حرص اور حسد کے دیوتا

فروری 2008 میں بننے والی حکومت45 ماہ گزارنے کے بعد بھی اپنے ایک ہی وعدہ کو وفا نہ کر سکی بلکہ وعدہ وفا تو دور کی بات اپنا جمہوری کردار بھی ادا کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوئی ہے یہ اور بات ہے کہ حکومت کے نمائندے (کاں چٹا ہے) کے مہاورے کو رٹ رہے ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی ایک ہزار فیصد بھی اپنی پالیسی اور حکومت کو چلانے میں نا کام ثابت ہوئی ہے۔ پرویز مشرف کی طرح زرداری اینڈ کمپنی بھی سب اچھا ہے کہ راگ الاپ رہی ہے پاکستانیوں کو بے دردی سے غیرمسلموں کے ہاتھوں مروایا جا رہا ہے ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح امریکن اور یہودی کمپنیوں کو پاکستان میں جگہیں دی جا رہی ہیں عوام کو مسلسل دھوکے میں رکھ کر ان کی سوچنے کی صلاحیت ختم کر دی گئی ہے چانکیہ کے اصول پر ملک کو چلایا جا رہا ہے ۔ پچھلے دنوں شاہ محمود قریشی اور فوزیہ وہاب کا بیان میڈیا کی نظر بنا جس میں انہوں نے کہا کہ ہمیں ایڈ نہیں ٹریڈ چاہیے(یہ اور بات ہے کہ نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی) نہ فوزیہ وہاب کے بیان رہے اور نہ ہی قریشی صاحب کے ۔ میں ان سے سوال کرتا ہوں کہ ان کے پاس ٹریڈ کے لیے کیا بچا ہے ۔زراعت ختم ، بجلی ختم ، انڈسٹری ختم ، ایٹمی ٹیکنالوجی ختم ، چینی ختم ، آٹا ختم ،دالیں ختم ، کپڑا ختم ، ڈاکٹر عبدالقدیر بیمار اور کھڈے لائن ، ڈاکٹر عافیہ 85سال قید میں ، طالبان مارے گئے القاعدہ یوں غائب ہو گئی جیسے گدھے کے سر سے امریکہ ۔ ملاء عمر کبھی افغانستان ، وزیرستان، کوہاٹ ، مالاکنڈ ، سوات ، بلوچستان اب پتا نہیں کہاں پائے جاتے ہیں یہاں امریکہ کی سی آئی اے اور تمام لوکل انٹیلی جنس ایجنسیاں ناکام ہو گئیں اور امریکہ کے سیٹیلائٹ نے کام کرنا چھوڑ دیا ۔

اب تو کچھ بھی نہیں ہے ہمارے پا س بیچنے کے لیے ۔ ہا ں ہمارے پاس پارلیمنٹیرین اور وفاقی و صوبائی کابینہ ہے جس کو بیچا جا سکتا ہے۔ مگر ان کو جو بھی خریدے گا ان کے اپنے ملک کا بیڑا غرق ہو گا۔ رینٹل پلانٹ آئے ، سیلاب آیا، ایٹمی ٹیکنالوجی آئی اس کے باوجود پاکستان میں لوڈ شیڈنگ 16 گھنٹے سے بھی تجاوز کر گئی جب کہ بل 60% سے بھی کراس کر گئے حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی بھی نہیں ہے اور بل بھی آتے ہیں۔ بہت بہترین معمار ملیں گے پاکستان کے لیے اگر ان کو اسی طرح مری کی سیر کرائی جاتی رہی اور وزیروں سے ہاتھ ملوائے جاتے رہے ۔ اس طریقہ سے ان طلباء اور ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ 70 کی دہائی میں لگنے والا نعرہ ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ 30 سال بعد بھی پورا نہ ہو سکا شاید بلاول سے اگلی نسل پورا کر سکے ۔

کیونکہ اس ملک پہ حکومت ،ان خاندانوں کا موروثی حق ہے۔پی پی پی نے بہت قربانیاں دیں ہیں اس لیئے ان کی ساری نسلیں یہاں حاکم رہیں گی۔نواز شریف نے جلاوطنی کاٹی ہے ان کا بھی حق ہے۔یہ حکومت اور پارٹیاں پرانے زمانے کا منظر پیش کر رہی ہیں کہ کس طرح بادشاہ ،شہزادے اور خاندان اپنے اقتدار کی خاطر ان تمام حدود کو پار کر لیتے تھے باپ بیٹے کو ،بیٹا باپ کو ،بھائی بہن کو،بہن بھائی قتل کروا دیتے ،قید میں ڈال دیتے اور یہاں تک کہ ان کو لنگڑا لولا اپاہج اور اندھا کروادیتے تھے۔ جس میں قابل ذکر واقعات میں حضرت موسیٰ کی پیدائش کے وقت فرعون نے جو کچھ کیا اور برصغیر میں راجہ داہر نے اپنی بہن سے شادی کرلی۔ بہادر شاہ ظفر کے آگے اس کی اولا د کے سر ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے اقتدار کی خاطر کٹوا کر پیش کرتی ہے۔مورخین یہاں کچھ بھی وضاحت پیش کریں مگر نتیجہ اقتدار ہی نکلتا ہے۔

چینلز پر سیاستدانوں کو جس طرح پیش کیا جاتا ہے اور ان سے جو گفتگو کی جاتی ہے اور سیاستدان اور حکومتی ارکان جس طرح کی زبان پیش کرتے ہیں وہ پورے پاکستان کے لیئے قابل فخر ہے۔۔۔۔۔۔اقتدار کی خاطر کس طریقے سے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالی جاتی ہے اور پھر ڈرائینگ روم میں یہ سب ملکر ایک دوسرے کے ساتھ عوام اور میڈیا پر ہنس رہے ہوتے ہیں۔

ایک پروگرام میں فیصل رضا عابدی گفتگو کر رہے تھے بہت جذباتی سیاستدان ہیں پارٹی اور اپنے قائدین سے ان کو بہت محبت ہے اور ہونی بھی چاہیے۔

اب ان کی یہ محبت اصولی ہے یا وقت کا تقاضا؟ اس کا فیصلہ تو بعد میں ہوگا۔ایک چینل پر اس وقت خواجہ خالد کے بیٹے کے ساتھ آئے اور حامد میر کے متعلق کیا کچھ نہیں کہہ کر گئے کہ یہ ہو جائے گا اور وہ ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر آج اتنے عرصے کے بعدبھی موصوف نے دوبارہ میڈیا کو نہیں بتایا کہ انصاف ہوگیا؟ بلکہ ساری بات کو یوں دبا دیاگیا کہ جیسے کوئی معاملہ کبھی تھا ہی نہیں ۔

اب سیف الرحمان کی باری تھی اس کو بھی موصوف نے بہت دھویامگر قوم ان سے یہ سوال نہیں کر رہی کہ کس نے کیا کیا ہے؟ بلکہ یہ پو چھ رہی ہے کہ جس پارٹی یا جس شخص پر وہ انگلی اٹھاتے ہیں اس کا رزلٹ کیا اور کب آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کیا وہ رزلٹ کسی ڈرائنگ روم میں سنایا جاتا ہے یا پھر کسی ہوٹل کے بندکمرے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیاستدانوں کے بہت دکھ ہیں بہت دکھی ہیں اور سب کے سب ایک دوجے سے بڑھ کر اس ملک اور عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں مگر چند لوگ ان کو یہ فرض ادا کرنے سے روکتے ہیں بے چارے دو تین کروڑ کی انوسٹمنٹ بھی کرتے ہیں اور پارٹی عہدیداروں کی خدمت بھی کرتے ہیں اپنے قیمتی وقت میں سے وہ اس ثواب کے کام میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں مگر ان کی باری نہیں آتی۔

فیصل عابدی صاحب آپ اپنی قربانیوں کا ذکر تو کرتے ہیں مگر آپ کی طرف امید سے اٹھی ہوئی نظریں،ایک آس لیکر دیکھنے والوں کے ساتھ آپ یا آپ سمیت تمام اقتدار میں شامل لوگ کیا سلوک کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔؟آپ کو پاکستان کی نمائندگی دی جاتی ہے اور آپ حق اپنے حلقے کا بھی بہ مشکل ادا کرتے ہیں اور اگر کرتے ہیں تو وہ آپ کا ایک مخصوص حلقہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔اگر میں یہا ں کچھ غلط کہوں تو آپ مجھ سے کہ سکتے ہیں۔آپ پاکستان کی بات کیوں نہیں کرتے یا آپ سچ کو سننا اور دیکھنا نہیں چاہتے؟

آپ چینی ،بجلی ، ٹیکسز ،آٹا ۔روزگار پہ بات کیوں نہیں کرتے؟ کیا آپ کو ملک میں پھیلی ہوئی بے چینی ، نوجوانوں میں مایوسی آپ کو دکھائی نہیں دی ۔۔۔۔

کیوں آپ سے چینی کنٹرول نہیں ہو رہی؟ آپ غلط کو غلط نہیں کہہ سکتے تو آپ کا نام سنہری حرفوں میں نہیں لکھا جائے گا۔اور یہ بات بھی ثابت ہوگی کہ چینلز پر آکر شور کرنا صرف اور صرف شہرت حاصل کرنے کے بہانے ہیں ۔

جس وقت لندن دوبئی سعودی عرب مری رائیونڈ لاڑکانہ میں ملاقاتیں ہوتی ہیں تو سب ٹھیک ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔تب بھی آپ اپنے قائدین کو کہتے کہ آپ یہ غلط کر رہے ہیں ان کے ساتھ ہم نہیں چل سکتے ۔۔۔۔۔اس وقت تو قائدین کا حکم سر آنکھوں پر ہوتا ہے بعد میں وہ سب اتحاد بھائی چارہ ملک اور عوام کی فلاح کے بلندوبانگ دعوٰے ملک کو جدید ترین بنانے کے دعوٰے سب پانی کا بلبلہ ثابت ہوتے ہیں ۔حکومت کو تین سال ہوگئے ہیں ۔اگلے الیکشن کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں حکومت کے باقی بائیس ماہ باقی ہیں وہ بھی ایک دوسرے پہ الزامات کی بوچھاڑ میں گزر جائیں گے۔پھر الیکشن ہوں گے سابقہ حکومت کہے گی کہ ہم تو کام کر رہے تھے اپوزیشن نے نہیں کرنے دیا ۔۔۔۔۔عدالتوں نے نہیں کرنے دیاہمیں ایک موقع اور دیں ہم سب ٹھیک کردیں گے۔اپوزیشن کہے گی کہ ہم نے ان کو کرپشن سے بہت روکا مگر ہم اقلیت میں تھے ایوان میں ہمارا کسی نے ساتھ نہیں دیا لہذا آپ ہمیں موقع دیں ہم آپ کے مسائل حل کردیں گے۔مگر دیوانے کا خواب کب پورا ہوتا ہے ان سیاسی جماعتوں کے پیٹ بھریں گے تو وہ کچھ عوام کے بارے میں سوچیں گے۔۔۔۔۔۔ اور یہ سچ ہے کہ
جیسی عوام ہوگی ان پر ویسے ہی حکمران مسلط کیئے جائیں گے۔
اور یہ بھی سچ ہے کہ
منافق ہے وہ شخص اے قتیل ۔جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

ایک قصہ ہے ایک ملک میں ایک بادشاہ تھاجس کی عوام کو صرف اپنے کام سے غرض تھی وہ ہر وقت مست رہتی اپنی دھن میں۔ بادشاہ نے ان پر ظلم کے بازار گرم کیئے ہوئے تھے کوئی نا کوئی آفت ان پر مسلط کیئے رکھتا تھا۔مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوتے ۔بادشاہ نے کہا کہ میری عوام کیا مجھ سے محبت نہیں کرتی؟وزیر نے کہا کہ کرتی ہے۔بادشاہ نے تو پھر وہ مجھ سے شکایت کیوں نہیں کرتی؟وزیر نے کہا کہ آپ ان پر ٹیکس کا اضافہ کر دیں ۔اضافہ کردیا جاتا ہے مگر عوام پھربھی کچھ نہیں بولی۔اب کہ وزیر کو حکم ملا کہ ان کو روز صبح دو جوتے مرواؤ یہ پھر بولیں گے اب عوام کو روز صبح کام پر جاتے ہوئے دو دو جوتے کھانے پڑتے۔مگر عوام پھر بھی چپ رہی ۔تنگ آکر بادشاہ نے حکم دیا کہ ان کو چار چار جوتے لگواؤ ۔اب عوام کو روز صبح کام پہ جاتے ہوئے چار جوتے لگنے شروع ہوگئے۔دو دن بعد عوام اکھٹی ہوکر بادشاہ کے پاس گئی ۔بادشاہ خوش ہوا کہ آج تو عوام جوتے لگنے پر اعتراض کرے گی۔وفد بادشاہ کو ملا اور کہا کہ ہمارا ایک مسئلہ ہے ۔بادشاہ بولا عرض کرو۔وفد نے کہ صبح ہم نے کام پر جانا ہوتا ہے اور آپ کے سپاہی ہمیں جوتے مارتے ہیں عوام کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور جوتے مارنے والوں کی کم۔جس سے ہمیں اپنے کام کاج کااور وقت کا حرج ہوتا ہے ۔آپ سے درخواست ہے کہ آپ جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھا دیں تاکہ ہم جلدی فارغ ہو جایا کریں۔

یہاں یہ عالم ہے کہ خود ایوانِ صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کرپشن کا گڑھ ہیں ۔ یہاں سے انصاف مانگنے والا یہ بھول جائے کہ مجھے یہاں سے انصاف ملے گا۔ایمپلائی سن کوٹے پر سیدھی سیدھی بھرتی پر ان سیاسی پارٹیوں کی حکومتوں اور نمائندوں نے 14 سال گزار دیے مگر آج تک انصاف نہیں ملا جس کا ریکار ڈ بھی دیا جا سکتا ہے۔ ایوان صدر وزیر اعظم ہاؤس وزیر اعلیٰ ہاؤس گورنر ہاؤس وفاقی محتسب اعلیٰ چیئرمیں سینٹ سپیکر قومی اسمبلی سمیت ان کا سٹاف صرف اور صرف رشوت اور تعلقات والوں کو انصاف مہیا کرتا ہے عوام کی آخری آس اور امید صرف اور صر ف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے وارنہ ایسی لنگڑی لولی اور کرپٹ جمہوریت سے کہیں ہزار درجے بہتر فوجی حکومت ہے اللہ ہمارے سیاسی لیڈران کو عوام کی بہتری کے لیے توفیق عطا فرمائے (آمین)
umar farooq khan
About the Author: umar farooq khan Read More Articles by umar farooq khan: 17 Articles with 12898 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.