تاتار کون تھے اور ان کی تاریخ کیا ہے؟

تاتار وہ قوم ہے جو تاریخ میں اپنی جنگی مہارت، فتوحات اور وسیع سلطنتوں کے قیام کی وجہ سے مشہور ہوئی۔ تاتاری اقوام، جنہیں کبھی کبھار منگولوں سے بھی جوڑا جاتا ہے، وسطی ایشیا کے وسیع و عریض میدانوں سے نکل کر پوری دنیا پر اثرانداز ہوئیں۔ ان کی تاریخ ایک طویل اور پیچیدہ داستان ہے، جس میں بے شمار فاتحین، قبائل اور سلطنتیں شامل ہیں۔

"تاتار" لفظ بنیادی طور پر کئی مختلف قبائل اور اقوام کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جو منگولیا، وسطی ایشیا، اور جنوبی روس کے علاقوں میں رہتے تھے۔ تاہم، جب ہم تاتاروں کا ذکر کرتے ہیں، تو یہ عموماً ان قوموں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو چنگیز خان کی فتوحات کے دوران منگول فوجوں میں شامل ہوئیں۔

تاتاروں کا ذکر پہلی مرتبہ چینی تاریخ میں چھٹی صدی عیسوی میں ملتا ہے، جب یہ لوگ منگولوں کے پڑوسی تھے۔ لیکن اصل میں تاتاروں کی شہرت چنگیز خان کے دور میں عروج پر پہنچی، جب انہوں نے منگول سلطنت میں شامل ہو کر وسیع علاقے فتح کیے اور دنیا کی سب سے بڑی سلطنتوں میں سے ایک کی بنیاد رکھی۔

تاتار فوجیں اپنی بے رحم جنگی حکمت عملی، گھڑ سواری کی مہارت، اور بہترین تنظیم کی وجہ سے مشہور تھیں۔ چنگیز خان کی قیادت میں، تاتار اور منگول فوجوں نے چین، وسطی ایشیا، ایران، اور یورپ کے بڑے حصے فتح کیے۔ ان فتوحات کا آغاز 13ویں صدی میں ہوا، جب چنگیز خان نے منگول سلطنت کی بنیاد رکھی اور تاتار قبائل کو اس عظیم سلطنت کا حصہ بنا لیا۔

تاتاروں کی فتوحات کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی فوجیں 1241ء میں ہنگری اور پولینڈ تک پہنچ گئیں۔ معروف مورخ ڈیویڈ مورگن اپنی کتاب The Mongols میں تاتاری فوجوں کی جنگی حکمت عملیوں کو سراہتے ہیں، خاص طور پر ان کی تیز رفتاری اور دشمنوں کو دھوکے سے شکست دینے کی صلاحیت کو۔ مورگن کے مطابق، تاتاری حملے اکثر دشمن کو اچانک گھیر لیتے اور خوف و دہشت کا شکار بنا دیتے۔

تاتاروں کا سب سے بڑا کردار چنگیز خان اور اس کے جانشینوں کی فوجی مہمات میں نظر آتا ہے۔ چنگیز خان کے بعد، اس کے پوتے باتو خان نے تاتار فوجوں کی قیادت کرتے ہوئے "سنہری ارد" (Golden Horde) کے نام سے ایک نئی سلطنت قائم کی، جو موجودہ روس، یوکرین، اور وسطی ایشیا کے علاقوں پر محیط تھی۔ یہ سلطنت کئی صدیوں تک قائم رہی اور تاتاروں نے اس دوران تجارت، سفارتکاری، اور ثقافتی تبادلے کو فروغ دیا۔

مورخ جیک ویتر فورڈ اپنی کتاب Genghis Khan and the Making of the Modern World میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تاتاروں اور منگولوں نے نہ صرف جنگوں میں کامیابیاں حاصل کیں، بلکہ انہوں نے ایک ایسا نظام قائم کیا جس نے یورپ اور ایشیا کے درمیان تجارتی اور ثقافتی تعلقات کو بڑھایا۔

تاتاروں کا اثر خاص طور پر روس کی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ تاتاروں نے 13ویں صدی میں روس کے بڑے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور تقریباً 250 سال تک روسی شہروں کو اپنے زیرِ اثر رکھا۔ سنہری ارد نے روسی شہزادوں کو خراجِ تحسین ادا کرنے پر مجبور کیا اور تاتاری قوانین کی پاسداری کا تقاضا کیا۔

تاتار یلغار کے بعد، روسی شہزادے بتدریج مضبوط ہونے لگے اور بالآخر ایوان دی ٹیریبل کے دور میں ماسکو کے تحت روسی ریاست نے تاتاری اثر و رسوخ کو کم کر دیا۔ لیکن اس طویل عرصے کے دوران تاتاروں کی موجودگی نے روس کی ثقافت، زبان، اور طرزِ حکمرانی پر گہرے اثرات چھوڑے۔

آج تاتار قومیں مختلف ممالک میں پائی جاتی ہیں، جن میں روس، قازقستان، اور دیگر وسطی ایشیائی ریاستیں شامل ہیں۔ روس میں تاتارستان ایک خود مختار جمہوریہ ہے، جہاں تاتار قومیت اور ثقافت اب بھی زندہ ہے۔
تاتاروں کی جدید تاریخ میں ان کا کردار زیادہ تر روسی سیاست اور ثقافت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ تاتاری زبان، مذہب (زیادہ تر مسلمان)، اور ثقافتی روایات آج بھی ان علاقوں میں اہمیت رکھتی ہیں۔

تاتار، ایک جنگجو قوم جو منگول فتوحات کے دوران دنیا بھر میں مشہور ہوئی، نے تاریخ کے مختلف مراحل پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی فتوحات نے نہ صرف یورپ اور ایشیا کے جغرافیے کو بدلا، بلکہ تجارتی اور ثقافتی تعلقات کو بھی فروغ دیا۔ اگرچہ تاتاروں کی سلطنتیں وقت کے ساتھ کمزور ہوئیں، لیکن ان کا اثر آج بھی روس اور وسطی ایشیا کی تاریخ میں نمایاں ہے۔

تاتاروں کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ ایک متحرک اور اہم قوم تھے، جنہوں نے نہ صرف جنگی میدان میں کامیابیاں حاصل کیں، بلکہ دنیا کے مختلف حصوں پر ثقافتی اور سیاسی اثرات بھی چھوڑے۔

 

Altaf Ahmad Satti
About the Author: Altaf Ahmad Satti Read More Articles by Altaf Ahmad Satti: 56 Articles with 13649 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.