چمن میں پڑی چپل کی بس اتنی سی کہانی



دیکھنے میں یہ عام سی چپل ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ چپل پشاور سپورٹس کمپلیکس کے خواتین ہاسٹل کے سامنے چمن میں گذشتہ کئی دنوں سے پڑی ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کا دوسرا جوڑ نہیں ہے ورنہ اسے یہاں پر کون چھوڑتا، ویسے جس طرح کنواروں کو گھروالوں شادی بغیر نہیںچھوڑتے .اب تو کنوارے بھی بہت ہوشیار ہوگئے ہیں. یہ الگ بات کہ کچھ کنوارے چوری چھپے شادی کرلیتے ہیں اور کچھ شادی شدہ ہو کر بھی کنوارے ہوتے ہیں اور کچھ کنوارے ہو کر بھی شادی شدہ افراد کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں.

باتیں کہیں اور نکل گئی بات زرد رنگ کی اس چپل سے شروع ہوئی ہے سنگل پڑی اس چپل کی اصل کہانی کی طرف آتے ہیں اگر سنگل پڑی ہے تو اس کی کوئی وقعت نہیں لیکن اگر اس کا دوسرا جوڑ ہوتا تو شائد سب کی نظروں میں آجاتا اور اسے اٹھا بھی لیتے.لیکن ، ایک ایسے دفتر کے سامنے جہاں پر ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سپورٹس بھی ہوں ، ڈائریکٹر اسٹبلشمنٹ بھی ہوں اور ڈائریکٹر آپریشن بھی ہوں جن میں ایک وڈے افسر کی رسائی وزیراعلی کے ایوان تک ہے اور اس سے کم لیول بات بھی نہیں کرتا. وہاں پر اس چپل کاپڑا رہنا کچھ عجیب سی بات ہے.

لیکن دفاتر کے ساتھ ایک بڑی اوراہم بات یہاں پرخواتین کا ہاسٹل بھی ہے جہاں پر سپرنٹنڈنٹ ہاسٹل سے لیکروارڈن ہاسٹل تک موجود ہیں ،ہوسکتاہے ایسا ہاسٹل جس میں کھلاڑی کبھی کبھی آتے ہیں لیکن اس میں تعینات اہلکاروں کی پوری فیملیاں کئی سالوں سے مفت میں رہائش پذیر ہیں. بعض اہم اہلکاروں کیلئے تو رہائشی کوارٹرتک بنا دئیے گئے -خیرچپل کی طرف آتے ہیں.ہوسکتا ہے کسی خاتون نے اپنے شوہر کو مارنے کی کوشش کی ہو اور وہ ہاسٹل کے سامنے واقع چمن میں گر گیا ہو لیکن یہ ضروری بھی نہیں کہ یہ کسی خاتون کی چپل ہوں ، دیکھنے میں رنگ توزرد ہے اور یہ عام طور پر خواتین استعمال کرتی ہیں لیکن موجودہ حالات اور 2024میں رہتے ہوئے یہ بھی ممکن ہے کہ اسے کوئی مرد استعمال کرتا ہو ،کیونکہ آج کل کے دورمیں اگر مرد پونی ٹیل باندھ سکتے ہیںبالوں میں کلپ لگا سکتے ہوں تو زرد رنگ کی چپل بھی پہن سکتے ہیں. پھر بھی مردوں کی اتنی ہمت نہیں کہاں کہ اپنی بیوی کو چپل مارے.اس جوتے کا سائز بھی دس نمبر لگتا ہے اورامکان ہے کہ یہ کسی مرد کے چپل ہوں ، کیونکہ اتنی لمبے پاﺅںوالی کوئی خاتون بھی نہیں ہوسکتی ، آج کل تو خواتین کے چپلیاں چھ اور سات سائز کی چل رہی ہیں -

بات چپل سے شروع ہو کر کہیں اور نکل جاتی ہیں اصل بات جو چپل کی ہیں وہ یہ ہے کہ راقم کے صحافت سے وابستہ صحافی اور کچھ سوشل سیکٹر سے وابستہ دوست اس بات پر کبھی کبھی راقم کو لتاڑ دیتے ہیںکہ یار تم کبھی کبھار بہت minor یا انکے بقول مائیکرو ایشوز کو ہائی لائٹ کرتے ہوں ان کے بقول کرپشن اس معاشرے کا اہم حصہ بن گیا ہے اس پربات کرنے اور لکھنے کی ضرورت نہیں تم سینئرصحافی ہوں پالیسی لیول کی بات کرو ، ان کی یہ باس سن کر دل بہت خوش ہوتا ہے کہ اٹھائیس سال گزارنے کے بعدشعبہ صحات میں راقم ان کو سینئرنظر آتا ہے حالانکہ اپنے شعبے سے وابستہ صحافی ہمیں دوٹکے کا نہیں سمجھتے.سینئر تو بڑی بات ہے -کیونکہ یہاں پر بعض لوگ دفتر خود ہی اپنے آپ کو سینئر سمجھتے اورکہتے ہوئے اپنے ساتھیوں پر زور دیتے ہیں کہ انہیں" سر "کہا اورپکارا جائے اور ہم نام ہونے پرلوگوں کے نام بھی بھی تبدیل کرکے " جمی " رکھ دیتے ہیں.

مشورے دینے والے ان دوستوں کو راقم یہ بھی نہیں بتا سکتا کہ بھائی میرے ہمارے اپنے گھر میں سبزی پکاتے ہوئے بھی راقم سے کوئی نہیں پوچھتا ،کہ آج یہ سبزی بنا رہے ہیں اب حکومتی ایوانوں میں بیٹھے لمبی گاڑیوں میں بیٹھ کر چلنے والے بڑے بڑے افسران راقم سے پالیسی لیول پر کیا پوچھیں گے . اورو ہ ہماری تجاویزپر غور کیوں کرینگے .لیکن ان دوستوں کی یہ بات کہ مائیکرو ایشوز پر لکھنا بند کردو کچھ عجیب بھی ہے،حالانکہ ان کے بقول جو ایشوز ان کیلئے مائیکرو ہے وہ کسی دوسرے کیلئے بہت بڑے مسئلے ہو سکتے ہیں .خیر آتے ہیں اپنی اصل بات کی طرف جو کہ زرد رنگ کے اس چپل کا ہے اورکئی دنوں سے ہاسٹل سامنے گراﺅنڈ میں پڑی ہوئی ہے.

اصل میں کئی دنوں سے چمن میں پڑے اس چپل کو دکھانے کا مقصد یہی تھا کہ یہ شائد ان بڑے صحافیوں اور افسران کیلئے مائیکرو مسئلہ ہے لیکن صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں جہاں پرہر افسر کیلئے الگ الگ کلاس فور تعینات ہے ، اسی طرح ہاسٹل میں الگ اہلکار تعینات ہے جبکہ صفائی کیلئے الگ اہلکار ہیں ان کے نظروں سے یہ کیسے چھپ گیا ہے اور کیسے یہ چپل پڑا ہوا ہے یہ بڑا مسئلہ ہے ، صفائی کیلئے اہلکار موجود ہیں لیکن صفائی نہیں ہوتی اور اس کا مطلب یہی ہے کہ یہاں پر صفائی کی صورتحال کا کوئی پوچھ نہیں رہا تبھی یہاں پر چپل پڑی ہے حالانکہ صفائی کرنے والوں کو انکی تنخواہیں باقاعدگی سے ملتی ہیں. ، ویسے اس سے پتہ بھی چلتا ہے کہ یہاں پرکیسے صفائی ہوتی ہیں اور صفائی والے اہلکار بھی دفتروں کی صفائی کے بجائے افسران کے گھروں میں صفائی کیلئے جاتے ہیں اور ایسے افسران جو اس ڈیپارٹمنٹ کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں لیکن چونکہ انہیں ان افسران کے گھروں میں "کار خاص"کی حیثیت حاصل ہے اس لئے کار خاص صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں صفائیوں کے بجائے افسران کے گھروں میں صفائی کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں.

چپل کی اس چمن میں موجودگی کا مطلب بھی یہی ہے کہ گریڈ اٹھارہ سے سے لیکر گریڈ 10تک اس بلڈنگ میں کام کرنے والے کم و بیش بیس سے زائد افسران و اہلکاروں کے آنکھوں پربھی پٹی بندھی ہوئی ہیں اور وہ یہاں پر میٹنگ ، چیٹنگ اور ایٹنگ کیلئے آتے ہیں باقی خیر خیریت ہے ، ویسے چپل کی کہانی کا توآپ کو پتہ چل گیا ہوگا.بس اتنی سی کہانی ہے -

#kikxnow #digitalcreator #sportsnews #chappal #saffai #operationcleanup #games #whocare #kp #directorate #writeup #musarrtullahjan #acjfellow

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 632 Articles with 486708 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More