پائیدار کام

آج آلودگی چاہے فضائی ہو،سیاسی ہو یا کوئی اور، لاہور کسی سے کیسے پیچھے رہ سکتا ہے۔ ماشا اﷲلاہور ہر مقابلے میں اول نمبر پر ہے۔فضائی آلودگی میں تو چلو کچھ ہمارا اور کچھ فطرت کا بھی کمال ہے۔ مگر سیاسی گند تو ہم خود ڈالتے ہیں۔اور وہ بھی کوئی ایسا ویسا۔ ہم لاہوری ہر چیز کو اپنی ملکیت قرار نہ دے لیں تو ہمیں تسلی نہیں ہوتی۔ہم ہر چیز کا سودا کرتے اور خرید کر بھی اپنے قابو کر لیتے ہیں۔ آج کی سیاسی آلودگی بھی ہمارا ہی کمال ہے۔سیاست میرا کبھی بھی موضوع نہیں رہی ۔اس لئے حالات دیکھ کر ایسے ہی سوچاکہ کچھ کہا جائے، اسی لئے ایک پھلجڑی چھوڑ رہا ہوں۔ مقصد یہی ہے کہ لاہور کے لوگ جس فیلڈ میں بھی حصہ ڈالتے ہیں۔ بڑا بھرپور ڈالتے ہیں۔

60 اور 70 کی دہائی میں لاہور میں پانی کی سپلائی کے لئے ٹیوب ویل لگے ہوئے تھے۔جو صبح اور شام کو چند گھنٹے چلتے اور لاہور کو بھرپور پانی فراہم کرتے۔جب ٹیوب ویل چلتے اور ان کا پانی گھروں میں پہنچتاتو تھوڑا نیم گرم ہوتا۔میرے والد روزانہ صبح نہا کر ہی گھر سے نکلتے، وہی عادت آج مجھ میں بھی ہے۔ میں نہا نہ لوں تو گھر سے نکل ہی نہیں سکتا۔ والد محترم نہا کر نکلتے ہی مجھے آواز دیتے، کہ بیٹا ، بڑا شاندار گرم پانی ہے جلدی سے نہا لو۔ میں نے فوراً نہا لینا۔ واقعی ہی وہ پانی بڑا معقول گرم ہوتایا یہ کہہ لیں کہ اس میں ٹھنڈا پن بالکل نہیں ہوتا تھا۔ اس سے نہا کر آدمی تروتازہ ہو جاتا۔وہ پانی پینے کے لئے بھی بہت اچھا تھا۔ ہم نے ساری عمر وہی پیا اور کبھی کوئی شکایت محسوس نہیں کی۔زندگی بڑی سادہ تھی۔ لوگ بھی بہت سادہ تھے۔ ابھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ہماری روز مرہ کی استعمال کرنے والی اشیا میں کوئی دخل نہ تھا۔پھر یکا یک 80 کی دہائی میں کچھ ملٹی نیشنل کمپنیاں طلوع ہوئیں اور ان کی روشنی میں ہمیں پتا چلا کہ پچھلے تیس سال سے ہم پانی کے نام پر فقط زہر پیتے رہے ہیں اور وہ بھی بند آنکھوں کے ساتھ۔اصلی اور صاف پانی تو صرف ان بوتلوں میں ہوتا جو یہ کمپنیاں تیار کرتی ہیں۔مارکیٹ میں پہلی دفعہ پانی کی بوتلیں ملنی شروع ہوئیں۔ ان دنوں چھوٹی بوتل دو یا تین روپے کی تھی اور بڑی دس یا بارہ روپے کی۔موبائل فون بھی نیا نیا آیا تھا۔ تو ایک ہاتھ میں لمبا سا Ericson کا موبائل فون اور دوسرے ہاتھ میں پانی کی بوتل۔ یہ سٹیٹس سمبل تھا۔ہم نے اپنے گرد جو فطری چولا تھا، اتار پھینکا اور ملٹی نیشنل کے چولے میں خود کو رنگ کر بڑا آدمی بننے کا خلل دماغ میں پالنا شروع کر دیا۔آج یہ قوم بڑے لوگوں کی قوم ہے،بڑے گھر، بڑی گاڑیاں، بڑا رکھ رکھاؤ۔ ہاتھ کی طرح ان کے دکھانے والے دانت بڑے شاندار، مگر کبھی انہیں قریب سے دیکھیں تو احساس ہو گا کہ بہت ہی چھوٹے انسانوں کا اک ہجوم ہے ۔

پینے کاصاف پانی حکومتی نعرہ بھی تھااور لوگوں کا شوق بھی۔کچھ عرصہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اکیلی فائدہ اٹھاتی رہیں۔پھر لوگوں کو پتہ چل گیا کہ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ نلکے کے پانی کو فلٹر کرکے بوتلوں میں بند کیا گیا ہے۔ کالجوں کے بہت سے کیمسٹری کے استاد وں نے یا تو گھروں میں ذاتی پلانٹ لگا لئے یا پھر لوگوں کو پلانٹ بنا کر دینے لگے۔یہ پلانٹ وبا کی طرح ہر جگہ نظر آنے لگے۔ ایک آدھ سال میں یہ جنون بھی ختم ہو گیا۔لیکن نئی سکیموں اور آبادیوں میں کئی پلانٹ نظر آتے ہیں۔ میں خود بھی بہت سی فلاحی تنظیموں کا ممبر ہوں۔ میں ساتھیوں کو کہا کرتا ہوں کہ کام وہ کرو جو آپ شروع تو کر دیں مگر بعد میں کچھ لوگ اس کام کے والی اور وارث بھی دیکھ لیا کریں جو آئندہ اس کام کو رکنے نہ دیں۔ جس مقصدکے لئے اس کام کی ابتدا کی ہے وہ کام کسی طرح چلتا رہے۔حکومت یا حکومتی سائے میں جو پلانٹ مختلف گاؤں میں لگے ، ان کا حال کچھ اچھا نہیں، انہیں بعد میں کس نے دیکھنا ہے ۔ ایک مخصوص مدت کے بعد کس نے فلٹر بدلوانا ہے، کہیں مرمت کی ضرورت ہے تو وہ کس نے کروانی ہے۔ ان ساری چیزوں کے بارے سوچے بغیر بہت سے پلانٹ مختلف NGO's اور فلاحی اداروں نے لگا دئیے۔ وہ کچھ عرصہ چلنے کے بعد اس قدر زبوں حالی میں ہیں، کہ انہیں کسی کو بتاتے کہ یہ چند ماہ پہلے بالکل نیا ہمارا یا ہمارے علاقے کا واٹر پلانٹ تھا، شرم آتی ہے۔

میں جس سکیم میں رہتا ہوں، اس کے ساتھ چمروپور کا گاؤں ہے۔ اس گاؤں کے شروع رستے ہی میں ایک واٹر پلانٹ لگایا گیا۔ خوبصورت واٹر پلانٹ ، نل بھی خوبصورت تھے۔ پانی بھرنے کے لئے جگہ اور باقی ہر چیز بھی بہت خوب تھی۔ اتفاق سے پلانٹ کے تقریباًسامنے ایک مسجد ہے۔ ہمارے دیندار لوگ جب مذہب کے حوالے سے کوئی بات کرتے ہیں تو ان کی سوچ بہت محدود ہو جاتی ہے ۔ وہ اپنے دائرہ اخلاق کے بس غلام ہوتے ہیں۔ قران کیا کہتا ہے اور میرے رسول ؑ کا کیا حکم ہے، وہ کچھ نہیں سوچتے۔پلانٹ بنانے والے کا خیال تھا کہ اس مسجد کے نمازی حضرات پلانٹ کی حفاظت کریں گے،واہ کیا سوچ ہے مسجد کے نمازی وہ لوگ ہیں جو اپنی جوتیوں کی حفاظت نہیں کر سکتے وہ ایک عوامی یا سرکاری پلانٹ کی کیا حفاظت کریں گے۔ البتہ نماز سے پہلے لوگ اسی پلانٹ پر وضو کر رہے ہوتے۔ کسی کو منع کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔کسی نے کہہ دیا کہ بھائی یہ پینے کے لئے صاف پانی کا پلانٹ ہے ۔ دوسرا پانی بھی صاف ہے آپ اس سے وضو کر لیں۔ جواب ملتا ، کہاں لکھا ہے، اور یہ کہنے کا حق آپ کو کس نے دیا ہے۔بحث فضول زتھی۔ مذہبی معاملے میں کوئی ہلکی سی بات کرنا بھی خود کو عذاب میں ڈالنا ہے۔چند دن بعد اس پلانٹ کے فلٹر خراب ہوئے، پانی گندہ نظر آیا تو کسی نے غصے میں ایک نل توڑ دیا۔دو گھنٹے پانی دور تک چھلانگیں لگاتا رہا۔ پھر کسی نے ایک لکڑی کا ٹکڑااس نل کے پائپ میں ٹھوک دیا۔پانی بند ہو گیا۔ ایک ہفتے بعد میں نے دیکھا کہ سب نل کسی نے اتار لئے تھے اور اب سب پائپوں میں لکڑی ٹھوک دی گئی تھی۔اگلے چند دن بعد کوئی اندر کی ساری چیزیں اتار کر پانی کی مین لائن میں لکڑی ٹھوک گیا اور وہ پلانٹ عملی طور پر بند ہو چکا۔اب اس پلانٹ کی جگہ ایک عمارت ہے جس کی اینٹیں بہ تجریدکم ہو رہی ہیں ۔دروازہ بھی کسی نے اکھاڑنے کی کوشش کی ہے۔
 
یہ کوئی ایک پلانٹ نہیں کہ جس سے یہ سلوک ہوا ہو ۔ بہت سے ایسے پلانٹ ہیں۔ جو ہماری بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئے اور ہمیں اس چیز کا نہ احساس اور نہ ہی افسوس۔فلاح کا کام ضرور کریں مگر اس طرح کہ اس کی تمام چیزیں کچھ معقول لوگوں کی حفاظت میں ہوں۔یا کم از کم آپ خود اس کی مکمل ذمہ داری لیں اور وہ چیز ایک لمبے عرصے تک لوگوں کے کام آسکے۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 580 Articles with 490929 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More