الیکٹرانک میڈیا اور خاموش صحافت

ہر ایجاد اور تخلیق کاکچھ نہ کچھ خاصہ ہوتاہے ، جس کے ذریعہ وہ تخلیق پہچانی جاتی ہے اور لوگوں کے درمیان اس کی شناخت بنتی ہے ۔ اسی طر ح پرنٹ میڈیا جوکہ موجودہ دور میں دوڑتابھاگتاذرائع ابلاغ تو نہیں البتہ چلتاپھر تاضرور ہے ، جس کے توسط سے خبر یں ہم تک پہنچتی ہیں اور دنیا میں آرہے اتار چڑھاﺅ پر ہماری نظررہتی ہے ۔پرنٹ میڈیا کو ”خاموش صحافت“کہنے کی وجہ شاید آپ سمجھ گئے ہوں گے ، پھر بھی سنئے ! دراصل ہماری یہ بے زبان میڈیاطوطے کی ٹیں ٹیں اور مینڈک کی ٹرر ٹررکی مانند شور اور ہنگامے نہیں کرتی جوکہ الیکٹرانک میڈیا کاخاصہ ہے ۔ بلکہ یہ کبوتر کی خاموش طبیعت کی طرح اخبار رسانی کاکام کرتی ہے اور یہ خبر کی فراہمی اور اس کے پہچانے میں بہت حد تک دیانتداربھی ہے۔ اس کے بر عکس الیکٹرانک میڈیا کے ہنگامے اور شوروغوغے اللہ کی پناہ ! جرائم کی اخبار رسانی میں تو پوچھئے مت ! بعض غیر مشاہداتی خبروں کو اس انداز اور زاویے سے پیش کرتے ہیں گویا یہ بطور عینی شاہد جائے واردات پہ موجود رہے ہوں ۔ پہلی بات تو یہ کہ بدنصیب ہی مجرم ہوتاہے ،لیکن وہ مجرم اور بھی بڑابدنصیب ماناجاتاہے جو الیکٹرانک میڈیاکے ہتھے چڑھ جائے۔یہ بغیر کسی شناسائی کے بھی اس شخص کااس کی فیملی کا حتی کہ اس کے جانور وں کا بھی نسب نامہ بیان کرناشروع کردیں گے ،ٹھہرے جو بڑے اکسپرٹ ،خبروں کا ابلاغی نظریہ ان کا ایساہے کہ خود ہی مقدمہ قائم کریں گے ،خود ہی وکالت کریں گے ، انہیں کا سوال ہوگا،جواب بھی خود ہی دیں گے ۔ گویا بیک وقت خود ہی مجرم خود ہی جج ،خود ہی چور اور خود ہی پولیس ۔ چرب زبانی کوئی ان سے سیکھے ، ایک جھوٹ میں 100جھوٹ ملاکر اسے سچ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے ۔ نیوز اور اس کا بیک گراﺅنڈایساکہ ابھی آناََ فاناََ کوئی آفت آن پڑے ، حالانکہ یہ سب قیاسیات پر مبنی ہوتے ہیں۔ خبریں پیش کرتے وقت ایک نیوز کو مختلف ناحیے سے بدل بدل کر پیش کریں گے ، کچھ نیانہیں ، بس پبلک بیوقوف بنے ۔ خبروں کا تکرار حد سے زیادہ ۔رات کی خبروں کو صبح دوپہر تک ڈھونا ، پھر صبح دوپہر کی نیوز کو باربار چولا بدل بدل کر پیش کرنا ان کی مہا رت میں شامل ہے ۔شاید اسی کے اندر یہ حضرات اپنی کامیابیوں کو پوشیدہ مانتے ہوں۔ جن کے سر پر ان کا دست شفقت پڑجائے یاجن سے وہ خوش ہوجائیں بس ان کی تو بلے! بلے! اور جنہیں یہ اپنی نظر سے گرا دیں یاکوئی ان کی نظر بد کاشکار ہوجائے ، ایسوں کو اللہ رب العالمین سے پناہ مانگنی چاہئے کہ یہ ان کے خون کے پیاسے بن جائیں اور بغیر کسی جرم کے بھی انہیں پرلے درجے کا فراڈ اور ظالم ثابت کردیں ۔ الیکٹرانک میڈیا کے بارے میں اگر یہ بات کہی جائے کہ فرقہ پرستی کو فروغ دینے میں اس کابڑا گھناﺅنا رول ہے تو غلط نہ ہوگا۔اس بات کامشاہدہ فرقہ وارانہ فسادات کے دوران بخوبی کیاجاسکتاہے کہ جو سانحہ برادران وطن سے جڑا ہوتاہے یہاںکامیڈیائی سیل اسے من وعن ہی نہیں بلکہ بڑھاچڑھا کر بھی پیش کرتاہے،لیکن بات جب اقلیتی طبقوں کے ایک خاص فرقہ (مسلمان)کی ہوتی ہے تو یہ خاموش تماشائی بنا دیکھتاہے راجستھان میں گوپال گڑھ کاحالیہ فساد اس کی زندہ مثال ہے۔ مسلمانوں کی سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت نسل کشی کی گئی اور یہ الیکٹرانک میڈیا خاموش رہی ۔ یہ باتیں تو الیکٹرانک میڈیا سے متعلق تھیں ۔ ہماری خاموش صحافت کابھی حال زار سن لیجئے !میں نے ابتدا میں ہی خاموش صحافت کی وجہ تسمیہ کاذکر کیا ہے اس کی خاموشی کادوسرا ناحیہ یہ بھی ہے کہ تحریر کرتے وقت سریرخامہ کی آ واز جو کہ بہت معمولی ہوتی ہے اور بہت دھیان دینے اور غور کرنے پر ہلکی سی سنائی دیتی ہے ،لیکن اس کی خاموشی کا دم ہی وہ دم ہے کہ جس نے عرب وعجم کی کایا پلٹ دی تھی جب حجاج بن یوسف کو ایک مظلوم لڑکی نے اپنے قید کی بپتالکھ کر بھیجی تھی پھر راجہ داہر کاحشر کیاہو اوہ تو تاریخ میں درج ہی ہے ۔ اس کے علاوہ آزادی میں اس خاموش ذرائع ابلاغ نے کیا رول اداکیا؟ اور مولانا ابوالکلام آزاد کے البلاغ اور الہلال نے انگریزوں کے ناکوں چنے چبوادئیے،قلم کی خاموش جنگ جاری رہی ،تاہنوز جاری ہے اورجاری رہے گی ۔موجودہ دور میںقلم ہی کی مرہون منت ہے کہ مختلف زبان وادب میں افکاروخیالات کے تنوع اور قدیم وجدیدرنگ وآہنگ کے تال میل کے ساتھ پوری دنیا کے اندر ان گنت تعداد میں اخبارات شائع ہورہے ہیںجو خوش آئند بات ہے۔تحریر ی زبان ارسال ترسیل کا ایک اہم اوربہترین وسیلہ ہے اور اس کی اہمیت کبھی بھی باقی رہے گی۔ اس کاخاص پہلو یہ ہے کہ لوگوں سے ابلاغ وترسیل ،حکومت سے رابطہ اور دنیاوی حالات سے آگاہی حکومت کی کمیوں پہ نکیر اور مثبت افکاروخیالات کو پیش کرنے ،جیسے انسانی خدمات کے بہت سارے افعال وکردار ہیں جوکہ اس قلمی اسلحہ سے انجام دئیے جاتے ہیں ۔لیکن اب اس کاغلط استعمال کسی کی نظر سے پوشیدہ نہیں۔اہل قلم اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر ہی قلم کو جنبش دیتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جب ہم اخبارات کی شائع تحریروں کوپڑھتے ہیں تو محسوس کچھ ایساہی ہوتاہے کہ یہ قلم کار فلاں پارٹی کاراگ الاپ رہا ہے تو فلاں صاحب کی تحریر فلاں تنظیم سے سوداہوچکی ہے ۔کچھ چنیدہ افراد ہی ایسے ہوں گے جن کاقلم حق کی لڑائی لڑ رہا ہو ،ورنہ اکثریت تو ایسے ہی لوگوں کی ہے کہ جو اس کے روشنائی کی صحیح قیمت اداکرتاہے وہ اسی کیلئے چلتاہے ۔یہ حضرات کسی بھی قوم وملت کے بہی خواہ نہیں ہوسکتے۔یہ خود بک چکے ہیں ،ان کی تحریریں بک چکی ہیں ۔اخبارات کی اشاعت کابھی حال کچھ ایساہی ہے کہ وہ خبروں اور مضامین کی اشاعت میں غیر جانبداری سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر ہی تحریروں کو جگہ دیتے ہیں ۔ایسے حالات میں حق لکھنا اور سچی رائے دینا اور مفاد عامہ کی بات کرنا بڑاہی دشوارگزار ہو کر رہ گیاہے۔
md.shakir adil
About the Author: md.shakir adil Read More Articles by md.shakir adil: 38 Articles with 58044 views Mohammad shakir Adil Taimi
From India
.. View More