گل نواز بٹ شہید، جانے والے تجھے روئے گا زمانہ برسوں

تحریر! ذوالفقار حیدر نقوی (اپرٹنڈالی مظفرآباد)
08اکتوبر 2005کو مظفرآباد کے رہائشیوں پر جو قیامت گزری اسے کوئی یادرکھے نہ رکھے لیکن زمانہ اس شخص کو کیسے بھلاپائے گا جو ساری زندگی صحراؤں میں آذانیں دیتا رہا،اندھوں کے شہر میں خواب بیچتا اورپتھروں کی بستی میں شیشوں کا کاروبار کرتا رہا،جس کے بقول اس کے اپنے حب الوطنی،ترقی پسندی،آزادی،خودمختاری اورعوام سے محبت جیسے اذکار رفتہ کے سوا کوئی اثاثہ نہ تھا، 11فروری 1990کو جب وہ حریت پسند طلبہ تنظیم جے کے این ایس ایف، کا مرکزی صدر تھا انسانوں کا سیل بے کراں لے کر سیزفائرلائن توڑنے نکلا اورتحریک آزادی کو نئی جہت عطا کی تواس کا نام آسمان سیاست کی رفعتوں کو چھونے لگا اورجب عوام کی بے حسی اوراپنوں کی ریشہ دوانیوں سے مایوس ہو کر گوشہ تنہائی میں گیا تو معرفت کی بہت سی منزلیں از خود طے کر بیٹھا،اس عہد ساز اورروایت شکن ”باغی“ کو جاننے والے گل نواز بٹ کے نام سے جانتے پہچانتے اوراس کی عظمتوں کو سلام کرتے ہیں۔گل نواز بٹ عمر میں مجھ سے کافی بڑے تھے اورمیرے والد کے ملنے والوں میں سے تھے لیکن میری جوانی کی شوخی اوران کی ڈھلتی عمر کی سنجیدگی نے کچھ اس طرح ایک دوسرے کی گردن میں بانہیں ڈال دی تھیں کہ ہم دونوں میں ہم عمروں کی سی بے تکلفی پیدا ہوگئی تھی،مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ جولائی 1997سے 07اکتوبر 2005ء تک میں بٹ صاحب کے پاس باقاعدگی سے کئی کئی گھنٹے بیٹھتا اورعلم وادب کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے سیراب ہوتا،بارروم میں جہاں وہ ظاہری طور پر سب سے منفرد نظرآتے وہاں جاننے والے یہ بھی جانتے تھے کہ وہ باطنی طورپر بھی سب سے الگ تھلگ ایک عظیم شخصیت کے حامل تھے،بٹ صاحب نے سیاست سے رشتہ توڑ کر خودکو قرآن حکیم کی وسعتوں میں گُم کردیا تھا وہ زیادہ تر قرآن کریم پر ہی گفتگو کرتے،وہ اکثر کہاکرتے تھے کہ قرآن حکیم کے مطالعہ کے بعد مجھے علم ہوا ہے کہ میں نے مشرق ومغرب کی سینکڑوں کتب کے مطالعہ میں اپنا بہت سا قیمتی وقت ضائع کیا ہے۔میں جب کسی کتاب کے متعلق بٹ صاحب سے کوئی بات کرتا تو زیادہ تر ان کا جواب ہوتا ”کائنات" میں پڑھنے کی ایک ہی کتاب قرآن حکیم ہے“ قرآن حکیم کے موضوعات میں وہ قیامت کے متعلق بہت غوروفکر کرتے رہے،میرے خیال میں بٹ صاحب جیسے بہت کم لوگ ہونگے جو قیامت سے بے حد متفکر تھے،وہ بہت کم مسکرایا کرتے،میں نے بٹ صاحب کو کبھی خوش نہیں دیکھا،وہ قیامت کے لئے ”تورا بورا“ کا لفظ استعمال کرتے،وہ کہا کرتے تھے کہ ماضی میں جن قوموں پر عذاب نازل ہوئے ان سب سے ایک چیز مشترک تھی وہ یہ کہ ان کا قیامت پر سے ایمان اٹھ چکا تھا،جس کے باعث مالک دو جہاں نے ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا یہی حال آج کل کے مسلمانوں کا ہے ان کا بھی قیامت پر سے ایمان مکمل طورپر اٹھ چکا ہے،پتہ نہیں مالک دو جہاں ہمارے ساتھ کیسا سلوک فرماتا ہے،بٹ صاحب مذہبی فرقہ واریت،روایات پرستی اورمنقولات کے سخت مخالف اور رواداری اورمعقولات کے علم بردارتھے بٹ صاحب کہا کرتے تھے کہ اسلام دین فطرت ہے جو فطرت کے خلاف کوئی چیز قبول نہیں کرتا اوراتحاد واتفاق اورملت واحدہ کا تصورپیش کرتا ہے،ملاؤں نے اپنی دکانداری چمکانے کیلئے اسلام کوفرقوں میں تقسیم کیا اورخلاف عقل وفطرت چیزیں اسلام میں داخل کیں،بٹ صاحب نماز پنجگانہ کے انتہائی پابند،سحر بیدار اورشب زندہ دار تھے،05جولائی 2005ء کو بعد عصر بٹ صاحب میرے غریب خانے پر تشریف لائے،را ت ایک بجے تک وہ میرے والد صاحب کے ساتھ محوگفتگو رہے اس کے بعد صبح تک عبادت وتلاوت میں مشغول رہے،میں نے متعدد بار رات کے پچھلے پہر جب سارا شہر سورہا ہوتا بٹ صاحب کو نماز تہجد کے لئے مسجدمیں داخل ہوتے یا نکلتے دیکھا،2004ء میں بٹ صاحب نے اپنے پاس موجود ایک سو سے زائد قیمتی ونایاب کتب مجھے دیں جن میں سید قطب شہید کی 6جلدوں پر مشتمل تفسیر ”فی ظلال القرآن“ بھی شامل تھی،بٹ صاحب کایہ عظیم تحفہ میرے پاس موجود ہے ان کتب سے بٹ صاحب کے اعلیٰ اورمعیاری ذوق مطالعہ کاعلم ہوتا ہے،بٹ صاحب کو اُردو اورفارسی کے شعراء کا بہت سے کلام یاد تھا،وہ مجھ سے اکثر امیر خسرو کی غزلیں ”نمی دانم چہ منزل بود“ اور ”زخال مسکین مکن تغافل“ سنا کرتے اورمیرے بہت اصرار پر کبھی کبھار خوشی محمد ناظر کی مشہور نظم”جوگی“ ایک منفرد اورمخصوص انداز میں اس طرح سناتے کہ سماں بندھ جاتا،بٹ صاحب اکثراستاد دامن کی نظم ”قوم دے غدارو ہن پکارو تے پکارو“ فیض صاحب کی ”ربا سچیا تو تے آکھیا سی“ اورجالب کی ”میں نہیں مانتا“ انتہائی خوبصورت انداز میں سنایا کرتے،ان کے ہاتھ کی بہت سی تحریر یں میرے پاس موجود ہیں،بٹ صاحب دویش صفت آدمی تھے،پورادن بارروم میں بیٹھتے لیکن کوئی کیس لیتے نہ کسی عدالت میں حاضر ہوتے،میں نے بہت کم ان کے پاس کوئی رقم دیکھی،لیکن مانگنے والے کو خالی نہ بھیجتے،وہ دولت دنیا سے محروم مگر دولت علم واخلاص سے مالامال تھے،میں بٹ صاحب کو کہاکرتا کہ آپ اگر کسی بڑی سیاسی جماعت میں شامل ہوئے ہوتے تو آج کئی گاڑیوں اورکوٹھیوں کے مالک ہوتے تو وہ مسکرا کرجواب دیتے ”شاہ جی اگر یہ سب کچھ ہوتا تو تیرے پاس کب بیٹھتا“ بٹ صاحب کشمیریوں کے مستقبل سے مایوس ہوچکے تھے اورکشمیری قوم کے لئے ”اجڑ“ یا ”چھکا“کا لفظ استعمال کرتے،ایک بار ان کے پاس بیٹھے ایک صاحب باربار کشمیر ی قوم کا لفظ استعمال کررہے تھے پہلے تو بٹ صاحب انہیں ٹوکتے رہے اوسختی سے کہا ”بابا ہم لوگ کسی بھی طورپر ایک قوم کے معیار پرپورا نہیں اترتے۔یہ ”اجڑ“ ہے جس طرف کوئی ہنکائے دوڑا چلا جاتا ہے“۔گل نوازبٹ کہا کرتے تھے کہ ”یہ شورزدہ زمین ہے یہاں ہم ساری زندگی مکئی بوکر ”شماکی“ کاٹتے رہے،یہاں نظریات کی کوئی وقعت نہیں،یہاں بے ضمیری اوربے توقیری کاسکہ رائج ہے“۔
03رمضان المبارک08 اکتوبر کے زلزلہ کے بعد جب ہم من حیث القوم مکمل طور پر بھکاری بن چکے ہیں،میں جب ریلیف کے ٹرک اورامدادی سامان کے حصول کے لئے بے شمار لوگوں کو دیکھتا ہوں تو تنویر سپرا کا وہ شعر بے ساختہ مجھے یاد آجاتا ہے جو بٹ صاحب اکثر پڑھا کرتے۔
تیری تو شان بڑھ گئی مجھ کو نواز کر
لیکن میراوقار تیری امداد کھا گئی

اس زلزلہ نے جہاں ہم سے متاع حیات کے ساتھ ساتھ عزت ووقار اورغیرت وحمیت کاگراں بہا سرمایہ چھین لیا وہاں سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مظفرآباد شہر کا درویش،قلندرخدامست فقیر،مردمومن،آزادی وخودمختاری کا شیدائی،علم وعمل کا پیکر،جہد مسلسل مجسمہ،میر ادوست،میر اغم گسار،میرا بھائی اورمیر امحسن گل نواز بٹ ہم سے بہت دور چلا گیا جہاں اس دنیا کی مدح وستائش کی حکایتیں نہیں پہنچتیں،مغفرت کی دعائیں پہنچتی ہیں۔مالک دو جہاں گل نوا زبٹ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔
تمام عمر رلاتی رہے گی یاد اس کی
کچھ اس طرح سے ہمیں کرکے بے قرارگیا۔

 

Asif Ashraf
About the Author: Asif Ashraf Read More Articles by Asif Ashraf: 41 Articles with 34864 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.