24اکتوبرکو غلط ملط نہ کیجیئے

24 اتوبر آزاد کشمیر کا یوم تاسیس ھے۔ کشمیری آجکل الحاق پاکستان کے علاوہ تھرڈ آپشن میں بھی دلچسبھی کا اظہار کر رہے ھیں۔ اور 23اگست 1947 22ااکتوبر 1947 24اکتوبر1947 اور 27اکتوبر1947 کے واقعات کو آپس میں گڈ مڈ کر رہے یں۔ یہی کشمکش کالم کا موضوع ھے

24 ا کتوبر1947 تحریک کشمیر کا ایک بڑا سنگ میل، ایک تاریخی موڑ اور ایک ایسی بنیاد ہے جسے گذرے سالوں میں بہت سے دیگر واقعات کے ساتھ ملا کر غلط ملط کر کے اہلیان کشمیر کے اذہان کو منتشر کر دیا گیا ہے، تقسیم ہند اور غدر 1947 کے پس منظر میں ائیں تو تو اس کہانی کا ایک اہم موڑ یا کشمیر کیتحریک آزادی کا آغاز 1940قرار داد لاہور ما بعد قرارر داد پاکستان کہلانے والے ہندوستان بھر کے مسلمانوں کے نمائندہ اجتماع سے ہوتا ہے یاد رہے کہ 1932 کی مسلم کانفرنس کے قیام کی کہانی مختلف تھی آذادی کے بجائے اس کی بنیاد اکثریتی مسلمانوں کے حقوق پر رکھی گئی تھی جس میں ریاست جموں کشمیر بھی،خطے کی دیگر 500 آزاد ریاستوں میں سے تمام مسلم ریاستوں کے ساتھ مولانا غلام حیدر جنڈالوی کی قیادت میں ایک وفد کی صورت موجود تھا، جس میں سردار فتح محمد کریلوی اور سید حسن شاہ گردیزی اور بعض روایات کے مطابق کچھ دیگر لوگ بھی شامل تھے، اور قارئین نوٹ کیجیئے کہ یہ وہ وفد تھا جو جموں کشمیر میں 85 فیصدمسلمان اکثریت، واحد جماعت آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس اور شیخ عبداللہ و چوہدری غلام عباس اور ان کے جملہ متحرک رفقا کا پورا اعتماد لئے ہوئے اور نمائندہ تھا، اس وقت کا کشمیری مسلمان اس وفد اور اس کے مؤ قف پر سو فیصد متفق تھا، قائد اعظم نے اس وفد کو اتنی اہمیت اور پذیرائی دی کہ باقی ریاستوں کو 5,5 منٹ اظہار رائے کا وقت دیے جانے کے مقابلے میں کشمیر کے وفد کو 42منٹ کا وقت دیا گیا، مولانا جنڈالوی کی 42منٹ کی تقریر کا ریکارڈ تو شاید تاریخ نے گم کر دیا یا نہرو ایڈونا ماؤنٹ بیٹن کا کوئی ہاتھ تھا، لیکن ایک بات تو طے ہے کہ 42منٹ کی تقریر کشمیر کی خود مختاری کیلئے ہر گز نہیں ہو سکتی، اور اسی تناظر میں جب ہم 19جولائی 1947کے تاریخی الحاق پاکستان کے اعلان کو دیکھتے ہیں تو بات اور واضع ہو جاتی ہے، اور یہ طے ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کا اجماع الحاق پاکستان پر تھا، اس مؤقف پر لوگ 1939میں قائم ہونے والی نیشنل کانفرنس اور اس کی قیادت کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہیں، تو سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ اگر 19جولائی کا الحاق پاکستان کا فیصلہ متنازع تھا تو نیشنل کانفرنس کے مقبول ترین لیڈر شیخ عبداللہ اس پر کیوں چُپ سادھے رہے، تاریخ اس ضمن میں خاموش کیوں ہے، اب یہ الحاق کا فیصلہ اس وقت کے حالات کے تناظر میں درست تھا یا غلط تھا اس پر تاریخ تبصرے کرتی رہے گی، رہ گئی بات 18جولائی 1947کے مبینہ قرار داد کی تو سواال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی ایسی قرار داد موجود تھی بھی تو اس کی حمایت کرنے والے اگر کہیں موجود تھے تووہ شیخ عبداللہ سمیت وہ خاموش کیوں رہے، لیکن میرا موضوع اس وقت کسی بھی آپشن کی حمایت یا مخالفت کرنا نہیں ہے،میں تو تاریخی تناظر میں ایک بے لاگ اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کر رہا ہوں،اور 24اکتوبر کے اقدام کو غیر جانبدارانہ طور پر جانچنے کی کوشش کر رہا ہوں، یہ درست ہے کہ 24اکتوبر سے ڈھائی ماہ قبل 14اور 15اگست بھی گذرے تھے اور ایک نیا ملک وجود میں آ کر انڈیا ایک سے 2 آزاد ملکوں میں تقسیم ہو چکا تھا جن کے آپسی تناؤ کے باعث ایک رد عمل کے طور پر یہ کشمیر کا نیا قضیہ شروع ہوتا ہے، کہا جاتا ہے اور تاریخ بھی گواہی دیتی ہے کہ 14 اگست کی شب مہاراجہ کا نوزائدہ پاکستان سے معاہدہ قائمہ ہو گیا تھا, اور ڈاکخانوں وغیرہ پر پاکستانی پرچم بھی لہرا دیے گئے تھے۔۔۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مہاراجہ نے وزیراعظم رام چندر کاک کی جگہ جو نیا وزیراعظم جانک سنگھ بنایا تھا اس نے 12تاریخ کو بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کو سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ ایک ہی وقت میں بذریہ ٹیلیگرام پیش کردیے تھے، جبکہ یہ عمل بذات خود بد نیتی پر مبنی قرار دیا جا سکتا ہے، اسی غلط فہمی یا بدگمانی کے باعث کشمیری مسلمانوں کا رد عمل آتا ہے اور23اگست 1947کو پونچھ سے شروع ہونے والی تحریک آزادی جس میں مہاراجہ کی فوجی چوکیوں وغیرہ پر حملے کئے گئے اور ما بعد کشمیریوں کی عام بغاوت اور اس میں پختون رضاکاروں کی 21/22اکتوبر کو شمولیت اور مظفرآباد کو اپنے کنٹرول میں لینے کے باعث اس معاہدے کی خلاف ورزی ہو گئی یا اس پرعمل درآمد نہ ہو سکا، تو یہ سب تو ڈھائی ماہ قبل پونچھ سے شروع ہو چکا تھا، جبکہ دوسری طرف بھارت نے مہاراجہ کے ٹیلی گرام کو درخور اعتنا ہی نہ سمجھا اور کوئی جواب تک نہ دیا، اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب 23اگست 1947کو ہی پونچھ نیلا بٹ وغیرہ سے مہاراجہ کے خلاف باقاعدہ بغاوت بھی شروع ہوگئی تھی تب بھارت نے مہاراجہ کا معاہدہ قبول کیوں نہیں کیا، اور وہ کیوں 26 اکتوبر تک انتظار کرتا رہا، اور کیسے رات و رات سرینگر میں فوجیں اتارنے کا انتظام ہو گیا، وہ بھی ایک ایسے ملک سے، جس کا فوجی سپریم کمانڈر ایک انگریز تھا، 27اکتوبر کی اس چڑھائی سے پہلے تو کشمیریوں کی اس لڑائی میں پاکستانی فوج کا کوئی عمل دخل ہی نہیں تھا، اور جب اس مرحلے پر اپنے معاہدہ قائمہ کے مطابق قائداعظم اپنی فوج کو دفاع کا حکم دیتے ہیں تو وہی سپریم کمانڈر اور اس کے نیچے دوسرا انگریز چئف آف پاکستان آرمی صاف انکار کر دیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھارت قبائیلیوں کو پاکستانی فوج گردانتے ہوئے اقوام متحدہ میں جا پنہچتا ہے، سوچنے کا مقام ہے کہ لاکھوں مہاجرین کی ذمہ داریاں سمبھالنے والا اور انتہائی کموسائل کا حامل پاکستان کیا بیٹھے بٹھائے، بھارت سے ایسا پنگا مول لے سکتا تھا، آخر کوئی منطق ہوتی ہے،کوئی توجیح ہوتی ہے، 2018میں جموں و کشمیر کی ایک خاتون ثمینہ راجہ نے اس وقت کشمیر کے نیشنلسٹوں سے ایک سوال اُٹھایا تھا کہ وہ 27اکتوبر کو یوم سیاہ کیوں مناتے ہیں اور 22اکتوبر یوم فتح مظفرآباد کو یوم سیاہ کے طور پر کیوں نہیں مناتے، کیونکہ ان کی نظر میں 22اکتوبر کو فتح مظفرآباد قبائلیوں کی جارحیت تھیہ جسے وہ افواج پاکستان سے بھی جوڑتی ہیں، جبکہ ان کی نظر میں 27اکتوبر کی بھارتی فوجیوں کی چڑھائی مہاراجہ کے مشروط الحاق کے بعد ایک آئینی اقدام تھا، تو اس دن تو جشن ہونا چاہئے، البتہ24اکتوبر کے اتنے بڑے اقدام کو وہ درمیان میں گول کر جاتی ہیں، تو ان سے اور ان کے نظریات کی پیروی کرنے والوں سے پوچھنا اورسمجھنا صرف یہ تھا کہ 22اکتوبر اگر14اگست کے دستخط شدہ معاہدہ قائمہ جسے 19جولائی کی تائید بھی حاصل ہے،اور سارے کشمیریوں کی تائید بھی حاصل ہے، کے بعد بھی مداخلت ہے، تو ڈکوٹا جہازوں سے اترن والی چھاتہ بردار فوج جو آتے ہی مہاراجا کو بھی بندی بنا لیتی ہے وہ مداخلت نہیں ہے، وہ جارحیت نہیں ہے، کیا مہاراجہ کے اس مشروط اور عارضی معاہدہ کو ایک بھی کشمیری مسلمان بلکہ بتاؤ کہ ایک بھی کسی دوسرے مذھب کے کشمیری کی اُس وقت اعلانیہ حمایت حاصل تھی، اگر یہ سازش نہیں تھی اور مقابل میں پاکستان کی باقاعدہ فوج بھی نہیں تھی تو بھارت پاکستان جیسے ایک کمزور نوزائدہ ملک کے خلاف اقوام متحدہ میں کیوں گیا تھا، کیا اس ضمن میں جونا گڑھ اور حیدرآباد کی مثالیں ہما رے سامنے نہیں ہیں، خیر ہم بات کر رہے ہیں 24اکتوبر یوم تاسیس آزاد کشمیر کی جسے پاکستان کی بھرپور سیاسی اور اخلاقی حمایت و تائید حاصل تھی، اس روز پر انگلی اٹھانے والے کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ اس اقدام پر آج تک خود بھارت نے کبھی انگلی اٹھائی تھی، کیا کبھی اُس وقت میں شیخ عبداللہ نے کوئی اعتراض کیا تھا؟ اگر نہیں کیا تو آپ اپنے اپنے نظریے اپنے پاس رکھیں اور کم از کم اس دن کو متنازعہ نہ منائیں، جو قومیں سچ اور جھوٹ کی پہچان نہیں کر پاتیں وہ کبھی کامیاب اور آزاد نہیں ہوا کرتیں، یاد رہے کہ کشمیر کو آرٹیکل 370کے تحت خصوصی حیثیت بھی بہت بعد 26جنوری1950 کو دلائی گئی،رہ گئی بات مختلف سوچوں اور نظریات کی تو ان پر کوئی پابندی نہیں ہے، مگر پاکستان سے کسی اختلاف کی بنیاد پر اپنی ہی آزاد ریاست کے قیام کو متنازعہ بنانے والا کبھی سچا کشمیری نہیں ہو سکتا۔ رہ گئی بات کسی مکمل آزادی کی تو اس کیلئے تو کوئی درست راستہ اپنانا ہو گا، واپس اقوام متحدہ میں جانا ہو گا، اور حق خود ارادیت کی اس بنیادی قرارداد کو ترمیم کرانا ہو گا جسمیں کشمیریوں کو انڈیا اور پاکستان میں سے کسی ایک سے الحاق کا فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا ہے، اس کے بغیر رنگ برنگے نعرے لگانے والے صرف ریاست میں بدامنی اور انتشار کا باعث بن سکتے ہیں اور یہ کبھی کوئی کشمیری نہیں چاہے گا،نہ اِس پار نہ اُس پار۔

 

Ghulam Mujtaba Ishtiaq
About the Author: Ghulam Mujtaba Ishtiaq Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.