپنے قبضے میں لیا ۔ اس ایک صدی کے عرصے میں تقریباً 50 ہزار افراد
اس صنعت سے وابستہ تھے۔ نیدرلینڈ نے 17 ویں صدی کے وسط میں پرتگالیوں کو
نکالا اور اس صنعت کو ترقی دے کر ملازمین کی تعداد کو دو لاکھ تک بڑھا
دیا۔ایک صدی بعد جب برطانیہ نے اقتدار سنبھالا تو اس کے راج میں موتی کی
ماہی گیری مشکلات کا شکار ہونی شروع ہوئی۔ دو ہزار سال سے زیادہ عرصے تک
دنیا میں قدرتی موتیوں کے سب سے وافر وسائل کا سمندر سیپ سے خالی ہونے لگا
۔انگریزوں نے صنعت کی بحالی کے لیے متعدد ناکام تجربات کیے یہاں تک کہ جب
1920 کی دہائی میں جاپانیوں نے مصنوعی موتی متعارف کرائے تو سری لنکا میں
اس صنعت نے دم توڑ دیا ۔ اب جاپان اور آسٹریلیا سے درآمد شدہ موتی سری
لنکا کے زیوارت کی زینت بنتے ہیں ۔
سری لنکا کے جزیرہ نماشمالی علاقے میں تمل اقلیتوں کو ملک کی سنہالہ اکثریت
کے مظالم کا سامنا تھا۔ اس کے خلاف 1972 میں پربھاکرن نے تمل نیو ٹائگرز
یعنی ٹی این ٹی نامی تنظیم بنائی ۔ انہوں نے 1975 میں جافنا کے میئر کو
گولی مار کر پہلے سیاسی قتل کا ارتکاب کیا۔ ایک برس بعد پربھاکرن نے ٹی این
ٹی کو لبریشن ٹائیگرز آف تمل ایلم یا ایل ٹی ٹی ای میں تبدیل کر دیا۔ 1980
کے اوائل میں ایل ٹی ٹی ای کو ہندوستان کی حکومت سے حمایت اورتربیت ملی۔ اس
دوران پربھاکرن نے تمل ناڈو کو اپنا مرکز بنایا اور تقریباً تین برس تک
وہاں مقیم رہے۔ ان کی قیادت میں تمل باغیوں نے 1983 سے شمال اور مشرقی
علاقے میں ایک آزاد مملکت کے قیام کے لیے مسلح جدو جہد شروع کی ۔ 1987 میں
تمل علیحدگی پسند تحریک کو کچلنے کے لیے ہندوستان اور سری لنکا کے درمیان
معاہدہ ہوا اورحکومتِ ہند نے تمل ٹائیگرز کو کچلنے کے لیے اپنی فوج بھیج
دی۔
اس کے بعد ایل ٹی ٹی ای نے خود کش حملےکرکے راجیو گاندھی، سری لنکا کے صدر
رانا سنگھے پریم داسا اور وزیر خارجہ کادر گمار کو موت کے گھاٹ اتار دیا
۔بالآخر 18 مئی 2009 کو پربھاکرن کی موت کے ساتھ تحریک ختم ہوگئی مگر اس
دوران سری لنکا کے اندر تمل اقلیت اور سنہالی اکثریت کے تعلقات کشیدہ ہو
گئے۔ بودھوں کو ہندووں کے بجائے مسلمانوں کا دشمن بنانے کے لیے بدھ راہب
گلاگودتے گنانسارا کو میدان میں اتارا گیا اور اس نے اسلام کے خلاف خوب زہر
افشانی کی ۔ 2018 میں اسے ایک لاپتہ کارٹونسٹ کی بیوی کو ڈرانے اور توہین
عدالت کے الزام میں چھ سال قید کی سزا سنائی گئی مگر نو ماہ بعد سابق صدر
میتھری پالا سری سینا نے اس کومعاف کرکے رہا کر دیا ۔ اس کے بعد گوتابایا
راجا پاکسے نے تو اس نفرت باز کو مذہبی ہم آہنگی کے لیے قائم کردہ قانونی
اصلاحات کے پینل کا سربراہ بنادیا گیا ۔امسال اپریل میں سری لنکا کی ایک
عدالت نے گلاگودتے گنانسارا کو مسلمان اقلیتی آبادی کے خلاف فرقہ وارانہ
نفرت کو ہوا دینے کے جرم میں چار سال قید کی سزا سنا ئی کیونکہ اس نے 2016
میں اسلام کی بابت توہین آمیز بیان دے کر مسلمانوں کو ٹھیس پہنچائی تھی۔قید
با مشقت کے ساتھ اس پر ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی لگایا گیا ۔ اس سے سری
لنکا کے مسلمانوں کو قدرے سکون ملا تھا اب امید ہے کہ گوتابایا راج پکسے کے
ذریعہ جاری کردہ ظلم وجور کا دور نومنتخب صدر انورا کمارا دِسانایکا کی
قیادت میں ختم ہوگا اور پہلے جیسے خوشگوار تعلقات استوار ہوجائیں گے کیونکہ
انہوں نے اعلان کیا ہے’ سنہالیوں، تاملوں، مسلمانوں اور تمام سری لنکن
شہریوں کا اتحاد ہی نئی شروعات کی بنیاد ہے‘۔
|